جنگوں کے انداز بدل چکے ہیں۔ حالیہ ہندوستان اور پاکستان کی کشیدگی میں نہ ہمارے ٹینک ان کی سرحدوں کے پارگئے اور نہ ہی ان کے ٹینک ہمارے بارڈرز تک آئے۔ ان کے جنگی جہازہم نے اپنی حدود سے ان کی فضاؤں میں ہی مارگرائے۔
بارہ دن جنگی ماحول بنانے میں لگے اور چار دن یہ جنگ جاری رہی۔ بارہ دن مزید اس جنگ پر تبصرے ہوںگے۔ ڈرونز کی افادیت پہلی دفعہ یوکرین اور روس کی جنگ سے ظاہر ہوئی اور اب اس جنگ میں اس کے افعال کا حقیقتاً اندازہ ہوا۔کہاں گیا وہ جنگوں کا روایتی نظام، زمینی جنگوں میں دوبدو مقابلے، پھر دوسری جنگِ عظیم میں فضائی جنگ اور اس مرتبہ جدید ریڈار سسٹم تھے اور ان کو ناکارہ بنانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کے دفاعی نظام تھے۔
ایسا لگ رہا تھا کہ یہ ایک تھیٹر ہے، جنگ نہیں۔ پاکستان کے اس دفاعی نظام میں چین کی ٹیکنالوجی کا پتا چلا کہ کس قدر مضبوط اور ایڈوانس ہے کہ مغرب کی ٹیکنالوجی ان کے سامنے ماند پڑگئی۔1965 اور1971 کی جنگوں میں ہم امریکا اور مغرب کے اتحادی تھے۔ نہ ساتواں بیڑہ پہنچا اور نہ ہی ہتھیار چلے مگر ہم جنگ اس لیے نہیں جیتے کہ ہم مغرب کے اتحادی تھے، شاید یہ بھی ایک وجہ تھی۔ 1971 میں ہم نے جنگ ہاری، اس کی وجوہات کچھ اور تھیں جس کا دشمن نے فائدہ اٹھایا۔
اس بار دشمن نے بڑی محنت کی تھی ہمیں مصروف رکھنے کے لیے، چن چن کر ایسے لوگوں کا کلب بنایا جنھوں نے ہمارے خلاف کھل کر پروپیگنڈہ کیا کہ ہم دہشت گرد ہیں اور ہم دہشت گردی کو پروان چڑھا رہے ہیں۔ اس پروپیگنڈہ میں انھوں نے جعفر ایکسپریس اور اسی طرح کے واقعات کو خوب اچھالا۔ اس بحث میں ہم نہیں جاتے کہ داخلی اعتبار سے اپنے آپ کو مضبوط کرنے کے لیے ہم نے کیا اقدامات اٹھائے اور ہمیں کیا کرنا چاہیے تھا، جس کا ذکر میں نے پچھلے کالمز میں کیا تھا۔
آرٹیکل 370 ہندوستان نے اپنے آئین سے خارج کر کے کشمیریوں سے حقِ خود ارادیت چھین لیا اور اس کو ختم کرنے کا طریقہ کار یہ تھا کہ کشمیر میں ریفرنڈم لازمی طور پرکروایا جاتا۔ ایسا نہیں کہ آ پ کے پاس دو تہائی اکثریت ہے تو آپ آئین کی کسی شق کو آئین سے خارج کرسکتے ہیں۔ ہندوستان کا یہ قدم پاکستان کے لیے دعوتِ جنگ تھا لیکن پاکستان نے اپنے قدم روکے کیونکہ شملہ معاہدے کے تحت کشمیر ایک متنازعہ معاملہ ہے مگر نہ ہی کشمیر کے ساتھ اس معاملے میں ثالثی کی گئی اور نہ ہی پاکستان سے رائے لی گئی۔
اس وقت امریکا کے صدر ٹرمپ تھے اور ساؤتھ ایشیا کے ایڈوائزر زلمے خلیل زاد تھے۔ عمران خان، پاکستان کے وزیرِاعظم تھے اور سپہ سالار تھے قمر جاوید باجوہ ، جب ایوانِ بالا میں خان صاحب نے بطور وزیراعظم تقریرکرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہم جنگ نہیں کرسکتے اور باجوہ صاحب ان کے ہم خیال تھے۔ یوں ابھی نندن کی خاطر تواضح کرکے، خیرسگالی کے جذبے کے تحت بارڈر تک چھوڑکر آئے۔ ایسے اقدامات کے بعد دشمن کا دماغ کیونکر نہ خراب ہوتا۔
بانی پی ٹی آئی کے دور میں ہمارے چین کے ساتھ تعلقات جمود کا شکار رہے۔ ہماری معیشت بدتری کا شکار تھی، عدالتوں کے اندر ایسے فیصلے کیے جا رہے تھے جو سمجھ سے بالا تر تھے، نو مئی جیسے واقعات نے جنم لیا۔ ہر طرف تبدیلی کا نعرہ تھا مگر وہ انقلاب آیا نہیں۔ اس افراتفری کے عالم میں طالبان ہمارے خلاف متحرک ہوگئے اور بلوچستان میں شورش اور تیز ہوگئی، لیکن ہماری معیشت حیران کن انداز طور جاندار ثابت ہوئی ہے۔
