اقوام متحدہ (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - اے پی پی۔ 16 مئی2025ء) پاکستان نے سلامتی کونسل کو بتایا ہے کہ مسلح تصادم میں لاپتہ افراد کے اہم معاملے پر خاموشی برقرار ہے ، ایسے افراد کی اپنے پیاروں سے عدم موجودگی ایک ایسا زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوتا۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد نے گزشتہ روز قرارداد 2474 کے نفاذ پر 15 رکنی سلامتی کونسل میں ایک بحث کے دوران کہا کہ لاپتہ افراد کا مسئلہ خاص طور پر تنازعہ والے علاقوں اور مقبوضہ علاقوں فلسطین سے لے کر بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر تک شدید تر ہے۔

انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد وہ باپ ہیں جو کبھی گھر نہیں لوٹے، مائیں اپنے بچوں سے بچھڑ گئیں، وہ نوجوان لڑکے جو رات کے وقت غائب ہو گئے اور بیٹیاں جن کی قسمت پر خاموشی پر مہر ثبت ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے مزید کہاکہ ان کی عدم موجودگی ایک ایسا زخم ہے جو کبھی مندمل نہیں ہوتا، خاندان امید اور مایوسی کے نہ ختم ہونے والے چکر میں پھنسے ہوئے ہیں۔

اس حوالے سے پاکستانی مندوب نے کہا کہ تحقیقات اور احتساب کے مطالبات کے باوجود لاپتہ افراد کی حالت زار بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں بدستور بڑھ رہی ہے، انہوں نے نشاندہی کی کہ 5 اگست 2019 کے بھارت کے غیر قانونی اور یکطرفہ اقدامات کے بعد ہزاروں کشمیری نوجوانوں کو اغوا کر لیا گیا اور کئی اب بھی لاپتہ ہیں۔ انہوں نے اس بات پر روشنی ڈالی کہ جموں و کشمیر میں حالیہ دہشت گردی کے واقعے کو 2,000 سے زائد لوگوں کو گرفتار کرنے کے بہانے کے طور پر استعمال کیا گیا تاکہ کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لیے جدوجہد کرنے والے کشمیریوں پر مزید ظلم کیا جا سکے۔

پاکستانی مندوب نے حالیہ برسوں میں منظر عام پر آنے والے ہزاروں متاثرین کی بے نشان اور نامعلوم قبروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اب تک کی گئی تحقیقات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ان متاثرین کو پہلے بھارتی قابض افواج نے لاپتہ کیا اور پھر انہیں تشدد کا نشانہ بنایا یا پھر سرعام پھانسی دے دی گئی۔ انہوں نے کہا کہ قابض بھارتی طاقت کشمیر سے ہزاروں جبری اور غیر ارادی طور پر لاپتہ ہونے والے افراد کے بارے میں مسلسل انکار کر رہی ہے اور7 ہزار سے زائد غیر نشان زدہ اجتماعی قبروں کی فرانزک تحقیقات کرانے سے گریزاں ہے۔

انہوں نے کہا کہ انسانی حقوق کے ہائی کمشنر کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے جموں و کشمیر پر 2018 اور 2019 کی اپنی 2 رپورٹوں میں بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر میں تمام بے نشان قبروں کی آزادانہ، غیر جانبدارانہ اور قابل اعتماد تحقیقات کو یقینی بنانے کی سفارش کی تھی۔ پاکستانی مندوب نے کہا کہ لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیاں دہائیوں پرانے تنازعہ کشمیر کی ایک تلخ اور ناقابل تردید حقیقت ہے۔

انہوں نے غزہ میں جاری المیے کا بھی حوالہ دیا جس میں لاپتہ افراد اور ان کے اہل خانہ پر مسلح تصادم کے تباہ کن اثرات کو نمایاں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اکتوبر 2023 سے اب تک 14 ہزار سے زائد فلسطینی لاپتہ ہیں جن میں سے بہت سے افراد تباہ شدہ مکانات کے ملبے تلے دبے ہوئے ہیں، ان کی آوازیں اسرائیل کی مسلسل بمباری سے خاموش ہو گئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سنگین صورتحال ہر لاپتہ شخص کا محاسبہ کرنے، خاندانی روابط بحال کرنے اور تنازعات کی افراتفری میں کھو جانے والوں کے بنیادی حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے فوری کارروائی کا مطالبہ کرتی ہے۔

اس سلسلے میں پاکستانی مندوب نے درج ذیل اقدامات تجویز کئے جن میں تمام تنازعات کے فریقین کو بین الاقوامی انسانی قانون پر عمل درآمد کرنا چاہیے، شہریوں کی حفاظت کرنی چاہیے اور خلاف ورزیوں کے لیے جوابدہی کو یقینی بنانا چاہیے۔ رکن ریاستوں کو لاپتہ افراد کا سراغ لگانے کے لیے قانونی مدد اور ڈیٹا شیئرنگ کے ذریعے تعاون کو مضبوط کرنا چاہیے۔

