لفظوں کا محاذ اور تاریخ کی صدا
اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT
آج میں اس دھرتی کی تقدیرکیلئے اپنے ملک کے اہلِ قلم،اہلِ فکراوروہ جودردِدل رکھتے ہیں،ان سے مخاطب ہونے کی جسارت کررہا ہوں۔ آج جب ہم تاریخ کے سنگِ میل پرکھڑے ہیں، تو ہوائیں فقط ہوانہیں،یہ وقت کانوحہ پڑھ رہی ہیں۔جنوبِ ایشیا کی فضائیں وہی ہیں، لیکن ان میں وہ صدیوں پرانی دھڑکنیں گونج رہی ہیں جوکبھی پانی کے کناروں پر تہذیبوں کی بنیادڈالتی تھیں، اورکبھی انہی پانیوں پر جنگ وجدل کی کشتیاں بہالے جاتی تھیں۔
یہ وقت عام نہیں،یہ گھڑی محض لمحوں کی روانی نہیں۔یہ وہ لمحہ ہے جوقوموں کی پیشانیوں پرتاریخ کی مہریں ثبت کرتاہے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں الفاظ،خنجروں کی نوک پررکھے جاتے ہیں، اور فیصلے،صرف قراردادوں میں نہیں،قوموں کے ضمیرمیں تحریرکیے جاتے ہیں۔یہ کوئی معمولی لمحہ نہیںیہ وہ گھڑی ہے جب الفاظ،بارود سے زیادہ بھاری ہوچکے ہیں۔جب ایک جملہ،توپ کے گولے سے بڑھ کردھماکہ خیزہے۔جب بیانات، میدانِ جنگ کی گھن گرج سے کہیں بلندتر ہیں۔ جب لہجے،سرحدوں کوپارکرتے ہیں اورتلواروں کی کاٹ سے زیادہ دلوں کوچیرتے ہیں۔یہ وہ لمحہ ہے جوقوموں کی پیشانیوں پرتاریخ کی مہریں ثبت کرتاہے۔یہ وہ لمحہ ہے جہاں الفاظ، خنجروں کی نوک پررکھے جاتے ہیں۔
یہ وقت عام وقت نہیں ہے۔یہ وہ گھڑی ہے جس پرتاریخ اپناقلم رکھتی ہیاورتقدیراپنے فیصلے لکھتی ہے۔جنوبی ایشیاکے افق پرجو بادل چھائے ہوئے ہیں،وہ صرف سیاست کی گرد نہیں۔یہ تاریخ کی وہ راکھ ہے جوماضی کی تباہ تہذیبوں سے اٹھ رہی ہے۔جنوبی ایشیاکی ہوائیں،آج کوئی عام ہوانہیں،یہ وقت کی سسکیاں ہیں۔یہ ماضی کی بازگشت ہے۔یہ مستقبل کی لرزتی ہوئی پیش گوئی ہے۔جنوبی ایشیاکے افق پرجوبادل چھائے ہوئے ہیں، وہ محض موسمی تغیرنہیں،یہ تاریخ کی وہ گرد ہے جو تہذیبوں کے ملبے سے اٹھتی ہے۔ پاکستان اوربھارت دو ایٹمی قوتیںآج ایک ایسی نوکِ سناں پرکھڑی ہیں،جہاں ایک معمولی لغزش،ایک ناپختہ بیان،ایک ناقابلِ برداشت حرکت،ہمیں اس دہانے پرلاسکتی ہے جہاں انسانیت کی سانس بھی محض ماضی کاقصہ بن جائے۔
ہندوستان اورپاکستانیہ محض دوملک نہیں، بلکہ دو تاریخیں،دویادداشتیں،دوخواب ہیں، جو کبھی ایک ہی خواب تھے۔ان کے درمیان جو تناؤ ابھرا ہے،وہ صرف سفارتی قضیہ نہیں،بلکہ وہی پرانی صدا ہے جوہمالیہ کی چوٹیوں سے لے کرسندھ کی وادیوں تک سنائی دیتی ہے۔ہمیں یادہے،ہم کو سب کچھ یادہے۔یہ انسانی تہذیب کے کنگرے پرلٹکتی ہوئی وہ آخری صداہے جوہمیں خبردارکررہی ہے۔ پاکستان اوربھارت،دوایٹمی قوتیں، آج زبانوں سے آگ برسارہی ہیں،اوریہ زبان کی بارودکسی روزاس دنیاکودہکتی، چنگھاڑتی آگ بناسکتی ہے۔
خودی کوکر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے،بتا تیری رضا کیا ہے
