Express News:
2025-06-26@16:33:37 GMT

جمہوریت سے مقتدرہ تک سفر

اشاعت کی تاریخ: 26th, June 2025 GMT

ڈاکٹر سید جعفر احمد کا شمار ملک کے معروف دانشوروں میں ہوتا ہے۔ ڈاکٹر جعفر نے برطانیہ کی کیمبرج یونیورسٹی کی Faculty  of Human  Social and Political Science سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی۔

ڈاکٹر جعفر نے وفاقیت، آئینی ارتقاء، جمہوریت، سول ملٹری تعلقات، اور مذہب و ریاست کے تعلق کو اپنی تحقیق کا محور بنایا۔ وہ کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر میں لیکچرار کی حیثیت سے شامل ہوئے۔ طویل عرصے تک سینٹر کے ڈائریکٹر رہے۔ انھوں نے اپنے دور میں پاکستان اسٹڈی سینٹر کی حیثیت کو بھی تبدیل کیا۔ ان کے دور میں یہ سینٹر ملک میں چلنے والی مزاحمتی تحریکوں پر تحقیق اور اس ملک میں ریاست پر عوام کی بالادستی کے لیے زندگی وقف کرنے والے سیاسی رہنماؤں کے بارے میں کتابوں کی اشاعت کے مرکز میں تبدیل ہوا۔

ڈاکٹر جعفر کمرہ تحقیق میں محدود علمی سرگرمیوں سے آگے بڑھ کر طالب علموں کی رہنمائی کرنے والے دانشور ہی نہیں بلکہ ادیبوں، دانشوروں، اساتذہ اور طلبہ کی تحریکوں کو منظم کرنے والے دانشوروں میں بھی شامل رہے۔ ڈاکٹر جعفر احمد کی نئی کتاب "From Jinnah to Ayub, Authoritarianism in post-colonial Pakistan 1947-1969) شایع ہوئی ہے۔ یہ کتاب 6 ابواب اور 219 صفحات پر مشتمل ہے۔

ڈاکٹر جعفر احمد 1984سے 2017 تک تقریباً 33 سال کراچی یونیورسٹی کے پاکستان اسٹڈیز سینٹر سے وابستہ رہے۔ اپنے اس تعلق کی بناء پر کتاب کا انتساب پاکستان اسٹڈی سینٹر کے نام کیا۔ ڈاکٹر جعفر احمد نے کتاب کا تعارف کراتے ہوئے لکھا ہے کہ اگرچہ پاکستان جمہوری نظریے کے تحت قائم ہوا مگر پاکستان کے قیام کی تاریخ Deep-seated Authoritarianism سے جڑی ہوئی ہے اور اس مقتدرانہ نظریہ نے ہی ریاست کے کردار کا تعین کیا اور یہ کردار معاشرہ کا مستقل فیچر بن گیا۔

وہ آگے جاکر لکھتے ہیں کہ جنرل ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی ہونے والی اصلاحات سے جاگیردارنہ نظام Feudalismکی معاشی اور سماجی طاقت کو توڑ نہیں سکا۔ اسی طرح کچھ عرصے تک قبائلی نظام برقرار رہا۔ مگر ملک کے کچھ حصوں میں وقت گزرنے کے ساتھ قبائلی اور جاگیردارانہ نظام کمزور بھی ہوا، البتہ جاگیرداروں کا طبقہ سماجی طور پر معتبر ہی رہا۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ برطانوی سرمایہ دارانہ طبقہ جو تاجروں، بینکروں اور صنعت کاروں پر مشتمل تھا، نے ہی ہندوستان میں جاگیرداری کو ادارہ جاتی شکل میں قائم کیا۔

