Daily Ausaf:
2025-05-24@18:50:37 GMT

دور جدید میں اجتہاد کی ضرورت اور دائرہ کار

اشاعت کی تاریخ: 24th, May 2025 GMT

جب ہم یہ کہتے ہیں کہ کہ جناب سرور کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے آخری پیغمبر ہیں اور ان کے ساتھ ہی آسمان سے نازل ہونے والی وحی کا سلسلہ مکمل ہو گیا ہے، اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہوگا اور نہ ہی کوئی وحی نازل ہوگی اور اس کے ساتھ اس عقیدہ کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ قیامت تک نسل انسانی کی ہدایت، راہ نمائی، فلاح اور نجات قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی تعلیمات میں منحصر ہے تو منطقی طور پر یہ سوال ذہن میں ابھرتا ہے کہ زمانہ اور وقت تو ایک جگہ اور ایک کیفیت پر ٹھہرنےوالی چیزنہیں ہے،اس میں مسلسل تغیر رونما ہوتا رہتا ہے، انسانی سوسائٹی تغیر اور ارتقا کے مراحل سے پیہم گزر رہی ہے اور دنیا کے احوال وظروف میں تبدیلیاں انسانی زندگی کا لازمی حصہ ہیں، پھر اس مسلسل اور پیہم تغیر پذیر دنیا اور سوسائٹی میں نئے احوال وظروف سے عہدہ برآ ہونے کے لیے انسانی معاشرہ کی راہ نمائی کا نظام کیا ہے؟ اور سلسلہ وحی مکمل ہو جانے کے بعد قیامت تک آنے والے انسانوں کا آسمانی تعلیمات کے ساتھ رشتہ کیسے قائم رہے گا؟ مغرب نے تو یہ کہہ کر اس سارے قضیے سے پیچھا چھڑا لیا ہے کہ انسانی سوسائٹی اب بالغ ہو گئی ہے اور اپنا برا بھلا خود سمجھنے لگی ہے اس لیے اسے آسمانی تعلیمات اور وحی الٰہی کی ڈکٹیشن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہی، اب اس کے فیصلےخود اس کے ہاتھ میں ہیں۔ انسانی سوسائٹی کی اکثریت جو چاہے اور انسان کی اجتماعی عقل وخرد جو سمجھے، وہی حرف آخر ہے اور اسے مزید کسی نگرانی اور چیک کی حاجت نہیں ہے لیکن مسلمانوں کے لیے یہ بات کہنا اور اسے قبول کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کسی مرحلہ میں بھی آسمانی تعلیمات سے بے نیاز نہیں رہ سکتی اور انسانی معاشرہ کو شخصی، طبقاتی یا اجتماعی طور پر کبھی بھی یہ مقام حاصل نہیں ہو سکتا کہ وہ وحی الٰہی سے لا تعلق ہو کر اپنے فیصلوں میں غیر مشروط طور پر آزاد ہو اس لیے قیامت تک انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کے لیے آسمانی تعلیمات کا تسلسل ضروری ہے۔
قرآن کریم اور جناب نبی اکرمؐ کی سنت وتعلیمات دونوں تاریخ کے ریکارڈ پر محفوظ حالت میں موجود ہیں اور دنیا بھر میں شب وروز ان کی تعلیم وتدریس اور تبلیغ واشاعت کا سلسلہ جاری ہے لیکن ظاہر ہے کہ ان میں انسانی زندگی کو قیامت تک پیش آنے والے حالات ومسائل کی تفصیلات موجود نہیں ہیں اور نہ ہی موجود ہو سکتی ہیں اس لیے اسلام نے بعد میں رونما ہونے والےحالات وواقعات اور مشکلات ومسائل کے حوالہ سے انسانی معاشرہ کو قرآن وسنت کے دائرہ کا پابند رکھتے ہوئے جزئیات وفروعات میں حالات ومواقع کی مناسبت سے قرآن وسنت کی اصولی راہ نمائی کی روشنی میں عقل وقیاس کے ساتھ فیصلے کرنے کا اختیار دے دیا ہے اور اسی اختیار کو شریعت کی اصطلاح میں ’’اجتہاد‘‘ کہتے ہیں۔