انسانی ہمدردی کی تنظیموں خاص طور پر انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس ( آئی سی آر سی)کے پاس لاپتہ افراد اور ان کے خاندانوں کی مدد اور مدد کے لیے تنازعات کے علاقوں تک غیر محدود رسائی ہونی چاہیے۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ حل نہ ہونے والے تنازعات کی علامت ہے، جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اور لاپتہ افراد کے بحران کو حل کرنے کی کلید کے طور پر تنازعات کی روک تھام اور تنازعات کے حل پر زور دینا شامل ہے۔

پاکستانی مندوب نے مزید کہا کہ ہمیں تنازعات سے متاثر ہونے والے تمام لوگوں کے وقار اور حقوق کو برقرار رکھنے کے لیے اجتماعی طور پر کام کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ لاپتہ افراد کو بھولا نہ جائے ۔ قرارداد 2474، جو 2019 میں متفقہ طور پر منظور کی گئی تھی جو تنازع میں تمام فریقین کو پابند کرتی ہے کہ وہ لاپتہ افراد کا محاسبہ کرنے کے لیے تمام مناسب اقدامات کریں، ان کی باقیات کی واپسی کو ممکن بنائیں اور خاندانوں کو اپنے کے بارے میں معلومات فراہم کریں۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے بھارت کے غیر قانونی زیر تسلط جموں و کشمیر پاکستانی مندوب نے انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کا ہونے والے جو کبھی کے لیے

پڑھیں:

