data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی (رپورٹ:منیر عقیل انصاری)میئر کراچی کی ناہلی کے باعث کراچی کی سڑکوں کے بعد پیڈسٹرین بریج ( بالائی گزرگاہ) بھی خوف کی علامت بن گیا ہے۔

حیدری مارکیٹ کے قریب خستہ حال پیڈسٹرین بریج کے فرش کا حصہ جگہ جگہ سے غائب ہونے کی وجہ سے لوگوں نے بریج کا استعمال کم کردیا ہے۔بالائی گزر گاہ کے ٹوٹے حصے خاص طورپررات میں شہریوں کی جان لینے کا سبب بن سکتے ہیں۔

نارتھ ناظم آباد ٹاؤن کے حدود میں واقع حیدری مارکیٹ کے قریب پیڈسٹیرین بریج شہریوں کے لیے خطرے کی علامت بن گیا ہے ، مین سڑک پر چوبیس گھنٹے بھاری بھرکم گاڑیوں کی آمدورفت کے دوران سڑک عبور کر کے حیدری مارکیٹ آنے وا لے شہریوں کے لیے جہاں امتحان بنا ہواہے وہیں ٹوٹاپھوٹا بالائی گزر گاہ انتظامیہ کی کارکردگی کا پول کھول رہاہے۔اس بالائی گزر گاہ جس سے روزانہ ہزاروں لوگ گزرتے تھے تاہم اس میں بڑے بڑے گڑھے پڑ چکے ہیں جو کسی بھی وقت یہ گڑھا کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے اس حوالے نہ کوئی سیفٹی کا انتظام، نہ کوئی بیریئر، نہ ہی کوئی پرسانِ حال ہے اور صرف یہی نہیںجو زینہ (سیڑھیاں) اس بریج پر چڑھنے کے لیے بنی ہیں، وہ بھی بری طرح ٹوٹ چکی ہیں۔ایسے میں اگر کوئی بچہ یا بزرگ یہاں سے گزرے تو سیدھا مین سڑک پر گر سکتا ہے اور جان لیوا حادثہ پیش آ سکتا ہے۔

بالائی گزر گاہ کے خستہ حالی پر شہریوں نے متعلقہ محمکوں سے سوال کیا ہے کہ کیا عوام کی جان اتنی سستی ہے؟کیا ان بریج کی دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہیں ہے؟ہم متعلقہ اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ فوراً اس بریج کی مرمت کی جائے، ورنہ کوئی بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ پیڈسٹرین برج تقریبا ناقابل استعمال ہونے کی وجہ سے خواتین اوربچوں کو شدید مشکلات کا سامناہے۔ بریج پر دو بڑے گڑھے پڑ چکے ہیں گزرنے والوں کی ذرا سی بھول کسی بڑے حادثے کا باعث بن سکتی ہے برج کو توڑ کر لوہا چوری کرنے والے نشے کے عادی افراد کو روکنے والا کوئی نہیں ہے۔

شہریوں کا کہنا ہے کہ اس بریج سے روز سینکڑوں لوگ آنا جانا کرتے تھے اور کئی بار لوگ گر بھی چکے ہیں اس بریج پر منشیات کے عادی افراد نے اپناڈیرہ جمع رکھا ہے اور یہ نشئی افراد برج پر لگے سریے کو نکال کر لے گئے ہیں اس سریے کو نکالنے کے لیے نشئی افراد نے بریج پردو جگہوں سے سوراخ کردیا ہے جس کی وجہ سے روزانہ حادثات رونما ہورہے ہیں اس بریج پر اسٹریٹ لائٹس نہ ہونے کی وجہ سے رات کے وقت بریج استعمال کرنے والے شہریوں کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے بالائی گزر گاہ کے 2 مقامات پر گہرا گڑھا پڑا ہوا ہے جبکہ ایک مقام پر عارضی طور پر پتھر رکھ کر بن کر دیا گیا ہے تاہم اگر اس بریج سے گزرنے والا شہری بے خیالی میں اس لگے ہوئے پتھر پر اپنا پاو¿ں رکھ دے تو پتھر وںکے درمیان اس کا پا ؤں پھنس سکتا ہے اور شہری کی زندگیوں کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں ۔ خصوصاً بچے بہت ڈر رہے ہوتے ہیں متعدد شہری بریج پر حادثات کا شکار ہوچکے ہیں شدید نوعیت کی چوٹیں بھی آئیں ہیں ۔