آئیے!پہلے سندھ طاس معاہدے کے متعلق جانتے ہیں کہ آخریہ پانی کے ہتھیار کا آغاز کہاں سے ہوا؟
میں سندھ طاس معاہدہ پاکستان اور بھارت کے درمیان عالمی بینک کی ثالثی میں طے پایا۔ یہ معاہدہ برصغیر کے بڑے دریائوں کے پانی کی تقسیم کاضابطہ فراہم کرتاہے۔معاہدے کے تحت تین مشرقی دریاستلج،بیاس،اورراویبھارت کودئیے گئے، جبکہ تین مغربی دریا سندھ، جہلم، اورچناب پاکستان کودیے گئے۔یہ معاہدہ اب تک خطے میں پانی کی تقسیم کے حوالے سے امن کی بنیاد رہا ہے، باوجوداس کے کہ پاکستان اوربھارت کے درمیان کئی جنگیں اورکشیدگیاں ہوئیں۔
موجودہ صورتحال یہ ہے کہ حال ہی میں بھارت نے سندھ طاس معاہدے پردوبارہ غور کرنے یااس سے پیچھے ہٹنے کی بات کی ہے۔ بعض بھارتی رہنمائوں اورحکومتی بیانات میں یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ بھارت مغربی دریائوں کے پانی کومکمل طور پر استعمال کرنے کی کوشش کرے گا،جس پر پاکستان کاانحصارہے۔بھارت کے اس موقف کو بعض مبصرین ’’پانی کوجنگی ہتھیار‘‘کے طور پر استعمال کرنے کی کوشش قراردے رہے ہیں۔
بھارت نے مغربی دریائوں پرمتعددڈیم اور ہائیڈرو پاور جیسے کہ بگلیہار،کشن گنگا،اوررتلے ڈیم منصوبے شروع کیے ہیں،ان منصوبوں سے اگرچہ براہ راست پانی کارخ موڑناممکن نہیں، تاہم ان کی مددسے پانی کے بہائو کومحدودوقت کیلئے روکا جاسکتاہے،جوکہ فصلوں کیلئے اہم اوقات میں پاکستان کیلئے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔ بھارت نے اقوام متحدہ یادیگرعالمی پلیٹ فارمز پر سندھ طاس معاہدے کے بعض نکات پراعتراضات اٹھائے گئے اورپاکستان کی شکایات کے حل میں تاخیرکامعاملہ اب تک جاری ہے۔
جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ پاکستان کی معیشت کابڑاانحصارزراعت پرہے اورزراعت کیلئے پانی کی مستقل فراہمی ناگزیرہے۔پانی کی کمی سے فصلوں کی پیداوارمتاثرہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ سندھ طاس معاہدہ کوپاکستان کی رگِ حیات سمجھاجاتاہے۔پاکستان کے کئی ہائیڈرو پاور منصوبے دریائوں کے پانی پرمنحصرہیں۔پانی کی کمی توانائی کے شعبے میں بھی بحران پیداکرسکتی ہے۔ دریائوں کے بہائو میں کمی سے ماحولیاتی نظام بھی متاثر ہوسکتاہے،خاص طورپرسندھ ڈیلٹامیں نمکیات کا پھیلائو بڑھ سکتاہے اور برسوں سے یہ محسوس کیا جارہاتھاکہ مودی حکومت جوہندوقوم پرستی کی علمبردارکہلاتی ہے،یہ واضح ہوگیاتھاکہ پانی پر کشیدگی دونوں ملکوں کے درمیان مزیدتنائوکوجنم دے سکتی ہے،جوکہ خطے میں امن کیلئے خطرناک ہوگا اوراب یہ شک یقین کی شکل اختیار کرگیا ہے۔
عالمی برادری نے سندھ طاس معاہدے کوایک کامیاب ماڈل قراردیتے رہیں ہیں اوریہی وجہ ہے پاک وہندکی چارجنگوں کے باوجود اس معاہدے کوہتھیارکے طورپراستعمال کرنے کی کوشش نہیں کی گئی،یہی وجہ ہے عالمی برادری اس کی حفاظت پرزوردے رہی ہے ۔
