پسِ پردہ اسرائیلی دماغ اور مشن فلسطین
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
جنوبی ایشیا ایک بار پھر عالمی طاقتوں کے گھنائونے کھیل کا میدان بن چکا ہے۔ بظاہر تو منظرنامے پر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک روایتی فوجی کشیدگی دکھائی دی لیکن حقیقت کہیں زیادہ گہری، پیچیدہ اور خطرناک ہے۔ پاکستان پر حالیہ بھارتی حملہ صرف ایک علاقائی تنازع نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک بین الاقوامی گٹھ جوڑ تھا اور بھارت محض ایک مہرہ تھا جبکہ چالیں کہیں اور سے چلائی جا رہی تھیں۔
اگر اس حملے کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ یہ حملہ بھارت کا نہیں بلکہ اسرائیل کا حملہ تھا۔ اور اس پورے عمل میں امریکہ کی آشیر باد، ہلہ شیری اور اسٹریٹجک حمایت شامل تھی۔ اس حملے کے محرکات اس کے پیچھے موجود کردار اور پاکستانی فوج کا زبردست دفاع یہ سب مل کر ایک نئی عالمی حقیقت کی نشاندہی کرتے ہیں۔یہ سب کچھ اس وقت شروع ہوا جب مقبوضہ کشمیر کے علاقے پہلگام میں ایک مشکوک حملہ ہوا، جس کی ذمہ داری حسبِ معمول بغیر کسی تحقیق کے پاکستان پر ڈال دی گئی۔ یہ ایک پرانا ہتھکنڈہ تھا۔پہلگام واقعہ کے فورا بعد امریکی نائب صدر جے ڈی وینس کا بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے نہ صرف بھارت کو ہمدردی کا یقین دلایا بلکہ واضح الفاظ میں کہا کہ بھارت کو پاکستان پر محدود پیمانے پر ایسا حملہ کرنا چاہیے جو خطے میں کشیدگی کو حد سے نہ بڑھائے۔
یہ بیان کسی عام سیاسی تجزیے یا مبہم سفارتی موقف سے مختلف تھا۔ یہ ایک واضح گرین سگنل تھا ۔ ایک غیر اعلانیہ اجازت نامہ کہ بھارت آگے بڑھے حملہ کرے اور ہم اس کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ اس بیان کے فوراً بعد بھارت نے جارحانہ تیاریوں کا آغاز کر دیا۔
بھارت کے پاس عسکری صلاحیتیں تو ہیں لیکن اس درجے کے ہائی ٹیک حملے کی منصوبہ بندی، تکنیکی نفاذ اور نگرانی کے پیچھے جو دماغ تھا وہ بھارت کا نہیں تھا۔ یہ مکمل آپریشن اسرائیل کی دفاعی اسٹریٹجی اور ٹیکنالوجی کا عکس تھا۔اسرائیل نے اس حملے کو ’’مشن فلسطین نائن‘‘ کے کوڈ نیم سے شروع کیا۔ مقصد یہ تھا کہ پاکستان کو بھی اسی ماڈل پر ڈیل کیا جائے جیسے فلسطین کے ساتھ کیا جا رہا ہے ۔ مسلسل فضائی حملے، ڈرونز کی بمباری، انٹیلی جنس کی بنیاد پر مخصوص ہدف بندی، اور ایک مستقل حالتِ خوف۔پاکستان کے فضائی حدود میں درجنوں اسرائیلی ساختہ ڈرونز کی موجودگی ان کا جدید ترین الیکٹرانک جنگی نظام اور ان کا منظم انداز میں پاکستانی دفاعی پوزیشنز پر حملہ کرنا یہ تمام چیزیں ثبوت فراہم کرتی ہیں کہ اسرائیل نہ صرف شریک تھا بلکہ اس پوری کارروائی کا ماسٹر مائنڈ تھا۔
ان حملوں کے ساتھ ہی معلوم ہوا کہ بھارت کے پشت پر اسرائیل کی مدد سے 300 جنگی طیارے تیار کھڑے تھے جو کسی بھی وقت بڑے حملے میں شامل ہو سکتے تھے۔ دشمن اس خوش فہمی میں مبتلا تھا کہ وہ پاکستان کو صرف چند گھنٹوں میں دفاعی طور پر مفلوج کر دے گا، لیکن پاکستان کی سرزمین، قوم اور افواج نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ نہ صرف جاگ رہے ہیں بلکہ دشمن کو کرارا جواب دینے کے لیے ہر لمحہ تیار ہیں۔
جیسے ہی دشمن نے اپنی جارحیت کا آغاز کیا پاکستانی افواج نے فوری ردعمل دیا۔ پاکستانی فوج اور ایئر فورس نے انتہائی مہارت کے ساتھ درجنوں دشمن ڈرونز کو مار گرایا جن میں سے کچھ کے ملبے بعد میں میڈیا پر بھی دکھائے گئے۔ پاکستانی فوج نے اپنی فضائی، زمینی اور انٹیلی جنس یونٹس کے باہم اشتراک سے ایک شاندار دفاعی حکمت عملی اپنائی۔ اسرائیلی اور بھارتی منصوبہ سازوں کو اس بات کا اندازہ نہ تھا کہ پاکستان نہ صرف جدید ٹیکنالوجی کا حامل ہے بلکہ اس کی افواج مسلسل جنگی مشقوں اور آپریشنل تیاریوں کی حالت میں ہیں۔ دشمن کو اتنی بڑی فوجی شکست کا سامنا کرنا پڑا کہ مودی سرکار اور اسرائیلی عہدیداروں کو امریکہ کے دروازے پر جانا پڑا۔