ہندوستان کی سیاست میں نریندر مودی کی کامیابی کا راز پاکستان دشمنی ہے۔ مسلمانوں، عیسائیوں کا قتل عام، انتہا پرستی اور مذہبی انتشار مودی کی کامیابی کی ڈھال ہے، مگر اس مرتبہ مودی کو یہ ایڈونچر بہت مہنگا پڑگیا۔ چین کی طرف ہمارا رجحان اور ہماری دوستی کا ہاتھ ہمارے لیے بہتر ثابت ہوا۔ انھوں نے ہمارا ساتھ دیا اور ہم نے ان کا۔ دنیا میں ان کی ٹیکنالوجی کو سراہا گیا۔ ان کی عزت بڑھی اور ہم محفوظ رہے۔
چین اور امریکا کے درمیان میں بڑھتے تنازعات کا اثر براہ راست ہم پر ہوا۔ امریکا کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف ہوا۔ امریکا ہمارا مؤقف سمجھنے سے قاصر تھا کہ اور ہم افغان پالیسی سے نکل نہیں پا رہے تھے اور جب چھوڑی تو افغانستان پر طالبان دوبارہ قابض تھے، طالبان کی کوشش تھی کہ پاکستان اپنی روایتی افغان پالیسی نہ نکلے، یوں تعلقات بھی کشیدہ ہوگئے۔
پاکستان میں اب عدالتوں سے بے جا قسم کے ریلیف ملنا بند ہو گئے، نو مئی جیسے واقعات نے دوبارہ جنم نہیں لیا، لیکن اب بھی غیرمعمولی تدبر اور سٹیسمین شپ کی حامل سیاسی قیادت کا فقدان ہے۔ اس وقت نہ ہی بے نظیر جیسا لیڈر ہے نہ ہی نواز شریف کسی فورم کا حصہ ہیں۔ شہباز شریف بھلے ہی وزیرِاعظم ہیں اور آگے جاکر شاید بلاول وزیرِ اعظم بنیں مگر یہ عوام کے دلوں پر راج نہیں کرتے۔
لوگ فوجی قیادت کو اس جنگ کا ہیرو ضرور سمجھتے ہیں لیکن یہ عوام کا مینڈیٹ نہیں ہے ۔اس جنگ کے دوران اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ نہ ہی ہندوستان کے عوام جنگ چاہتے ہیں اور نہ ہی پاکستان کے عوام۔ ہندوستان میں جنگی جنون اب تھم چکا ہے اور اس کا ثبوت ہے پچھلے انتخابات جس کے نتائج حیران کن طور پر مودی کے خلاف آئے اور جس اتحادی پارٹی کی توسط سے مودی وزیرِ اعظم بنے ہیں لگتا ہے کہ یہ دور ان کا آخری دور ہوگا۔ یقینا ہندوستان سے ایک دن اٹل بہاری واجپائی جیسی قیادت ابھرے گی اور یہاں سے نواز شریف جیسی قیادت۔ اب ہم کارگل جیسا کوئی محاذ نہیں بنائیں گے۔ ہم ہندوستان کی ایسی کاوشوں کو سبوتاژ کریں گے۔
ہندوستان اور پاکستان کو ایک ہی دن آزادی نصیب ہوئی، یقیناً دونوں کو انتہاپسندوں اور انتہاپسندی سے بھی جلد ہی آزادی ملنے والی ہے ۔ ہم دونوں ممالک کے درمیان امن اور تجارت پورے برِصغیر کا نقشہ بدل دے گی۔ اس خطے میں اس صدی کی دو بڑی طاقتیں ابھر رہی ہیں۔ ایک چین اور دوسرا ہندوستان اور اس خطے کی تیسری بڑی طاقت پاکستان بن سکتا ہے ۔
ایک عرصے کے بعد ہم نے بھارت کے اقتدار کے پر قابض انتہاپسند دشمن سوچ کو ٹکرکا جواب دیا ہے، اب ہمیں سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں بہت محتاط ہو کر چین اور امریکا کے درمیان توازن کو برقرار رکھنا ہوگا۔ پاکستان کے عوام طاقت کا سرچشمہ ہیں، اور ان کی رائے کا احترام ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستان کے اور نہ ہی تھے اور اور اس کے لیے تھا کہ اور ہم
پڑھیں:
قصابوں کا اتحاد
قصابوں کا اتحاد WhatsAppFacebookTwitter 0 17 May, 2025 سب نیوز
تحریر: محمد محسن اقبال
