Daily Ausaf:
2025-07-09@05:38:24 GMT

دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرہ کار

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کہ جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں اور ان کے ساتھ ہی آسمان سے نازل ہونے والی وحی کا سلسلہ مکمل ہو گیا ہے، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہوگا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوگی اور اس کے ساتھ اس عقیدہ کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ قیامت تک نسل انسانی کی ہدایت، راہ نمائی، فلاح اور نجات قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات میں منحصر ہے تو منطقی طور پر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ زمانہ اور وقت تو ایک جگہ اور ایک کیفیت پر ٹھہرنےوالی چیزنہیں ہے،اس میں مسلسل تغیر رونما ہوتا رہتا ہے، انسانی سوسائٹی تغیر اور ارتقا کے مراحل سے پیہم گزر رہی ہے اور دنیا کے احوال وظروف میں تبدیلیاں انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، پھر اس مسلسل اور پیہم تغیر پذیر دنیا اور سوسائٹی میں نئے احوال وظروف سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انسانی معاشرہ کی راہ نمائی کا نظام کیا ہے؟ اور سلسلہ وحی مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک آنے والے انسانوں کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ رشتہ کیسے قائم رہے گا؟ مغرب نے تو یہ کہہ کر اس سارے قضیے سے پیچھا چھڑا لیا ہے کہ انسانی سوسائٹی اب بالغ ہو گئی ہے اور اپنا برا بھلا خود سمجھنے لگی ہے اس لیے اسے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی ڈکٹیشن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہی، اب اس کے فیصلےخود اس کے ہاتھ میں ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی اکثریت جو چاہے اور انسان کی اجتماعی عقل وخرد جو سمجھے، وہی حرف آخر ہے اور اسے مزید کسی نگرانی اور چیک کی حاجت نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ بات کہنا اور اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کسی مرحلہ میں بھی آسمانی تعلیمات سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور انسانی معاشرہ کو شخصی، طبقاتی یا اجتماعی طور پر کبھی بھی یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ وحی الٰہی سے لا تعلق ہو کر اپنے فیصلوں میں غیر مشروط طور پر آزاد ہو اس لیے قیامت تک انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کے لیے آسمانی تعلیمات کا تسلسل ضروری ہے۔
قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی سنت وتعلیمات دونوں تاریخ کے ریکارڈ پر محفوظ حالت میں موجود ہیں اور دنیا بھر میں شب وروز ان کی تعلیم وتدریس اور تبلیغ واشاعت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں انسانی زندگی کو قیامت تک پیش آنے والے حالات ومسائل کی تفصیلات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی موجود ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے بعد میں رونما ہونے والےحالات وواقعات اور مشکلات ومسائل کے حوالہ سے انسانی معاشرہ کو قرآن وسنت کے دائرہ کا پابند رکھتے ہوئے جزئیات وفروعات میں حالات ومواقع کی مناسبت سے قرآن وسنت کی اصولی راہ نمائی کی روشنی میں عقل وقیاس کے ساتھ فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور اسی اختیار کو شریعت کی اصطلاح میں ’’اجتہاد‘‘ کہتے ہیں۔
جن مسائل میں قرآن وسنت کی واضح راہ نمائی موجود نہیں ہے، ان میں قرآن وسنت کی روشنی میں رائے اور اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرنے کا یہ عمل صحابہ کرامؓ میں خود جناب نبی اکرمؐ کے دور میں بھی جاری تھا۔ احادیث کے ذخیرے میں بیسیوں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہوا، قرآن کریم کا کوئی واضح حکم سامنے نہیں تھا، جناب نبی اکرمؐ تک فوری رسائی بھی ممکن نہیں تھی تو متعلقہ حضرات نے اپنی رائے سے ایک فیصلہ کر لیا اور اس پر عمل کر گزرے۔ بعد میں جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں بات پیش کی گئی تو آنحضرتؐ نے یہ تو کیا کہ کسی کے عمل کی توثیق کر کے اسے سند جواز عطا فرما دی اور کسی کے عمل کو خطا قرار دے دیا لیکن کبھی بھی نبی اکرمؐ نے اس ’’اختیار‘‘ کی نفی نہیں فرمائی کہ قرآن وسنت کی واضح راہ نمائی موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔
اس حوالے سےحضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور روایت کی ترتیب بھی یہی ہے کہ انہیں یمن کا عامل وقاضی بناتےہوئے نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ کسی مسئلہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے راہ نمائی نہ ملی تو وہ کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایاکہ میں اپنی رائے سے اجتہادکروں گا تو جناب نبی اکرمؐ نے ان کے اس جواب پر خوشی کا اظہار کر کے اس بات کی توثیق وتصدیق فرما دی۔
۲- عمل اجتہاد کا تاریخی ارتقا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ کے پورے دور میں اسی اصول کے مطابق نئے پیش آمدہ مسائل کے فیصلے ہوتے رہے اور اس کے لیے باقاعدہ اصول وضوابط طے کرنے کا کام بھی انہی کے دور میں شروع ہو گیا جیسا کہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور بعض دیگر اکابر صحابہ کرامؓ کے متعدد ارشادات سے اس کی نشان دہی ہوتی ہے۔ صحابہ کرامؓ چونکہ براہ راست چشمہ نبوت سے فیض یاب تھے اور جناب نبی اکرمؐ کے مزاج اور سنت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے اجتہاد کے حوالہ سے کسی واضح درجہ بندی، اصول وضوابط اور دائرہ کار کے تعین کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی البتہ بعد کے ادوار میں ’’اجتہاد‘‘ کے اس عمل کو ہرکس وناکس کی جولان گاہ بننے سے بچانے کے لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے اصول وقوانین طے کیے جائیں، دائرہ کار کی وضاحت کی جائے، درجہ بندی اور ترجیحات کا تعین کیا جائے اور اہلیت وصلاحیت کا معیار بھی طے کر لیا جائے تاکہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور نئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کا یہ مقدس عمل بازیچہ اطفال بننے کے بجائے صحیح رخ پر منظم ہو اور امت کی فکری وعملی راہ نمائی کا موثر ذریعہ ثابت ہو، چنانچہ بیسیوں مجتہدین اور ائمہ کرامؒ نے اس کے لیے انفرادی واجتماعی محنت کی اور کم وبیش تین سو برس تک عالم اسلام کے مختلف حصوں اور امت کے مختلف گروہوں میں جاری رہنے والے متنوع علمی مباحث کے نتیجے میں وہ منظم فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے جنہیں آج حنفی، مالکی، شافعی ، حنبلی اور دوسرے عنوانات کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اور جو بعد کی صدیوں میں کم وبیش ساری امت کو اپنے دائروں میں سمیٹتے چلے آ رہے ہیں۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ا سمانی تعلیمات انسانی سوسائٹی جناب نبی اکرم قرا ن وسنت کی راہ نمائی دائرہ کا قیامت تک کے ساتھ نہیں ہے ہیں کہ اور اس اس لیے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