بیڈسٹیرین برج محفوظ طریقے سے سڑک عبور کرنے کے لیے بنایا گیا تھا ۔متعلقہ یوسی چیئرمین کی جانب سے میئر کراچی کو حیدری مارکیٹ کے پیڈسٹرین برج ( بالائی گزرگاہ) کی خستہ حالی کی نشاندہی کے باوجود مرمتی کام نہیں کروایا جارہا ہے۔شہریوں کا کہنا ہے کہ پل اپنی میعاد مکمل کرچکا ہے،گزشتہ روز بھی ایک بچہ پل سے گرنے والا تھا،خوش قسمتی سے علاقہ مکین بچے کی جان بچانے میں کامیاب ہوگئے،ماضی میں بھی کئی حادثات پیش آچکے ہیں لیکن انتظامیہ کی جانب سے مرمتی کام سست روی کا شکار ہے،گزشتہ چھ ماہ سے یہ پل ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے لیکن کوئی اس معاملے کو سنجیدگی سے حل کرنے کو تیار ہی نہیں۔خستہ حال پیڈسٹرین برج خطرے کی علامت بن گیا ہے۔

صوبائی وزیر بلدیات، میئر کراچی ،ادارہ ترقیات کراچی سمیت دیگر متعلقہ ادارے توجہ دیں ورنہ یہ کسی بڑے حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔اس حوالے سے مئیر کراچی کے ترجمان کا کہنا ہے کہ حیدری مارکیٹ کے قریب پیڈسٹرین برج ( بالائی گزرگاہ) جس کی نشاندہی کی گئی ہے اس پر جلد کام کا آغاز ہو جائےگا اوراس کی تعمیرات مکمل کرلیں گے شہریوں کو چاہیے کے حیدری مارکیٹ کے قریب پیڈسٹرین بریج استعمال کرتے ہوئے احتیاط کریں۔

ویب ڈیسک عادل سلطان.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: حیدری مارکیٹ کے قریب بالائی گزر گاہ پیڈسٹرین برج کی علامت بن کی وجہ سے خستہ حال چکے ہیں سکتا ہے کے لیے گیا ہے ہے اور کی جان

پڑھیں:

کراچی کی 80 فیصد عمارتیں فائر سیفٹی نظام سے محروم:  شہریوں کی زندگیوں کو خطرات

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی(اسٹاف رپورٹر) شہر قائد میں فائر سیفٹی کا بحران سنگین صورت اختیار کرگیا ہے، جہاں 80 فیصد عمارتوں میں آگ سے بچاؤ کا کوئی نظام موجود نہیں جبکہ 90 فیصد عمارتوں میں ایمرجنسی راستے تک نہیں، جس کے باعث لاکھوں شہری روزانہ خطرے کے سائے میں زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ انکشاف فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن آف پاکستان کے زیر اہتمام تیسری نیشنل فائر سیفٹی کانفرنس اور رسک بیسڈ ایوارڈز کی تقریب میں کیا گیا، جہاں ماہرین نے خبردار کیا کہ بدعنوانی، غفلت اور قوانین پر عملدرآمد نہ ہونے کے باعث کراچی کسی بھی وقت بڑے سانحے سے دوچار ہوسکتا ہے۔

آباد کے چیئرمین حسن بخشی نے کہا کہ جن عمارتوں کی تعمیر کے دوران فائر سیفٹی کوڈز کا خیال نہیں رکھا گیا، انہیں این او سی جاری نہیں ہونا چاہیے۔ ان کے مطابق غیر محفوظ عمارتوں کو اجازت دینا شہریوں کی زندگیاں خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔

ریسکیو 1122 کے سی ای او ڈاکٹر عابد جلال نے بتایا کہ نومبر 2024 سے اب تک کراچی میں 1700 سے زائد آگ لگنے کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں، جن میں زیادہ تر کی وجہ شارٹ سرکٹ اور ناقص وائرنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ “جب تک آگ کی روک تھام کو ترجیح نہیں دی جائے گی، واقعات بڑھتے رہیں گے۔”

ریسکیو 1122 کی رپورٹ کے مطابق سندھ بھر میں اب تک 2700 سے زائد آگ لگنے کے واقعات، 1041 ٹریفک حادثات، دس لاکھ سے زیادہ میڈیکل ایمرجنسیز اور 448 ڈوبنے کے واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں۔

فائر پروٹیکشن ایسوسی ایشن کے صدر کنور وسیم نے بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے) پہلے ہی 500 سے زائد عمارتوں کو غیر محفوظ قرار دے چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “ہم نے کئی عمارتوں کو چند گھنٹوں میں آگ سے زمین بوس ہوتے دیکھا ہے، اگر احتیاط نہ کی گئی تو جانی نقصان کئی گنا بڑھ جائے گا۔”

