غزہ پر اسرائیلی بمباری میں 74 مزید فلسطینی ہلاک، سول ڈیفنس
اشاعت کی تاریخ: 16th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 16 مئی 2025ء) غزہ میں حماس کے زیر انتظام امدادی اداروں نے اطلاع دی ہے کہ تازہ اسرائیلی فضائی حملوں اور گولہ باری کے نتیجے میں کم از کم 74 فلسطینی ہلاک ہو گئے ہیں۔ یہ ہلاکتیں ایک ایسے وقت میں ہوئیں، جب غزہ کی پٹی پہلے ہی شدید جنگی تباہ کاریوں کا شکار ہے۔
غزہ کی سول ڈیفنس کے ترجمان محمود باسل نے آج سولہ مئی بروز جمعہ بتایا، ''گزشتہ شب سے اب تک غزہ کی پٹی کے مختلف علاقوں پر جاری اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں 74 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔
‘‘ ان کے مطابق بیشتر ہلاکتیں شمالی غزہ میں ہوئیں۔ اس سے قبل سول ڈیفنس نے ہلاکتوں کی تعداد 50 سے زائد بتائی تھی، تاہم بعدازاں یہ تعداد 74 تک جا پہنچی۔خبر رساں ادارے روئٹزر کے مطابق اسرائیلی حملے غزہ میں جاری مہینوں پر محیط جنگ کے ایک اور خونی باب میں اضافہ ہیں، جس میں ہزاروں فلسطینی جان سے جا چکے ہیں اور لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
(جاری ہے)
حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے جمعرات 15 مئی کے روز کہا تھاکہ 18 مارچ کو اسرائیل کے حملے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 2,876 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سات اکتوبر 2023ء کو جنگ شروع ہونے کے بعد سے غزہ میں ہلاکتوں کی مجموعی تعداد اب 53,010 تک پہنچ گئی ہے۔فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کی طرف سے سات اکتوبر 2023ء کو اسرائیل کے اندر دہشت گردانہ حملہ کیا گیا تھا، جس میں تقریبا 1,200 افراد ہلاک ہوئے تھے اور 251 کو یرغمال بنا کر غزہ لے جایا گیا تھا۔
اقوام متحدہ کی غزہ کے لیے امریکی امدادی منصوبے سے لاتعلقیاس دوران اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ غزہ کے لیے انسانی ہمدردی کے تحت شروع کیے جانے والے امریکی حمایت یافتہ امدادی منصوبے کا حصہ نہیں بنے گی کیونکہ یہ منصوبہ اقوام متحدہ کے غیرجانبداری، غیرسیاسی حیثیت اور خودمختاری کے بنیادی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔
اقوام متحدہ کے نائب ترجمان فرحان حق نے جمعرات کے روز صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،''یہ مخصوص تقسیم کا منصوبہ ہمارے بنیادی اصولوں، خصوصاً غیرجانبداری، غیرسیاسی حیثیت اور خودمختاری سے مطابقت نہیں رکھتا، اس لیے ہم اس میں شرکت نہیں کریں گے۔‘‘
’’غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن‘‘ کے نام سے قائم ہونے والا یہ امریکی حمایت یافتہ ادارہ مئی کے آخر تک غزہ میں کام شروع کرے گا۔
تاہم اس سے پہلے اس نے اسرائیل سے مطالبہ کیا ہے کہ اقوام متحدہ اور دیگر امدادی اداروں کو فوری طور پر امدادی سامان کی ترسیل کی اجازت دی جائے۔ اس فاؤنڈیشن نے اسرائیل سے یہ بھی کہا ہے کہ وہ غزہ کے جنوبی حصے میں محدود امدادی مراکز کی تعداد بڑھا کر آئندہ 30 دنوں میں انہیں شمالی غزہ تک توسیع دے۔اسرائیل کے اقوام متحدہ میں سفیر ڈینی ڈینن نے کہا ہے، ''ہم ان مطالبات سے واقف نہیں، شاید یہ مطالبات یروشلم میں کیے گئے ہوں۔
