بھارت میں علمی تحقیق اور سائنس کی ترقی کے دعوے مودی سرکار کی تقاریر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس بدحالی اور مالی بحران کی عکاسی کررہی ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سائنسی تحقیق اور ترقی کےلیے مخصوص حکومتی اسکیم ’’وِگیان دھارا‘‘ محض ایک سیاسی ڈراما ہے۔

بھارتی حکومت کی INSPIRE اسکیم کے تحت محققین گزشتہ 9 ماہ سے وظائف سے محروم ہیں جس کے باعث کئی محققین قرض لینے یا تحقیق چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔

الجزیرہ کے مطابق تحقیق کےلیے 70 فیصد بجٹ نجی اداروں کو سود سے پاک قرضوں کی شکل میں بانٹ دیا گیا، جبکہ INSPIRE جیسے تحقیقی منصوبوں پر 22 فیصد بجٹ کٹوتی کردی گئی۔ وِگیان دھارا کی آڑ میں اصل کٹوتیوں کو عوام سے چھپایا گیا۔

نئی اسکیم وِگیان دھارا نے وظائف کی ادائیگی کو بحران اور بدنظمی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، اور حکومتی فنڈز کی عدم ادائیگی کے باعث محققین لیپ ٹاپ تک خریدنے سے قاصر ہیں اور ان کی بچتیں بھی ختم ہوچکی ہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارتی IITs اور IISERs کے محققین بیوروکریسی کی بے حسی، مبہم جوابات اور حکومتی نظراندازی کا شکار ہیں، اور محققین تین سے نو ماہ تک بغیر کسی وظیفے کے گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ وِگیان دھارا کے بجٹ میں 67.

5 فیصد کمی کی گئی ہے، جو 2016-17 کے 43.89 ارب روپے سے کم ہو کر 2025-26 میں محض 14.25 ارب روپے رہ گیا ہے۔

الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویوز میں بھارتی محققین نے شکایات کرتے ہوئے کہا کہ ’’وظیفہ نہ ملنے کے خدشے پر سالانہ کانفرنس میں شرکت نہیں کرسکا۔‘‘

ایک فیکلٹی فیلو نے بتایا کہ ستمبر 2024 سے اب تک انہیں ادائیگیاں موصول نہیں ہوئیں جس سے ان کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا کہ ’’ہم نے بار بار کالز اور ای میلز کیں، لیکن اکثر کا کوئی جواب نہیں آیا یا صرف مبہم اور بعض اوقات بدتمیز جوابات ملے۔‘‘

ایک اور اسکالر نے کہا کہ ’’سرکاری بے حسی نے سائنسدانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، کوئی سننے والا نہیں۔‘‘

یہ صورتحال بھارت میں سائنس، تحقیق اور نوجوان محققین کے مستقبل پر ایک سنگین سوالیہ نشان لگا رہی ہے اور مودی سرکار کے آتم نربھر اور وِگیان دھارا کے دعوے زمینی حقائق سے یکسر مختلف ثابت ہو رہے ہیں۔

 

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: گیان دھارا

پڑھیں:

ہچکولے کھاتی معیشت کے استحکام کے دعوے!

وزیراعظم محمد شہباز شریف نے گزشتہ روز لندن میں سمندر پار پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دو تین سال پہلے معیشت ہچکولے کھا رہی تھی۔

اب معیشت مستحکم ہو رہی ہے۔ معیشت کی ترقی کا وقت آچکا ہے ملکی معیشت مشترکہ کاوشوں کی وجہ سے نہ صرف مستحکم ہوئی بلکہ اب درست سمت پر گامزن ہے۔اور یہ بہترین ٹیم ورک کا نتیجہ ہے۔ اس کی بہتری میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کا اہم کردار ہے۔

