مولانا مودودیؒ کے اجتہادات: فکر و تحریک کا ہمہ گیر منشور
اشاعت کی تاریخ: 29th, September 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برصغیر پاک و ہند کی فکری و سیاسی تاریخ میں اگر کوئی ایسی شخصیت تلاش کی جائے جس نے امت مسلمہ کو بکھرتے ہوئے حالات میں ایک نئی فکری سمت اور عملی لائحہ عمل دیا، تو وہ سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ ہیں۔ وہ محض ایک عالم، مصنف یا مقرر نہیں تھے بلکہ ایک تحریک کے بانی، فکری مجتہد اور عملی رہنما تھے۔ ان کے اجتہادات نے اسلام کو محض چند رسوم اور اخلاقی تعلیمات تک محدود رکھنے کے بجائے اسے ایک مکمل نظامِ حیات کے طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ آج کے دور میں جب امت ِ مسلمہ فکری انتشار، اخلاقی زوال اور سیاسی غلامی میں مبتلا ہے، مولانا مودودیؒ کی فکر ایک مینارِ نور کی طرح ہے۔ ان کے اجتہادات نہ صرف اسلام کے اصل پیغام کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ ہمیں یہ بھی سکھاتے ہیں کہ اس پیغام کو عملی میدان میں کس طرح نافذ کیا جائے۔
۱۔ توحید حاکمیت؛ دین کا بنیادی اصول: مولانا مودودیؒ کا سب سے اہم اجتہاد ’’توحید حاکمیت‘‘ ہے۔ اسلام کی بنیاد ’’لا الہ الا اللہ‘‘ پر ہے، لیکن اس کلمے کے عملی تقاضوں کو انہوں نے اُجاگر کیا۔ ان کے مطابق اللہ تعالیٰ صرف کائنات کا خالق ہی نہیں بلکہ اس کا حاکم ِ مطلق بھی ہے۔ اس کی اجازت کے بغیر کسی کو قانون سازی یا حکم دینے کا حق نہیں۔ اس تصور نے مسلمان معاشرے میں ایک انقلابی شعور بیدار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اگر مسلمان اللہ کی حاکمیت کو مانتے ہیں تو پھر کسی بادشاہ، آمر یا پارلیمنٹ کی خود مختار قانون سازی تسلیم نہیں کر سکتے۔ یہ اجتہاد مغربی جمہوریت کے اس تصور کو چیلنج کرتا ہے کہ ’’حاکمیت عوام کے پاس ہے‘‘۔ مولانا کے نزدیک اصل جمہوریت وہ ہے جس میں عوام اللہ کی حاکمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی اجتماعی زندگی کو وحی الٰہی کے تابع بنا دیں۔
۲۔ اسلام؛ ایک مکمل نظامِ حیات: مولانا مودودیؒ کے فکری کارناموں میں یہ اجتہاد بنیادی حیثیت رکھتا ہے کہ اسلام محض ایک مذہبی نظام نہیں بلکہ ایک مکمل ’’نظامِ حیات‘‘ ہے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ اسلام انسانی زندگی کے تمام پہلوؤں کو محیط ہے: سیاست، معیشت، معاشرت، تعلیم، قانون، اخلاق اور ثقافت سب اس کے دائرے میں آتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام کو چند رسوم تک محدود کرنا دراصل اسے ناقص اور ادھورا بنا دینا ہے۔ انہوں نے دلیل دی کہ جس طرح انسانی جسم کا کوئی عضو الگ ہو کر مکمل زندگی نہیں گزار سکتا، اسی طرح اگر اسلام کو صرف عبادات یا اخلاقیات تک محدود کیا جائے تو وہ اپنے اصل مقصود کو کھو بیٹھتا ہے۔ یہ اجتہاد مسلمانوں کو یہ سمجھانے کے لیے تھا کہ اسلام ایک نظریاتی انقلاب کا پیغام ہے جو فرد سے لے کر ریاست تک ہر سطح پر نافذ ہونے کا تقاضا کرتا ہے۔
