’’جہاد‘‘ کا لفظ لغوی مفہوم کے حوالے سے کوشش، محنت و مشقت اور تگ ودو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، ترویج و تنفیذ، اور تحفظ و دفاع کے لیے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن جہاد کا ایک خصوصی مفہوم جنگ اور محاربہ بھی ہے جسے قرآن کریم میں ’’جہاد فی سبیل اللہ’’ اور ’’قتال‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور سینکڑوں آیات قرآنی اور ہزاروں احادیث نبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس جہاد کے فضائل، احکام، مسائل اور مقصدیت پر قرآن و سنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو کر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل و قتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت و فضیلت پر قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں۔ اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید و اعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جدید عقل و دانش کے نزدیک عقیدہ و مذہب کے فروغ اور غلبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا تہذیب و تمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ و مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہؐ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے۔ چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے، اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورۃ البقرۃ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو ’’ساؤل بادشاہ‘‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام و تعلیمات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا مقصد آنحضرتؐ نے ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طور پر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن و گمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہیے۔ اور کلمۃ اللہ کی اسی سربلندی کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل و گمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی عمل داری کے جس مشن کے لیے حضرت انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں، اس میں تعطل واقع نہ ہو۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے ایک ارشاد مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ ’’الجہاد ماض الی یوم القیامۃ‘‘۔
یہ فکر و فلسفہ کی جنگ ہے، اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے، اور تہذیب و ثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب و ادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے انسانی خواہشات اور عقل و دانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لیے پوری نسل انسانی کی ضروریات و مفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب جدید نے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا اعلان کر کے خواہشات اور عقل ہی کو تمام امور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے، اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں، طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہو گیا ہے، اور پوری دنیا میں ہر طرف جنگل کے قانون کا دور دورہ ہے۔
(جاری ہے)
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: انسانی خواہشات اور ا سمانی تعلیمات ا سمانی مذاہب مذہب کے جہاد کا کے ساتھ کے لیے اور اس ہے اور گیا ہے
پڑھیں:
ایچ آر سی پی نے 2024 کو انسانی حقوق کیلئے سیاہ سال قرار دے دیا
کراچی:پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کی رپورٹ میں 2024 کو انسانی حقوق کے لیے سیاہ سال قرار دے دیا گیا۔
کراچی پریس کلب میں ایچ آر سی پی نے پریس کانفرنس کے دوران جمہوریت، اظہار رائے اور اقلیتوں کے حقوق پر سنگین سوالات اٹھائے اور 2024 کو انسانی حقوق کے لیے بدترین سال قرار دیا۔
رپورٹ کے حوالے سے بتایا گیا کہ جمہوری اقدار کی تنزلی، عام انتخابات میں شفافیت پر سوالات اور اختلاف رائے پر پابندیاں ملک میں بڑھتی ہوئی شدت پسندی کی عکاسی کرتی ہیں۔
ڈاکٹر شاہ نواز کنبھر نے دوران حراست قتل پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ توہین مذہب کے قوانین کا غلط استعمال اور ماورائے عدالت قتل عام ہوتے جا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق سندھ میں سیاسی اور انسانی حقوق کے کارکنوں کی جبری گمشدگیاں مسلسل جاری ہیں، قوم پرست رہنما ہدایت لوہار کو رہا کیے جانے کے بعد قتل کر دیا گیا اور ایچ آر سی پی کے چیئرپرسن کو بھی ان کے حقوق کے کام کی بنیاد پر حراست میں لیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ سال 2024 میں خواتین کے خلاف غیرت کے نام پر 134 واقعات رپورٹ ہوئے اور کراچی میں متجنس افراد پر اجتماعی حملے کی اطلاع بھی ملی، اس دوران افغان مہاجرین کے خلاف اقدامات پر بھی سول سوسائٹی نے تحفظات کا اظہار کیا۔
ایچ آر سی پی نے کہا کہ وفاقی حکومت کی جانب سے 6 نہرے تعمیر کرنے کے منصوبے کا فائدہ زیادہ پنجاب کو ہونا تھا اس پر سندھ سے مشاورت کیے بغیر عمل درآمد کیا گیا، جس کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے اس فیصلے میں سندھ میں پانی کی تقسیم پر بین الصوبائی شکایت کو ہوا دی اور دریائے سندھ سے جڑی ماحولیاتی اور زرعی پائیداری کے لیے خطرہ پیدا کر دیا گیا۔