ہم نے معاشی استحکام حاصل کر لیا ہے، اب ملک معاشی ترقی کی طرف بڑھے گا۔ایک طرف وزیراعظم معیشت کے استحکام کے دعوے کررہے ہیں دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ ا س وقت آئی ایم ایف کا وفد پاکستان میں موجود ہے جس کے ساتھ 7؍ ارب ڈالر قرض کے موجودہ پروگرام کے دوسرے جائزے کے سلسلے میں مذاکرات جاری ہیں اور کلائمیٹ فنانسنگ کے پہلے جائزے پر مذاکرات بھی شیڈول کا حصہ ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ پاکستان کے کلائمیٹ فنانسنگ پروگرام کے تحت مذاکرات کے دوران آئی ایم ایف کی شرط پر کلائمیٹ بجٹ کے لیے نیا طریقہ کار طے کیا گیا ہے اورئی ایم ایف کی شرائط کے تحت پیڑول اور ڈیزل کے فی لیٹر پر ڈھائی، ڈھائی روپے کلائمیٹ سپورٹ لیوی عائد کردی گئی ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف آئندہ 2 سال میں کلائمیٹ فنانسنگ پروگرام کے تحت پاکستان کو کم وبیش ایک ارب 30کروڑ ڈالرز فنڈز دے گا۔ جبکہ اطلاعات کے مطابق صورت حال یہ ہے کہ حالیہ قرضہ پروگرام کے سلسلے میں آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے معاملات اب ایسی سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں عام پاکستانی ملک کی سالمیت اور خود مختاری کے بارے میں بجا طور پر فکر مند دکھائی دیتے ہیں کیونکہ حکومت نے عالمی ساہوکار کو ہر اہم اور غیر اہم ادارے اور محکمے کے معاملات میں دخل اندازی کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے۔ تیل کی قیمتوں کا تعین بھی آئی ایم ایف کرتا ہے اور یہ بھی آئی ایم ایف بتاتا ہے کہ بجلی کتنے روپے فی یونٹ دی جائے گی۔ ا سٹیٹ بینک کے معاملات بھی آئی ایم ایف کی نگرانی میں چل رہے ہیں اور مختلف اداروں کی نجکاری بھی اسی کے ایما پر ہو رہی ہے۔ اگر ان سارے معاملات کا اختیار ایک غیر ملکی ادارے کو سونپ کر حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ ملک کو ترقی اور استحکام کی طرف لے کر جا رہی ہے تو یہ اس کی خام خیالی نہیں تو کیاہے۔

یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ آئی ایم ایف پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے لیے اس کی مدد نہیں کر رہا بلکہ وہ گزرتے وقت کے ساتھ اس پر اپنا شکنجہ مزید کستا جا رہا ہے۔وزیراعظم اگر سمجھتے ہیں کہ اس طرح کی صورت حال میں عوام کو معیشت کے استحکام کی نوید سنا کر وہ لوگوں کو مطمئن کرسکتے ہیں تو یہ ان کی بھول ہے کیونکہ عام آدمی دیکھ رہاہے کہ ملک میں حکمرانوں اور ان کے مقرب اشرافیہ کے سوا کسی کی حالت میں بہتری نہیں ہے بلکہ اس کے برعکس آج ہر شخص پہلے سے کہیں زیادہ پریشان ہے اور یہ پریشانی لوگوں کے دلوں میں لاوے کے طرح پک رہی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ کر باہر آسکتی ہے۔وزیراعظم اور ان کے معاونین کی سمجھ میں یہ بات آخر کیوں نہیں آتی کہبار بار آئی ایم ایف کے در پر کشکول لے کر جانے کی بجائے حکومت کو ایسی پالیسیاں بنانی چاہئیں جن کے ذریعے ملک خود کفالت کی طرف جائے۔ پاکستان کے پاس چین کے علاوہ مشرقِ وسطیٰ اور وسط ایشیا کے ممالک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے بہت وسیع مواقع موجود ہیں جن پر سنجیدگی سے توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ اس سلسلے میں دوست ممالک کے ساتھ جامع مشاورتی عمل شروع کرے اور اس بات کا جائزہ لے کہ کس ملک کے ساتھ تجارت اور سرمایہ کاری کے سلسلے میں کیا لائحہ عمل اختیار کرنا چاہیے۔ اگر پاکستان اس طرف توجہ دے تو چند ہی برس میں وہ اس قابل ہوسکتا ہے کہ وہ نہ صرف آئی ایم ایف کا پچھلا قرضہ اتار دے بلکہ آئندہ اسے کبھی اس کی طرف جانے کی ضرورت بھی پیش نہ آئے لیکن اس حوالے سے بنیادی شرط یہ ہے کہ حکمران ذاتی اور گروہی مفادات سے اوپر اٹھ کر ریاست اور عوام کے بارے میں سوچیں اور خلوصِ نیت کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھائیں۔

