پی ٹی آئی رہنما مذاکرات کیلئے تیار، رکاوٹ صرف عمران خان
اشاعت کی تاریخ: 4th, July 2025 GMT
اسلام آباد (نیوز ڈیسک) پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی قیادت میں اندرونی اختلافات کھل کر سامنے آنے کے بعد سیاسی منظرنامے میں ایک نئی گنجائش پیدا ہوئی ہے، تاہم ملک کا سیاسی مباحثہ اب بھی عمران خان سے جڑا نظر آتا ہے۔ ایک اہم پیش رفت میں کوٹ لکھپت جیل میں قید پی ٹی آئی کے 5؍ سینئر رہنمائوں نے حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان فوری مذاکرات کی حمایت کرتے ہوئے ایک خط پر دستخط کیے ہیں۔ اگرچہ خط میں اسٹیبلشمنٹ سے بھی بات چیت کی تائید کی گئی ہے، لیکن نمایاں زور سیاسی جماعتوں کے درمیان براہ راست مکالمے پر دیا گیا ہے۔ حکومت میں شامل نون لیگ اور پیپلز پارٹی پہلے ہی سیاسی قوتوں کے مابین مذاکرات کے حق میں ہیں۔ نون لیگ کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا ہے کہ جمہوریت کے تسلسل کو یقینی بنانے کی خاطر ضروری ہے کہ تمام فریقین ماضی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھیں اور مذاکرات کی میز پر مل بیٹھیں۔ حکومت پی ٹی آئی کے ساتھ ایسی بات چیت کی خواہشمند ہے جس میں جمہوری ضابطۂ اخلاق مرتب کیا جا سکے اور مسلسل سیاسی کشمکش سے بچا جا سکے۔ پیپلز پارٹی بھی مفاہمت کی حامی رہی ہے۔ عمران خان اگرچہ ماضی میں حکومتی اتحاد سے مذاکرات کو مسترد کرتے رہے ہیں، تاہم پی ٹی آئی کی سینئر قیادت اب سمجھتی ہے کہ بات چیت ناگزیر ہے اور اس کا وقت بھی آ چکا ہے۔ پی ٹی آئی کے ایک اہم رہنما نے اس نمائندے کو بتایا کہ پارٹی بات چیت کی حمایت دو بنیادی شرائط پر کرے گی: مذاکرات سے قبل کوئی پیشگی شرط نہ رکھی جائے اور اس عمل کو مصنوعی ڈیڈ لائنز سے محدود نہ کیا جائے۔ نون کے رہنما خواجہ سعد رفیق نے پی ٹی آئی رہنمائوں کا جیل سے جاری کردہ خط ایک دانشمندانہ اقدام قرار دیا۔ سوشل میڈیا پر اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ اگر دشمن ممالک آپس میں بات کر سکتے ہیں تو ملک کی سیاسی قوتوں کے درمیان مذاکرات کیوں نہیں ہو سکتے؟ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر پی ٹی آئی نے محرم الحرام کے بعد احتجاجی تحریک چلانے کی کوشش کی تو وہ شدید گرمی، تنظیمی کمزوری، اندرونی دھڑے بندی اور ریاستی مشینری کی مزاحمت کی وجہ سے ایسی تحریک ناکام ہو سکتی ہے۔ سعد رفیق نے ایک جامع اور جدید ’’چارٹر آف ڈیموکریسی‘‘ کی ضرورت پر بھی زور دیا، جس کے بغیر جمہوریت کا تسلسل خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ تاہم، ان تمام باتوں کے باوجود، عمران خان کا کردار فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔ حکومتی قیادت کی جانب سے مذاکرات کی دعوت دی جا چکی ہے، جیل میں قید پارٹی رہنما مذاکرات کیلئے تیار ہیں، لیکن حتمی اجازت اب بھی عمران خان کے فیصلے سے مشروط ہے۔ عمران خان ماضی میں مذاکرات کی اجازت دے چکے ہیں، لیکن پھر خود ہی شرائط عائد کر کے محدود وقت دیا، اور ڈیڈ لائن ختم ہونے سے پہلے ہی بات چیت کا سلسلہ منقطع کر دیا۔ بعد ازاں، انہوں نے واضح کیا کہ وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت کریں گے، لیکن اسٹیبلشمنٹ فی الحال اس میں دلچسپی لیتی نظر نہیں آ رہی۔ پی ٹی آئی کے ایک سینئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ جب تک بات چیت بغیر شرائط اور ڈیڈ لائنز کے نہ ہو، اس کا فائدہ نہیں، لیکن اصل اختیار بہرحال عمران خان کے پاس ہے۔