۳۔ اقامت ِ دین؛ ایمان کا عملی تقاضا: مولانا مودودیؒ نے یہ اجتہاد کیا کہ دین کا اصل مقصد ’’اقامت‘‘ ہے، یعنی دین کو زندگی میں نافذ کرنا۔ ان کے نزدیک ایمان کا دعویٰ اسی وقت سچا ہو سکتا ہے جب انسان دین کو اپنے انفرادی، اجتماعی اور ریاستی معاملات پر غالب کرے۔ اقامت ِ دین کے بغیر ایمان ایک ادھورا دعویٰ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مولانا نے فرمایا: ’’اسلام محض مان لینے کا نام نہیں بلکہ قائم کرنے کا نام ہے‘‘۔ یہ سوچ ان کے پورے لٹریچر اور جدوجہد میں نظر آتی ہے۔ ان کے نزدیک اگر مسلمان اقامت ِ دین کی جدوجہد ترک کر دیں تو وہ دراصل دین کے اصل مقصد سے غافل ہو جاتے ہیں۔
۴۔ جماعت ِ اسلامی؛ منظم اجتماعی جدوجہد: اقامت ِ دین کے لیے مولانا مودودیؒ نے اجتہاد کیا کہ یہ کام فرد واحد کے بس کی بات نہیں۔ اس کے لیے ایک منظم، با مقصد اور با کردار جماعت درکار ہے۔ اسی سوچ کے تحت انہوں نے 1941 میں ’’جماعت ِ اسلامی‘‘ کی بنیاد رکھی۔ یہ جماعت ان کے نزدیک محض سیاسی پلیٹ فارم نہیں بلکہ ایک ’’تحریک ِ اسلامی‘‘ تھی جو قرآن و سنت کی بنیاد پر زندگی کے ہر شعبے میں تبدیلی کا ہدف رکھتی تھی۔ انہوں نے جماعت کو ’’دعوۃ، تربیت اور جہاد‘‘ کا مرکز بنایا۔ یہ اجتہاد اس وقت کے مسلمانوں کے لیے ایک نئی راہ دکھانے والا تھا، کیونکہ بیش تر لوگ یا تو صوفیانہ خانقاہوں تک محدود تھے یا مغربی سیاست کی نقالی میں مصروف۔ جماعت اسلامی نے انہیں ایک ہمہ گیر اسلامی جدوجہد کی راہ دکھائی۔
۵۔ مغرب؛ جاہلیت ِ خالصہ: مولانا مودودیؒ نے مغربی تہذیب اور اس کے فکری ڈھانچے پر گہری تنقید کی۔ ان کے مطابق مغرب کی بنیاد الحاد، مادیت اور انسان کو خدا کے مقام پر بٹھانے پر ہے۔ اگرچہ مغرب نے سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کی، لیکن اس کی فکری اساس ’’جاہلیت ِ خالصہ‘‘ ہے۔ انہوں نے بتایا کہ مغرب کا سیاسی نظام (سیکولرازم)، اس کا اقتصادی ڈھانچہ (سرمایہ دارانہ نظام)، اور اس کی سماجی اقدار (آزادیِ مطلقہ) دراصل انسان کو خواہشات کا غلام بنا دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشرے میں ظاہری ترقی کے باوجود روحانی و اخلاقی بحران بڑھتا جا رہا ہے۔ یہ اجتہاد مسلمانوں کو متنبہ کرتا ہے کہ وہ مغرب کی اندھی تقلید کرنے کے بجائے اپنی اصل تہذیبی شناخت پر قائم رہیں۔
۶۔ قرآن کی حرکی تفسیر: مولانا مودودیؒ نے قرآن کی ایسی تفسیر پیش کی جو محض ماضی کی کہانیاں یا فقہی موشگافیاں بیان کرنے کے بجائے عملی زندگی کے مسائل حل کرے۔ ان کی ’’تفہیم القرآن‘‘ ایک حرکی تفسیر ہے، جس میں قرآن کو ایک زندہ کتاب کے طور پر پیش کیا گیا ہے جو ہر زمانے کے انسان کی رہنمائی کرتی ہے۔ ان کی تفسیر نے یہ ثابت کیا کہ قرآن صرف علماء کے لیے نہیں بلکہ عام انسان کے لیے بھی رہنمائی کا ذریعہ ہے۔ انہوں نے سادہ اور عام فہم زبان میں قرآن کے انقلابی پیغام کو بیان کیا، تاکہ ہر قاری اس سے براہِ راست تعلق قائم کر سکے۔
۷۔ فقہی مسلکی اعتدال: مولانا مودودیؒ نے فقہی اختلافات کو مانتے ہوئے بھی ان میں اعتدال کا راستہ اپنایا۔ وہ کسی ایک مسلک کے اندھے مقلد نہیں تھے۔ ان کے نزدیک اصل بنیاد قرآن و سنت ہیں، اور فقہیات ان کی فہم کی ایک کوشش ہیں۔ انہوں نے بار بار اس بات پر زور دیا کہ مسلکی تعصب امت کے اتحاد کو توڑ دیتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ فقہ کو حرفِ آخر نہ مانا جائے بلکہ اجتہاد اور تحقیق کا دروازہ کھلا رکھا جائے۔ یہ اجتہاد امت کو فرقہ واریت سے نکال کر وحدتِ اسلامی کی طرف لے جا سکتا ہے۔