امت مسلمہ ایسا جسم جس میں صرف ایران کو درد تھا

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

امریکا اور یورپ کے تعلقات بھی عجیب ہیں۔ امریکا اگر مریخ پر ہے تو یورپ زہرہ پر۔ بحر اوقیانوس انہیں جدا تو کرتا ہے مگر ان کے اختلافات اور بحثیں اس میں غرق نہیں ہوتیں۔ دونوں کا بندھن پرانی شادی کی طرح ہے، جھگڑے بہت مگر جدائی نا ممکن۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکا نے مارشل پلان کے ذریعے یورپ کی معیشت کو دوبارہ کھڑا کیا۔ اس پر امریکا اگر یورپ پر احسان جتاتے ہوئے کہتا ہے ’’ہم نے تمہیں دوبارہ جینا سکھایا‘‘ تو فوری جواب ملتا ہے ’’تم نے ہمیں چیک دیے ہم نے تمہیں تہذیب‘‘۔ یورپ کی سلامتی ناٹو اتحاد کی وجہ سے امریکا کی فوجی قوت کے سائے تلے ہے مگر اس کے باوجود شکایتیں ہیں کہ ہردم جاری وساری۔
کہا جاتا ہے کہ یورپ میں سب کچھ منع ہے جب تک اجازت نہ ہو جب کہ امریکا میں سب کچھ جائز ہے جب تک منع نہ ہو۔ جس وقت یورپی دوپہر کو شراب پی رہے ہوتے ہیں امریکا جمہوریت پر لیکچر دے رہا ہوتا ہے۔ یورپ خواب دیکھتا ہے امریکا وہ خواب بیچتا ہے۔ یورپ اور امریکا کا رشتہ اس پرانے مگر مہنگے اور خاندانی صوفے کی طرح ہے جو غیرآرام دہ ہے مگر اسے چھوڑا یا بدلا نہیں جاسکتا۔
یورپ اور امریکا کے تعلقات نیم گرم چائے کی ایسی پیالی کی مانند تھے جس سے تعلقات اور جذبات کی بھاپ اٹھتی رہتی تھی، دونوں چائے کا کپ تھامے رہتے تھے مگر ان تعلقات کے حوالے سے صدر ٹرمپ کی دوسری مرتبہ آمد ایسی تھی جیسے کوئی زور سے گھونسا مار کر چائے کی میز ہی پلٹ دے۔ برسوں سے امریکا اور یورپ مہذب اختلافات کے باوجود مضبوط بندھنوں میں بندھے ہوئے تھے۔ ناٹو کے اجلاسوں میں باہم تنقید تو ہوتی تھی مگر مسکراتے ہوئے مگر صدر ٹرمپ نے ان اجلاسوں کو کاروباری بہی کھاتوں میں بدل دیا۔ کون کتنا کھاتا ہے اور کتنا خرچ کررہا ہے اور بدلے میں کیا دے رہا ہے۔ پہلی بار یورپ کو احساس ہوا کہ ان کا کسی دوست سے نہیں تاجر سے واسطہ ہے۔
یو کرین کے معاملے میں یورپ اور صدر ٹرمپ کے تعلق ایسے تھے جیسے کوئی زخمی ہو اور دوست اس کا مذاق اُڑا رہا ہو۔ پیوٹن سے صدر ٹرمپ کے نرم اور دوستانہ رویہ نے یورپ کو تشویش میں مبتلا کردیا۔ صدر ٹرمپ نے کھل کر کہہ دیا یورپ کی سلامتی امریکا کی ذمے داری نہیں۔ روس کے سائبر حملوں پر جب یورپی ممالک میں بے چینی پھیلی تو ٹرمپ انتظامیہ کا ردعمل بہت دھیما اور تاخیر سے تھا۔ صدر ٹرمپ پیوٹن کی تعریف کرتے رہتے تھے ’’پیوٹن ایک مضبوط رہنما ہے۔ میں اسے پسند کرتا ہوں‘‘۔ جرمنی اور فرانس کو یقین ہو گیا کہ امریکا اب ان کا قابل اعتماد اتحادی نہیں رہا۔ فرانسیسی صدر میکرون نے اس موقع پر تاریخی جملہ کہا تھا ’’ناٹو دماغی موت کے دور سے گزر رہا ہے‘‘۔
بات کچھ تفصیلی ہوگئی۔ کہنا یہ تھا کہ صدر ٹرمپ اور یورپ کے اختلافات کی شدت دیکھیے لیکن جیسے ہی اسرائیل اور امریکا کی جانب سے ایران کے خلاف فوجی کارروائی کی گئی اختلافات کی خلیج چند گھنٹوں میں ہی پاٹ دی گئی اور یورپی دارالحکومت صدر ٹرمپ کے فیصلوں کی تحسین اور ایران کی مذمت سے گونجنے لگے۔ فرانس اور جرمنی جو امریکا کے خلاف جانے کا کوئی موقع نہیں گنواتے اسی فرانس کے صدر نے کہا ’’اسرائیل کو اپنا دفاع کرنے کا حق ہے۔ ایران کا جوہری پروگرام خطرناک حدتک آگے بڑھ چکا ہے‘‘۔ اور جرمنی کے فریڈرک میرٹز نے تو یہ کہہ کر حد ہی کردی کہ ’’یہ وہ گندا کام ہے جو ایران ہم سب کے لیے کررہا ہے۔ ہدف وہی رہنا چاہیے کہ ایران ایٹمی ہتھیار نہ بنائے‘‘۔ یورپی قیادت نے ایرانی میزائلی اور جو ہری خطرے کو یورپی براعظم تک پھیلنے والا آتش فشاں قرار دے کر صدر ٹرمپ کی یوں پشت پناہی کی جیسے کبھی کوئی اختلاف ہی نہیں تھا۔ رنجشیں دیکھتے ہی دیکھتے بلند آہنگ اتحادی ترانوں میں تبدیل ہوگئیں۔
اب آئیے عالم اسلام کی طرف۔ باتیں ہی باتیں مگر عمل کا میدان صحرائوں کی طرح سنسان اور خالی۔ اسرائیل اور امریکا کے خلاف ادنیٰ درجے میں بھی کوئی ایسا عملی اقدام نہیں کہ انہیں چیونٹی کاٹنے برابر بھی کوئی تشویش اور تکلیف ہوسکے بلکہ ان میں سے بعض ایران پر حملوں میں اسرائیل کے معاون اور مددگار تھے۔ 26 اکتوبر 2024 کو اسرائیلی F35 نے عراق کے اوپر سے اڑان بھرکر ریہرسل اسٹرائک کیں۔ عراق محض اقوام متحدہ میں احتجاج کرنے تک محدود رہا۔ اسرائیل امریکا اور ایران جنگ کے دوران اسرائیلی ڈرونز اور میزائلز امریکی کنٹرولڈ عراقی فضائی حدود سے فائر ہوکر ایران میں موجود ان اہداف کو نشانہ بناتے رہے جو تقریباً سو کلومیٹر کی دوری پر تھے۔ اردن کی حکومت نے اگرچہ تردید کی ہے لیکن میڈیا پر یہ رپورٹ ہوتا رہا کہ اسرائیلی جہاز اردن کے اوپر سے گزر کر ایران پر حملہ آور ہوئے۔ شام کے بارے میں بھی ایسے ہی دعوے کیے جارہے ہیں۔
ایران پر حملے کے بعد ایک F16 اسرائیلی لڑاکا طیارے کو شامی دیرالزور علاقے میں بوئنگ 707 ٹینکر سے ہوا میں دوبارہ تیل بھرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شام کی فضائی حدود تکنیکی طور پر اسرائیلی طیاروں کے استعمال میں آئی ہیں۔ قطر، کویت اور امارات میں امریکی بیسز موجود ہیں جہاں سے امریکی اجازت سے اسرائیلی طیاروں نے ری فیو لنگ کی۔ سعودی عرب، عمان اور بحرین نے اگرچہ سرکاری طور پر اپنی فضائی حدود کھولنے سے انکار کیا لیکن ابتدا میں کچھ ایسی خبریں آئیں جن سے یہ اشارے ملے کہ سعودی فضائوں کے کچھ حصے بھی استعمال ہوئے۔ اسلامی ممالک نے کسی نہ کسی درجے میں اسرائیل اور امریکا کی جنگی مدد تو کی لیکن کسی بھی درجے میں ایران کی جنگی مدد نہیں کی۔ اسلامی ممالک نے نہ اسرائیل کا راستہ روکنے کی ہمت کی اور نہ ایران کی مدد کرنے کی۔
جنگ کے دوران پورا یورپ اسرائیل کی ہر طرح کی جنگی اور فوجی اور مالی مدد کر رہا تھا ہر طرح کی خفیہ معلومات اسے مہیا کر رہا تھا حتیٰ کہ مغرب کے تشکیل کردہ نام نہاد عالمی ادارے جیسے انٹرنیشنل اٹامک انرجی ایجنسی جو ایران کے جوہری مراکز نطنز، فردو، اراک اور اصفہان کی مسلسل انسپکشن کررہی تھی اس نے سنٹری فیوجز کی تعداد، ریسرچ ریکٹرز کے محل وقوع اور یورینیم کی افزودگی کے بارے میں خفیہ رپورٹس اور تکنیکی معلومات مکمل طور پر اسرائیل اور امریکا کو فراہم کیں جو حملوں کے اہداف کی تیاری میں بہت مددگار ثابت ہوئیں۔ اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل نے بھی کوئی موثر قرار داد اسرائیل کے خلاف منظور نہ کی۔ ایف اے ٹی ایف نے ایران کا مسلسل گھیرائو کیے رکھا تاکہ وہ معاشی طور پر کمزور سے کمزور تر ہوسکے۔ بین الاقوامی اداروں کا کردار یہ رہا کہ وہ ایران میں موجود ایک سوئی کو بھی مانیٹر کررہے تھے اور اسرائیل کو گائیڈ کررہے تھے۔
کسی بھی اسلامی ملک نے ایران کو کسی بھی قسم کے ہتھیار دیے، نہ فضائی معاونت، نہ خفیہ معلومات اور نہ ہی کوئی فوجی حمایت۔ او آئی سی حسب معمول صرف بیٹھنے بٹھانے، باتیں کرنے اور اختتامیہ جاری کرنے تک مشغول رہی۔ پاکستان نے ایران کے حق میں کچھ فعالیت دکھائی۔ کہا جارہا ہے کہ فیلڈ مارشل منیر نے صدر ٹرمپ سے ملاقات میں ایران کے حوالے سے ان کی ذہن سازی اور رہنمائی کی جو بہت موثر رہی اس خاموش کارروائی کے علاوہ اگر اس میں کچھ حقیقت ہے، کسی اسلامی ملک کا ایران کے حق میں دوران جنگ کوئی کردار نظر نہیں آتا۔ حقیقت یہ ہے کہ خلیجی ممالک ایران کو اپنے لیے علاقائی خطر ہ سمجھتے ہیں اور اسرائیل کو غیراعلانیہ اتحادی۔ اس دوران امت مسلمہ ایک ایسا جسم تھی جس میں صرف ایران کو درد ہورہا تھا اور کوئی اس درد کی دوا کرنے پر تیار نہیں تھا۔