تاہم ہم امریکا کی کوششوں کو سراہتے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، ''ہم ان کوششوں کو مالی امداد فراہم نہیں کریں گے، مگر ہم انہیں سہولت فراہم کریں گے۔ کچھ امداد ایسے علاقوں سے گزرے گی جو ہمارے کنٹرول میں ہیں۔"واضح رہے کہ اسرائیلی ناکہ بندی کے بعد دو مارچ سے غزہ میں کسی قسم کی انسانی امداد نہیں پہنچ سکی، جبکہ عالمی سطح پر بھوک پر نظر رکھنے والے ادارے نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کی آبادی کا ایک چوتھائی یعنی تقریباً پانچ لاکھ افراد قحط کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسرائیل کا الزام ہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس امدادی سامان چوری کر رہی ہے، جس کی حماس تردید کرتی ہے۔ اسرائیل نے امدادی سامان کی ترسیل اس وقت تک بند رکھنے کا اعلان کیا ہوا ہے، جب تک حماس تمام مغویوں کو رہا نہیں کر دیتی۔
اسرائیل اور امریکا نے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی تنظیموں پر زور دیا ہے کہ وہ اس نئے منصوبے، غزہ ہیومینٹیرین فاؤنڈیشن (GHF) سے تعاون کریں، حالانکہ خود ان حلقوں میں بھی خدشات موجود ہیں کہ یہ منصوبہ انسانی امداد سے متعلق عالمی اصولوں کی خلاف ورزی کر سکتا ہے۔
ڈینی ڈینن نے بتایا کہ یہ ایک ''بڑی کارروائی‘‘ ہو گی جو بہت جلد شروع کی جائے گی۔انہوں نے کہا، ''اسرائیل اس منصوبے کے آپریشن سینٹر میں ہو گا، نہ ہی امداد تقسیم کرے گا اور نہ ہی ان امدادی مراکز میں موجود ہو گا۔ یہ منصوبہ اپنے فنڈ اور امریکا کی زیر قیادت چلے گا۔ ہمیں خوشی ہے کہ کچھ غیر سرکاری تنظیمیں اس میں شامل ہو گئی ہیں۔‘‘
شکور رحیم، اے ایف پی اور روئٹرز کے ساتھ
ادارت: عاطف بلوچ، عدنان اسحاق
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ ہلاک ہو غزہ کی
پڑھیں:
’یوم نکبہ‘ کیا ہے، اور فلسطینی یہ دن کیوں مناتے ہیں؟
15 مئی یوم نکبہ ہے، یادگاری کا سالانہ دن جو اس سال غزہ میں جاری اسرائیلی بمباری، فلسطینیوں کی نقل مکانی اور ناکہ بندی کے دوران اضافی اہمیت رکھتا ہے، آج کے دن جسے’قیامت کبریٰ‘ سے بھی تعبیر کیا جاتا ہے، فلسطینی اپنے ہاتھوں میں اپنے آباواجداد کے گھروں کی چابیاں لے کر احتجاج کرتے ہیں، جہاں سے ان کے خاندانوں کو 77 سال قبل بے گھر کردیا گیا تھا۔
یوم نکبہ کیا ہے؟یوم نکبہ ہر سال 15 مئی کو منایا جاتا ہے، جو فلسطینی ریاست کی تباہی، اور 1948 میں فلسطینی آبادی کی اکثریت کے بڑے پیمانے پر نقل مکانی کے آغاز کی نشاندہی کرتا ہے۔
نکبہ کا مطلب عربی میں ‘تباہ’ ہے اور یہ لفظ ہے جو فلسطینیوں اور دیگر لوگوں نے اس تاریخی لمحے کے لیے استعمال کیا ہے، بعض افراد کے لیے یہ اصطلاح 1948 کے بعد آج تک جاری اسرائیلی ظلم و ستم اور فلسطینیوں کے استحصال کو بیان کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔
یوم نکبہ کا باضابطہ استعمال فلسطینی مزاحمت کے عظیم رہنما یاسر عرفات نے 1998 میں کیا تھا، حالانکہ اس تاریخ کو 1949 سے تاریخی دن اور مزاحمت کے احتجاج کے ساتھ نشان زد کیا جاچکا تھا۔
مئی 1948 میں کیا ہوا؟مئی 1948 میں بڑے پیمانے پر نقل مکانی کا آغاز ہوا جس میں 7 لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، 1948 کی فلسطین جنگ کے دوران، جو جنوری 1949 تک جاری رہی، اسرائیلی افواج نے 530 سے زائد فلسطینی دیہاتوں کو تباہ کرتے ہوئے قتل عام کی متعدد وارداتیں کیں،جس میں تقریباً 15 ہزار فلسطینی شہید ہوئے۔
فلسطین کی سرزمین کے 78 فیصد تاریخی علاقے پر قبضہ کرلیا گیا اور اسے اسرائیل کے قیام کے لیے استعمال کیا گیا، بقیہ زمین آج کے مقبوضہ فلسطینی علاقے – مغربی کنارے، بشمول مشرقی یروشلم، اور غزہ کی پٹی میں تقسیم کی گئی تھی۔
جنگ میں اسرائیلی فتح کے بعد یہودی آباد کاروں کو متروک مکانات دے دیے گئے، 1948 میں فرار ہونے والے بہت سے فلسطینیوں کی اولادیں آج تک فلسطین کے اندر اور پوری دنیا میں بے گھر ہیں، فلسطینی پناہ گزینوں کی تعداد اس وقت لگ بھگ تقریباً 60 لاکھ ہیں۔
