بلوچستان میں دہشتگردی کی بھارتی سرپرستی کے ٹھوس شواہد سامنے آگئے
اشاعت کی تاریخ: 19th, May 2025 GMT
پاکستان میں جاری دہشتگردی خصوصاً بلوچستان میں ہونے والے حملوں کے پیچھے بھارت کی ریاستی سرپرستی ایک بار پھر منظرعام پر آگئی ہے۔ سیکیورٹی ذرائع اور حکومتی بیانات کے مطابق بھارت نہ صرف کالعدم تنظیموں کو مالی معاونت فراہم کر رہا ہے بلکہ ان کے سرغنہ بھارت کا باقاعدگی سے دورہ کرتے رہے ہیں جہاں انہیں لاجسٹک اور آپریشنل معاونت کے ساتھ ساتھ طبی سہولیات بھی فراہم کی جاتی رہی ہیں۔
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق کالعدم بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) کے سابق سرغنہ اسلم اچھو نے 2016 میں افغان پاسپورٹ اور جعلی نام سے بھارت کا سفر کیا، جہاں اس نے نہ صرف بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے اہلکاروں سے ملاقاتیں کیں بلکہ دہلی کے ایک اسپتال میں زیر علاج بھی رہا۔ اسلم اچھو 2018 میں کراچی میں چینی قونصلیٹ پر حملے کا ماسٹر مائنڈ تھا جبکہ اس کا بیٹا دالبندین میں چینی انجینئروں پر خودکش حملے میں ملوث رہا۔
مزید پڑھیں: بھارت خوارج اور بلوچستان میں سرگرم دہشتگردوں کا سرپرست ہے، ڈی جی آئی ایس پی آر
سیکیورٹی ذرائع کے مطابق بی ایل اے کے موجودہ سرغنہ بشیر زیب نے بھی 2017 میں بھارت کا دورہ کیا اور جعلی شناخت ’گل آغا‘ کے تحت افغان پاسپورٹ پر سفر کرتا رہا۔ بشیر زیب بلوچستان اور کراچی میں ہونے والے متعدد دہشتگرد حملوں میں ملوث رہا ہے، جن میں جعفر ایکسپریس پر حملہ اور چینی اہلکاروں پر حملہ شامل ہیں۔
واضح رہے کہ بلوچ نیشنل آرمی کے سرغنہ گلزار امام عرف شمبے نے بھی بھارت میں زیر علاج رہنے اور وہاں سے سہولت کاری حاصل کرنے کا اعتراف کیا تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق بھارت پاکستان میں دہشتگردی کے لیے باقاعدہ منصوبہ بندی کررہا ہے اور بھارتی فوج کے حاضر سروس افسران اس عمل میں ملوث ہیں۔
سیکیورٹی اداروں کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ بھارت میں 21 سے زائد دہشتگردوں کے بیس کیمپس چلا رہی ہے، جنہیں پاکستان میں تخریب کاری کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔ ان کیمپوں کا مرکزی مرکز بھارتی ریاست راجستھان میں بتایا جاتا ہے، جہاں سے سی پیک منصوبے کو سبوتاژ کرنے کے لیے خصوصی سیل کام کررہا ہے۔
حالیہ برسوں میں بلوچستان میں ہونے والے بڑے حملوں کے بعد بھی بھارتی مداخلت کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ اگست 2024 میں مستونگ، قلات، بولان، موسی خیل اور لسبیلہ میں عسکری تنصیبات اور شہریوں پر حملے ہوئے، جن کے پیچھے حکومت نے بھارتی سرپرستی کی نشاندہی کی تھی۔ اسی طرح مارچ 2025 میں جعفر ایکسپریس کی ہائی جیکنگ اور ستمبر 2023 میں مستونگ میں 12 ربیع الاول کے جلوس پر ہونے والے دھماکے کی تحقیقات میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی را کے کردار کے شواہد سامنے آئے۔