مگراس سے پہلے کہ ہم اس اندھے کنویں میں جھانکیں،آئیں ذرا رک کرتاریخ سے کچھ سیکھ لیں۔کیاتم نے روم کی تباہی نہیں دیکھی؟ کیا بغدادکے جلتے ہوئے کتب خانے، تمہارے خوابوں میں نہیں آتے؟ کیا ہیروشیما اورناگاساکی کے سائے، آج بھی ہمارے ضمیر پر لرزہ طاری نہیں کرتے؟ کیا ہیروشیما اور ناگاساکی کے کھنڈرات کے مناظر اور مارے جانے والوں کی چیخیں تمہیں سنائی نہیں دے رہیں؟ کیا ہیروشیمااورناگاساکی کے نوحے ابھی تک تمہارے بہرے کانوں کے پردے پھاڑنے کیلئے کافی نہیں؟
یادرکھو!ایٹم بم صرف ہتھیارنہیںوہ نسلوں کا زہرہے۔ایک باروہ راکھ برسادے تو صدیوں تک صرف خاموشی جنم لیتی ہے،اوروہ بھی ایسی خاموشی جسے نہ اذان توڑتی ہے،نہ کسی مندر کا سنکھ، نہ کسی گرجاگھرکی گھنٹیاں،نہ ماں کی لوری، نہ بچے کی ہنسی۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: سندھ طاس معاہدے یہ وہ لمحہ ہے دریائوں کے پاکستان کی اس معاہدے تاریخ کی پانی کی نہیں یہ یہ وقت ہیں یہ
پڑھیں:
پاکستان اور سعودی عرب: تاریخ کے سائے، مستقبل کی روشنی
پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات محض دو ممالک کے درمیان ایک سفارتی رشتہ نہیں بلکہ خطے کی سیاست، سلامتی اور امتِ مسلمہ کی اجتماعی قوت کا مظہر ہیں۔ 7 دہائیوں سے زائد پر محیط یہ رشتہ وقت کے ہر امتحان میں مزید مضبوط ہوا ہے۔
حال ہی میں سعودی صحافی عبد اللہ المدیفر نے اپنے معروف پروگرام (فی الصوره) میں سعودی عرب کے سینیئر رہنما شاہ فیصل کے بیٹے شہزادہ ترکی الفیصل کا انٹرویو کیا، جو اس تعلق کی گہرائی اور مستقبل کے امکانات کو سمجھنے کے لیے نہایت اہمیت رکھتا ہے۔
عبد اللہ المدیفر سعودی عرب کے نمایاں صحافی ہیں، جو اپنے بے لاگ سوالات اور گہرے تجزیاتی انداز کے باعث سعودی میڈیا میں ایک معتبر حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا پروگرام (فی الصوره) محض ایک انٹرویو شو نہیں بلکہ ایک ایسا پلیٹ فارم ہے جسے سعودی عرب میں ریاستی مکالمے کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی پروگرام میں شہزادہ ترکی الفیصل جیسے رہنما کی گفتگو براہِ راست خطے کی سیاست پر اثر انداز ہوتی ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل سعودی عرب کی قومی سلامتی کے ایک اہم ستون رہے ہیں۔ وہ برسوں تک مملکت کی انٹیلیجنس ایجنسی کے سربراہ رہے اور عالمی سطح پر ان کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جن کی بات کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے۔ ان کا پس منظر انہیں صرف ایک سابق عہدے دار نہیں بلکہ ایک دانشور اور عالمی تجزیہ کار بھی بناتا ہے، جن کی بصیرت خطے کے مستقبل پر روشنی ڈالتی ہے۔