اس کے ساتھ ساتھ متوسط طبقہ ، جو تعلیم یافتہ تھا اور تعلیم کی طرف راغب تھا، نے سرکاری ملازمتیں کرنا شروع کردی تھیں۔ اس متوسط طبقے کا سارا انحصار نوآبادیاتی نظام پر تھا۔ ڈاکٹر جعفر احمد اس باب میں مزید لکھتے ہیں کہ نوآبادیاتی نظام سے پہلے آزاد ملک میں تبدیل ہونے کے لیے سب سے اہم گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس قانون کو نئی ریاست کے عبوری آئین کے طور پر قبول کیا گیا۔ اور پھر 1956 میں آئین تیار کیا گیا۔ یہ آئین آسانی سے تیار نہیں ہوا بلکہ پورے سال اس آئین کی تیاری پر صرف ہوئے مگر یہ آئین ایک مشکل سمجھوتہ تھا۔ یہ آئین صرف ڈھائی سال تک ہی نافذ رہا۔

1958میں مارشل لاء لگ گیا اور ملک سے Pseudo-Parliamentry نظام رخصت ہوا۔ جنرل ایوب خان نے اپنی ضروریات کے مطابق 1962میں ایک آئین نافذ کیا۔ مصنف نے کتاب کے پہلے باب میں لکھا ہے کہ جب پاکستان قائم ہوا تو پاکستان میں چار صوبے صوبہ سرحد، پنجاب، مشرقی بنگال (1956 کے آئین کے نفاذ کے بعد مشرقی بنگال مشرقی پاکستان کہلایا) اور ریاستیں بہاولپور، قلات، مکران، لسبیلہ، خاران، دیر، خیرپور، سوات اور چترال شامل تھیں۔ برطانوی بلوچستان اور کراچی، جو وفاقی دارالحکومت مقرر ہوا، بھی نئی ریاست کا حصہ تھے۔ 1962 میں دارالحکومت کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا گیا۔ بلوچستان کو مکمل صوبہ کا درجہ دیا گیا۔

 1971 میں بنگلہ دیش بننے کے بعد پاکستان چار صوبوں پر مشتمل ہوگیا۔ ان صوبوں کی حدود کا تعین برطانوی دور میں ہوا تھا۔ ڈاکٹر جعفر نے اس باب میں ایک تاریخی حقیقت بیان کی ہے کہ 1857 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ہندوستانی مسلمان جیوپولیٹیکل نیوکلس Geopolitical Nucles یوپی، بہار اور بمبئی سے مسلمان اکثریت والے صوبوں پنجاب اور بنگال میں منتقل ہوگیا تھا۔ وہ آگے جاکر لکھتے ہیں کہ پاکستان کے قیام کا مطالبہ محض مذہبی مطالبہ نہیں تھا بلکہ یہ یقین دہانی تھی کہ پاکستان ایک وفاق ہوگا جہاں صوبوں کو زیادہ خود مختاری حاصل ہوگی اور بیرسٹر محمد علی جناح نے بار بار اس کی یقین دہانی کرائی تھی۔

وہ لکھتے ہیں کہ بیرسٹر محمد علی جناح نے 11 اگست 1947 کو نئی آئین ساز اسمبلی کے اجلاس کے دوسرے دن اپنی اساسی تقریر میں مسلمانوں اور ہندوؤں کے لیے قوم کے بجائے برادری Communitiesکی اصطلاح استعمال کی تھی۔ مصنف نے کتاب کے دوسرے باب میں جاگیردارانہ طبقہ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ مسلمان جاگیرداروں کی اکثریت کا تعلق مسلمان اکثریتی صوبوں پنجاب، سندھ اور صوبہ سرحد سے تھا۔ وہ لکھتے ہیں کہ یہ مسلمان جن صوبوں میں اقلیت میں تھے ان صوبوں میں مسلمانوں میں تنخواہ یافتہ متوسط طبقہ سے تعلق رکھنے والے افراد زیادہ متحرک تھے۔