انصار عباسی
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: پی ٹی ا ئی کے مذاکرات کی بات چیت
پڑھیں:
عمران خان کے بیانئے سے اختلاف، جیل میں قید چار PTI سینئر رہنماؤں نے بحران سے نکلنے کا راستہ ’’مذاکرات‘‘ کو قرار دیدیا
اسلام آباد (نیوز ڈیسک)سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سمیت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے جیل میں قید چار سینئر رہنمائوں نے ملک کو درپیش سنگین سیاسی بحران سے نکلنے کا واحد راستہ ’’سیاسی مذاکرات‘‘ کو قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر فوری مذاکرات کا آغاز کیا جائے۔ یہ موقف پارٹی کے بانی عمران خان کے اس بیانیے سے مختلف ہے جس میں وہ صرف اسٹیبلشمنٹ سے بات چیت پر آمادگی ظاہر کرتے رہے ہیں۔سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر یاسمین راشد، میاں محمود الرشید اور عمر سرفراز چیمہ کی جانب سے دستخط شدہ ایک خط میں زور دیا گیا ہے کہ ادارہ جاتی اور سیاسی سطح پر مذاکرات ضروری ہیں، اور مذاکرات فوراً شروع کیے جائیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جیل میں قید رہنمائوں کا یہ خط پارٹی کے کچھ ایسے سرکردہ رہنمائوں کی مشاورت کے ساتھ جاری کیا گیا ہے جو وزیراعظم کی مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دینا چاہتے تھے لیکن عمران خان نے ان کی اس رائے کو مسترد کر دیا تھا۔ لاہور کی جیل میں قید ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ انہیں اس مذاکراتی عمل کا حصہ بنایا جائے، ملکی تاریخ کے اس بدترین بحران سے نکلنے کا واحد طریقہ مذاکرات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ مذاکرات ضروری ہیں، سیاسی سطح پر بھی اور اسٹیبلشمنٹ کی سطح پر بھی۔ خط میں ان رہنمائوں کا کہنا تھا کہ مذاکرات میں کسی بھی جانب سے پہل کو تنقید کا نشانہ بنانا دراصل اس عمل کو سبوتاژ کرنے کے مترادف ہوگا، اور ایسی رکاوٹ کی ذمہ داری حکومت پر عائد ہوگی۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مذاکراتی کمیٹی نامزد کی جائے، پیٹرن انچیف عمران خان تک رسائی کو آسان بنایا جائے تاکہ قیادت کے ساتھ مشاورت کیلئے نقل و حرکت آسان ہو سکے، او روقتاً فوقتاً مذاکراتی عمل جاری رہ سکے۔ ’’دی نیوز‘‘ سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر علی خان نے خط کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ جیل میں قید رہنمائوں سے ہمیں یہ خط مل گیا ہے، خط اصل ہے، ہم ان کی رائے پر غور کر رہے ہیں۔ تاہم، اس خط کے مندرجات عمران خان کے موقف سے بہت مختلف ہیں۔ سابق وزیراعظم نے چند روز قبل واضح الفاظ میں اعلان کیا تھا کہ وہ موجودہ حکومتی اتحاد سے کسی قسم کی بات چیت کیلئے تیار نہیں، اور صرف اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کو ممکن سمجھتے ہیں۔ ان کا الزام ہے کہ موجودہ حکمران مبینہ انتخابی دھاندلی کے ذریعے اقتدار میں آئے ہیں۔یہ پیش رفت پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت کے اندر بڑھتے اختلاف رائے کی عکاس ہے، جہاں پارٹی کے جیل میں قید سینئر رہنما اب کھل کر اقتدار میں بیٹھی موجودہ سیاسی قوتوں سے بھی بات چیت کی حمایت کر رہے ہیں تاکہ موجودہ سیاسی جمود کو توڑا جا سکے۔
انصار عباسی