Daily Ausaf:
2025-08-11@07:04:28 GMT

اسلام کا تصورِ جہاد

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

’’جہاد‘‘ کا لفظ لغوی مفہوم کے حوالے سے کوشش، محنت و مشقت اور تگ ودو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، ترویج و تنفیذ، اور تحفظ و دفاع کے لیے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن جہاد کا ایک خصوصی مفہوم جنگ اور محاربہ بھی ہے جسے قرآن کریم میں ’’جہاد فی سبیل اللہ’’ اور ’’قتال‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور سینکڑوں آیات قرآنی اور ہزاروں احادیث نبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس جہاد کے فضائل، احکام، مسائل اور مقصدیت پر قرآن و سنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو کر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل و قتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت و فضیلت پر قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں۔ اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید و اعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جدید عقل و دانش کے نزدیک عقیدہ و مذہب کے فروغ اور غلبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا تہذیب و تمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ و مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہؐ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے۔ چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے، اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورۃ البقرۃ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو ’’ساؤل بادشاہ‘‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام و تعلیمات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا مقصد آنحضرتؐ نے ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طور پر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن و گمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہیے۔ اور کلمۃ اللہ کی اسی سربلندی کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل و گمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی عمل داری کے جس مشن کے لیے حضرت انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں، اس میں تعطل واقع نہ ہو۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے ایک ارشاد مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ ’’الجہاد ماض الی یوم القیامۃ‘‘۔
یہ فکر و فلسفہ کی جنگ ہے، اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے، اور تہذیب و ثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب و ادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے انسانی خواہشات اور عقل و دانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لیے پوری نسل انسانی کی ضروریات و مفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب جدید نے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا اعلان کر کے خواہشات اور عقل ہی کو تمام امور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے، اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں، طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہو گیا ہے، اور پوری دنیا میں ہر طرف جنگل کے قانون کا دور دورہ ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انسانی خواہشات اور ا سمانی تعلیمات ا سمانی مذاہب مذہب کے جہاد کا کے ساتھ کے لیے اور اس ہے اور گیا ہے

پڑھیں:

اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا منصوبہ ترک کرے، وولکر ترک

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 09 اگست 2025ء) اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق وولکر ترک نے اسرائیل کی حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ پر مکمل عسکری قبضے کا منصوبہ ترک کر دے اور مسئلے کے دو ریاستی حل کے تحت فلسطینیوں کو حق خود ارادیت دے۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ پر قبضہ بین الاقومی قانون کے خلاف ہو گا۔ عالمی عدالت انصاف بھی فیصلہ دے چکی ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں کے علاقوں پر اپنا قبضہ ختم کرے۔

اسرائیل کی حکومت کو تنازع میں مزید شدت لانے کے بجائے علاقے میں انسانی امداد کی بڑے پیمانے پر اور بلارکاوٹ فراہمی یقینی بنا کر فلسطینیوں کی زندگیوں کو تحفظ دے۔ Tweet URL

ہائی کمشنر نے یہ بات اسرائیلی کابینہ کی جانب سے غزہ پر عسکری قبضے کی منظوری دیے جانے پر کہی ہے جس کا آغاز غزہ شہر پر قبضے سے ہو گا۔

(جاری ہے)

انہوں نے واضح کیا ہے کہ حماس اور اسرائیل کے مابین مزید کشیدگی کے نتیجے میں مزید بڑے پیمانے پر نقل مکانی، ہلاکتیں اور ناقابل برداشت تکالیف جنم لیں گی، علاقے میں مزید تباہی پھیلے گی اور ظالمانہ جرائم کا ارتکاب ہو گا۔

وولکر ترک نے فلسطینی مسلح گروہوں سے کہا ہے کہ وہ تمام یرغمالیوں کو فوری اور غیرمشروط رہا کریں اور اسرائیل بھی ناجائز طور پر گرفتار کیے گئے فلسطینیوں کی رہائی عمل میں لائے۔

