نواز شریف دوبارہ سیاسی مکالمے کے حق میں، عمران خان سے اڈیالہ جا کر ملنے کو بھی تیار
اشاعت کی تاریخ: 3rd, July 2025 GMT
مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف ایک بار پھر ملک میں سیاسی کشیدگی کے خاتمے اور جمہوری عمل کے استحکام کے لیے بین الجماعتی مذاکرات کے حامی نظر آتے ہیں۔ وی نیوز سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما نے انکشاف کیا ہے کہ نواز شریف نے حالیہ دنوں میں پارٹی رہنماؤں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے دروازے بند کرنے کے قائل نہیں، اور اگر جمہوریت کو آگے بڑھانا ہے تو تمام سیاسی قوتوں کو ڈائیلاگ کا راستہ اپنانا ہوگا۔
ذرائع کے مطابق، تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی سمیت پارٹی کے 5 رہنماؤں نے جیل سے ایک خط لکھا ہے جس میں پی ٹی آئی قیادت کو مشورہ دیا گیا ہے کہ حکومت سے مذاکرات کیے جائیں۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر بھی حالیہ بیانات میں مذاکرات کی آمادگی ظاہر کر چکے ہیں۔
ن لیگی رہنما کے مطابق، نواز شریف کی سوچ یہ ہے کہ اگر سیاسی جماعتیں ایک صفحے پر آ جائیں تو ریاستی ادارے مداخلت کا جواز تلاش نہیں کر سکیں گے۔ نواز شریف سمجھتے ہیں کہ مذاکرات میں کامیابی اس وقت ممکن ہے جب فریقین سخت مؤقف میں لچک دکھائیں۔ اگر عمران خان اس بار سنجیدہ ہیں تو انہیں بھی کچھ سیاسی نرمی کا مظاہرہ کرنا ہوگا، اور حکومت کی جانب سے بھی مثبت پیش قدمی کی جائے گی۔
رہنما کے مطابق، نواز شریف اس حد تک مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں کہ اگر ضرورت پڑی تو وہ اڈیالہ جیل جا کر عمران خان سے ملنے کو بھی تیار ہیں جیسا کہ وہ ماضی میں بنی گالہ جا چکے ہیں جب عمران خان اسلام آباد میں دھرنا دیے بیٹھے تھے۔
رہنما کا کہنا تھا کہ نواز شریف اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ نفرت اور تلخی کی سیاست ملک و قوم کے لیے زہر قاتل ہے۔ اُن کے نزدیک، ماضی کی طرح آج بھی ’میثاقِ جمہوریت‘ جیسی جامع سیاسی مفاہمت وقت کی اہم ضرورت ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف، خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ متعدد بار اپنے بیانات میں مذاکرات کی اہمیت پر زور دے چکے ہیں۔ حالیہ دنوں میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر طے کرنا ہوگا کہ ملک کو کس سمت لے کر جانا ہے۔ اگر دشمن ممالک آپس میں بات چیت کر سکتے ہیں تو پاکستانی جماعتیں کیوں نہیں؟ اسی طرح رانا ثنا اللہ بھی کئی مواقع پر کہہ چکے ہیں کہ اگر نواز شریف کو عمران خان سے ملنے کے لیے جیل جانا پڑا تو وہ اس سے بھی گریز نہیں کریں گے۔
نواز شریف کی اس سوچ کو پارٹی کے اندر مثبت پذیرائی مل رہی ہے اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں مسلم لیگ ن مذاکرات کی بحالی کے لیے باضابطہ اقدامات اٹھا سکتی ہے، بشرطیکہ تحریک انصاف کی جانب سے بھی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جائے۔
نواز شریف کے قریبی ذرائع کے مطابق، وہ سمجھتے ہیں کہ اگر نفرت کی سیاست جاری رہی تو کوئی نہ کوئی کسی نہ کسی کا آلہ کار بنتا رہے گا اور اس کا نقصان صرف ایک جماعت کو نہیں بلکہ پورے جمہوری نظام کو ہوگا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