تاریخ نے کئی جابر حکمران دیکھے ہیں جن کے نام ظلم، خون اور تباہی کی علامت بن چکے ہیں — ایڈولف ہٹلر، بینیٹو مسولینی، جوزف اسٹالن اور دیگر، جنہوں نے پورے بر اعظموں کو خون اور آنسوؤں میں نہلا دیا۔ ہٹلر کے دورِ حکومت میں ہونے والا ہولوکاسٹ لاکھوں یہودیوں کے قتلِ عام کا باعث بنا، جب کہ اس کی جارحانہ جنگوں میں عالمی جنگ دوم کے دوران 7 سے 8 کروڑ لوگ ہلاک ہوئے۔ مسولینی، اٹلی کا فاشسٹ آمر، 1935 میں ایتھوپیا پر حملہ آور ہوا اور لاکھوں انسانوں کو موت کے گھاٹ اتارا۔ وہ نازی مظالم میں برابر کا شریک تھا۔ اسٹالن، اگرچہ سوویت یونین کی صنعتی ترقی کے حوالے سے جانا جاتا ہے، لیکن اس نے ’گریٹ پرج‘ اور ریاستی قحط جیسے جرائم کیے، خصوصاً یوکرین میں، جہاں دو کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ ان تمام شخصیات کو تاریخ نے متفقہ طور پر ظالم قرار دیا ہے — ان کے جرائم ناقابلِ فراموش ہیں۔ وقت کے گزرنے اور دنیا میں نئے اصولوں کے رائج ہونے کے باوجود، ان نظریات کے وارث آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔
آج کے دور میں اسرائیل کے بنیامین نیتن یاہو اور بھارت کے نریندر مودی ان پرانے ظالموں کے جدید روپ بن چکے ہیں۔ دونوں عالمی سطح پر جمہوری رہنماؤں کے طور پر پیش کیے جاتے ہیں، لیکن ان کے خوشنما چہروں کے پیچھے انسانی حقوق کی پامالی اور نسلی و مذہبی ظلم کی ایک ہولناک داستان چھپی ہوئی ہے۔ نیتن یاہو نے غزہ میں متعدد فوجی آپریشنز کی نگرانی کی ۔ اقوام متحدہ اور بین الاقوامی انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان حملوں میں اب تک 35,000 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں 14,000 سے زائد بچے شامل ہیں۔ لاکھوں افراد زخمی اور بے گھر ہو چکے ہیں۔ پورے محلے اور بستیاں ، محض شدت پسندوں کو نشانہ بنانے کے بہانے سے صفحہ ہستی سے مٹا دی گئیں ۔
مودی کا سیاسی عروج 2002 کے گجرات فسادات سے جڑا ہوا ہے، جو ان کے دورِ وزارت اعلیٰ میں ہوئے۔ ان فسادات میں 2,000 سے زائد مسلمان شہید اور ہزاروں زخمی و بے گھر ہوئے۔ قانونی طور پر وہ بری ہو چکے، لیکن ان کا کردار آج بھی متنازع ہے۔ مودی کے دور میں بھارت میں مذہبی انتہا پسندی، ہجومی تشدد، اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں خوفناک اضافہ ہوا۔ اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں لاک ڈاؤن، 9 لاکھ سے زائد فوجیوں کی تعیناتی، کرفیو، اور مواصلاتی بلیک آؤٹ جیسے اقدامات کیے گئے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق 1989 سے اب تک مقبوضہ کشمیر میں 100,000 سے زائد کشمیری شہید، 10,000 سے زائد خواتین کی عصمت دری، اور ہزاروں افراد جبری طور پر لاپتہ کیے گئے۔
نیتن یاہو اور مودی صرف سٹریٹیجک اتحادی نہیں، بلکہ فکری طور پر بھی ہم آہنگ ہیں۔ ان کی دوستی انسانیت، رواداری، اور عالمی انسانی قوانین سے نفرت پر قائم ہے۔ اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں سے لے کر مشترکہ انسداد دہشت گردی اقدامات تک، اسرائیل اور بھارت نے اپنے فوجی تعلقات کو بہت مضبوط کر لیا ہے۔ اسرائیل اب بھارت کے بڑے اسلحہ فراہم کنندگان میں شامل ہے، اور اطلاعات کے مطابق اسرائیل بھارت کو اس کے سٹریٹیجک اہداف میں، خاص طور پر پاکستان کے خلاف، بھرپور معاونت فراہم کر رہا ہے۔