مزید پڑھیں: کیا پاک بھارت تنازع کے بعد بلوچستان میں دہشتگردی کے واقعات میں تیزی ہوئی ہے؟
وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور وزیر دفاع خواجہ آصف بھی اس بات کی تصدیق کرچکے ہیں کہ بھارت بلوچستان میں دہشتگردی کی سرپرستی کررہا ہے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سمیت بی ایل اے کو اسلحہ اور مالی وسائل فراہم کر رہا ہے تاکہ ملک بھر میں عدم استحکام پیدا کیا جا سکے۔
دفاعی تجزیہ کار راشد قریشی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ایک طویل عرصے سے پاکستان اور بالخصوص بلوچستان میں دہشتگردی کررہا ہے جس کے ٹھوس شواہد پاکستان متعدد بار عالمی اداروں اور دنیا کے سامنے رکھ چکا ہے، اور بھارتی ایجنسی کے حاضر سروس افسر کلبھوشن یادیو کی پاکستان سے گرفتاری اس بات کی واضح دلیل ہے۔ دراصل بھارت یہ تمام اقدامات اس لیے کررہا ہے کیونکہ وہ دنیا کو الجھانا چاہ رہا کہ کہ پاکستان دہشتگردوں کی سرپرستی کرنے والا ملک ہے حالانکہ بھارت بلوچستان میں مداخلت کرتے ہوئے دہشتگرد تنظمیوں کی حمایت کررہا جو لوگوں کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
راشد قریشی نے بتایا کہ معارکہ حق میں پاکستان نے بھارت کو ایسا سبق سکھایا ہے کہ ان کی آئندہ آنے والی نسلیں اسے یاد رکھیں گی البتہ اس امر کی ضرورت ہے کہ اب پاکستان عالمی فورمز اور دنیا بھر کو یہ باور کروائے کہ بھارت خود ایک دہشتگرد ریاست ہے جس کے لیے ہمیں سفارتی طور پر اپنا مضبوط مقدمہ لڑنے کی ضرورت ہے۔
مزید پڑھیں: امن ہماری کمزوری نہیں، اراکین بلوچستان اسمبلی کی بھارتی جارحیت کی شدید مذمت
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ کے ترجمان بابر یوسف زئی نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت ہمیشہ سے بلوچستان کے حالات خراب کرنے میں ملوث رہا ہے اور وہ اپنی پراکسیز کے ذریعے بلوچستان میں ہمیشہ مداخلت کرتا رہا ہے۔ ماضی میں بھارتی ایجنٹ کلبھوشن یادیو کی گرفتاری ہو یا حالیہ دِنوں میں بھارتی ایجنٹ اشوک چترویدی کی گرفتاری جو خود اس بات کے اعتراف کرچکے ہیں کہ بھارت اپنی پراکسی کے ذریعے بلوچستان میں دہشتگردی کرواتا ہے
بابر یوسفزئی نے کہا کہ بلوچستان میں موجود بھارتی پراکسیز بی ایل اے اور بی ایل ایف کی شکل میں بلوچستان میں معصوم شہریوں کا قتل عام کرتی ہیں جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ بھارت ایک سفاک اور دہشتگرد ملک ہے۔ جب سے پاکستان آزاد ہوا ہے تب سے بھارت کی یہ کوشش رہی ہے کہ بلوچستان کو غیر مستحکم کرے۔ بلوچستان میں جتنی بھی دہشتگردی کی کاروائیاں ہوتی ہیں ان کے پس پردہ بھارتی شواہد ملتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: بلوچستان میں دہشتگردی ہونے والے بی ایل اے کے مطابق میں ملوث کررہا ہے کہ بھارت کے لیے رہا ہے