جب بھارتی اور اسرائیلی اتحاد کو ناکامی کا سامنا ہوا اور بھارت کی ملٹری تنصیبات اور ائیر بیسز تباہ ہونا شروع ہو گئیں اور رافیل طیارے تباہ ہونا شروع ہو گئے تو انہوں نے وہی دروازہ کھٹکھٹایا جس سے اجازت لی تھی ۔ امریکہ۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو براہِ راست مداخلت کرنی پڑی۔ ٹرمپ نے پاکستان سے رابطہ کیا اور سیز فائر کی درخواست کی۔
امریکہ کو سمجھ آگئی تھی کہ یہ کھیل اب اس کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔بعد ازاں، امریکی میڈیا کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ نے اعتراف کیا کہ خارجہ پالیسی کے معاملات میں مجھے سب سے زیادہ سراہا جانے والا اقدام پاک بھارت جنگ بندی کو کامیاب بنانا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی افواج، ذہانت اور صلاحیتوں کی بھی برملا تعریف کی۔
صدر ٹرمپ کا کہنا تھا۔ہم پاکستان کو نظرانداز نہیں کر سکتے کیونکہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے۔ پاکستان سے ہماری بات چیت نہایت عمدہ رہی۔ انہوں نے ذمہ داری کا ثبوت دیا اور بڑے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے سیز فائر پر آمادگی ظاہر کی۔
اس تمام تر صورتحال میں بھارت کو شدید نقصانِ عزت کا سامنا کرنا پڑا۔ جہاں ایک طرف اسرائیل کو عالمی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑا وہیں مودی سرکار پر خود اپنے ملک کے اندر شدید دبا بڑھا۔ بھارتی میڈیا نے اس ناکامی کو ’’تاریخی شکست‘‘ قرار دیا۔ امریکہ بھی بھارت سے ناخوش نظر آیا کیونکہ اس نے جو کردار ادا کرنے کا دعوی کیا تھا، وہ حقیقت میں صفر نکلا۔
امریکی حکام نے بند دروازوں کے پیچھے یہ کہا کہ “بھارت نے ہمیں مایوس کیا۔ ہم نے اس پر بھروسہ کیا، اسے ٹیکنالوجی اور انٹیلی جنس فراہم کی، مگر وہ کچھ بھی حاصل نہ کر سکا۔
یہ حملہ پاکستان کے لیے ایک امتحان بھی تھا اور موقع بھی۔ اس حملے نے دنیا کو بتا دیا کہ پاکستان اب کوئی آسان ہدف نہیں۔ اسرائیل اور بھارت جیسے جارح ممالک کو سبق سکھانے کے لیے صرف طاقت نہیں، بلکہ غیر متزلزل عزم، عقیدہ، حب الوطنی اور پیشہ ورانہ مہارت درکار ہوتی ہے جو صرف پاکستان کی افواج اور عوام کے پاس ہے۔یہ واقعہ ایک نئے عالمی اسٹریٹجک توازن کی بنیاد بنے گا۔ اب امریکہ اور یورپی ممالک بھی پاکستان کے حوالے سے اپنی پالیسی پر نظرثانی پر مجبور ہوں گے۔ کیونکہ پاکستان نے نہ صرف عسکری فتح حاصل کی بلکہ سفارتی سطح پر بھی خود کو ایک ذمہ دار اور پرعزم طاقت کے طور پر منوایا ہے۔
یہ معرکہ ختم ہوا مگر جنگ ختم نہیں ہوئی۔ دشمن اب بھی موجود ہے، شاید کسی نئی چال کے ساتھ، کسی اور وقت، کسی اور محاذ پر۔ لیکن ایک چیز طے ہو گئی: پاکستان اب تنہا نہیں، کمزور نہیں اور لاچار نہیں۔ یہ ملک اپنے دشمن کو پہچان چکا ہے اور ہر وار کا جواب دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
اب وقت ہے کہ ہم اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ قومی سلامتی کے حوالے سے ہوشیار رہیں اور دنیا کو بتا دیں کہ ہم نہ صرف اپنے دفاع میں خودکفیل ہیں بلکہ ظلم کے خلاف عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: پاکستان کے کہ پاکستان اور بھارت کے پیچھے انہوں نے ہیں بلکہ کا سامنا اس حملے بلکہ اس کے ساتھ اور اس
پڑھیں:
اے آئی کا قدرتی دماغ کی طرح کا کرنا ممکن بنالیا گیا
