زیادہ تر مردوں کو بیٹھنے کے آداب نہیں معلوم، وہ غلط انداز میں بیٹھتے ہیں، رباب مسعود
اشاعت کی تاریخ: 15th, August 2025 GMT
کراچی(شوبز ڈیسک) سابقہ ماڈل رباب مسعود کا کہنا ہے کہ زیادہ تر مرد بیٹھنے کے درست آداب سے ناواقف ہوتے ہیں اور غلط انداز میں بیٹھ کر دوسروں کی بے ادبی کرتے ہیں۔
رباب مسعود نے حال ہی میں ’سما ٹی وی‘ کے مارننگ شو میں شرکت کی، جہاں انہوں نے مختلف معاملات پر کھل کر بات کی۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر مرد جب بیٹھتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی پڑھے لکھے، خوشحال یا تعلیم یافتہ کیوں نہ ہوں، وہ اکثر غلط انداز میں بیٹھتے ہیں، وہ ایک ٹانگ کو دوسری ٹانگ پر رکھ دیتے ہیں اور ان کا پاؤں عموماً کسی دوسرے شخص کے چہرے کی طرف ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس طرح سے بیٹھ کر وہ ساتھ بیٹھے ہوئے شخص کی بے عزتی کر رہے ہوتے ہیں اور اس دوران وہ اپنے پاؤں کو مسلسل حرکت میں بھی رکھتے ہیں، جو کہ بے ادبی ہے۔
رباب مسعود کے مطابق ان کے ساتھ بیٹھنے والا جو بھی ہو، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، انہیں اس طرح سے بیٹھنا زیب نہیں دیتا اور یہ بنیادی آداب ہر ایک کو معلوم ہونے چاہئیں۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ بعض مرد و عورتیں محفل میں بیٹھ کر اکثر بہت تیز آواز میں بولتے اور بلند آواز میں ہنستے ہیں، جو کہ اخلاقی طور پر درست نہیں ہے۔
خیال رہے کہ رباب مسعود نے بے شمار فیشن شوز، ٹیلی وژن کمرشلز اور میوزک ویڈیوز میں کام کیا ہے، ان کی سب سے مشہور ٹیلی وژن پیشکش جنید جمشید کے گانے ’ہم کیوں چلیں اس راہ پر‘ میں تھی۔
Post Views: 9.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ججز کے استعفوں پر جشن نہیں بلکہ نظام مضبوط کرنا ضروری ہے، سعد رفیق
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما اور سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے 27ویں آئینی ترمیم کے بعد یکے بعد دیگرے ججز کے مستعفی ہونے پر گہری تشویش اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔
سوشل میڈیا پر جاری اپنے مفصل بیان میں انہوں نے کہا کہ یہ استعفے پاکستان میں آئین، قانون، انصاف اور جمہوریت کی بالادستی کا خواب دیکھنے والوں کے لیے ایک بڑا لمحۂ فکریہ ہیں۔
انہوں نے لکھا کہ جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس منصور علی شاہ کے سپریم کورٹ سے استعفیٰ دینے کے بعد اب لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شمس محمود مرزا بھی اس سلسلے میں شامل ہو گئے ہیں، اور یہ صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔
خواجہ سعد رفیق نے تینوں ججز کی دیانتداری، انصاف پسندی اور پیشہ ورانہ کارکردگی کی کھل کر تعریف کرتے ہوئے کہا کہ
جسٹس اطہر من اللّٰہ ججز بحالی تحریک کے دوران فرنٹ لائن کے رفیق تھے۔
جسٹس منصور علی شاہ کی قابلیت، جرات اور پیشہ ورانہ آزادی سب پر واضح ہے۔
جسٹس شمس محمود مرزا کا شمار بھی بہترین شہرت رکھنے والے ججز میں ہوتا ہے۔
انہوں نے جسٹس شمس محمود مرزا پر رشتہ داری کے الزام کو بے بنیاد اور “طفلانہ حرکت” قرار دیا۔
مسلم لیگ ن کے رہنما کا کہنا تھا کہ ان ججز کے فیصلوں سے اختلاف اپنی جگہ، مگر ان کی شرافت، اہلیت اور نیک نیتی سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس طرح کے استعفے عدلیہ کے لیے نقصان دہ ہیں اور ادارہ جاتی توازن کو کمزور کرتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ استعفوں کو سیاسی دھڑے بندی کی نظر سے دیکھیں تو شاید کچھ لوگوں کو یہ اچھا لگے، لیکن حقیقت میں یہ پاکستان کے مستقبل کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ ان کے مطابق یہ سلسلہ رکنے والا نہیں اور “یہ عدلیہ سے ہوتا ہوا پارلیمنٹ تک جائے گا”۔
انہوں نے زور دیا کہ ہر مخالف کو پکڑ لینا یا ملک دشمن قرار دینا ممکن نہیں ہوتا۔ ایک ذمہ دار ریاست ماحول کو ٹھنڈا رکھتی ہے، تنازعات بڑھاتی نہیں۔ پاکستان جیسے حساس اور نیوکلیئر ملک کے لیے اندرونی محاذ آرائی انتہائی نقصان دہ ہے۔
آخر میں انہوں نے کہا کہ خوشی کے ڈھول پیٹنے کے بجائے پیدا ہوتی فالٹ لائنز کو پُر کرنے کی کوشش کرنا ہی دانشمندی ہے۔