Juraat:
2025-10-04@23:27:02 GMT

فتح ملنے پر ادائیگی شکر کی شرعی تعلیمات

اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT

فتح ملنے پر ادائیگی شکر کی شرعی تعلیمات

مولانا محمد الیاس گھمن

 

گزشتہ چند دن پہلے وطن عزیز ایک نازک اور حساس دور سے گزرا۔

سرحدی کشیدگی، جنگی بیانات، ایئر اسپیس کی نقل و حرکت، اور قوم کا اجتماعی اضطرابیہ سب کچھ اس بات کی علامت تھا کہ حالات معمول کے دائرے سے باہر نکل چکے ہیں۔

پاکستانی عوام، افواج اور قیادت نے نہ صرف حوصلہ و حکمت سے ان لمحات کا سامنا کیا، بلکہ بالآخر دشمن کے مقابل ایک واضح اخلاقی، عسکری اور سفارتی برتری حاصل کی۔

اس کامیابی اور فتح پر جہاں عوام نے خوشی کا اظہار کیا، وہیں اس بات کی شدید ضرورت ہے کہ ہم اس مرحلے کو محض فخریہ نعرے بازی یا وقتی جشن تک محدود نہ رکھیں، بلکہ اللہ رب العزت کے شکر کے ساتھ اپنی دینی و قومی ذمہ داریوں کو سمجھیں۔

تاریخ گواہ ہے کہ جو قومیں فتح کے نشے میں اللہ کو بھول جاتی ہیں، وہ جلد ہی پستی اور آزمائش کا شکار ہو جاتی ہیں۔

قرآن مجید اور شکر کی تعلیم

قرآن کریم کی روشنی میں شکر گزاری محض ایک اخلاقی رویہ نہیں بلکہ ایک شرعی فریضہ ہے ۔ سورۃ ابراہیم کی آیت نمبر 7میں ارشاد ہوتا ہے :
لَئِن شَکَرْتُمْ لَأَزِیدَنَّکُمْ
‘‘اگر تم شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں ضرور مزید دوں گا’’۔

یہ آیت ایک اصولی حقیقت بیان کرتی ہے کہ اللہ کی نعمتوں میں اضافے کا راستہ شکر گزاری سے جڑا ہے ۔ فتح، عزت، امن اور استحکام جیسی نعمتیں تب ہی باقی رہ سکتی ہیں جب ان پر شکر بجا لایا جائے ۔

سیرتِ نبوی:شکر کا عملی نمونہ

فتح کا سب سے مثالی اور کامل نمونہ ہمیں سیرتِ طیبہ میں ملتا ہے ۔

فتح مکہ ایک ایسی عظیم کامیابی تھی جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے دشمنوں پر مکمل غلبہ حاصل ہوا۔

لیکن اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فخر و غرور کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ عاجزی اور انکساری کی اعلیٰ مثال قائم کی۔ اونٹنی پر سوار ہو کر مکہ میں داخل ہوئے تو آپ کا سر مبارک تواضع کے سبب اتنا جھکا ہوا تھا کہ تقریباً پالان سے لگ رہا تھا۔

زبان پر‘‘ لا إلہ إلا اللہ وحدہ، نصر عبدہ، وأعز جندہ، وہزم الأحزاب وحدہ’’کی صدائیں تھیں۔ اسی طرزِ عمل کو آج ہمیں اپنانے کی ضرورت ہے ۔

فتح کو صرف عسکری یا سفارتی کامیابی نہ سمجھا جائے بلکہ اس کو اللہ کی مدد و نصرت کا مظہر سمجھتے ہوئے شکر ادا کیا جائے ۔

شکر ادا کرنے کے شرعی طریقے

اسلام نے شکر ادا کرنے کے کئی عملی طریقے بیان کیے ہیں۔ فتح و نصرت کے موقع پر ان طریقوں پر عمل کرنا ایک فرد، ایک ادارے اور ایک قوم کی حیثیت سے ہم پر لازم ہے ۔

اللہ کی حمد و ثنا

فتح کے فوراً بعد ‘‘الحمد للہ’’کہنا، اللہ کی بڑائی بیان کرنا اور اجتماعی یا انفرادی طور پر تسبیح و تہلیل میں مشغول ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا معمول تھا۔

نفل نماز

دو رکعت نفل نماز شکر کے طور پر ادا کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے ۔ اس کے ذریعے بندہ عملاً اپنی عاجزی کا اظہار کرتا ہے ۔
انفاق فی سبیل اللہ
شکر گزاری کی ایک اعلیٰ صورت یہ بھی ہے کہ اللہ کی دی ہوئی کامیابی میں سے دوسروں کے لیے بھی حصہ نکالا جائے ۔ جنگی فضا سے متاثرہ پاکستانی علاقوں کے افراد، شہداء کے ورثاء، اور غریب طبقات کے لیے مالی امداد دینا عملی شکر ہے ۔

عاجزی اور انکساری

فتح کے بعد سب سے زیادہ خطرہ فخر اور خود پسندی کا ہوتا ہے ۔ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب قومیں زوال کا شکار ہو جاتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح کے ہر موقع پر تواضع اور انکساری کی تعلیم دی۔ اہلیان پاکستان کو بھی چاہیے کہ غرور کے بجائے تواضع اور عاجزی کو شعار بنائیں۔