مصنف کا کہنا ہے کہ مشرقی بنگال میں جاگیرداروں کے علاوہ متوسط طبقہ زیادہ متحرک تھا اور یہ طبقہ پاکستان کے قیام کا پرجوش حامی تھا۔ انڈیپنڈنٹ ایکٹ 1947 جس کے تحت نئی ریاستوں کا قیام عمل میں آیا اس ایکٹ کی دفعہ 9 میں ترمیم کر کے گورنر جنرل کے اختیارات میں 6 ماہ کے لیے توسیع کردی گئی تھی، پھر ان اختیارات میں مزید ایک سال 31 مارچ 1949 تک توسیع کردی گئی، پھر جولائی 1948 میں 1935 کے ایکٹ میں ایک اور ترمیم کر کے گورنر جنرل کو کسی بھی صوبہ میں ایمرجنسی کی صورتحال پیدا ہونے پر اپنی مشینری کو معطل کرنے کا اختیار حاصل ہوگیا تھا۔

مصنف نے پاکستان کے قیام کے پہلے 4 برسوں کا تجزیہ کرتے ہوئے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ بیوروکریسی کی طاقت کو مزید مضبوط کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے گئے۔ ایک مضبوط سیکریٹریٹ قائم کیا گیا اور سینئر بیوروکریٹ چوہدری محمد علی کو پہلا سیکریٹری جنرل مقرر کیا گیا اور انھیں وسیع اختیارات سونپے گئے۔ چوہدری محمد علی کی سفارشات کی بناء پر صوبائی کیڈرز کو ختم کیا گیا اور یونیفائیڈ سول سروس کا نظام قائم کیا گیا۔ اسی طرح بیوروکریسی پہلے سے اس بات پر متفق تھی کہ ملک کا نظام کون اور کیسے چلائے گا۔

ڈاکٹر جعفر احمد نے ایوب خان حکومت کی ناکامیوں کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ایوب خان ایڈمنسٹریٹو اسٹیٹ Administrative State 10 سال سے زیادہ عرصہ چل نہیں پائی اور 1969 میں عوامی تحریک کے نتیجہ میں جنرل ایوب خان کو اقتدار چھوڑنا پڑا اور انھوں نے فوج کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان کو اقتدار منتقل کیا اور ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور کسی اور نے نہیں بلکہ جنرل ایوب خان نے ہی اقتدار سے محروم ہوتے ہوئے اپنا بنایا ہوا آئین منسوخ کردیا۔

ایوب خان حکومت کا زوال اس وقت ہوا جب ان کی حکومت اقتدار کے 10 سال پورے ہونے پر جشن منارہی تھی کہ عوامی تحریک ان کے خلاف شروع ہوگئی۔ جب ایوب خان کا اقتدار غروب ہو رہا تھا تو صدر ایوب خان نے اپنی حکومت کی ناکامیوں کے بارے میں رپورٹ تیار کرنے کے لیے ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ اس کمیٹی میں پلاننگ کمیشن کے ڈپٹی چیئرمین، صدر کے پرنسپل سیکریٹری، وزارت اطلاعات کے سیکریٹری اور وزارت خزانہ کے سیکریٹری شامل تھے۔

اس کمیٹی نے جنوری 1969 میں صدر ایوب خان کو رپورٹ پیش کی۔ اس رپورٹ میں حکومت کی کئی ناکامیوں کی نشاندہی کی گئی تھی۔ اس کمیٹی کی رپورٹ میں ایوب خان حکومت کی خامیوں میں ایک سنگین معاملہ کرپشن کا تھا اور کمیٹی نے لکھا تھا کہ عوامی احتجاج کا ایک بڑا سبب کرپشن کا مسئلہ تھا۔ اس کمیٹی کے ایک رکن اس وقت کے سیکریٹری اطلاعات الطاف گوہر نے کمیٹی کی اس اہم بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ ایک کمزور سیاسی حمایت کی بناء پر طاقتور بیوروکریسی ہر طرف چھاگئی تھی۔ مصنف کا کہنا ہے کہ ایوب حکومت کی ناکامی ان کے قائم کردہ پورے نظام کی ناکامی تھی۔ اگرچہ سپریم کورٹ نے ایوب خان کے اقتدار پر قبضہ کو آئینی جواز فراہم کیا تھا مگر عوام نے کبھی بھی ایوب خان کی حکومت کی قانونی حیثیت کو تسلیم نہیں کیا۔

