کراچی: واٹر ٹینکر کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار جاں بحق
اشاعت کی تاریخ: 1st, July 2025 GMT
— فائل فوٹو
کراچی کے علاقے سائٹ ایریا ولیکا چورنگی کے قریب واٹر ٹینکر کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار جاں بحق ہوگیا۔
پولیس کے مطابق سائٹ ایریاولیکا چورنگی کے قریب صبح سویرے واٹر ٹینکر کی ٹکر سے موٹرسائیکل سوار جاں بحق ہوگیا۔
پولیس کے مطابق بلدیہ،ٹائون رئیس گوٹھ میں کار اور ٹینکر میں تصادم ہوگیا، حادثے میں کار سوار 2افراد شدید زخمی ہوگئے۔
پولیس نے واٹر ٹینکر کو تحویل میں لے کر ڈرائیور کو حراست میں لے لیا۔
واٹر ٹینکر اور ڈرائیور دونوں کو سائٹ اے تھانے منتقل کیا گیا ہے۔
یاد رہے کہ رواں سال واٹر ٹینکر کی ٹکر سے جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 33 جبکہ ہیوی ٹریفک سے ہلاکتوں کی تعداد 142 ہو چکی ہے۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: واٹر ٹینکر کی ٹکر سے
پڑھیں:
کراچی کی ترقی کے لیے …
سندھ حکومت نے صوبے میں ترقیاتی منصوبوں پر وفاق کا اختیار ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت نے وفاقی ادارئہ پاکستان انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (PICDL) کو ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ وفاق کا کوئی کام صوبے میں نہ کرے۔ محکمہ بلدیات کے سیکریٹری نے کمپنی حکام کے نام ایک خط میں تحریرکیا ہے کہ کمپنی صرف ان منصوبوں تک محدود رہے جو سابقہ پاک ورکس ڈپارٹمنٹ (PWD) سے منتقل ہوئے تھے۔
وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کی صدارت میں گزشتہ دنوں ہونے والے اجلاس میں اس بات پر اتفاق پایا گیا کہ اس کمپنی کی سرگرمیاں صوبائی خود مختاری میں مداخلت ہیں۔ صوبائی سیکریٹری بلدیات کے خط میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ وفاق کی ترقیاتی کمپنی کراچی اربن انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ پیکیج اور حیدرآباد اربن انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ پیکیج جیسے صوبائی منصوبوں پر کام کر رہی ہے۔ خط میں اس حقیقت کو تسلیم کیا گیا ہے کہ یہ کام صوبائی حکومت کے فرائض میں شامل ہیں۔ صوبائی حکومت نے اس بارے میں وفاق کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب کا کہنا ہے کہ کراچی کے وسائل، کراچی کے عوام پر خرچ ہونے چاہئیں۔ کیا لاہور میں پی آئی سی ڈی ایل کام کرتی نظر آتی ہے؟ اور جب تک تمام اسٹیک ہولڈرز ایک پیج پر نہیں آئیں گے شہر ترقی نہیں کرے گا۔ صوبائی حکومت کی ایماء پر بلدیہ کراچی نے گرین لائن کے توسیعی منصوبے پر کام رکوا دیا ہے۔ یہ منصوبہ پہلے مرحلے میں سید منزل کے قریب عید گاہ پر پہنچ کر مکمل ہونا ہے، جب کہ ایک اور راستے کے ذریعے گرین لائن بس روٹ کو ٹاور تک توسیع دیدی جائے گی۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے دورِ اقتدار میں کراچی میں تعمیر ہونے والی گرین لائن چند سال قبل بڑا بورڈ سے نمائش تک مکمل ہوئی۔ ہر سال لاکھوں افراد اس گرین لائن کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اگر گرین لائن ٹاور تک پہنچ گئی تو یہ کراچی کے عوام کے لیے وفاق کا ایک بہت بڑا تحفہ ہوگا۔ اسی طرح کراچی کو پانی فراہم کرنے والا میگا پروجیکٹ ’’کے فور‘‘ گزشتہ دو دہائیوں سے نامکمل ہے۔ اب وفاق کی مدد سے اس منصوبے کے مکمل ہونے کے امکانات ہیں مگر وفاق نے اس بار منصوبے کے لیے تخمینے سے کم رقم مختص کی ہے جس کی بناء پر اس منصوبے کے کام میں رکاوٹ پیدا ہونے کے خاصے امکانات ہیں۔