’میثاقِ جمہوریت‘ اڈیالہ جیل تحریک انصاف خواجہ سعد رفیق رانا ثنا اللہ عمران خان مسلم لیگ ن نواز شریف وزیراعظم شہباز شریف.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: میثاق جمہوریت اڈیالہ جیل تحریک انصاف خواجہ سعد رفیق رانا ثنا اللہ مسلم لیگ ن نواز شریف وزیراعظم شہباز شریف مذاکرات کی نواز شریف کے مطابق مسلم لیگ چکے ہیں کہ اگر ہیں کہ کے لیے
پڑھیں:
مخصوص نشستوں کے بعد پی ٹی آئی کا بڑا فیصلہ، اراکین سے دوبارہ وفاداری کا حلف
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد:سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے اپنی سیاسی حکمت عملی میں بڑی تبدیلی لاتے ہوئے پارٹی اراکین کو دوبارہ سے وفاداری کے حلف نامے دینے کا پابند بنانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
پارٹی کو خدشہ ہے کہ مخصوص نشستوں سے محرومی کے بعد سیاسی وفاداریاں تبدیل ہونے کا خطرہ بڑھ گیا ہے، جس کا راستہ روکنے کے لیے یہ قدم اٹھایا جا رہا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ میں پارٹی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس سلسلے میں پی ٹی آئی کی پارلیمانی پارٹی کا ایک اہم اجلاس کل اسلام آباد میں منعقد ہوگا، جس میں قومی اسمبلی اور خیبرپختونخوا اسمبلی کے تمام اراکین کو شرکت کی خصوصی ہدایت دی گئی ہے۔
اجلاس کا بنیادی مقصد نہ صرف موجودہ سیاسی صورتحال کا جائزہ لینا ہے بلکہ ایسے اقدامات پر غور کرنا بھی ہے جن سے اراکین کی پارٹی وابستگی کو مزید مضبوط بنایا جا سکے۔
ذرائع کے مطابق اجلاس میں پی ٹی آئی کے اراکین سے ایک بار پھر باقاعدہ تحریری حلف نامے لیے جائیں گے، جن میں وہ اس بات کی یقین دہانی کرائیں گے کہ وہ کسی بھی دوسری سیاسی جماعت میں شمولیت اختیار نہیں کریں گے۔
خاص طور پر خیبرپختونخوا اسمبلی کے 35 آزاد اراکین کو اس عمل کا حصہ بنایا جائے گا، جو حالیہ انتخابات کے بعد پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے، مگر قانونی طور پر آزاد حیثیت رکھتے ہیں۔
یاد رہے کہ عام انتخابات کے بعد بھی پارٹی نے اپنے تمام منتخب اراکین سے اسی نوعیت کا حلف نامہ لیا تھا تاکہ کسی بھی ممکنہ سیاسی انحراف کو روکا جا سکے،مگر سپریم کورٹ کے مخصوص نشستوں سے متعلق فیصلے کے بعد پارٹی کی پوزیشن خاصی کمزور ہو گئی ہے۔ اس فیصلے کے نتیجے میں اپوزیشن جماعتوں کو تقویت ملی ہے اور اب کے پی اسمبلی میں صرف 8ووٹ درکار ہیں جن کی مدد سے حکومت کو خطرے میں ڈالا جا سکتا ہے۔
پارٹی قیادت کو خدشہ ہے کہ اپوزیشن جماعتیں، بالخصوص مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی ان آزاد یا کمزور وابستگی رکھنے والے اراکین سے رابطے میں آ سکتی ہیں۔ اسی امکان کو پیش نظر رکھتے ہوئے پی ٹی آئی نے سیاسی دفاع کو مضبوط کرنے اور پارٹی ڈسپلن کو بحال رکھنے کے لیے دوبارہ حلف لینے کا فیصلہ کیا ہے۔
سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے لیے یہ وقت نازک ہے۔ ایک طرف مخصوص نشستوں کے فیصلے نے پارلیمانی طاقت کو متاثر کیا ہے تو دوسری طرف پارٹی کے خلاف قانونی اور سیاسی محاذ پر دباؤ بھی بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں پارٹی اراکین کا متحد رہنا اور پارٹی پالیسی پر عمل پیرا ہونا انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے۔
دوسری جانب پارٹی کے اندرونی حلقے اس بات پر بھی غور کر رہے ہیں کہ اگر کسی رکن نے حلف نامہ دینے کے باوجود پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی تو اس کے خلاف کیا تادیبی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ پارٹی آئندہ چند دنوں میں ایک سخت ڈسپلنری پالیسی کا اعلان بھی کرے گی۔