جو قارئین یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ہمارے سیاسی ادارے کمزور کیوں ہیں، آئینی عمل متنازع کیوں ہے اور جمہوریت کو بار بار زک کیوں پہنچائی جاتی ہے، ان کے لیے یہ کتاب نہایت اہم اور بصیرت افروز ہے۔ ڈاکٹر جعفر نے تحقیقی دیانت، نظریاتی وضاحت اور سادہ زبان کے امتزاج سے ایک ایسا مطالعہ پیش کیا ہے جو ملک کے حال اور مستقبل کی تفہیم میں مدد دیتا ہے، اگر آپ پاکستان کے سیاسی سفر کو گہرائی سے سمجھنا چاہتے ہیں تو یہ کتاب آپ کے پاس ضرور ہونی چاہیے۔ سیاست کے اساتذہ، طالب علموں اور حالاتِ حاضرہ پر تبصرہ کرنے والے صحافیوں کے لیے یہ ایک انتہائی معلومات کتاب ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پاکستان کے قیام ڈاکٹر جعفر احمد جنرل ایوب خان ڈاکٹر جعفر نے لکھا ہے کہ کرنے والے محمد علی حکومت کی اس کمیٹی کیا گیا ملک میں میں ایک قائم کی گیا اور کے لیے

پڑھیں:

قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کا پاک افواج کو خراج تحسین

قائد حزب اختلاف قومی اسمبلی عمر ایوب خان نے جنوبی وزیرستان میں دہشتگردوں کے خلاف فورسز کی بڑی کارروائی میں 11 دہشتگردوں کی ہلاکت پر پاک افواج کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ میجر معیز عباس شاہ کی قربانی نہ صرف ان کی ذاتی بہادری کی نشانی ہے بلکہ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان کے بیٹے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتے۔ عمر ایوب خان نے میجر معیز شہید کو خراجِ تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ “میجر معیز شہید جیسے بہادر سپوتوں کو پوری قوم کا سلام ہے۔”

انہوں نے لانس نائیک جبران کی شہادت پر بھی افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ “شہید کی جو موت ہے، وہ قوم کی حیات ہے۔” عمر ایوب خان نے میجر معیز عباس شاہ کے اہل خانہ کے لیے دعا کرتے ہوئے کہا کہ “اللہ تعالیٰ میجر معیز شہید کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے اور ان کے اہل خانہ کو صبر جمیل دے۔”

عمر ایوب خان نے اپنے پیغام میں مزید کہا کہ “ہم اپنے بہادر فوجیوں کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اپنی جانوں کی قربانی دے کر پاکستان کی سرحدوں کو محفوظ بنایا۔ ان کی قربانیاں ہمیشہ تاریخ کا حصہ رہیں گی۔”

Post Views: 6

متعلقہ مضامین

  • ہم کیا کریں دھاوا بولیں، بغاوت کریں؟ عمر ایوب
  • پاکستان اور انڈونیشیا میں صحت کے شعبے میں اشتراک، ویکسین کی مقامی پیداوار پر پیش رفت متوقع
  • ایران اسرائیل جنگ بندی عالمی امن کی طرف تاریخی قدم ہے، ڈاکٹر شوکت علی شیخ
  • فارمی جانوروں کے حقوق پر پہلی قومی کانفرنس: نرمی، رحم اور قانون سازی پر زور
  • ایکسکلیوسیو انٹرویوز جون 2025
  • قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان کا پاک افواج کو خراج تحسین
  • جنگی اخراجات کا بجٹ بڑھنا چاہیے، عمر ایوب
  • ڈاکٹر محمد امجد’’پاکستان چائنہ بزنس ڈویلپمنٹ کمیٹی ‘‘کے کنوینر مقرر
  • قومی اسمبلی میں جمشید دستی کا پی ٹی آئی قیادت کو سجدہ، اصل بات کیا ہے؟