دراصل قصہ کچھ یوں ہے کہ پیپلز پارٹی کے سندھ میں اقتدارکو اس بار 15سال ہونے کو آئے ہیں، اس سے پہلے پیپلز پارٹی 1988سے 1999تک دو دفعہ اقتدار میں رہ چکی ہے مگر پیپلز پارٹی نے کراچی کی ترقی کو مکمل طور پر نظر اندازکیا۔ کراچی میں پبلک ٹرانسپورٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔
سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف نے گرین لائن کا سنگ بنیاد رکھا اور اس کی تعمیر شروع ہوئی۔ تحریک انصاف کے دور میں گرین لائن مکمل ہوئی اور کراچی کے عوام کو ایک باعزت اور آرام دہ سواری میسر آئی۔ پیپلز پارٹی کے وزراء ان 15برسوں میں بار بار یہ اعلان کرتے رہے کہ کراچی میں پانچ کے قریب بسوں کی لائن تعمیرکی جائیں گی، لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے پہلے تو یونیورسٹی روڈ کو اربوں روپے کے ٹھیکے سے دوبارہ تعمیرکیا، بعد ازاں اس سڑک کو توڑ کر ریڈ لائن کی تعمیر کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ سات سال قبل ملیرکینٹ سے نمائش تک ریڈ لائن کی تعمیرکے منصوبے کا آغاز ہوا۔ یہ منصوبہ بدترین اور ناقص منصوبہ بندی کا شکار ہوا۔ اب بھی وزراء اور میئر ریڈ لائن کی تکمیل کی حتمی تاریخ دینے کو تیار نہیں ہیں۔
میئرکراچی نے کہا کہ اگلے دو تین برسوں میں یہ منصوبہ مکمل ہوگا۔ ریڈ لائن کی تعمیر کے آغازکے ساتھ متبادل سڑکیں تعمیرکی گئیں اور نہ ہی ریڈ لائن کا نقشہ تیار کرتے ہوئے اس علاقے کا مکمل طور پر سروے کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ سات سال بعد میئر صاحب کہتے ہیں کہ بجلی،گیس، سیوریج اور ٹیلی فون کی لائنوں کی منتقلی کے مسائل ہیں۔ سول انجیئنرنگ کے طالب علم کہتے ہیں کہ عام مستری بھی اس بات سے آگاہ ہیں کہ ریڈ لائن کی تعمیرکی زمین پر بجلی،گیس، سیوریج اور ٹیلی فون کی لائنیں موجود ہیں۔ ان لائنوں کو ہٹانے کے لیے بہت پہلے منصوبہ بندی ہوتی ہے۔
بعض تجربہ کار انجینئروں کا کہنا ہے کہ اس منصوبے میں کام کرنے والے انجنیئر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سارا فن اس لائن کی تعمیرکے دوران ہی سیکھ رہے ہیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ڈالرکی قیمتوں کے بڑھنے سے ٹھیکیداروں کے سامان میں خریداری پر منصوبے کی تیاری کے وقت اتنی گنجائش رکھی جاتی ہے کہ قیمت بڑھنے سے ایسی صورتحال میں کام میں رکاوٹ پیدا نہ ہوا۔ دوسری جانب بلدیہ کراچی ابھی تک ڈرگ روڈ پل کے تعمیراتی نقص کو دور نہیں کرسکی ہے۔ ہر تین چار مہینے بعد یہ پل ٹریفک کے لیے بند کر دیا جاتا ہے اور مرمت کا کام شروع ہوجاتا ہے۔
ضلع وسطی میں کریم آباد انڈر پاس کا منصوبہ 2020میں شروع کیا گیا تھا مگر پانچ سال گزرنے کے باوجود یہ انڈر پاس مکمل نہیں ہوسکا۔ حکام کبھی اس التواء کی ذمے داری ٹھیکیداروں پر عائد کرتے ہیں کبھی بارشوں کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی خصوصی دلچسپی سے قیوم آباد سے شاہراہِ بھٹوکی تعمیر شروع ہوئی۔
اس شاہراہ کا ایک حصہ مکمل ہوگیا، وزیراعلیٰ مراد علی شاہ ہر ہفتے، پندرہ دن کے دوران شاہراہِ بھٹو کا دورہ کرتے ہیں۔ گزشتہ مہینہ ہونے والی بارشوں میں اس شاہراہ کا ایک حصہ بہہ گیا۔ ملیر اورگڈاپ کے سماجی کارکن شاہراہِ بھٹو کی تعمیر سے اس علاقے کے ماحول پر ہونے والے شدید منفی اثرات پر شور مچا رہے ہیں۔ ان کارکنوں کا کہنا ہے کہ شاہراہِ بھٹو کی تعمیر سے گڈاپ کا زرعی علاقہ ختم ہوجائے گا۔ سردیوں میں سائبیریا سے آنے والے پرندے اس علاقے میں آنے سے گریزکریں گے۔ بارشوں سے پہلے شہر کی سڑکوں کا برا حال تھا مگر بارشوں نے ہر بڑی اور چھوٹی سڑک کو تباہ کردیا۔
سندھ حکومت کو چند سال قبل خیال آیا کہ کراچی میں جدید ایئرکنڈیشنڈ بسیں چلنی چاہئیں، یوں 400 بسیں سڑکوں پر دوڑنے لگیں۔ ان میں ہائبرڈ بسیں بھی شامل ہیں جو آلودگی نہیں پھیلاتیں۔ اتنے بڑے شہر کے لیے 400 بسوں کا تحفہ مذاق ہی تھا مگر ان بسوں کی تعداد کم ہوگئی اور اب 200 بسیں چل رہی ہیں۔
ان بسوں کا کرایہ لاہور، اسلام آباد اور ملتان میں چلنے والی بسوں سے زیادہ ہے۔ پنجاب میں چلنے والی بسوں کا کم از کم کرایہ 20 روپے اورکراچی میں چلنے والی بسوں کا کم ازکم کرایہ 80 روپے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قریب اسٹاپ تک سفرکرنے والے مسافروں نے ان ایئرکنڈیشنڈ بسوں میں سفرکرنا چھوڑ دیا۔ جب 2023 میں تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کی تحریک پیش کی گئی تو اس تحریک کی کامیابی کے لیے ایم کیو ایم کے ووٹ ضروری تھے، یوں ایم کیو ایم نے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی سے علیحدہ علیحدہ معاہدے کیے۔ ان معاہدوں میں کراچی کو ترقی دینے کا مسئلہ سرفہرست تھا۔
2024کے انتخابات کے بعد پیپلز پارٹی نے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کو صدارت کے لیے نامزد کیا گیا تو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے پھر ایم کیو ایم سے علیحدہ علیحدہ معاہدے کیے۔ ایم کیو ایم نے اس معاہدے کی بناء پر آصف زرداری کی صدارتی انتخابات میں حمایت کی تھی۔ اس معاہدے کے تحت کراچی اور حیدرآباد کی ترقی کے لیے نئے پیکیجز کا اجراء شامل تھا۔ پیپلز پارٹی عمومی طور پر معاہدوں پر عملدرآمد پر یقین نہیں رکھتی، یوں پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان ہونے والے معاہدے کا ذکر نہیں ہوتا مگر مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم سے کیے گئے معاہدوں پر عملدرآمد کے لیے ایک طریقہ کار طے کیا۔
وفاقی حکومت نے ایم کیو ایم کے اراکینِ اسمبلی کی تجاویز پر حیدرآباد اورکراچی کے ترقیاتی منصوبوں کے لیے 20 ارب روپے کی رقم مختص کی اور وفاق کی ایک کمپنی کو اس کام کی تکمیل کی ذمے داری سونپی۔ حقائق سے ظاہر ہوتا ہے کہ وفاقی حکومت نے گرین لائن کا منصوبہ مکمل کیا اور پھر یہ صوبائی حکومت کو منتقل ہوگیا۔ اس بات کے امکانات بھی ہیں کہ وفاق کی ایک کمپنی مقررہ وقت پر اپنے منصوبے مکمل کر لے گی، ظاہر ہے اس صورت میں ایم کیو ایم والے ان کاموں کا کریڈٹ لیں گے، مگر اس کا حل یہ نہیں کہ وفاق کی کمپنی کو کام کرنے سے روک دیا جائے جس کا سارا بوجھ کراچی کے عوام کو برداشت کرنا پڑرہا ہے۔
کراچی کا تو انفرا اسٹرکچر اتنا کمزور ہوگیا ہے کہ 30ستمبر کی شام کو ہونے والی دوگھنٹوں کی بارش میں شاہراہِ فیصل سمیت تمام سڑکیں پانی سے بھرگئیں۔ اصولی طور پر تو سندھ حکومت کو ریڈ لائن منصوبے کی ناکامی کی تحقیقات کے لیے ہائی کورٹ کے جج سے تحقیقات کروانی چاہئیں اور جو لوگ اس ناکامی کے ذمے دار ہیں ان کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے تاکہ آیندہ سندھ حکومت کے تمام منصوبے وقت پر مکمل ہوسکیں۔ محض گرین لائن منصوبے پر کام روکنے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوگا اور یہ مسئلہ کسی طور پر بھی صوبائی خود مختاری میں مداخلت کا نہیں ہے۔ سندھ کی حکومت اس طرح کے فیصلے کر کے نئے تضادات پیدا کر رہی ہے۔