اجتماعی توبہ و استغفار

قرآن و سنت کے مطابق نعمتیں صرف کامیابی پر منحصر نہیں، بلکہ اس کے ساتھ اللہ کی رضا بھی ضروری ہے ۔ فتح کے بعد اپنی کوتاہیوں پر استغفار کرنا، اصلاحِ احوال کی کوشش کرنا، اور اجتماعی طور پر دینی شعور کو بیدار کرنا ضروری ہے ۔

وطن عزیز کے لیے مستقبل کی حکمت عملی

یہ حقیقت ہے کہ فتح کے بعد کی حکمت عملی فتح سے زیادہ اہم ہوتی ہے ۔ جنگی ماحول کے بعد جذبات بلند ہوتے ہیں، قومی فخر عروج پر ہوتا ہے ، لیکن یہ وہ وقت ہوتا ہے جب شیطان غفلت میں ڈالنے کی کوشش کرتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے پر الزام تراشی کی بجائے اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں۔میڈیا اپنی زبان میں احتیاط کرے اور ایسی رپورٹنگ سے گریز کرے جو تکبر اور خودستائی کو فروغ دے۔عوام قومی اداروں پر اعتماد برقرار رکھیں اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھیں۔دینی حلقے اور علماء قوم کو شکر اور اصلاح کی طرف راغب کریں، تاکہ فتح عارضی نہ ہو، بلکہ مستقل استحکام کا پیش خیمہ بنے ۔

اہلیان پاکستان کے لیے اس موقع پر سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ اللہ کے سامنے شکر گزار بندے بنیں، اپنی صفوں میں اتحاد پیدا
کریں، اپنے کردار اور اخلاق کو بہتر بنائیں اور اللہ کی اطاعت میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ فتح مل جانا اللہ کی رحمت ہے ، لیکن اس کو باقی رکھنا ہماری ذمہ داری ہے ۔اگر ہم نے اس کامیابی کو اللہ کی طرف منسوب کیا، اُس کے سامنے عاجزی اختیار کی، اور اپنے اعمال و کردار کو درست کر لیا تو ان شاء اللہ یہ فتح ہماری تاریخ کا مستقل باب بنے گی۔اللہ تعالیٰ پاکستان کو امن، استحکام اور عزت و وقار عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: صلی اللہ علیہ وسلم ہوتا ہے اللہ کی اور ان فتح کے کے لیے کے بعد

پڑھیں:

ناظم آباد اور جوہر سے ملنے والے دھڑوں کی شناخت ہو گئی

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (اسٹاف رپورٹر) شہر قائد میں 2 روز قبل مختلف علاقوں سے ملنے والے انسانی دھڑوں کی شناخت کرلی گئی ہے۔ پولیس کے مطابق دونوں واقعات الگ الگ قتل کے مقدمات سے جڑے ہیں۔ تفصیلات کے مطابق نارتھ ناظم آباد بلاک ایل سے ملنے والے دھڑ کا سر لنڈی کوتل کے علاقے میں گجر نالے سے برآمد ہوا۔ مقتول کی شناخت 35 سالہ محمد یوسف کے نام سے ہوئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ محمد یوسف کے قتل کا مقدمہ تیموریہ تھانے میں درج ہے۔ مقتول یوسف نارتھ ناظم آباد میں 4 دیگر افراد کے ساتھ رہائش پذیر تھا اور مقامی تندور پر مزدوری کرتا تھا۔ مقدمے کے متن کے مطابق ملزمان قتل کے بعد لاش کا سر ساتھ لے گئے، لاش کو ضابطے کی کارروائی کیلیے عباسی شہید اسپتال منتقل کیا گیا۔ دوسری جانب گلستان جوہر بلاک 4 مغل ہزارہ گوٹھ میں مکان سے ملنے والے انسانی دھڑ کی شناخت 32 سالہ امداد حسین کے نام سے ہوئی،، جو ٹرک ڈرائیور اور 2 بچوں کا باپ تھا۔

اسٹاف رپورٹر گلزار

متعلقہ مضامین

  • آزاد جموں و کشمیر کی حالیہ کشیدگی
  • سندھ ہائیکورٹ: تین سال سے قید ملزمان کو صرف جرمانے کی ادائیگی کے بعد رہا کرنے کا حکم
  • غزہ ، انسانیت کی شکست کا استعارہ
  • پیارے نبی (ص) انسانیت کے علمبردار اور اخوت و محبت کی مثال ہیں، الحاج عرفان احمد
  • انجمن شرعی شیعیان کے اہتمام سے رحمۃ للعالمین (ص) کانفرنس منعقد
  • کراچی میں پارکنگ تنازع؛ حکومت کریں لیکن کام تو کسی قانون کے تحت کریں، سندھ ہائیکورٹ
  • ربیع الاول میں عمرے کی ادائیگی کا اوسط دورانیہ 115 منٹ رہا، رپورٹ
  • ناظم آباد اور جوہر سے ملنے والے دھڑوں کی شناخت ہو گئی
  • نبی مکرم ؐ کی آمد کا مقصد’اللہ کے دین کا نفاذ تھا، اسما عالم
  • پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی