روسی صدر نے فوجی میدان میں مقابلے کا چیلنج دیدیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ماسکو: روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کا کہنا ہے کہ اگر کوئی روس کیساتھ فوجی میدان میں مقابلہ کرنا چاہتا ہے تو آگے بڑھ کردیکھ لے۔ مغربی ممالک صرف یوکرین استعمال کر رہے ہیں۔
ایک کانفرنس سے خطاب میں روسی صدر کا کہنا تھا کہ دنیامیں کوئی ایسی طاقت نہیں جوسب کو حکم دے کہ کیاکرناہے، دنیا کو کوئی طاقت اکیلے نہیں چلا سکتی، عالمی برادری ایک اہم موڑ پر کھڑی ہے۔ نیاکثیرقطبی نظام متحرک اور مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔
روسی صدر نے کہا کہ روس نیٹو پر حملہ کرنے جارہاہے؟ایسی باتیں قابل یقین نہیں، یورپی لیڈر پر سکون ہوجائیں، سکون سے سوئیں،اپنے مسائل پر قابو پائیں، کوئی روس کیساتھ فوجی میدان میں مقابلہ کرناچاہتاہے تو آگے بڑھ کردیکھ لے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مخالفین ہمیں عالمی نظام سے باہر نکالنے میں ناکام رہے۔ روس نے مغرب کی پابندیوں کےباوجود ثابت قدمی دکھائی، عالمی توازن روس کے بغیر قائم نہیں رہ سکتا۔ مزید کہا کہ فلسطینی تنازع کووہاں رہنے والی اقوام کو نظرانداز کرکے حل نہیں کیا جاسکتا۔
ٹرمپ صدر ہوتے تو یوکرین میں جنگ سے بچا جا سکتا تھا ، مغربی ممالک کو یوکرین میں تباہی پر کوئی افسوس نہیں، مغربی ممالک صرف یوکرین استعمال کر رہے ہیں، تمام نیٹوممالک ہمارے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں ، تربیت دینے والے دراصل لڑائی میں براہِ راست شریک ہیں۔ روسی فوجی دستےیوکرین کے پورے محاذ پر آگے بڑھ رہے ہیں، یوکرین کیلئے بہتر ہے وہ سمجھوتے پر غور کرے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
استثنیٰ کسی کے لیے نہیں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251118-03-3
قانون سب کے لیے برابر ہے اسلام ایک ایسا کامل نظامِ حیات ہے جو عدل، انصاف اور مساوات کی بنیاد پر قائم ہے۔ اللہ کے رسولؐ نے فرمایا: ’’تم سے پہلی امتیں اسی لیے ہلاک ہوئیں کہ جب ان میں کوئی شریف جرم کرتا تو اسے چھوڑ دیتے، اور جب کوئی کمزور کرتا تو اس پر حد قائم کرتے‘‘۔ (بخاری)
یہ فرمانِ نبویؐ اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ اسلامی معاشرہ تبھی سلامت رہ سکتا ہے جب احتساب سب کے لیے یکساں ہو، خواہ وہ حاکم ِ وقت ہو یا عام شہری۔سیدنا عمرؓ کا عدل اور قانون کی بالادستی اسلامی تاریخ کا روشن باب سیدنا عمر فاروقؓ کا دورِ خلافت ہے۔ وہ خلیفہ ہونے کے باوجود خود کو قانون سے بالا نہیں سمجھتے تھے۔ ایک موقع پر جب اْن سے بیت المال کے کپڑے کے اضافی حصے کے متعلق سوال ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے عبداللہ بن عمرؓ کو گواہ بنا کر وضاحت پیش کی۔ یہی وہ طرزِ حکمرانی تھا جس نے اسلامی نظام کو دنیا کے سامنے عدل و انصاف کی مثال بنا دیا۔ اہل ِ بیت اطہار بھی قانون کے تابع اسی اصول کی سب سے عظیم مثال سیدنا علیؓ کے دورِ خلافت میں اس وقت سامنے آئی جب ایک یہودی کے ساتھ مقدمہ پیش ہوا۔ خلیفہ ٔ وقت ہونے کے باوجود سیدنا علیؓ قاضی کے سامنے مدعی کے طور پر کھڑے ہوئے، اور جب قاضی نے گواہی ناکافی ہونے پر فیصلہ اْن کے خلاف دیا، تو انہوں نے اس فیصلے کو تسلیم کر لیا۔
اسی طرح نبیؐ کی چہیتی بیٹی سیدہ فاطمہؓ کے بارے میں بھی رسولِ اکرمؐ نے فرمایا تھا ’’اگر فاطمہ بنت ِ محمد بھی چوری کرے تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دوں گا‘‘۔ (بخاری) یہ اس بات کا اعلان تھا کہ اسلام میں کوئی مقدس گائے (Sacred Cow) نہیں، شریعت کے دائرے میں سب برابر ہیں۔ آج ملک کی سلامتی کے اداروں، عدلیہ پارلیمنٹ اور قانون نافذ کرنے والے تمام کے لیے پیغام ہے کہ ہمارے معاشرے کی اصلاح اسی وقت ممکن ہے جب تمام ادارے، سیاسی، عدالتی، عسکری یا مذہبی قرآن و سنت کے پابند بنیں۔ خلافِ شریعت کوئی فیصلہ نہ کیا جائے، اور احتساب کا نظام بلا امتیاز نافذ کیا جائے۔ بدقسمتی سے آج قانون کمزور کے لیے تلوار اور طاقتور کے لیے ڈھال بن چکا ہے۔ یہ روش اسلامی اصولوں سے انحراف ہے اور قوموں کی بربادی کی علامت ہے قرآن کہتا ہے ’’اِنَّ اللَّہَ اَمْرْ بِالعَدلِ وَالاِحسَان‘‘ (النحل: 90) یعنی اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ امت ِ مسلمہ کے لیے یہی پیغامِ ہے کہ عدل قائم کیجیے، احتساب سب کا کیجیے، اور قانون کو ہر درجہ پر مقدم رکھیے۔ یہی اسلامی نظام کی روح اور حقیقی عدلِ عمرؓ کا تسلسل ہے۔