وزیراعظم اس بات سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ ان کی جانب سے معیشت کے استحکام کے دعووں کے برعکس ملک پر قرضوں کے بوجھ میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہاہے جس کا اندازہ وزارت خزانہ کی رپورٹ سے لگایا جاسکتاہے جس کے مطابق صرف گزشتہ 3سال کے دوران سرکاری قرضہ 31 ہزار 200 ارب روپے بڑھ گیا ہے۔سرکاری قرضے میں گزشتہ 9 سال کے دوران 300 فیصد سے زائد یعنی 60 ہزار 800 ارب روپے کے اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔جون 2018 سے جون 2022 تک سرکاری قرضے میں 24 ہزار 900 ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ ہواہے ، جون 2025 تک مجموعی قرضے کا حجم 80 ہزار 500 ارب رہا یعنی قرضوں میں 60 ہزار 800 ارب روپے کا اضافہ، وفاقی وزارت خزانہ کی رپورٹ میں قرضوں میں اضافے کی جو تفصیلات سامنے آئی ہیں ان کے مطابق گزشتہ 9 سال کے دوران 300 فیصد اضافے کا انکشاف ہوا ہے۔ جون 2018 سے جون 2022 تک سرکاری قرضے میں 24ہزار 900ارب روپے کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ جون 2025 تک مجموعی سرکاری قرضے کا حجم 80 ہزار 500 ا رب روپے رہا۔ اس میں مقامی سرکاری قرضہ 54ہزار 500ارب اور غیرملکی قرضہ 26 ہزار ارب روپے تھا۔وزارت خزانہ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ جون 2016 تک مجموعی سرکاری قرضہ 19 ہزار 700 ارب روپے تھا۔یہ رپورٹ خود حکومت کے ایک مقتدر ادارے کی ہے جس کو جھٹلایا نہیں جاسکتا اب سوال یہ پیداہوتاہے کہ وزارت خزانہ کے جاری کردہ ان اعدادوشمار کے ہوتے ہوئے کیا وزیر اعظم کا یہ کہنا درست ہے کہ معیشت ترقی کررہی ہے ۔ وزیراعظم کو چاہئے کہ وہ عوام کو خیالوں کی دنیا سے باہر لاکرجرات سے کام لیتے ہوئے حقائق سے آگاہ کریں ،وزیراعظم کو یہ معلوم ہونا چاہئے کہ فی کس آمدنی ایک عدد ہے، جو صرف کاغذ پر موجود ہوتا ہے۔ مگر ایک بچہ جو صاف ہوا میں سانس لے، ایک ماں جو کینسر سے بچ جائے، ایک شہر جس میں صاف پانی اور محفوظ سڑکیں ہوں یہی اصل انسانی ترقی ہے۔ وزیراعظم اس بات سے ناواقف نہیں ہوں گے کہ عالمی بینک نے حال ہی میں غربت اور عدم مساوات پر جو رپورٹ جاری کی ہے اس میں ہوش ربا اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں۔اس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ 3 برسوں میں غربت میں 7 فیصد اضافہ ہوا ہے اور مالی سال 2024 میں یہ 25.3 فیصد تک پہنچ گئی ہے۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ پے در پے آنے والی حکومتوں کی کبھی بھی ترجیح غربت اور عدم مساوات کو کم کرنا نہیں رہی ۔حکومت کا غیر ملکی سرمایہ کاری (FDI) کو راغب کرنے کے لیے قابلِ سرمایہ کاری منصوبوں کی تلاش کا نعرہ بنیادی طور پر غلط ہے۔ یہ وہی غلطی ہے جو بار بار دہرائی جا رہی ہے۔ حکومت کا اصل کام براہِ راست سرمایہ کاری کی تلاش نہیں بلکہ ایسا ماحول پیدا کرنا ہے جو سرمایہ کاری کے لیے سازگار ہو اور عوام کو ایسے مواقع فراہم کرنا ہے جس سے ترقی کو فروغ ملے اور سرمایہ کاروں کے لیے ایک مضبوط صارف مارکیٹ وجود میں آئے۔اس وقت حکومت کی تمام تر توجہ اس بات پر ہونی چاہیے کہ لوگوں کو غربت سے کیسے نکالا جائے۔ عالمی بینک اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کی رپورٹوں سے ظاہرہوتاہے کہ اس وقت ملک کی تقریباً نصف آبادی کو مکمل معاشی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اس صورت حال سے نکلنے کیلئے حکومت کو اپنی توانائی اس جانب صرف کرنی چاہیے کہ 15 سے 24 برس کی عمر کے 37 فیصد بے کار نوجوانوں کو روزگار یا تربیت فراہم کی جائے۔توجہ کا فقدان واضح ہے۔ حکومت کی ترجیح سرخیوں میں آنا اور سرمایہ کاری کے لیے خارجہ پالیسی کے فوائد کو استعمال کرنا لگتا ہے۔ لیکن مارکیٹ پر مبنی، کارکردگی تلاش کرنے والی سرمایہ کاری اس طرح نہیں آتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کو کچھ مالی ذخائر بطور تحفہ مالی معاونت میں مل جائیں۔ ایسی صورت میں پیدا ہونے والی لیکویڈیٹی کو غربت کم کرنے، بالخصوص دیہی علاقوں میں (جہاں غربت کی شرح 28.2 فیصد ہے جو شہری علاقوں کی نسبت دگنی سے بھی زیادہ ہے)، پر خرچ کیا جانا چاہیے۔