برطانیہ میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق میں ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انسانی دماغ کے انداز میں کام کرنے والا ایک سادہ سا عمل مصنوعی ذہانت کے نظاموں کی کارکردگی کو بہتر بنانے اور توانائی کے استعمال کو نمایاں حد تک کم کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اصلی اور اے آئی جنریٹڈ ویڈیوز میں فرق کس طرح کیا جائے، جانیے اہم طریقے
یہ تحقیق یونیورسٹی آف سرے کے سائنسدانوں نے کی ہے جس میں انہوں نے انسانی دماغ کے حیاتیاتی اعصابی نظام سے براہ راست متاثر ہو کر ایک نیا طریقہ کار تیار کیا ہے۔
نئی ٹیکنالوجی: ’ٹیپوگریفیکل اسپارس میپنگ‘سائنسی جریدے نیورو کمپیوٹنگ میں شائع ہونے والی تحقیق کے مطابق سائنسدانوں نے ایک ماڈل بنایا ہے جسے ’ٹیپوگریفیکل اسپارس میپنگ‘ (ٹی ایس ایم) کہا جاتا ہے۔
یہ نظام انسانی دماغ کی طرح ہر نیورون کو دوسرے نیورون سے منسلک کرنے کی بجائے ہر ’نیورون‘ کو صرف قریبی یا متعلقہ نیورونز سے جوڑتا ہے جیسا کہ روایتی ڈیپ لرننگ ماڈلز کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: کینوا نے جدید اے آئی فیچرز سے لیس اپنا ڈیزائن ماڈل متعارف کرادیا
اس طرح ٹی ایس ایم توانائی کے ضیاع کو کم کرتا ہے اور کارکردگی کو بہتر بناتا ہے جبکہ درستی پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرتا۔
تحقیق کے شریک مصنف اور یونیورسٹی آف سرّی کے کمپیوٹیشنل بایولوجی کے ماہر ڈاکٹر رومن باؤر نے کہا کہ ہماری تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ذہین نظاموں کو کہیں زیادہ مؤثر طریقے سے بنایا جا سکتا ہے اور کم توانائی خرچ کرتے ہوئے بھی اعلیٰ کارکردگی برقرار رکھی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے بڑے اے آئی ماڈلز کی تربیت میں ایک ملین کلو واٹ گھنٹے سے زیادہ بجلی صرف ہو سکتی ہے جو موجودہ رفتار کے لحاظ سے پائیدار نہیں
دماغ سے متاثر انہانسڈ ٹی ایس ایم ایک قدم آگےتحقیقی ٹیم نے اس تصور کو مزید ترقی دیتے ہوئے انہانسڈ ٹی ایس ایم متعارف کرایا جس میں ایک حیاتیاتی تراش خراش کا عمل شامل کیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: چینی ساختہ آرٹیفیشل انٹلیجنس ڈیپ سِیک کی ایپ پر جرمنی میں پابندی کا خدشہ
یہ وہی عمل ہے جو انسانی دماغ میں سیکھنے کے دوران ہوتا ہے جب غیر ضروری اعصابی روابط آہستہ آہستہ ختم ہو جاتے ہیں۔
نتائج کے مطابق ای ٹی ایس ایم ماڈل نے 99 فیصد تک غیر ضروری کنکشن ختم کر دیے یعنی تقریباً تمام اضافی روابط ہٹا دیے گئے پھر بھی اس کی درستگی روایتی نیورل نیٹ ورکس کے برابر رہی۔
حیران کن نتائجنئے ماڈل کے فوائد میں تربیت کا تیز تر عمل، کم میموری کا استعمال اور توانائی کی کھپت میں 99 فیصد تک کمی شامل ہیں۔
یہ نظام نہ صرف زیادہ مؤثر ہے بلکہ ماحول دوست بھی ہے کیونکہ یہ دوسرے طریقوں کے مقابلے میں ایک فیصد سے بھی کم توانائی استعمال کرتا ہے۔
مستقبل کی سمت: دماغ جیسے کمپیوٹرزتحقیقی ٹیم اب یہ جانچنے میں مصروف ہے کہ اس طریقے کو نیو مورفک کمپیوٹنگ میں کس طرح استعمال کیا جا سکتا ہے یعنی ایسے کمپیوٹرز جو انسانی دماغ کی ساخت اور کام کرنے کے طریقے کی نقل کرتے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہ ماڈل کامیابی سے بڑے پیمانے پر اپنایا گیا تو یہ مصنوعی ذہانت کے شعبے میں توانائی کے بحران اور پائیداری کے حوالے سے ایک انقلاب ثابت ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیے: ’اب ہم جیسوں کا کیا بنے گا‘، معروف یوٹیوبر مسٹر بیسٹ اے آئی سے خوفزدہ
انسانی دماغ سے متاثر نئی اے آئی ٹیکنالوجی نہ صرف کارکردگی بڑھا سکتی ہے بلکہ توانائی کے استعمال میں بھی نمایاں کمی لا سکتی ہے۔
یہ تحقیق اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ مصنوعی ذہانت کا مستقبل قدرتی ذہانت کے اصولوں پر مبنی ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
انہانسڈ ٹی ایس ایم اے آئی ٹی ایس ایم قدرتی دماغ اور اے آئی