ان کا کہنا ہے کہ غزہ میں جنگ اب بند ہونی چاہیے اور اسرائیلیوں اور فلسطینیوں کو ایک دوسرے کے ساتھ امن سے رہنے کا موقع ملنا چاہیے۔امداد کی شدید قلت

امدادی ادارے مسلسل خبردار کرتے آئے ہیں کہ اسرائیل کی بمباری، بڑے پیمانے پر انخلا کے احکامات اور امداد پر پابندیوں نے غزہ میں انسانی تباہی کو جنم دیا ہے۔

فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے امدادی ادارے (انروا) نے بتایا ہے کہ علاقے میں امدادی سرگرمیاں انجام دینے والے اس کے عملے کے پاس بھی حسب ضرورت کھانے کو نہیں ہوتا۔

27 جولائی کو اسرائیل کی جانب سے غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے جنگی کارروائیوں میں وقفہ دینے کا اعلان کیا گیا تھا لیکن اس کے باوجود بہت کم مقدار میں امداد لوگوں تک پہنچ رہی ہے۔

اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) نے بتایا ہے کہ 27 مئی کے بعد خوراک کے حصول کی کوشش میں 1,373 فلسطینیوں کی ہلاکت ہو چکی ہے۔ ان میں 859 ہلاکتیں غزہ امدادی فاؤںڈیشن کے مراکز پر ہوئیں جبکہ 514 لوگ امدادی قافلوں کے راستے میں مارے گئے۔

بھوک سے ہلاکتیں

عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ٹیڈروز ایڈہانوم گیبریاسس نے خبردار کیا ہے کہ غزہ کے لوگوں کو بنیادی خدمات اور خوراک تک محدود رسائی حاصل ہے جبکہ علاقے میں بڑے پیمانے پر غذائی قلت پھیلی ہے اور بھوک سے متعلقہ اموات بڑھتی جا رہی ہیں۔

جولائی میں پانچ سال سے کم عمر کے تقریباً 12 ہزار بچوں میں شدید غذائی قلت کی نشاندہی ہوئی تھی جو اب تک کی سب سے بڑی ماہانہ تعداد ہے۔

ڈاکٹر ٹیڈروز نے بتایا ہے کہ اب تک 99 افراد بھوک سے ہلاک چکے ہیں جن میں پانچ سال سے کم عمر کے 29 بچے بھی شامل ہیں جبکہ ایسی اموات کی حقیقی تعداد کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اسحاق ڈار کا ترک ہم منصب سے فون پر رابطہ، غزہ پر اسرائیلی قبضے کی مذمت
  • علی امین اچھے بچوں کی طرح اسلام آباد سے ملنے والا ٹاسک مکمل کرتے ہیں، فیصل کریم کنڈی
  • جرمنی میں ایک نمائش کے ذریعے برہنہ پن کو جنسی تصور سے الگ کرنے کی کوشش
  • غزہ پر مکمل قبضہ اور جبری بے دخلی نسل کشی کے منصوبے کی ایک اور کڑی ہے، آغا سید حسن
  • اسرائیل غزہ پر مکمل قبضہ کرنے کا منصوبہ ترک کرے، وولکر ترک
  •  پی ٹی آئی وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ کرسکتی ہے، فیصل کریم کنڈی
  • انسانی حقوق کے وکیل نے اپنی لندن یونیورسٹی کی ڈگری کیوں جلا دی؟
  • بری امام سرکار کے تین روزہ عرس کی تقریبات نورپورشاہاں میں شروع ،اسحاق ڈار، فیصل کریم کنڈی نے مزار پر چادر چڑھا کر عرس کا افتتاح کیا
  • پاکستان نے غزہ کے عوام کے لیے انسانی امداد کی ایک اور کھیپ روانہ کردی
  • لیبیا کے راستے انسانی اسمگلنگ میں ملوث نیٹ ورک کا مرکزی ملزم چارسدہ سے گرفتار