حالیہ تجزیوں کے مطابق اسرائیلی فوجی ماہرین اور مشیر بھارتی عسکری اداروں میں موجود ہیں، جہاں وہ انسداد بغاوت فورسز کو تربیت دے رہے ہیں اور پاکستان کے خلاف الیکٹرانک نگرانی کو بہتر بنا رہے ہیں۔ لائن آف کنٹرول پر اور حساس پاکستانی تنصیبات کے قریب ہونے والے بعض ڈرون حملے اسرائیلی حربی حکمتِ عملی کی جھلک دکھاتے ہیں۔ یہ تعاون اب محض سفارت یا تجارت کی حد تک نہیں، بلکہ ایک عملی اتحاد بن چکا ہے جو پاکستان اور خطے کے مسلمانوں کے خلاف سرگرم ہے۔
لیکن تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ طاقتور اکثر اپنی قوت کا حد سے زیادہ اندازہ لگا لیتے ہیں اور ان اقوام کی مزاحمت کو کم سمجھتے ہیں جو جدوجہد کے نتیجے میں وجود میں آئی ہوں۔ پاکستان، جو 1947 میں بے شمار قربانیوں سے معرضِ وجود میں آیا، نے کبھی اپنی عزت اور خودمختاری کے دفاع سے پیچھے قدم نہیں ہٹایا۔ 1948، 1965، 1971 کی جنگوں سے لے کر 1999 کی کارگل جھڑپ اور 2019 میں آپریشن سوئفٹ ریٹورٹ میں بھارت کی جارحیت کا فوری، منظم، اور مؤثر جواب، پاکستان نے بارہا ثابت کیا ہے کہ اس کے پاس حوصلہ بھی ہے اور صلاحیت بھی۔وقت نے ثابت کیا ہے کہ اسرائیلی سرپرستی میں بھارت نے جب جب کسی بھی مہم جوئی کا ارتکاب کیا تو پاکستان نے اس کا متحد ہو کرارا جواب دیا۔
پاکستان ایک ایٹمی طاقت ہے، جس کا دفاعی نظام پیشہ ورانہ مہارت سے لیس اور مکمل طور پر منظم ہے۔ لیکن اس سے بڑھ کر، پاکستان کے عوام کا عزم و حوصلہ ہے۔ قبائلی علاقوں سے لے کر کراچی کی گلیوں تک، سکردو کے پہاڑوں سے لے کر پنجاب کے میدانوں تک، جب بھی پاکستان کی خودمختاری کو خطرہ درپیش ہوتا ہے، پوری قوم یکجا ہو جاتی ہے۔ کوئی طاقت، کوئی اتحاد، اور کوئی سازش اس اتحاد کو توڑ نہیں سکتی۔ پاکستان کو توڑنے یا جھکانے کا خواب، ماضی کی طرح، ایک سراب ہی رہے گا۔
یہ ستم ظریفی ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی فوجداری عدالت، اور انسانی حقوق کے عالمی نعروں کے باوجود، نیتن یاہو اور مودی جیسے افراد ظلم و جبر کی مہمات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ جہاں ہٹلر کے گیس چیمبرز اور اسٹالن کے عقوبت خانے آج خوف کی علامت ہیں، وہاں آج جنگی طیارےغزہ پر بم برسا رہے ہیں، کشمیر میں پیلٹ گنوں کا استعمال ہو رہا ہے، ڈیجیٹل نگرانی اور معاشی پابندیاں ظلم کا نیا چہرہ بن چکی ہیں۔ طریقے بدل گئے ہیں، لیکن سوچ وہی ظالمانہ ہے۔
یہ بات واضح ہو جانی چاہیےکہ تاریخ کو وقت لگتا ہے، لیکن وہ بھولتی نہیں۔ آج کے ظالم کل کا حساب ضرور بھگتیں گے۔ جس طرح ہٹلر اور مسولینی کا انجام عبرت بن چکا ہے، نیتن یاہو اور مودی کی یاد بھی سیاست سے زیادہ انسانی دکھ اور مظالم کی علامت بنے گی۔ ان کے نام کبھی بھی عظمت کی یادگاروں پر نہیں کندہ ہوں گے، بلکہ ظلم کے حاشیوں پر درج ہوں گے۔ اور ان کے مقابل کھڑے ہوں گے — غزہ، کشمیر، اور پاکستان کے عوام — ثابت قدم، بے خوف، اور ناقابلِ شکست۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاک بھارت جنگ بندی کروانے پر زندگی میں سب سے زیادہ سراہا گیا، ٹرمپ ہاتھی والے یہ خون تھا جو لفظوں سے بلند آواز میں بولا ماں کی محبت امن کیوں ضروری ہے یہ فوج ہماری ہے ترکوں کا ہیرو، اپنے گھر میں اجنبی!Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہمارے بارے ہماری ٹیم