انہوں نے بتایا کہ 80 فیصد آگ کے واقعات کی وجہ ناقص وائرنگ ہے جبکہ گیس سلنڈر دھماکوں میں بھی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “فائر فائٹنگ نہیں بلکہ فائر پریوینشن ہی اصل حل ہے۔”

کراچی کے چیف فائر آفیسر محمد ہمایوں نے کہا کہ پورے شہر میں صرف 28 فائر اسٹیشنز ہیں، حالانکہ آبادی کے لحاظ سے کم از کم 200 ہونے چاہئیں۔ انہوں نے بتایا کہ اب تک 34 فائر فائٹرز اپنی جانیں قربان کرچکے ہیں۔ “ہمارا ریسپانس ٹائم ڈیڑھ منٹ تک کم ہے، مگر ٹریفک، بند راستے اور اداروں کی عدم ہم آہنگی تاخیر کا باعث بنتی ہے، شہریوں کو بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہوگی۔”

سی ای او حسین حبیب کارپوریشن فواد باری نے کہا کہ پاکستان میں سالانہ 10 سے 15 ہزار آگ کے واقعات پیش آتے ہیں جن سے 800 ارب روپے تک کے مالی نقصانات ہوتے ہیں۔ “ہر 38 فٹ سے اونچی عمارت میں فائر الارم، ہائیڈرنٹس، ایکزٹ ڈورز اور ہنگامی راستے لازمی ہونے چاہئیں، مگر کراچی کی 80 فیصد عمارتوں میں یہ سہولتیں غائب ہیں۔”

انہوں نے کہا کہ کرپشن اور کمزور قانون نافذ کرنے والے ادارے سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، “جہاں فائر کوڈز موجود ہیں وہاں بھی رشوت کے ذریعے غیر محفوظ عمارتوں کو اجازت نامے دے دیے جاتے ہیں۔”

پی آئی اے کے کیپٹن محسن نے کہا کہ ملک میں برن سینٹرز کی شدید کمی ہے، “آگ کے بڑھتے واقعات کے باوجود علاج کی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ہمیں کم آتش گیر میٹیریلز کے استعمال کو لازمی قرار دینا ہوگا۔”

ہلال احمر سندھ کے چیئرمین ریحان ہاشمی نے کہا کہ “شہر کی خستہ سڑکیں، ناقص منصوبہ بندی اور غیر مربوط ادارے آگ کے پھیلاؤ کو بڑھا رہے ہیں۔ بلدیاتی اداروں کو فوری طور پر بااختیار بنانا ہوگا۔ کراچی کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔”

اسکاوٹس کے سیکریٹری اختر میر نے تجویز دی کہ فائر سیفٹی کو اسکولوں میں بطور لازمی مضمون شامل کیا جائے۔ “ہر شہری کو معلوم ہونا چاہیے کہ ایمرجنسی میں کیا کرنا ہے، باشعور شہری ہی محفوظ شہر کی ضمانت ہیں

مقررین نے متفقہ طور پر مطالبہ کیا کہ حکومت ایک جامع قانون بنائے، سخت نگرانی کرے، عوامی آگاہی بڑھائے اور فائر پریوینشن میں سرمایہ کاری کرے تاکہ پاکستان کا معاشی مرکز مزید کسی بڑے سانحے کا شکار نہ ہو۔

ویب ڈیسک عادل سلطان

متعلقہ مضامین

  • کراچی کی 80 فیصد عمارتیں فائر سیفٹی نظام سے محروم:  شہریوں کی زندگیوں کو خطرات
  • وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی پر ابھی کوئی بات نہیں کر سکتا: مولانا فضل الرحمٰن
  • کراچی کی بڑی کے ساتھ چھوٹی سڑکیں بھی بنا رہے ہیں، ناصر شاہ
  • میں نے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز سے استعفے کا مطالبہ نہیں کیا، شرجیل میمن
  • وزیرِ اعلیٰ کی تبدیلی پر ابھی کوئی بات نہیں کر سکتا، مولانا فضل الرحمٰن
  • اندھیر نگری چَوپٹ راج
  • کراچی میں ابلتے گٹر اور کچرا شہریوں کیلئے اذیت بن گئے
  • ہم انٹرنیشنل ایڈ اپنا حق سمجھتے ہیں اس کو بھیک نہیں کہا جا سکتا؛نائب صدر پیپلز پارٹی شیری رحما ن
  • آزاد کشمیرکے شہریوں کیلیے پولیس نے کوئی حکم جاری نہیں کیا