اس کی وجہ کیا ہے؟1920 سے مئی 1948 تک، برطانیہ نے لیگ آف نیشنز کے، جو بعد میں اقوام متحدہ کا پیش خیمہ بنا، ایک معاہدے کے تحت لازمی فلسطین نامی علاقے پر حکومت کی ۔
دوسری جنگ عظیم اور ہولوکاسٹ کے خاتمے کے بعد، برطانیہ نے مینڈیٹ کو ختم کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کیا، اور نو تشکیل شدہ اقوام متحدہ نے ایک یہودی ریاست کے قیام کی اجازت دینے کے لیے فلسطین کی حدود کو دوبارہ کھینچنا شروع کیا۔
تقسیم کے مختلف منصوبوں میں سے کسی کو بھی فلسطینیوں یا عرب لیگ کی حمایت حاصل نہیں ہوئی۔ تاہم برطانوی مینڈیٹ کے خاتمے پر اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کیا گیا، جس پر 1948 کی فلسطین جنگ شروع ہوئی، جسے 1948 کی عرب اسرائیل جنگ بھی کہا جاتا ہے۔
نکبہ کے بعد کیا ہوا؟نکبہ کے بعد 77 سالوں میں، اسرائیلی ریاست نے فلسطینی سرزمین پر قبضہ کرنا، خاندانوں کو بے گھر کرنا اور اس عمل میں بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں جاری رکھی ہوئی ہیں، اس کی بڑی مثالوں میں 1967 کی چھ روزہ جنگ تھی، جس میں اسرائیلی افواج نے غزہ اور مغربی کنارے سمیت تمام تاریخی فلسطین پر قبضہ کرتے ہوئے 3 لاکھ لوگوں کو ان کے گھروں سے بے دخل کیا۔
اس کے بعد کی دہائیوں میں، خطے میں بہت زیادہ کشیدگی رہی ہے، نسبتاً اکثر بھڑک اٹھنے کے ساتھ۔ تاہم، موجودہ شدت کا پیمانہ واقعی بے مثال ہے: غزہ میں 52,700 سے زائد لوگ شہید کیے جا چکے ہیں اور بیشتر فلسطینی متعدد بار بے گھر ہوچکے ہیں،
بے گھر ہونے والوں میں وہ لوگ اور ان کی اولادیں بھی شامل ہیں جو نکبہ کے بعد فلسطین کے کسی اور مقام سے غزہ منتقل ہوئے۔
نکبہ سے پہلے فلسطین کیسا تھا؟نکبہ سے قبل پہلے فلسطین انگریزوں کے زیر انتظام تھا، لازمی فلسطین کا قیام شدید یورپی نوآبادیاتی توسیع کے دور میں ہوا اور عرب بغاوت 1919-1916 میں لیونٹ سے عثمانی افواج کی بے دخلی کے بعد ہوئی۔
لازمی مدت کے دوران، فلسطین ایک مربوط سیاسی اکائی بن گیا جس کا دارالحکومت یروشلم تھا، اس دور میں بیوروکریسی، انفرا اسٹرکچر اور ٹیکنالوجی میں ترقی دیکھنے میں آئی، اور یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ یہودی ہجرت کو فروغ دینے اور فلسطینیوں کو خود مختاری سے محروم کرکے اسرائیل کے قیام کی بنیاد رکھی گئی۔
لازمی مدت سے پہلے، فلسطین 400 سال تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا۔
نکبہ کے طویل مدتی نتائج کیا ہیں؟نکبہ کے نتیجے میں دنیا بھر میں 6 ملین سے زائد فلسطینی پناہ گزینوں کے ساتھ، دنیا کے طویل ترین غیر حل شدہ پناہ گزینوں کے بحران نے جنم لیا، جن میں سے بیشتر فلسطینی اردن، لبنان اور شام سمیت پڑوسی ممالک میں پناہ گزین ہیں، اور بعض صورتوں میں، مشرق وسطیٰ میں فلسطینی پناہ گزینوں نے اپنے میزبان ممالک میں جنگوں اور مزید دربدری کا سامنا کیا ہے۔
زمین کا زبردست نقصان جس کا آغاز نکبہ سے ہوا، فلسطینیوں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کر رہا ہے، بہت سے قیمتی وسائل اس سرزمین میں ہیں جو اب اسرائیلی تسلط میں ہیں، جہاں فلسطینیوں کی رسائی کو ناممکن بناتے ہوئے اسرائیل ممکنہ طور پر اپنی معیشت کو بڑھاوا دے رہا ہے۔
اسرائیلی قبضہ، جسے بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی قرار دیا گیا ہے، فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے، یہ ان کے بنیادی انسانی حقوق سے انکار کرتا ہے، ان کے وقار کو مجروح کرتا ہے اور انہیں غربت میں گھیر لیتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اردن اسرائیل سلطنت عثمانیہ شام عرب بغاوت فلسطین لبنان نوآبادیاتی توسیع یوم نکبہ