جن مسائل میں قرآن وسنت کی واضح راہ نمائی موجود نہیں ہے، ان میں قرآن وسنت کی روشنی میں رائے اور اجتہاد کے ساتھ فیصلہ کرنے کا یہ عمل صحابہ کرامؓ میں خود جناب نبی اکرمؐ کے دور میں بھی جاری تھا۔ احادیث کے ذخیرے میں بیسیوں ایسے واقعات ملتے ہیں کہ صحابہ کرامؓ میں سے کسی کو کوئی معاملہ درپیش ہوا، قرآن کریم کا کوئی واضح حکم سامنے نہیں تھا، جناب نبی اکرمؐ تک فوری رسائی بھی ممکن نہیں تھی تو متعلقہ حضرات نے اپنی رائے سے ایک فیصلہ کر لیا اور اس پر عمل کر گزرے۔ بعد میں جناب نبی اکرمؐ کی خدمت میں بات پیش کی گئی تو آنحضرتؐ نے یہ تو کیا کہ کسی کے عمل کی توثیق کر کے اسے سند جواز عطا فرما دی اور کسی کے عمل کو خطا قرار دے دیا لیکن کبھی بھی نبی اکرمؐ نے اس ’’اختیار‘‘ کی نفی نہیں فرمائی کہ قرآن وسنت کی واضح راہ نمائی موجود نہ ہونے کی صورت میں وہ اپنی رائے اور اجتہاد سے فیصلہ کرنے کے مجاز ہیں۔
اس حوالے سےحضرت معاذ بن جبلؓ کی مشہور روایت کی ترتیب بھی یہی ہے کہ انہیں یمن کا عامل وقاضی بناتےہوئے نبی اکرمؐ نے پوچھا کہ کسی مسئلہ میں قرآن کریم اور سنت نبوی سے راہ نمائی نہ ملی تو وہ کیا کریں گے؟ انہوں نے فرمایاکہ میں اپنی رائے سے اجتہادکروں گا تو جناب نبی اکرمؐ نے ان کے اس جواب پر خوشی کا اظہار کر کے اس بات کی توثیق وتصدیق فرما دی۔
۲- عمل اجتہاد کا تاریخی ارتقا۔
جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد صحابہ کرامؓ کے پورے دور میں اسی اصول کے مطابق نئے پیش آمدہ مسائل کے فیصلے ہوتے رہے اور اس کے لیے باقاعدہ اصول وضوابط طے کرنے کا کام بھی انہی کے دور میں شروع ہو گیا جیسا کہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ اور بعض دیگر اکابر صحابہ کرامؓ کے متعدد ارشادات سے اس کی نشان دہی ہوتی ہے۔ صحابہ کرامؓ چونکہ براہ راست چشمہ نبوت سے فیض یاب تھے اور جناب نبی اکرمؐ کے مزاج اور سنت کو اچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے اجتہاد کے حوالہ سے کسی واضح درجہ بندی، اصول وضوابط اور دائرہ کار کے تعین کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی البتہ بعد کے ادوار میں ’’اجتہاد‘‘ کے اس عمل کو ہرکس وناکس کی جولان گاہ بننے سے بچانے کے لیے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے اصول وقوانین طے کیے جائیں، دائرہ کار کی وضاحت کی جائے، درجہ بندی اور ترجیحات کا تعین کیا جائے اور اہلیت وصلاحیت کا معیار بھی طے کر لیا جائے تاکہ قرآن وسنت کی تعبیر وتشریح اور نئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کا یہ مقدس عمل بازیچہ اطفال بننے کے بجائے صحیح رخ پر منظم ہو اور امت کی فکری وعملی راہ نمائی کا موثر ذریعہ ثابت ہو، چنانچہ بیسیوں مجتہدین اور ائمہ کرامؒ نے اس کے لیے انفرادی واجتماعی محنت کی اور کم وبیش تین سو برس تک عالم اسلام کے مختلف حصوں اور امت کے مختلف گروہوں میں جاری رہنے والے متنوع علمی مباحث کے نتیجے میں وہ منظم فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے جنہیں آج حنفی، مالکی، شافعی ، حنبلی اور دوسرے عنوانات کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے اور جو بعد کی صدیوں میں کم وبیش ساری امت کو اپنے دائروں میں سمیٹتے چلے آ رہے ہیں۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ا سمانی تعلیمات انسانی سوسائٹی جناب نبی اکرم قرا ن وسنت کی راہ نمائی دائرہ کا قیامت تک کے ساتھ نہیں ہے ہیں کہ اور اس اس لیے کے لیے ہے اور