پڑھیں:
بھارتی آبی جارحیت پر ثالثی عدالت کا فیصلہ
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا ہے کہ کشن گنگا اور رتلے ہائیڈرو الیکٹرک پروجیکٹس پر پاکستان اور بھارت کے درمیان تنازع کی سماعت کرنے والی ثالثی عدالت نے قرار دیا ہے کہ اس کی اہلیت برقرار ہے اور یہ کہ ان کارروائیوں کو بروقت، موثر اور منصفانہ انداز میں آگے بڑھانا اس کی ذمے داری ہے۔
حکومت پاکستان نے ثالثی عدالت کی جانب سے اعلان کردہ ضمنی ایوارڈ کا خیر مقدم کیا ہے۔ ترجمان نے مزید کہا کہ بھارت فوری طور پر سندھ طاس معاہدے کے تحت معمول کے مطابق تعاون بحال کرے اور اپنے معاہداتی فرائض مکمل دیانت دار کے ساتھ ادا کرے۔
بلاشبہ پاکستان سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے آبی حقوق سے دستبردار نہیں ہوسکتا ۔ ایسا کوئی راستہ نہیں ہے کہ بھارت قانونی طور پر یک طرفہ طور پر معاہدے کے مندرجات کو واپس لے یا تبدیل کرسکے کیونکہ اس کا مطلب جنگ ہوگا، جس سے کرہ ارض کے دو ارب افراد متاثر ہوسکتے ہیں۔ اسی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان نے فوری طور پر ثالثی ٹربیونل سے رجوع کیا اور اب فیصلہ پاکستان کے حق میں آیا ہے۔
دراصل پہلگام حملے کے بعد بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی مایوسی واضح تھی کیونکہ اس سے ان کی سیاست کو دھچکا لگا۔ مقبوضہ کشمیر میں شدید جبر اور یہاں تک کہ 2019 میں بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو منسوخ کرنا بھی جدوجہد آزادی کے جذبے کو کنٹرول کرنے یا اس پر قابو پانے میں ناکامی ہے، تاہم چار روزہ جھڑپ کے بعد سب سے زیادہ حیران کن بات مودی کا بزدلانہ رویہ تھا جس کے ساتھ بھارتی فوج کے اعلیٰ حکام نے ان سیاسی محرکات پر مبنی لیکن غیر ذمے دارانہ پالیسیوں پر عمل کیا۔ اس معاملے سے نمٹنے کے دیگر طریقے بھی تھے لیکن مودی کی جلد بازی کی وجہ سے خطرات اور کشیدگی میں اضافہ ہوا۔
بھارت کی پیاس بجھانے کے لیے تمام بین الاقوامی معاہدوں اور خود انسانیت کے مستقبل کو داؤ پر نہیں لگایا جاسکتا، جو بات اکثر فراموش کردی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان نے دوہزار تیرہ میں کشن گنگا ثالثی ایوارڈ میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں مقدمہ لڑنے کے پاکستان کے قانونی حق کو تسلیم کیا گیا۔ دریائے نیلم کے قدرتی بہاؤ کو جاری رکھنے کی اجازت دی گئی اور اس حوالے سے چند تکنیکی نکات کو بھی واضح کیا گیا۔