گندم کی امدادی قیمت ختم کرنے کے بعد صوبائی حکومتوں کے رویے نے چھوٹے کسانوں کی آمدنی کو خاصا نقصان پہنچایا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات بھی دیہی علاقوں میں زیادہ سنگین ہیں، جہاں گزشتہ برسوں میں آنے والے سیلاب نہ صرف فصلوں بلکہ مویشیوں کی صورت میں اثاثے بھی تباہ کر گئے ہیں۔

حکومت کو چاہیے کہ فنڈز اس جانب منتقل کرے اور ایسا ڈھانچہ تعمیر کرنے کے لیے تعاون حاصل کرے جو موسمیاتی آفات کے مقابلے میں لچکدار ہو۔عالمی بینک کی رپورٹ کا ایک اور تشویشناک پہلو شہروں کی تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی (informal urbanisation) ہے، جو نئے مسائل کو جنم دے گی۔ حکومت کو شہری منصوبہ بندی پر توجہ دینی چاہیے اور ساتھ ہی دیہی علاقوں میں معاشی و معاشرتی حالات کو بہتر بنانا چاہیے۔ معاشی پالیسیوں میں معیشت میں باضابطگی بڑھانے پر زور دینا چاہیے، کیونکہ 85 فیصد ملازمتیں غیر رسمی شعبے میں ہیں۔ ان کارکنوں کے پاس نہ پنشن ہے، نہ طبی سہولتیں اور نہ ہی دیگر مراعات، جس کی وجہ سے وہ کسی بھی جھٹکے کے وقت نہایت کمزور ہو جاتے ہیں۔ حکومت کو یہ یقینی بنانا چاہیے کہ ملازمین کو ان کے حقوق ملیں، تاکہ وہ مزید حوصلہ افزائی پائیں اور اپنی صلاحیتوں میں اضافہ کر سکیں۔ غربت کے خاتمے اور ایک متحرک متوسط طبقے کے قیام کے لیے تعلیم، غذائیت اور ماحول میں سرمایہ کاری نہایت ضروری ہے۔ تقریباً 40 فیصد بچے نشوونما کی کمی (stunting) کا شکار ہیں، 25 فیصد بچے اسکول سے باہر ہیں اور پرائمری تعلیم حاصل کرنے والے 75 فیصد بچے ایک عام کہانی تک نہیں پڑھ سکتے۔ تعلیم کو سب سے بڑی ترجیح بنانا ہوگی۔مجموعی طور پر، بہتر جغرافیائی و سیاسی حیثیت کے جشن منانے کا وقت نہیں ہے۔ خود اطمینانی کی کوئی گنجائش نہیں۔ اصلاحات کا عمل، جو اس وقت کمزور ہے، اسے مضبوط بنانا ہوگا۔ مشکل فیصلے درکار ہیں۔ اگر کوئی حقیقی پیش رفت ہوگی تو دنیا اسے خود تسلیم کرے گی اور سرمایہ کاری اس کے نتیجے میں آئے گی۔عالمی بینک نے پاکستان میں غربت و افلاس کے حوالے سے اپنی حالیہ ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ترقی کا موجودہ ماڈل 2018 سے 2025 کے دوران غربت و افلاس کی سطح پر فرق ڈالنے میں ناکام رہا ہے۔بین الاقوامی پاورٹی انڈیکس کے مطابق پاکستان میں غربت 45 فی صد پر کھڑی ہے، قومی زراعت سکڑ رہی ہے، تعمیرات میں اجرتیں کم، قرضے اور خسارے بڑھ رہے ہیں، سرمایہ کاری کمزور ہے، سیاسی عدم استحکام
کاروبار کو تباہ کر رہا ہے، غریبوں کو نوکریاں نہیں مل رہی ہیں اور لاکھوں نوجوان بیرون ملک جانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ طاقتور اشرافیہ پالیسیوں کو اپنے فائدے کے لیے موڑتی ہے اور مقامی حکومتوں کی ناقص ٹیکس پالیسی کا بوجھ زیادہ تر نچلے طبقے پر ڈالا جاتا ہے۔ورلڈ بینک کے چیف اکانومسٹ کے مطابق غربت کا خاتمہ مختلف عوامل پر مشتمل ہوتا ہے، جس میں میکرو اکنامک استحکام، افراط زر میں کمی، آمدنی میں اضافہ اور ملک کی معیشت کو کھولنا شامل ہے۔

