Daily Ausaf:
2025-11-10@09:22:40 GMT

اسلام کا تصورِ جہاد

اشاعت کی تاریخ: 11th, May 2025 GMT

’’جہاد‘‘ کا لفظ لغوی مفہوم کے حوالے سے کوشش، محنت و مشقت اور تگ ودو کی مختلف شکلوں کا احاطہ کرتا ہے اور اسے دینی پس منظر میں لیا جائے تو اسلام کی سربلندی، دعوت و تبلیغ، ترویج و تنفیذ، اور تحفظ و دفاع کے لیے کی جانے والی مختلف النوع عملی کوششوں کے ساتھ ساتھ ایک مسلمان کی حیثیت سے اپنی خواہشات پر کنٹرول اور نفس کی اصلاح کی مساعی پر بھی جہاد کا لفظ بولا گیا ہے جس کی قرآن و سنت میں بہت سی مثالیں ملتی ہیں۔ لیکن جہاد کا ایک خصوصی مفہوم جنگ اور محاربہ بھی ہے جسے قرآن کریم میں ’’جہاد فی سبیل اللہ’’ اور ’’قتال‘‘ کے عنوان سے تعبیر کیا گیا ہے اور سینکڑوں آیات قرآنی اور ہزاروں احادیث نبویہ میں اس کا تذکرہ موجود ہے اور اس جہاد کے فضائل، احکام، مسائل اور مقصدیت پر قرآن و سنت میں پورے اہتمام کے ساتھ جابجا روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ ہے اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے کافروں کے خلاف میدان جنگ میں صف آرا ہو کر ہتھیاروں کے ساتھ ان سے معرکہ آرائی کرنا اور قتل و قتال کے ذریعے سے کفر پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا جس کی اہمیت و فضیلت پر قرآن کریم اور سنت نبویؐ کی سینکڑوں تصریحات گواہ ہیں۔ اور اس کو آج کے دور میں اس وجہ سے سب سے زیادہ تنقید و اعتراض کا نشانہ بنایا جا رہا ہے کہ جدید عقل و دانش کے نزدیک عقیدہ و مذہب کے فروغ اور غلبہ کے لیے ہتھیار اٹھانا تہذیب و تمدن کے تقاضوں کے خلاف ہے اور ایسا کرنا بنیاد پرستی، انتہا پسندی اور دہشت گردی کے دائرے میں آتا ہے۔
اس سلسلے میں آگے بڑھنے سے قبل ایک بات کی وضاحت ضروری سمجھتا ہوں کہ عقیدہ و مذہب کے لیے ہتھیار اٹھانے اور باطل مذاہب پر حق مذہب کی بالادستی کے لیے عسکری جنگ لڑنے کا آغاز حضرت محمد رسول اللہؐ نے نہیں کیا بلکہ جہاد کا یہ عمل آسمانی ادیان میں پہلے سے تسلسل کے ساتھ چلا آ رہا ہے اور جناب نبی اکرمؐ نے اس حوالے سے تاریخ میں کسی نئے عمل اور اسلوب کا اضافہ کرنے کے بجائے آسمانی مذاہب کی ایک مسلسل روایت کو برقرار رکھا ہے۔ چنانچہ جس طرح قرآن کریم میں جہاد اور مجاہدین کا تذکرہ پایا جاتا ہے، اسی طرح بائبل میں بھی ان مجاہدین اور مذہبی جنگوں کا ذکر موجود ہے جو بنی اسرائیل نے اپنے مذہب کے دفاع اور اپنی آزادی اور تشخص کے تحفظ کے لیے لڑیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم نے فلسطین کی سرزمین پر لڑی جانے والی ایک مقدس جنگ کا سورۃ البقرۃ میں تذکرہ کیا ہے جو جالوت جیسے ظالم حکمران کے خلاف حضرت طالوت کی قیادت میں لڑی گئی اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کے ہاتھوں جالوت بادشاہ کا معجزانہ طور پر خاتمہ ہوا۔ اس جنگ کا تذکرہ بائبل میں بھی موجود ہے اور اس میں حضرت طالوت کو ’’ساؤل بادشاہ‘‘ کے نام سے ذکر کیا گیا ہے۔ اس لیے اگر آج کی جدید دانش کو مذہب کے نام پر ہتھیار اٹھانے پر اعتراض ہے تو اس کا ہدف صرف قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی ذات گرامی نہیں بلکہ اصولی طور پر بائبل اور بنی اسرائیل یعنی یہود و نصاریٰ کی پوری تاریخ اس کی زد میں ہے، صرف اتنے فرق کے ساتھ کہ بائبل کے ماننے والوں نے بائبل پر ایمان کے دعوے کے باوجود اس کے عملی احکام اور ماضی سے دستبرداری کا اعلان کر دیا ہے جبکہ قرآن کریم پر ایمان رکھنے والے تمام تر عملی کمزوریوں کے باوجود اپنے ماضی اور قرآنی احکام و تعلیمات سے دستبردار ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
اس وضاحت کے بعد جہاد کی مقصدیت کے حوالے سے یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ جہاد کا مقصد آنحضرتؐ نے ’’اعلاء کلمۃ اللہ‘‘ قرار دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا کلمہ بلند ہو جس کا مطلب عملی طور پر یہ ہے کہ انسانی سوسائٹی میں حکم اور قانون کا درجہ انسانی خواہشات اور ظن و گمان کو نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے احکام اور آسمانی تعلیمات کو حاصل ہونا چاہیے۔ اور کلمۃ اللہ کی اسی سربلندی کے لیے قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ نے آسمانی مذاہب کی ان دینی معرکہ آرائیوں کے تسلسل کو باقی رکھا ہے تاکہ کسی دور میں بھی انسانی خواہشات اور عقل و گمان کو وحی الٰہی اور آسمانی تعلیمات پر غلبہ حاصل نہ ہونے پائے اور انسانی سوسائٹی پر اللہ تعالیٰ کے احکام کی عمل داری کے جس مشن کے لیے حضرت انبیاء کرام مبعوث ہوتے رہے ہیں، اس میں تعطل واقع نہ ہو۔ چنانچہ جناب رسول اللہؐ نے ایک ارشاد مبارک میں یہ کہہ کر اس جدوجہد کے قیامت تک جاری رہنے کا اعلان فرما دیا ہے کہ ’’الجہاد ماض الی یوم القیامۃ‘‘۔
یہ فکر و فلسفہ کی جنگ ہے، اسلوب زندگی کی معرکہ آرائی ہے، اور تہذیب و ثقافت کا محاذ ہے جس میں شروع سے آسمانی مذاہب کا یہ موقف رہا ہے اور اب آسمانی مذاہب و ادیان کے حقیقی وارث کی حیثیت سے اسلام کا موقف بھی یہی ہے کہ انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی اور اس کے مسائل کے حل کے لیے انسانی خواہشات اور عقل و دانش تنہا کفایت نہیں کرتیں بلکہ ان پر آسمانی تعلیمات کی نگرانی ضروری ہے کیونکہ اس ’’چیک اینڈ بیلنس‘‘ کے بغیر انسانی خواہشات اور انسانی عقل کے لیے پوری نسل انسانی کی ضروریات و مفادات میں توازن قائم رکھنا ممکن نہیں ہے۔ لیکن آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ تہذیب جدید نے آسمانی تعلیمات سے دستبرداری کا اعلان کر کے خواہشات اور عقل ہی کو تمام امور کی فائنل اتھارٹی قرار دے رکھا ہے جس سے توازن بگڑ گیا ہے، اجتماعی اخلاقیات دم توڑ گئی ہیں، طاقت کا بے لگام گھوڑا وحی الٰہی کی لگام سے آزاد ہو گیا ہے، اور پوری دنیا میں ہر طرف جنگل کے قانون کا دور دورہ ہے۔
(جاری ہے)