یہ درست ہے کہ بھارت کو کشن گنگا رن آف دی ریور منصوبے کی تکمیل کی اجازت دی گئی تھی لیکن یہ بات قابل ذکر ہے کہ بھارت نے نیلم جہلم منصوبے پر تعمیراتی کام عجلت میں شروع کیا تھا جس سے اس کی بدنیتی واضح ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ کے اہم لمحات کو نظر انداز کرنے کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پاکستان کے پانی سے متعلق حقوق، پانی کے تحفظ اور اضافی پانی ذخیرہ کرنے کی ترقی کے لیے فعال طور پر کام کرنے کا وقت آ گیا ہے اور اگر اس وقت مستقبل کی ضروریات کا ادراک نہ کیا گیا تو بھارت کی خواہش و کوشش کے مطابق پاکستان کے کثیر الجہتی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اسی تناظر میں مالی سال 26-2025کے بجٹ میں محدود وسائل میں آبی ذخائر کے منصوبوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ حکومت پاکستان نے نیشنل واٹر پالیسی 2018 کے تحت جامع آبی وسائل کے نظم ونسق کے طریقہ کار کو مدنظر رکھتے ہوئے مختلف اہداف مقررکیے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری ہے کہ ہم اپنے آبی ذخائر میں جنگی بنیادوں پر اضافہ کریں۔
بھارت کی جانب سے پاکستان کے دریاؤں کا پانی روکنا ’’ آبی جارحیت‘‘ ہے۔ پاکستان کے دریاؤں کی خاموشی گواہی دے رہی ہے کہ صدیوں کی تہذیبوں، عظیم سلطنتوں کے عروج و زوال اور خون کی روشنائی سے کھینچی گئی سرحدوں کی کوئی وقعت نہیں۔ دریاؤں کی یہ خاموشی اذیت اور ایک ایسی خیانت ہے طاقت کے نشے اور زعم میں سرشار ہو بھارت کی طرف سے ہو رہی ہے اور یہ دوسروں کی آزادی پر ضرب لگا رہا ہے۔
یہ وہی بھارت ہے جس کا تعارف کبھی گاندھی کے عدم تشدد اور نہرو کے سیکولر ازم سے کیا جاتا تھا لیکن آج، اسی بھارت نے وہ روپ دھار لیا ہے، جس سے کبھی آزادی حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دی تھیں۔ اب وہ ملک جو کبھی نو آبادیاتی ظلم کے خلاف کھڑا ہوا تھا، خود ایک نئے سامراج کا پرچارک بن چکا ہے۔ سات مئی کی صبح، بھارت نے پاکستانی سرزمین پر آپریشن سندور کے نام سے حملہ کیا۔ شہری آبادی اور مساجد پر میزائل داغے گئے۔ چھ مئی کو بھارت نے سندھ طاس معاہدہ معطل کردیا تھا، وہی معاہدہ جو 1960سے اب تک تین جنگوں کے باوجود قائم رہا۔ یہ ایک بین الاقوامی مثال تھی کہ دشمن ممالک بھی تعاون کرسکتے ہیں، لیکن اب یہ بھی بھارت کی جارحیت کی نذر ہو چکا ہے۔
دریاؤں کو ہتھیار بنا کر پانی کی فراہمی کو روکنے کی دھمکی دراصل ایک نئی قسم کی جنگ ہے۔ وہ جنگ ہے جس میں بندوقیں نہیں بلکہ پانی روکنے کی صورت میں زندگی چھینی جاتی ہے۔ یہ عمل نہ صرف ویانا کنونشن کی خلاف ورزی ہے بلکہ ایک ایسے جنوبی ایشیا کے مستقبل پر بھی سوالیہ نشان ہے جہاں پانی پہلے ہی کم ہوتا جا رہا ہے۔ کیا بین الاقوامی برادری اس خاموش قتل پر خاموش ہی رہے گی؟ آج بھارت کی زبان وہ نہیں رہی جو نہرو یا ٹیگور بولا کرتے تھے۔
اب اختلاف ’غداری‘ ہے، سوال کمزوری، اور پاکستان دشمنی حب الوطنی کے استعارے ہیں۔ قابل افسوس ہے کہ بھارت اب ایک ایسا ملک بن چکا ہے جہاں آئینی اقدار کو قومی مفاد کی دیوار سے ٹکرا کر توڑا جا رہا ہے۔ یہ وہی ملک ہے جس نے کبھی تقسیم کو المیہ کہا تھا، مگر اب اسی تقسیم کو ووٹ بینک بنانے کے لیے استعمال کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ، جو ہر عالمی تنازعے میں قراردادیں منظورکرتی ہے، یہاں بے بس دکھائی دیتی ہے۔