پڑھیں:

غزہ کو بڑی مقدار میں امدادی سامان کی ضرورت ہے،اقوام متحدہ

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 24 مئی2025ء)اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوتیرس نے کہا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے غزہ میں داخل ہونے والی امداد انتہائی کم ہے اور غزہ کی پٹی میں بڑی مقدار میں امداد کی شدید ضرورت ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق گوتیرس نے صحافیوں کو بتایا کہ ایسی امداد جس کی رسائی تیز، قابل اعتماد، محفوظ اور پائیدار ہو کے بغیر غزہ میں مزید لوگ مر جائیں گے۔

امداد کی برقت ترسیل نہ ہوئی تو اس کے تمام آبادی کے لیے طویل مدتی نتائج تباہ کن ہوں گے۔سیکرٹری جنرل نے مزید کہا کہ غزہ میں فلسطینی اس ظالمانہ تنازعے کے سب سے وحشیانہ دور سے گزر رہے ہیں کیونکہ اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائی تیز کر دی ہے۔ تقریبا 80 دنوں تک اسرائیل نے بین الاقوامی زندگی بچانے والی امداد کو داخل ہونے سے روکے رکھا ہے اور غزہ کے تمام مکین اس وقت قحط کے خطرے سے دوچار ہوگئے ہیں۔

(جاری ہے)

اسرائیلی فوجی حملہ خوفناک سطح پر اموات اور تباہی کے ساتھ بڑھ رہا ہے۔اسرائیلی فوج نے کہا کہ کرم ابو سالم کراسنگ سے 107 ٹرک آٹے، دیگر غذائی اشیا اور طبی سامان لے کر غزہ پٹی میں داخل ہوئے ہیں۔ تاہم خیموں اور دیگر عارضی رہائش گاہوں میں رہنے والے لوگوں تک سامان کی فراہمی وقفے وقفے سے ہوگی۔فلسطینی امدادی گروپوں کے ایک نیٹ ورک نے کہا کہ پیر کو اسرائیل کی جانب سے ناکہ بندی میں نرمی کے بعد 119 امدادی ٹرک غزہ پٹی میں داخل ہوئے ہیں۔

یہ ٹرک بھی بین الاقوامی تنقید کے بعد داخل ہوئے لیکن خان یونس شہر کے قریب کچھ مسلح افراد کے گروپوں کی جانب سے لوٹ مار کی وجہ سے تقسیم میں رکاوٹ بھی پیدا ہوگئی۔فلسطینی غیر سرکاری تنظیموں کے نیٹ ورک نے ایک بیان میں کہا ہے کہ بچوں اور خاندانوں کا کھانا چوری کیا جا رہا ہے۔ امدادی ٹرکوں کی حفاظت کرنے والی سکیورٹی ٹیموں پر اسرائیلی فضائی حملے قابل مذمت ہیں۔

حماس کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ٹرکوں کی حفاظت پر مامور چھ سیکورٹی اہلکار اسرائیلی حملوں میں جاں بحق ہو گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج کی طرف سے اس معاملہ پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔فلسطینی غیر سرکاری تنظیموں کے نیٹ ورک نے کہا ہے کہ غزہ میں آنے والی امداد کی مقدار اب بھی بہت ناکافی ہے اور اس میں صرف ایک محدود قسم کا سامان شامل ہے۔

اسرائیل کی جانب سے محصور اور جنگ زدہ غزہ کی پٹی میں ٹرکوں کو داخل ہونے کی اجازت دینے کے فیصلے کو بین الاقوامی دبا کو گمراہ کرنے اور عالمی برادری کے ساتھ فریب کاری قرار دیا جارہا ہے۔اسرائیلی فوج نے اعلان کیا ہے کہ گزشتہ رات غزہ پر مزید حملے کیے گئے اور ان حملوں میں 75 اہداف کو نشانہ بنایا گیا۔ ان اہداف میں ہتھیاروں کے گودام اور راکٹ لانچنگ پلیٹ فارم شامل تھے۔ فلسطینی طبی ذرائع نے بتایا کہ ان حملوں میں کم از کم 25 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔اسرائیل نے دو مارچ 2025 کو غزہ پر ناکہ بندی عائد کر دی تھی۔ صہیونی فوج نے حماس پر شہریوں کے لیے مختص امداد چوری کرنے کا الزام لگایا تھا۔

متعلقہ مضامین

  • الیکشن میں ڈاکہ ڈالنے والوں کو اس ملک میں جمہوریت قبول نہیں، سلمان اکرم راجا
  • غزہ کو بڑی مقدار میں امدادی سامان کی ضرورت ہے،اقوام متحدہ
  • غزہ میں جو کچھ ہو رہا وہ نسل کشی کے مترادف ہوسکتا ہے، یورپی کونسل
  • غزہ میں انسانی بحران پر 80 ممالک کے بیان کا حماس کیجانب سے خیرمقدم
  • عمران خان کا پولی گرافک ٹیسٹ کروانا توہین آمیز کوشش ہے، شیخ وقاص اکرم
  • وسیم اکرم بھی لاہور قلندرز کی ناقص فیلڈنگ پر بھڑک اُٹھے
  • پاک افغان تعلقات: ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت
  • عمران خان کا پولی گرافک ٹیسٹ کروانا توہین آمیز کوشش ہے، شیخ وقاص اکرم
  • آئی ایم ایف پروگرام کے تحت گیس پر لیوی لگانا ضرورت تھی: علی پرویز ملک