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: انسانی خواہشات اور ا سمانی تعلیمات ا سمانی مذاہب مذہب کے جہاد کا کے ساتھ کے لیے اور اس ہے اور گیا ہے

پڑھیں:

غزہ کے سائے میں دنیا: امن معاہدوں سے آگے کی حقیقت

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251110-03-7

 

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

 

 

امن معاہدوں اور عالمی سفارتی کوششوں کے باوجود، مشرقِ وسطیٰ کی فضا اب بھی بارود کے بادلوں سے اٹی ہوئی ہے۔ غزہ میں انسانی المیہ شدت اختیار کر چکا ہے، خان یونس اور رفح کے اطراف مذاکرات، لاشوں کے تبادلے اور ہتھیار ڈالنے کی خبریں ایک نئے دور کے آغاز یا انجام کا عندیہ دے رہی ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ واقعی امن کا پیش خیمہ ہے یا ایک نئے تصادم کی تمہید؟ اس تنازعے کی تازہ لہر میں جہاں آبدیدہ مناظر اور زخم ِ انسانی روزِ روشن کی مانند واضح ہو رہے ہیں، وہیں عالمی جغرافیائی سیاست کے نئے متوازی انعکاسات بھی نمودار ہو رہے ہیں۔ غزّہ کی زمینی حقیقت، بین الاقوامی ہنگامی امداد کی روانی، عسکری تصفیہ کے امکانات اور علاقے میں سفارتی حرکاتِ قلب یہ تمام عوامل ایک ساتھ مل کر نہ صرف مقامی بحران کو طول دے رہے ہیں بلکہ خطّے کے مستقبل کے متعلق سوالات کو بھی گہرا کر رہے ہیں۔