ہندوستان نے پہلگام فالز فلیگ کے چوبیس گھنٹے کے اندر اندر سندھ طاس معاہدے کو غیر قانونی طور پر یک طرفہ معطل کردیا تھا۔ یہ مذموم حرکت 1960 کے سندھ طاس کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے، سندھ طاس معاہدے کے شق نمبر12 (4) کے تحت یہ معاہدہ اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتا جب کہ دونوں ملک تحریری طور پر متفق نہ ہوں۔ سندھ طاس معاہدے کے علاوہ بھی انٹرنیشنل قانون کے مطابق Upper riparian،Lower riparian کے پانی کو نہیں روک سکتا، پاکستان اور بھارت کے درمیان 1960 میں دریائے سندھ اور دیگر دریاؤں کا پانی منصفانہ طور تقسیم کرنے کے لیے سندھ طاس معاہدہ طے پایا تھا۔
اس معاہدے کے ضامن میں عالمی بینک بھی شامل ہے، انٹرنیشنل واٹر ٹریٹی بین الاقوامی سطح پر پالیسی اور ضمانت شدہ معاہدہ ہے۔ انٹرنیشنل معاہدے کو معطل کر کے بھارت دیگر معاہدوں کی ضمانت کو مشکوک کر رہا ہے، ہندوستان اس طرح کے نا قابل عمل اور غیر ذمے دارانہ اقدامات کر کے اپنے اندرونی بے قابو حالات سے توجہ ہٹانا چاہتا ہے۔
دو ماہ سے زائد وقت گزر جانے کے باوجود نہ تو بھارت اس حوالے سے مذاکرات پر آمادہ ہے اور نہ ہی پاکستان کے حصے کے پانی میں رکاوٹیں ڈالنے سے باز آ رہا ہے بلکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے سندھ طاس معاہدے کے تحت پاکستان کے حصے میں آنے والے دریاؤں، چناب، جہلم اور سندھ پر جاری بھارتی آبی منصوبوں کو جلد از جلد مکمل کرنے کی ہدایات کی ہیں۔ بھارت متنازع رنبیر نہر پرکام کا آغازکردیا گیا ہے، جو دریائے چناب کو بھارتی ریاست راجستھان سے ملائے گی۔ اسی طرح پکل ڈل،کیرو،کاکوار اور رتلے منصوبوں پر بھی کام کی رفتار بڑھا دی گئی ہے۔
بھارت کی وزارتِ توانائی کی دستاویز کے مطابق جموں و کشمیر میں پن بجلی کی استعداد 3360میگاواٹ سے بڑھا کر 12 ہزار میگاواٹ کی جائے گی اور اس حوالے سے چار بڑے پن منصوبوں میں سے تین دریائے چناب اور اس کی ملحقہ نہروں پر تعمیرکرنے کا پلان ہے۔ ایک طرف بھارت پاکستان کا پانی روکنے کے منصوبوں پر کام کر رہا ہے اور دوسری جانب اپنے متنازع منصوبوں پر جاری ورلڈ بینک کی کارروائی میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے۔
بھارت نے عالمی بینک کے غیر جانبدار ماہر، مائیکل لینوکو رتلے اور کشن گنگا ڈیم پر تنازعات میں ثالثی کی کارروائی روکنے کی درخواست کی، اگرچہ پاکستان کی جانب سے اس بھارتی اقدام کی مخالفت کی گئی ہے تاہم بھارت کی جانب سے عدم تعاون کا رویہ اپنایا جا رہا ہے۔ موجودہ صورتحال اس امر کی متقاضی ہے کہ اقوام متحدہ، عالمی طاقتیں اور علاقائی تنظیمیں بالخصوص عالمی بینک‘ آگے بڑھیں اور بھارت پر دباؤ بڑھائیں تاکہ وہ ایسے اقدامات سے باز رہے جو خطے میں عدم استحکام پیدا کر رہے ہیں۔