نیٹو: دفاعی خریداری میں بدعنوانی ایک تشویش ناک مسئلہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 19 مئی 2025ء) نیٹو سپورٹ اینڈ پروکیورمنٹ ایجنسی (این ایس پی اے) میں عملے اور سابق عملے کے خلاف بدعنوانی کی کھلی چھان بین کے انکشافات بدستور سامنے آتے رہے ہیں، جن میں اب تک مجموعی طور پر پانچ افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان میں سے دو کو بیلجیئم اور تین کو نیدرلینڈز میں گرفتار کیا گیا۔
بیلجیئم کے پبلک پراسیکیوٹر نے بدھ کو پہلی حراست کی اطلاع دی، اور کہا کہ انہیں نیٹو کے ذریعے گولہ بارود اور ڈرون خریدنے کے معاہدوں میں "ممکنہ بے ضابطگیوں" پر تشویش ہے۔
نیٹو ممالک کا اسلحے کی پیداوار بڑھانے پر غور
بیلجیئم کے حکام نے ایک بیان میں کہا ہے کہ این ایس پی اے کے ملازمین یا سابق ملازمین نے دفاعی ٹھیکیداروں کو معلومات فراہم کی ہوں گی۔
(جاری ہے)
"ایسے اشارے ملے ہیں کہ ان غیر قانونی طریقوں سے حاصل ہونے والی رقم کو جزوی طور پر کنسلٹنسی کمپنیاں قائم کرکے استعمال کیا گیا ہو گا۔"
اس کے بعد، ڈچ حکام نے اعلان کیا کہ انہوں نے تین گرفتاریاں کی ہیں، جن میں وزارت دفاع کا ایک 58 سالہ سابق اہلکار بھی شامل ہے جس کی پچھلی ملازمت میں "بین الاقوامی خریداری کے معاہدے ہوئے تھے۔
"لکسمبرگ میں، پبلک پراسیکیوٹر کے دفتر نے تصدیق کی کہ دستاویزات قبضے میں لے لی گئی ہیں، اور کہا کہ تحقیقات اٹلی، اسپین اور امریکہ تک پھیل چکی ہیں، یورپی یونین کے ایجنسی برائے انصاف، یوروجسٹ، اس میں تعاون کر رہی ہے۔
'ہم بدعنوانی کی جڑ تک پہنچنا چاہتے ہیں'، نیٹوترکی کے شہر انطالیہ میں نیٹو کے حالیہ اجلاس میں فوجی اتحاد کے سیکرٹری جنرل مارک روٹے نے صحافیوں کو بتایا کہ یہ ایجنسی ہی تھی جس نے تحقیقات کا آغاز کیا تھا۔
"ہم اس کی جڑ تک جانا چاہتے ہیں۔"کے پی پولیس پر امریکی، نیٹو کے ہتھیاروں سے حملوں کی تحقیقات
این ایس پی اے کا صدر دفتر لکسمبرگ میں ہے، اس میں ڈیڑھ ہزار سے زائد عملہ کام کرتا ہے۔ کئی دیگر یورپی ممالک میں اس کی شاخیں ہیں۔ جو نیٹو کے آپریشنز یا مشنز کے لیے لاجسٹک سپورٹ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ رکن ممالک کی جانب سے دفاعی معاہدوں پر بھی بات چیت کر سکتے ہیں۔
اس طرح کی مشترکہ خریداری کے اقدامات سے قومی حکومتوں کی رقم کی بچت ہو گی۔ نیٹو کے مطابق، ایجنسی"نقصان نہیں، منافع نہیں" کی بنیاد پر کام کرتی ہے۔
این ایس پی اے نے پچھلے سال، کئی رکن ممالک کی جانب سے تقریباً 700 ملین ڈالر کے اسٹنگر طیارہ شکن میزائلوں کے لیے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق نیٹو کے سابق سیکرٹری جنرل جینز اسٹولٹن برگ نے، اس میں شامل ممالک کا نام لیے بغیر، مئی 2024 میں اس معاہدے کا اعلان کیا تھا۔
واچ ڈاگ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی دفاعی ماہر فرانسسکا گرانڈی کا کہنا ہے کہ نیٹو کی تحقیقات، خواہ اس کا کوئی بھی نتیجہ نکلے، اس بات کی اہمیت کی "قیمتی یاد دہانی" ہے کہ عوامی پیسہ دفاع پر کیسے خرچ کیا جاتا ہے۔ "یہ کیس واقعی ایک طرح سے بروقت ہے، کیونکہ یہ ہمیں شفافیت کی اہمیت کی یاد دلاتا ہے۔"
نیٹو کے لیے برا وقتنیٹو کے لیے یہ وقت کسی حد تک افسوسناک ہے۔
یوکرین کے ساتھ جاری جنگ کے دوران روس کے بڑے پیمانے پر فوجی سازوسامان کو دیکھتے ہوئے، نیٹو ممالک ممکنہ طور پر دفاعی اخراجات میں بہت زیادہ اضافے پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔نیٹو کے آئندہ سربراہی اجلاس میں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دباؤ کے تحت، 32 ممالک اپنی مجموعی گھریلو پیداوار کا کم از کم 3.