انٹرویو میں جب پاکستان کا ذکر آیا تو شہزادہ ترکی الفیصل نے دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض رسمی نہیں بلکہ قدرتی قرار دیا۔ انہوں نے یاد دلایا کہ مرحوم شہزادہ سلطان بن عبدالعزیز نے پاکستان کے جوہری پروگرام کی اہم تنصیبات کا دورہ کیا تھا، اور اس موقع پر ڈاکٹر عبد القدیر خان بھی موجود تھے۔ سعودی عرب نے اس دور میں پاکستان کی مالی اور عسکری مدد کی، مگر کبھی اس پر کوئی شرط عائد نہ کی۔ ہو سکتا ہے پاکستان نے اس تعاون کو اپنی تحقیق اور دفاعی صلاحیت کو جلا بخشنے میں استعمال کیا ہو۔ یہ پہلو دونوں ملکوں کے درمیان بے لوث اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے ماضی کی ان یادوں کے ساتھ ساتھ عسکری تعاون کی تفصیلات بھی بتائیں کہ کس طرح پاکستانی فوجی دستے سعودی عرب کے مختلف علاقوں، بالخصوص تبوک اور خمیس مشیط میں تعینات ہوئے، جب کہ سعودی عرب نے پاکستان کو مادی وسائل فراہم کیے۔ یہ تعاون صرف فوجی سطح پر نہ تھا بلکہ بھائی چارے اور یکجہتی کی بنیاد پر پروان چڑھا۔
پاکستان کے کردار کو شہزادہ ترکی الفیصل نے ایک قدرتی حلیف کے طور پر اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان آزادی کے فوراً بعد سے سعودی عرب کے قریب رہا ہے، اور خطے کے توازنِ قوت میں اس کا کردار فیصلہ کن ہے۔ پاکستان دنیا کی سب سے بڑی مسلم فوجی طاقت ہے اور واحد اسلامی جوہری ملک بھی، اس لیے اس کا اتحادی بننا محض ایک انتخاب نہیں بلکہ ایک فطری امر ہے۔
انٹرویو میں اسلامی اتحاد کا حوالہ بھی آیا، جو سعودی عرب نے دہشتگردی کے خلاف تشکیل دیا تھا۔ شہزادہ ترکی الفیصل نے اس امکان کا اظہار کیا کہ مستقبل میں یہ اتحاد صرف دہشتگردی تک محدود نہیں رہے گا بلکہ دیگر خطروں کے مقابلے میں بھی ایک اجتماعی قوت بنے گا۔ یہ سوچ ایک وسیع تر اسلامی نیٹو کی جھلک دیتی ہے۔
انٹرویو کا اہم ترین حصہ پاک سعودی دفاعی معاہدہ تھا، جس میں نیٹو معاہدے کی پانچویں شق جیسے اصول کو شامل کیا گیا ہے۔ یعنی اگر کسی ایک ملک پر حملہ ہوتا ہے تو اسے دونوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔ یہ معاہدہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو محض دوستانہ سطح سے بڑھا کر باقاعدہ دفاعی ڈھانچے میں ڈھالتا ہے۔
شہزادہ ترکی الفیصل نے اسرائیل کے جارحانہ رویے کو بھی خطے کے لیے بڑا چیلنج قرار دیا اور کہا کہ اسرائیل اپنے آپ کو خطے کی سب سے بڑی طاقت ثابت کرنا چاہتا ہے۔ اس کے مقابلے کے لیے اجتماعی قوت اختیار کرنا ناگزیر ہے، اور پاکستان و سعودی عرب کا حالیہ معاہدہ اسی اجتماعی حکمتِ عملی کی ایک بڑی کڑی ہے۔
یوں عبد اللہ المدیفر کے پروگرام میں ہونے والی یہ گفتگو نہ صرف ماضی کے سنہرے ابواب یاد دلاتی ہے بلکہ مستقبل کی سمت بھی واضح کرتی ہے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان اور سعودی عرب کا رشتہ اب سفارت کاری کی رسمی حدوں سے نکل کر خطے کی سلامتی، امت کی اجتماعی طاقت اور توازنِ قوت کا ضامن بن چکا ہے۔
ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں