اسرائیل کا متنازع منصوبہ: غزہ کے 6 لاکھ شہریوں کی جبری نقل مکانی کا انکشاف
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
اسرائیل کے وزیر دفاع یواف گیلنٹ کی جانب سے غزہ کے شہریوں کی جبری نقل مکانی سے متعلق منصوبے نے شدید تنازع کھڑا کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:نیتن یاہو وائٹ ہاؤس سے خاموشی سے روانہ، غزہ مذاکرات میں کوئی پیشرفت نہ ہوسکی
منصوبے کے تحت جنوبی غزہ میں ایک مخصوص علاقہ، جسے ’ہیومینٹیری سٹی‘ کا نام دیا گیا ہے، قائم کیا جائے گا جہاں تقریباً 6 لاکھ افراد کو منتقل کیا جائے گا۔بعدازاں انہیں ’رضاکارانہ طور پر‘ کسی تیسرے ملک منتقل ہونے کی پیشکش دی جائے گی۔
اگرچہ اسرائیلی حکام اس عمل کو رضا کارانہ نقل مکانی قرار دے رہے ہیں، مگر ماہرین قانون کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ حالات اور شہریوں کے پاس متبادل نہ ہونے کی وجہ سے یہ جبری نقل مکانی کے زمرے میں آتا ہے، جو بین الاقوامی قانون کے مطابق جنگی جرم کے مترادف ہے۔
یہ بھی پڑھیں:غزہ جنگ: اسرائیلی فوجی بدترین نفسیاتی مسائل سے دوچار، 43 فوجیوں کی خودکشی
اس منصوبے کی تفصیلات مختلف میڈیا ذرائع سے سامنے آئی ہیں، جس میں یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ اسرائیل نے معروف بین الاقوامی کنسلٹنسی فرم BCG کی خدمات بھی حاصل کی ہیں تاکہ اس منصوبے کو بہتر انداز میں تشکیل دیا جا سکے۔
تاہم اسرائیلی فوج نے ان رپورٹس کی سختی سے تردید کی ہے کہ وہ غزہ کی وسیع پیمانے پر آبادی کو بے دخل کرنے کے کسی منصوبے پر کام کر رہی ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے بھی اس منصوبے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اقدام کے تحت غزہ کی 80 فیصد آبادی کو ان علاقوں میں محدود کیا جا رہا ہے جنہیں اسرائیل ’ملٹری زون‘ قرار دے چکا ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ان علاقوں میں رہائش رکھنا خطرے سے خالی نہیں، اور اس منصوبے کو ممکنہ نسل کشی یا نسلی صفائی کے زمرے میں بھی شمار کیا جا رہا ہے۔
سابق اسرائیلی سفارت کار اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ نہ صرف قانونی بلکہ عملی لحاظ سے بھی غیر موزوں ہے۔
اسرائیل کے بعض فوجی ریزرو افسران نے اس منصوبے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ بین الاقوامی انسانی قانون کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اس حوالے سے عدالت میں درخواست بھی دائر کر دی ہے، جس میں یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ غزہ کے باشندوں کو ان کی مرضی کے بغیر بے دخل کرنا ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ جیسے محدود اور جنگ زدہ علاقے میں ایسی کسی بھی پالیسی کو رضا کارانہ قرار دینا حقیقت سے منافی ہے۔ شہریوں کو ایسے حالات میں کسی متبادل کے بغیر علاقہ چھوڑنے پر مجبور کرنا بین الاقوامی سطح پر قابل گرفت جرم تصور کیا جاتا ہے۔
ان تمام تحفظات کے باوجود، اسرائیلی حکومت کے بعض حلقے اس منصوبے کو آگے بڑھانے کے لیے سنجیدگی سے کام کر رہے ہیں، جس کے باعث نہ صرف خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہو سکتا ہے بلکہ عالمی سطح پر اسرائیل کو سخت ردعمل کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ انسانی حقوق غزہ ہیومینٹیری سٹی وزیر دفاع یواف گیلنٹ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اقوام متحدہ ہیومینٹیری سٹی کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی اس منصوبے کو نقل مکانی
پڑھیں:
ٹرمپ کا فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کا منصوبہ سامنے آگیا، نیتن یاہو کا دو ریاستی حل سے انکار
واشنگٹن: اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے وائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کے دوران کہا کہ وہ فلسطین میں دو ریاستی حل کو مسترد کرتے ہیں، کیونکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست "اسرائیل کو تباہ کرنے کا پلیٹ فارم" بن سکتی ہے۔
نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ فلسطینیوں کو حکومت کرنے کا حق ہونا چاہیے لیکن سیکیورٹی جیسے معاملات ہمیشہ اسرائیل کے کنٹرول میں رہنے چاہییں۔
ٹرمپ نے فلسطینیوں کو غزہ سے بے دخل کرنے کے متنازع منصوبے پر بھی پیش رفت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ "اطراف کے تمام ممالک سے شاندار تعاون ملا ہے، کچھ اچھا ہونے والا ہے۔"
اسرائیلی وزیراعظم نے بتایا کہ غزہ کے رہائشیوں کو ہمسایہ ممالک میں منتقل کرنے کی کوششوں میں امریکا ان کا ساتھ دے رہا ہے۔ ٹرمپ نے بھی تصدیق کی کہ ان کی ٹیم خطے میں سرگرم ہے اور جلد اہم فیصلے متوقع ہیں۔
نیتن یاہو نے مزید کہا: "اگر فلسطینی جانا چاہیں تو انہیں جانے دیا جائے گا، ہم ان کے لیے بہتر مستقبل تلاش کر رہے ہیں۔"
یہ ملاقات اس وقت ہوئی جب اسرائیل-ایران جنگ کے بعد جنگ بندی معاہدے کو تقویت دینے کے لیے سفارتی کوششیں جاری ہیں۔
ٹرمپ نے کہا کہ ان کی انتظامیہ ایران کے ساتھ براہِ راست بات چیت کا ارادہ رکھتی ہے اور مناسب وقت پر ایران پر عائد پابندیاں ختم کی جا سکتی ہیں۔
ملاقات کے دوران نیتن یاہو نے ٹرمپ کو نوبیل امن انعام کے لیے خط بھی پیش کیا، جس پر ٹرمپ نے خوشی کا اظہار کیا۔
وائٹ ہاؤس کے باہر فلسطینیوں کی بڑی تعداد نے مظاہرہ کیا، جس میں نیتن یاہو کی گرفتاری اور اسرائیل کو ہتھیاروں کی فراہمی بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