بھارت میں سائنسی تحقیق کا بحران: مودی سرکار کے دعوے صرف تقاریر تک محدود
اشاعت کی تاریخ: 28th, June 2025 GMT
بھارت میں علمی تحقیق اور سائنس کی ترقی کے دعوے مودی سرکار کی تقاریر تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں جبکہ زمینی حقیقت اس کے برعکس بدحالی اور مالی بحران کی عکاسی کررہی ہے۔
الجزیرہ کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سائنسی تحقیق اور ترقی کےلیے مخصوص حکومتی اسکیم ’’وِگیان دھارا‘‘ محض ایک سیاسی ڈراما ہے۔
بھارتی حکومت کی INSPIRE اسکیم کے تحت محققین گزشتہ 9 ماہ سے وظائف سے محروم ہیں جس کے باعث کئی محققین قرض لینے یا تحقیق چھوڑنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
الجزیرہ کے مطابق تحقیق کےلیے 70 فیصد بجٹ نجی اداروں کو سود سے پاک قرضوں کی شکل میں بانٹ دیا گیا، جبکہ INSPIRE جیسے تحقیقی منصوبوں پر 22 فیصد بجٹ کٹوتی کردی گئی۔ وِگیان دھارا کی آڑ میں اصل کٹوتیوں کو عوام سے چھپایا گیا۔
نئی اسکیم وِگیان دھارا نے وظائف کی ادائیگی کو بحران اور بدنظمی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے، اور حکومتی فنڈز کی عدم ادائیگی کے باعث محققین لیپ ٹاپ تک خریدنے سے قاصر ہیں اور ان کی بچتیں بھی ختم ہوچکی ہیں۔
رپورٹ کے مطابق بھارتی IITs اور IISERs کے محققین بیوروکریسی کی بے حسی، مبہم جوابات اور حکومتی نظراندازی کا شکار ہیں، اور محققین تین سے نو ماہ تک بغیر کسی وظیفے کے گزارا کرنے پر مجبور ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ وِگیان دھارا کے بجٹ میں 67.
الجزیرہ کو دیے گئے انٹرویوز میں بھارتی محققین نے شکایات کرتے ہوئے کہا کہ ’’وظیفہ نہ ملنے کے خدشے پر سالانہ کانفرنس میں شرکت نہیں کرسکا۔‘‘
ایک فیکلٹی فیلو نے بتایا کہ ستمبر 2024 سے اب تک انہیں ادائیگیاں موصول نہیں ہوئیں جس سے ان کی پیشہ ورانہ سرگرمیاں متاثر ہو رہی ہیں۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالر نے کہا کہ ’’ہم نے بار بار کالز اور ای میلز کیں، لیکن اکثر کا کوئی جواب نہیں آیا یا صرف مبہم اور بعض اوقات بدتمیز جوابات ملے۔‘‘
ایک اور اسکالر نے کہا کہ ’’سرکاری بے حسی نے سائنسدانوں کی زندگی اجیرن بنا دی ہے، کوئی سننے والا نہیں۔‘‘
یہ صورتحال بھارت میں سائنس، تحقیق اور نوجوان محققین کے مستقبل پر ایک سنگین سوالیہ نشان لگا رہی ہے اور مودی سرکار کے آتم نربھر اور وِگیان دھارا کے دعوے زمینی حقائق سے یکسر مختلف ثابت ہو رہے ہیں۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: گیان دھارا
پڑھیں:
الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کی کثرت، خواتین میں آنتوں کا کینسر بڑھنے کا انکشاف
اسلام آباد(نیوزڈیسک) حالیہ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ‘الٹرا پروسیسڈ’ غذاؤں کے متواتر استعمال سے خواتین میں آنت کے کینسر کے خطرات بڑھ سکتے ہیں۔
الٹرا پروسیسڈ فوڈز کی اصطلاح تقریباً 15 سال قبل بنائی گئی تھی، اس میں مختلف اقسام شامل ہیں جیسے براؤنڈ بریڈ کے ٹکڑے سے تیار شدہ کھانے، آئس کریم، پاپڑ، چپس، پیکجنگ میں دستیاب دہی اور دودھ جیسی غذائیں، جنہیں صنعتی پروسیسنگ سے تیار کیا جاتا ہے۔
زیادہ تر غذائیں جو فیکٹریوں، صنعتوں، ہوٹلز اور فوڈ چینز میں تیار ہوتی ہیں، انہیں الٹرا پروسیسڈ کہا جاتا ہے، ان کے استعمال کے منفی اثرات سے متعلق پہلے بھی متعدد تحقیقات میں بتایا جا چکا ہے۔
طبی ویب سائٹ پر شائع تحقیق کے مطابق الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کے زیادہ استعمال سے خواتین میں آنت کے کینسر کا خطرہ بڑھ سکتا ہے، خاص طور پر 50 سال سے زائد عمر کی خواتین میں یہ خطرہ مزید بڑھ جاتا ہے۔
تحقیق میں تقریباً 29 ہزار خواتین نرسوں کا ڈیٹا 24 سال تک جمع کیا گیا۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی خاتون روزانہ تقریباً 10 طرح کی الٹرا پروسیسڈ غذائیں کھاتی ہیں تو ان کی آنت میں کینسر کے ابتدائی پولپس (growths) پیدا ہونے کا خطرہ 45 فیصد زیادہ ہوتا ہے، بنسبت ان خواتین کے جو روزانہ صرف 3 قسم کی ایسی غذائیں کھاتی ہیں۔
یہ پولپس ایڈینوماس کہلاتے ہیں، جو بعض اوقات کینسر میں تبدیل ہو سکتے ہیں، الٹرا پروسیسڈ کھانوں کا زیادہ استعمال اس خطرے کو بڑھا سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی غذاؤں کا استعمال کم کرنا اور صحت مند متبادل استعمال کرنا آنت کے کینسر کے خطرے کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