۸۔ سلوکِ قرآنی؛ فرد کی اصلاح اور تربیت: مولانا مودودیؒ کا ایک اور اجتہاد ’’سلوکِ قرآنی‘‘ ہے۔ ان کے نزدیک قرآن صرف ریاستی اور اجتماعی رہنمائی نہیں دیتا بلکہ فرد کی سیرت اور کردار سازی میں بھی بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ قرآن کو محض ثواب کی نیت سے پڑھنا کافی نہیں بلکہ اسے زندگی کا عملی دستور بنانا چاہیے۔ یہی سوچ فرد کو تقویٰ، عدل اور خدمت ِ خلق کی طرف لے جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے لٹریچر میں اخلاقی تربیت اور روحانی اصلاح پر بھی بھرپور زور ملتا ہے۔
۹۔ جدید دنیا کے چیلنجز کا اسلامی جواب: مولانا مودودیؒ کے اجتہادات کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ انہوں نے جدید دنیا کے چیلنجز کو نظرانداز نہیں کیا بلکہ ان کا اسلامی جواب فراہم کیا۔ چاہے وہ جمہوریت کا مسئلہ ہو، سوشلسٹ انقلاب کی بحث ہو، سرمایہ داری کا غلبہ ہو یا قومی ریاست کا تصور۔ انہوں نے ہر مسئلے پر اسلام کی روشنی میں ایک واضح موقف دیا۔ یہ اجتہاد اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام جامد دین نہیں بلکہ وقت اور حالات کے بدلتے تقاضوں کے مطابق رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
مولانا مودودیؒ کے اجتہادات دراصل ایک ہمہ گیر اسلامی فکر اور عملی تحریک کی بنیاد ہیں۔ انہوں نے توحید کو محض ایک عقیدہ نہیں بلکہ سیاسی و سماجی اصول بنایا۔ اسلام کو محض مذہب نہیں بلکہ مکمل نظامِ حیات کے طور پر پیش کیا۔ اقامت ِ دین کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا۔ جماعت کی ضرورت پر زور دیا۔ مغرب کی تہذیب کو جاہلیت قرار دیا۔ قرآن کو زندہ کتاب ثابت کیا۔ فقہی اختلافات میں اعتدال کی راہ نکالی۔ اور فرد و اجتماع دونوں کی اصلاح کے لیے قرآن کو مرکز بنایا۔ آج کے حالات میں، جب مسلمان فکری غلامی اور سیاسی انتشار کا شکار ہیں، ان اجتہادات کو سمجھنا اور ان پر عمل کرنا ازحد ضروری ہے۔ یہ فکر ہمیں یاد دلاتی ہے کہ اسلام صرف ماضی کی میراث نہیں بلکہ حال اور مستقبل کے مسائل کا بھی حل ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: مولانا مودودی کے اجتہادات ان کے نزدیک یہ اجتہاد نہیں بلکہ ہیں بلکہ اسلام کو انہوں نے کی بنیاد تک محدود کہ اسلام قرا ن کو کرتا ہے کے لیے کو محض پیش کی کیا کہ
پڑھیں:
صمود فلوٹیلا پر حملے کیخلاف مولانا فضل الرحمان کا جمعہ کو ملک گیر مظاہروں کا اعلان
جمعیت علما اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے امریکی صدر کے 20 نکاتی امن منصوبے کو مسترد کرتے ہوئے صمود فلوٹیلا پر حملے کیخلاف جمعے کو ملک گیر مظاہروں کا اعلان کردیا۔
جے یو آئی کی جانب سے جاری بیان میں مولانا فضل الرحمان نے کہا کہ ٹرمپ کا 20 نکاتی فارمولا مسترد کرتے ہیں، فلسطینیوں کے خلاف کوئی بھی ظالمانہ اقدام قابل قبول نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ کل بروز جمعہ تمام ضلعی ہیڈ کواٹرز میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی اور اسرائیلی کارروائیوں کے خلاف مظاہرے کئے جائیں ۔
انہوں نے کہا کہ مظاہروں میں صمود فلوٹیلا پر حملے کے خلاف بھر پور احتجاج کیا جائے گا۔
جے یو آئی کے رہنما عبدالغفور حیدری نے کہا کہ علما کرام جمعے کے خطبات میں ٹرمپ کے بدنام زمانہ نکات کے خلاف قراردادیں پاس کروائیں اور اہل وطن مظاہروں میں شرکت سے اپنی دینی غیرت و حمیت کا ثبوت دیں۔