نیٹو کے ہتھیار کشمیری عسکریت پسندوں تک کیسے پہنچ رہے ہیں؟
یہ 2 فیصد کے موجودہ ہدف کے ساتھ ساتھ 2.7 فیصد کے موجودہ اوسط متناسب جی ڈی پی اخراجات کے مقابلے ایک بہت بڑا قدم ہو گا۔ گزشتہ ماہ شائع ہونے والے نیٹو کے اعداد و شمار کے مطابق، 2024 میں، اتحاد نے دفاع پر مجموعی طور پر 1.3 ٹریلین ڈالر خرچ کیے تھے۔
دریں اثنا، یورپی یونین، جس کے ارکان نیٹو کے دو تہائی ہیں، بڑے اخراجات کے لیے تیار ہیں۔
دفاعی شعبے کے لیے زیادہ پیسہ، زیادہ مسائلاگلے پانچ سالوں میں دفاعی صنعت میں اضافی سیکڑوں اربوں ڈالر کے بہاؤ کے مدنظر، عوامی ادارے ممکنہ بدعنوانی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے بہت زیادہ دباؤ میں ہوں گے۔
گرانڈی نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ دنیا بھر میں، دفاعی شعبہ خاص طور پر بدعنوانی کا شکار ہے کیونکہ بڑی مقدار میں پیسہ داؤ پر لگا ہوا ہے اور حکومتوں کے مذاکرات کی حساس نوعیت اور اعلیٰ سطح کی رازداری معاہدوں کو چھپاتی ہے۔
یورپ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہے۔ قومی اور یورپی یونین کی سطح پر، شفافیت کے بہت سے طریقہ کار جن کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ وہ عوامی خریداری میں بدعنوانی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے میں مدد فراہم کرتے ہیں، دفاع اور سلامتی پر اکثر لاگو نہیں ہوتے ہیں۔
مثال کے طور پر، یورپی پارلیمنٹ کے پاس یورپی امن سہولت کے ذریعے دفاعی ضروریات کے لیے یوکرین کو بھیجی گئی رقم پر عام بجٹ کی نگرانی نہیں ہے۔
مخصوص میکانزم کے ذریعے کییف کو پہلے ہی 10 بلین یورو سے زیادہ مختص کیا جا چکا ہے، جو کہ یورپی یونین کے بجٹ کے علاوہ ہے۔گرانڈی نے کہا کہ عمومی طور پر، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل شفافیت اور نگرانی پر پالیسی سازوں کی توجہ کے فقدان کے بارے میں بہت فکر مند ہے۔ دوسری طرف دفاعی صنعت کی لابنگ بھی عروج پر ہے۔
جاوید اختر مصنف: ایلا جوائنر
ادارت: صلاح الدین زین
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے ایس پی اے یورپی یونین نیٹو کے کہا کہ کے لیے
پڑھیں:
عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کی گونج، او آئی سی کا پاکستان سے اظہارِ یکجہتی، بھارتی پالیسیوں کی مذمت
اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کی وزرائے خارجہ کونسل کے 51ویں اجلاس نے مسئلہ کشمیر پر پاکستان کے مؤقف کی بھرپور تائید کرتے ہوئے بھارت کی جارحانہ پالیسیوں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ اجلاس 21 تا 22 جون 2025 کو استنبول میں منعقد ہوا، جس کا موضوع تھا: “ایک تبدیل ہوتی دنیا میں OIC کا کردار”۔
اجلاس میں منظور ہونے والا استنبول اعلامیہ اور کشمیر پر او آئی سی رابطہ گروپ کا اجلاس پاکستان کے لیے ایک اہم سفارتی کامیابی قرار دیا جا رہا ہے، جس نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر مؤثر انداز میں اجاگر کیا۔
استنبول اعلامیہ میں اہم نکاتپاکستان کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کیا گیا۔ بھارت کی جانب سے بلاجواز حملوں اور لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی۔ سندھ طاس معاہدہ سمیت دو طرفہ معاہدوں کی پاسداری کا اعادہ کیا گیا۔ تمام تنازعات کے پرامن حل کے لیے بامعنی مذاکرات پر زور دیا گیا۔
کشمیر پر دوٹوک مؤقفمقبوضہ کشمیر کے عوام کے حق خودارادیت کی تجدیدِ توثیق کی گئی۔ بھارت کی غیر قانونی قبضے اور آبادیاتی تناسب کی تبدیلی کی پالیسیوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں، سیاسی قیدیوں اور مذہبی پابندیوں کی مذمت کی گئی۔
کشمیر رابطہ گروپ کا اجلاسیہ اجلاس 22 جون کو منعقد ہوا، جس میں سعودی عرب، ترکی، آذربائیجان، نائجر اور اقوام متحدہ کے نمائندوں نے شرکت کی، جبکہ اجلاس کی صدارت پاکستان کے نائب وزیر اعظم و وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کی۔
اسحاق ڈار نے خطاب میں کہا کہ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کا دار و مدار مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل پر ہے، اور پاکستان کشمیریوں کی جدوجہد میں ان کے ساتھ کھڑا ہے۔
رکن ممالک کی حمایتآذربائیجان: مسئلہ کشمیر کا حل اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق ہونا چاہیے۔
سعودی عرب: پاکستان اور بھارت کے درمیان بامعنی مذاکرات کی حمایت کی۔
ترکی: بھارت کی آبادیاتی انجینئرنگ کی مخالفت اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بھرپور تائید کی۔
نائجر: خطے میں جنگ کے ممکنہ تباہ کن نتائج سے خبردار کیا۔
اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی میگوئل نوس: مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال، مذہبی آزادیوں پر پابندی اور سیاسی قیدیوں کی حالت پر روشنی ڈالی۔
او آئی سی اجلاس اور کشمیر رابطہ گروپ کی متفقہ قراردادیں نہ صرف پاکستان کی سفارتی فتح ہیں بلکہ کشمیری عوام کی جدوجہد کو عالمی سطح پر تقویت دینے کا ذریعہ بھی بن رہی ہیں۔ اس پیشرفت سے مسئلہ کشمیر ایک بار پھر بین الاقوامی ایجنڈے پر نمایاں ہو گیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں