(سندھ بلڈنگ ) ماڈل کالونی میںناجائز تعمیرات کا محافظ ذوالفقار بلیدی
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
اسسٹنٹ ڈائریکٹر نے رہائشی پلاٹ 19/1اور19/2 پر کمرشل تعمیرات کی چھوٹ دے دی
کھوڑو سسٹم کے آلہ کار کو خطیر رقم وصولی کا انکشاف ، سرکاری خزانے کو محصولات کی مد میںنقصان
سندھ بلڈنگ ڈی جی اسحاق کھوڑو افسران کی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں ناکام خلاف ضابطہ بننے والی عمارتیں زمین پر موجود ملکی محصولات کو بھاری نقصان ماڈل کالونی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار بلیدی بے قابورہائشی پلاٹ نمبر 19/1+19/2 پر تجارتی مقاصد کے لئے تعمیرات سے ڈی جی کے نام پر خطیر رقم اینٹھ لی جرآت سروے ٹیم کی ماڈل کالونی میں جاری غیر قانونی دھندوں پر ڈی جی سے موقف لینے کی کوشش ناکام۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں قابض بدنام زمانہ ڈائریکٹر جنرل اسحاق کھوڑو بلڈنگ افسران کی غیر قانونی دھندوں سے کی جانے والی کرپشن پر پردہ ڈالنے میں ناکام ہو چکے ہیں بلڈنک افسران کے غیر قانونی دھندوں کے تمام تر ثبوت زمین پر موجود ہیں ضلع کورنگی کے علاقے شاہ فیصل ٹان ماڈل کالونی میں اسسٹنٹ ڈائریکٹر ذوالفقار بلیدی کو کھوڑو سسٹم کی مکمل سرپرستی حاصل ہے جسکا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے موصوف نے کئی سالوں سے ملکی محصولات کو نقصان پہنچا کر بغیر نقشے اور منظوری ایک منظم طریقے سے ماڈل کالونی کے رہائشی پلاٹوں کو کمرشل تعمیرات میں تبدیل کردیا ہے جس کے باعث علاقے میں سیوریج کا نظام بری طرح سے متاثر ہے اور دیگر بنیادی مسائل بھی سر اٹھانے لگے ہیں زمینی حقائق کے مطابق ماڈل کالونی کے پلاٹ نمبر 19/1+19/2 پر تجارتی مقاصد کے لئے تعمیر کی جانے والی عمارت سے ڈی جی کے نام پر خطیر رقم اینٹھے کا انکشاف ہوا ہیجرآت سروے ٹیم کی جانب سے ملکی محصولات کو بھاری نقصان پہنچا کر ذاتی مفادات حاصل کرنے کے لئے ذوالفقار بلیدی کے ماڈل کالونی میں کئی سالوں سے منظم طریقے سے جاری غیر قانونی دھندوں پر موقف لینے کے لئے ڈی جی اسحاق کھوڑو سے رابطہ کرنے کی کوشش ناکام رہی۔
.ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: ماڈل کالونی میں ذوالفقار بلیدی کے لئے
پڑھیں:
نارتھ ناظم آباد میں تعمیراتی لاقانونیت عروج پر
شہریوں کی زندگیوں پر خطرات کے سائے ، حکام کی کارروائی کا انتظار
ڈپٹی ڈائریکٹر کشن چند مافیا گٹھ جوڑ ،رہائشی پلاٹوں پر کمرشل تعمیرات
شہر کے معروف رہائشی علاقے نارتھ ناظم آباد ٹاؤن میں بڑے پیمانے پر خلاف ضابطہ تعمیرات نے عوام کی زندگیوں کو مشکل اور خطرات سے دوچار کر دیا ہے ، جبکہ متعلقہ محکموں کی بے حسی کے باعث یہ سلسلہ بدستور جاری ہے ۔ڈپٹی ڈائریکٹر کشن چند نے بلڈنگ مافیا سے گٹھ جوڑ کے بعد رہائشی پلاٹوں پر کمرشل تعمیرات کی چھوٹ دے رکھی ہے ۔زمین حقائق کے مطابق نارتھ ناظم آباد کے بلاک ایل کے پلاٹ نمبر اے 310 اور بلاک این کے پلاٹ اے 141 پر غیر قانونی سرگرمیاں جاری ہیں ۔مقامی رہائشیوں کا کہنا ہے کہ علاقے میں کئی عمارتیں بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تعمیر کی جا رہی ہیں۔ ان غیر قانونی تعمیرات میں پارکنگ کے لیے مخصوص جگہوں پر دکانیں بنانا، کھلی جگہوں اور فٹ پاتھوں پر قبضہ، اور منصوبہ بندی سے ہٹ کر منزلیں تعمیر کرنا شامل ہیں۔سروے پر موجود جرأت ٹیم سے بات کرتے ہوئے مقامی رہائشی کا کہنا ہے کہ ’’ہماری گلی میں تو گاڑی کا آنا جانا بھی مشکل ہو گیا ہے ‘‘،ایک رہائشی عمران احمد کا کہنا ہے ’’ہر دوسرا شخص اپنے مکان کو گھر کے ساتھ تجارتی مرکز بنا رہا ہے ، بغیر کسی ٹریفک یا پارکنگ کے انتظام کے ۔ ایمرجنسی کی صورت میں ایمبولنس یا فائر بریگیڈ گلی میں داخل ہی نہیں ہو سکتی‘‘۔فیڈرل بی ایریا کے ایک رہائشی تنویر شاہ نے بتایا، ’’ہمارے سامنے والے پلاٹ پر چار منزلہ عمارت بن رہی ہے ، جبکہ اس کے لیے صرف دو منزلوں کی اجازت ہے ۔ اس کی وجہ سے ہمارے مکانات میں سورج کی روشنی بھی نہیں آتی اور ہوا کا گزر بھی بند ہو گیا ہے‘‘ ۔مقامی رہائشیوں کے مطابق،انہوں نے اس بارے میں متعلقہ ٹاؤن مینجمنٹ اور ایس بی سی اے کے دفاتر میں متعدد بار درخواستیں دی ہیں،مگر کوئی ٹھوس اقدام نظر نہیں آتا۔ بعض تعمیرات میں تو شکایت کے بعد تعمیراتی کام وقتی طور پر رک تو جاتا ہے ، مگر تھوڑے ہی عرصے بعد دوبارہ شروع کروادیا جاتا ہے ۔شہری منصوبہ بندی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ نارتھ ناظم آباد جیسے گنجان آباد علاقوں میں خلاف ضابطہ تعمیرات نہ صرف انفرااسٹرکچر کے لیے تباہ کن ہیں، بلکہ یہ زمین کھسکنے اور آگ لگنے جیسے حادثات کا بھی باعث بن سکتی ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ بلڈنگ کوڈز کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف فوری اور سخت کارروائی کی جائے ۔نارتھ ناظم آباد کے شہری وزیر بلدیات اور ڈائریکٹر جنرل سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی مزمل حسین ہالیپوٹو سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ علاقے کا دورہ کریں اور خلاف ضابطہ تعمیرات کے خلاف فوری کارروائی کا حکم دیں۔ ان کا کہنا ہے کہ شہر کو بچانے کے لیے قانون کی عملداری کو یقینی بنانا انتہائی ضروری ہو چکا ہے ۔