عالمی بینک کی یہ رپورٹ ملک کی مجموعی معاشی صورت حال، عوام کی حالت زار اور سیاسی عدم استحکام کے حوالے سے نہایت اہمیت کی حامل اور سنجیدہ غور و فکر کی متقاضی ہے۔ موجودہ حکومت کے ارباب اختیار اور ان کے وزراء تواتر کے ساتھ ملک کی معیشت بہتر ہونے اور غربت میں کمی اور مہنگائی و گرانی نیچے آنے کے دعوے کر رہے ہیں۔ ملک میں سیاسی استحکام اور نظام حکومت کی مضبوطی کی دلیلیں دی جا رہی ہیں۔ جب کہ زمینی حقیقت اس کے برعکس ہے جس کی ایک جھلک عالمی بینک کی مذکورہ رپورٹ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ کیا قرضوں میں جکڑی ہوئی معیشت کو مستحکم قرار دیا جا سکتا ہے؟ ملک میں غربت و بے روزگاری اور مہنگائی میں برق رفتاری سے اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان ڈگریاں لے کر نوکری کی تلاش میں سرگرداں و پریشان گھوم رہے ہیں۔ روزگار کے مواقعوں کی عدم دستیابی کے باعث پڑھے لکھے نوجوان چار و ناچار بیرون ملک جانے کو ترجیح دے رہے ہیں۔ پالیسی سازوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ ملک کی نصف کے قریب آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو چکی ہے۔ بدقسمتی سے اس تعداد میں بڑی تیزی سے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت کا مہنگائی پر کوئی کنٹرول نظر نہیں آتا، روزمرہ استعمال کی اشیا کی قیمتیں بڑھ کر عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ آٹا اور چینی جیسی اہم اور بنیادی اشیا عوام کو سرکاری نرخوں پر دستیاب نہیں ہیں۔ملک کے چاروں صوبوں میں آٹے اور چینی کی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں صوبائی حکومتیں ناکام نظر آتی ہیں جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو رہا ہے ایسے تلخ زمینی حقائق کی روشنی میں حکومت کے سیاسی، معاشی اور عدالتی استحکام کے دعوؤں کی کیا حقیقت رہ جاتی ہے۔
٭٭٭

متعلقہ مضامین

  • اگر دوبارہ کوشش کی تو اسکور 0-6 سے کہیں زیادہ بہتر ہو گا، خواجہ آصف
  • شرمناک رویہ
  • معرکہ حق میں شکست کے باوجود مودی سرکار کی افواج میں جارحیت کا سلسلہ جاری
  • آر ایس ایس کے نظریے پر چلنےوالی بی جے پی سرکار میں مسلمانوں کے مذہبی مقامات غیر محفوظ
  • ٹرمپ کی پالیسیوں سے امریکا سائنس میں عالمی برتری کھو سکتا ہے
  • اکشے کمار کی بیٹی کیساتھ نازیبا حرکت؛ اداکار کی مودی سرکار سے مدد کی اپیل
  • مودی سرکار نے ویمنز ورلڈ کپ کو بھی نشانے پر رکھ لیا ،بھارت کا کرکٹ سے کھلواڑ جاری
  • ٹرمپ کی پالیسیز سے امریکا سائنس میں عالمی برتری کھو سکتا ہے، نوبل حکام کا انتباہ
  • سکھوں کی عالمی سطح پر  ٹارگٹ کلنگ میں ملوث فاشسٹ مودی سرکار کا دہشتگرد نیٹ ورک بے نقاب
  • ہچکولے کھاتی معیشت کے استحکام کے دعوے!