غزہ فلسطین کا ناقابل تقسیم حصہ ہے: بروکس اعلامیہ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں کے اتحاد برکس نے واضح کیا ہے کہ غزہ کی پٹی “مقبوضہ فلسطینی علاقے کا ناقابلِ تقسیم حصہ” ہے اور اسے مغربی کنارے کے ساتھ فلسطینی اتھارٹی کے تحت یکجا کیا جانا چاہیے۔

ترک خبر رساں ادارے کے مطابق برکس کے اعلامیے میں فلسطینی عوام کے حقِ خودارادیت بشمول آزاد ریاستِ فلسطین کے قیام کے حق کو ایک بار پھر تسلیم کیا گیا۔

رکن ممالک نے اسرائیل کے جاری حملوں اور انسانی امداد کی راہ میں رکاوٹوں پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے قحط کو بطورِ جنگی ہتھیار استعمال کرنے کی شدید مذمت کی۔

برکس ممالک نے کہا کہ ہم تمام فریقین پر زور دیتے ہیں کہ وہ نیک نیتی کے ساتھ فوری، مستقل اور غیر مشروط جنگ بندی کے لیے مذاکرات کریں، اسرائیلی افواج کی غزہ پٹی اور دیگر تمام مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے مکمل واپسی ہونی چاہئے۔

یہ بھی کہا گیا کہ بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی میں قید تمام مغویوں اور قیدیوں کو رہا کیا جائے، اور انسانی امداد کی مسلسل، آزادانہ اور بلارکاوٹ فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔

اس اتحاد نے اقوامِ متحدہ میں ریاستِ فلسطین کی مکمل رکنیت کی حمایت اور دو ریاستی حل سے اپنی غیر متزلزل وابستگی کا اعادہ بھی کیا۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان اور متحدہ عرب امارات کے درمیان گورننس اور سرکاری شعبے کی جدت پر تعاون مزید مستحکم
  • پاکستان میں کلائمیٹ کورٹس بنانے کی ضرورت ہے، جسٹس منصور علی شاہ
  • موسمیاتی تبدیلی بارے جامع پالیسی بنانے کی ضرورت ہے: جسٹس منصور علی شاہ
  •  آتش فشاں دوبارہ سے پھٹ پڑا، راکھ اور گرم گیسز کا طوفان 11 میل آسمان کی بلندی تک پہنچ گیا
  • عبدالستار ایدھی کی انسانی خدمت کو 9 برس گزر گئے.
  • امید ہے کہ اسرائیل ایران جنگ ختم ہوگئی، ایران پر ایک اور حملے کی ضرورت نہیں پڑیگی، ڈونلڈ ٹرمپ
  • غزہ فلسطین کا ناقابل تقسیم حصہ ہے: بروکس اعلامیہ
  • غزہ میں امداد کی چوری کا کوئی ثبوت نہیں، یورپی کمیشن
  • گرین پاسپورٹ کی رینکنگ بہتر، سیف سٹی منصوبے کا دائرہ پورے ملک تک پھیلایا جائے گا، محسن نقوی
  • دنیائے فلم کے مقبولِ زمانہ افسانوی کردار