متعلقہ مضامین

  • ہاؤس میں بیٹھ کر کبھی حکومت کی حمایت نہیں کی، ایوان کو یرغمال نہیں بنانے دوں گا، اسپیکر پنجاب اسمبلی
  • ہماری لڑائی کشمیر کے آئینی ضمانتوں کی بحالی کیلئے ہے، آغا سید روح اللہ
  • صدر آزاد کشمیر سے چوہدری یاسین کی ملاقات
  • امت مسلمہ ایسا جسم جس میں صرف ایران کو درد تھا
  • معرکۂ حق بھارت کی یادداشت سے کبھی ختم نہیں ہو گا: فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • صدر آزاد جموں و کشمیر سے چوہدری محمدیاسین کی ملاقات، سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال
  • معرکہ حق بھارت کی یادداشت سے کبھی ختم نہیں ہوگا:فیلڈ مارشل
  • بھارت معرکہ حق کبھی بھلا نہیں سکے گا، دوبارہ حملہ کیا تو بغیر جھجھک کے جواب دیا جائے گا، فیلڈ مارشل
  • بھارت جارحیت کا مرتکب، ہماری خودمختاری کو چیلنج کیا تو نتائج کی ذمہ داری اس پر ہوگی، فیلڈ مارشل عاصم منیر
  • غزہ میں خوراک کی تلاش موت کی سزا نہیں بننی چاہیے،گوتریس