سب سے پہلے انسانی پہلو پر نگاہ ڈالیں۔ اقوامِ متحدہ کی تازہ رپورٹوں کے مطابق یکم اکتوبر کے بعد سے غزّہ میں امدادی قوافل کی منظوری میں رکاوٹیں واضح ہو چکی ہیں صرف ایک عرصے میں ایک سو سے زائد امدادی درخواستیں مسترد کی گئی ہیں، جس کے نتیجے میں بنیادی ادویہ، خوراک اور طبی سامان کی شدید کمی پیدا ہو گئی ہے۔ یہ اعداد و شمار ایک صاف اشارہ ہیں کہ جنگی کارروائیوں کے علاوہ رسدی اور لوجسٹک رکاوٹیں بھی انسانی المیے کو گہرا کر رہی ہیں۔ دوسری جانب عسکری میدان میں صورتحال پیچیدہ مگر فیصلہ کن ہے۔ خان یونس اور رفح کے اطراف میں پھنسے ہوئے حماس کے جوانوں کے بارے میں محورِ ثالثت مصر، قطر اور بعض بین الاقوامی طرافوں کی تجویز کردہ ڈیل نے ایک عملی سوال کھڑا کیا ہے: کیا عسکریت پسندوں کی منظم طور پر ہتھیار ڈال کر محفوظ راستے کے ذریعے نکلنے کی طوالت خطے میں پائیدار امن کی شروعات بن سکتی ہے، یا یہ محض وقتی حل ہے جو مستقبل کے شعورِ جنگ کو کمزور کر دے گا؟ صحافی اور سفارتی رپورٹوں کے مطابق مذاکرات میں اس امر کا امکان زیر ِ غور ہے کہ کچھ سو جنگجو ہتھیار ڈال کر دوسرے حصّوں میں منتقل کیے جائیں، البتہ یہ عمل نہایت حساس اور سیاسی دباؤ سے گِھرا ہوا ہے۔ اس پر ایک اخلاقی اور عملی الجھن بھی ہے۔ جب جنگجوؤں کی حوالگی یا جسمانی لاشوں کی تبادلے کی خبریں منظر عام پر آتی ہیں تو یہ انسانی وجدان کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ القسام بریگیڈز کی طرف سے قیدی کی لاش کی حوالگی کا اعلان ایک ایسے سانحے کی یاد دہانی ہے جہاں جنگ، قیدیوں کی تقدیر اور بین الاقوامی قواعد ِ جنگ کا سوال ایک ساتھ کھڑا ہو جاتا ہے ان معاملات کا حل محض عسکری نہیں، بلکہ انسانی اور قانونی فریم ورک سے بھی جڑا ہوا ہے۔

فلسطینی مغربی کنارے میں آبادکاروں کے حملوں اور زیتون کے باغات کو نقصان پہنچانے کے واقعات ایک طویل المدتی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ زمین، زراعت اور روزگار پر قبضے کے عمل سے مقامی معاشی ڈھانچے تباہ ہو رہے ہیں، جو بالآخر سماجی تناؤ اور اشتعال کو جنم دیتا ہے۔ زیتون کے درخت صرف زرعی اثاثہ نہیں؛ وہ ثقافتی اور تاریخی شناخت کا حصہ ہیں۔ ان درختوں کی کٹائی یا آگ لگانا محض ایک کرائم نہیں بلکہ ایک قوم کی جڑوں کو مجروح کرنے کے مترادف ہے اور اس کا طویل مدتی اثر خوراک کی خود کفالت، اقتصادی بقا اور دیہی سماجی بندھنوں پر پڑے گا۔ عالمی سفارت کاری کا ایک نیا موڑ بھی اسی دوران دیکھنے میں آیا ہے: قازقستان کا ’ابراہیمی معاہدات‘ میں شمولیت کا فیصلہ نہ صرف خطّے میں اسرائیل کے لیے سفارتی حمایت کی علامت ہے بلکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کے گرد موجود روایتی اتحاد اور مخالفت کی لکیریں تیزی سے تبدیل ہو رہی ہیں۔ یہ تبدیلیاں بین الاقوامی سیاست میں ایک نئی حقیقت جو بعض ریاستوں کو بطور توازن یا مفاداتی تعلقات کی تشکیل میں مواقع فراہم کرتی ہے کے طور پر سامنے آ رہی ہیں، مگر اسی کے ساتھ یہ فلسطینی مسئلے کے حوالے سے عالمی تقسیم کو بھی پیچیدہ بناتی ہیں۔

ان تمام منظرناموں کے تناظر میں چند نکتے واضح طور پر ابھرتے ہیں۔ اولاً، انسانی امداد کے روٹس اور شفافیت پر مشتمل بین الاقوامی معاہدات کو فوراً قابل ِ عمل بنایا جائے اقوامِ متحدہ اور دیگر فلاحی اداروں کو ایسا طریقۂ کار ملنا چاہیے جو سیاسی دباؤ کے بغیر فوری امداد پہنچا سکے۔ ثانیاً، عسکری حل اگرچہ وقتی مقاصد پورے کر سکتے ہیں مگر طویل المدت امن تبھی ممکن ہے جب سیاسی شمولیت، انصاف اور خصوصاً مقامی سماجی و اقتصادی بحالی کو مرکز ِ توجہ بنایا جائے۔ ثالثاً، خطّے میں سفارتی نقل و حرکت، جیسا کہ نئے معاہدات یا قوموں کی شمولیت، مسائل کا حل بھی لا سکتی ہے اور انہیں قومی تشخص اور مقامی مطالبات سے علٰیحدہ بھی کر سکتی ہے اس لیے بین الاقوامی برادری کو توازن اور شفافیت کے ساتھ اپنی پالیسی وضع کرنی ہوگی۔ آئندہ کے امکانات پر نظر دوڑائیں تو ایک حقیقت واضح ہے: اگر امداد کا سلسلہ بحال نہ ہوا، اور اگر زیتون کے باغات، زرعی زمینیں اور شہری بنیادی ڈھانچے کی تباہی جاری رہی تو انسانی بحران مزید سنگین ہوگا خوراک، صحت اور پناہ گاہ کے مسائل طویل عرصے تک خطّے کو عدم استحکام کے دائرے میں بند رکھیں گے۔ دوسری طرف اگر مذاکرات کے ذرائع کو مضبوط، شفاف اور بین الاقوامی مانیٹرنگ کے تحت لایا جائے تو محدود مگر ضروری وقفے اور قیدیوں کے تبادلوں کے ذریعے عارضی ریلیف ممکن ہوسکتا ہے، جو بعد ازاں سیاسی عمل کی راہ ہموار کرے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف ایک فوجی یا سفارتی مسئلہ نہیں؛ یہ ایک جامع انسانیت، انصاف اور بین الاقوامی ضابطوں کا امتحان ہے۔ جب تک امدادی رسائی کے دروازے کھلے نہیں ہوں گے، اور جب تک مقامی آبادی کی معاشی و سماجی بحالی کے لیے ٹھوس منصوبہ بندی موجود نہیں ہوگی، خطّہ دیرپا امن کی جانب نہیں بڑھ سکے گا۔ عالمی طاقتیں، علاقائی کھلاڑی اور اقوامِ متحدہ سب کو ایک مشترکہ روئے کار کے تحت انسانی زندگی کی بقا اور قانونی اصولوں کی پاسداری کو مقدم رکھنا ہوگا؛ ورنہ ماضی کے گھاؤ بارہا اسی نسل کے کالبد پر سرایت کرتے رہیں گے۔

 

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی

متعلقہ مضامین

  • ڈاکٹر علامہ اقبالؒ کی سوچ اور فکر کا محور صرف اسلام تھا، فیصل کنڈی
  • غزہ کے سائے میں دنیا: امن معاہدوں سے آگے کی حقیقت
  • سوڈان کا المیہ
  • کریم آباد شہر کا معاشی حب ‘ ضلع وسطی کا تجارتی مرکز ‘ سندھ حکومت نے انڈر پاس کے نام پر تباہ کر دیا‘ منعم ظفر
  • حسن ناصرکی کمیونسٹ ’’ تپش‘‘
  • وفاقی آئینی عدالت قائم کی جائے گی، کوئی جج ٹرانسفر ماننے سے انکار کرے گا وہ ریٹائر تصور کیا جائے گا: مجوزہ آئینی ترمیم
  • کریم آباد انڈر پاس منصوبے کے نام پر لوگوں کے ساتھ دھوکا کیا جارہا ہے، منعم ظفر خان
  • کریم آباد انڈر پاس منصوبے کے نام پر عوام کے ساتھ دھوکہ ہو رہا ہے: منعم ظفر خان
  • کریم آباد انڈر پاس منصوبے کے نام پر لوگوں کے ساتھ دھوکا کیا جارہا ہے: منعم ظفر خان
  • جسٹس (ر) علی اکبر قریشی دوبارہ چیئرمین جوڈیشل واٹر کمیشن مقرر