Daily Sub News:
2025-10-13@16:42:44 GMT

موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا

اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT

موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا

موبائل ۔ علم کا دوست اور جدید دنیا WhatsAppFacebookTwitter 0 10 October, 2025 سب نیوز

تحریر: ظہیر حیدر جعفری

دنیا کی رفتار بدل چکی ہے۔ وہ زمانہ گزر گیا جب علم صرف کتابوں، استادوں اور لائبریریوں تک محدود تھا۔ آج علم جیب میں سمایا ہوا ہے ایک چھوٹے سے آلے میں، جسے ہم موبائل فون کہتے ہیں۔ یہ وہ آلہ ہے جس نے انسانی زندگی کے ہر پہلو کو چھو لیا ہے۔ کبھی یہ صرف بات چیت کا ذریعہ تھا، مگر اب یہ انسان کا استاد، رہنما، ساتھی اور علم کا دوست بن چکا ہے۔ موبائل نے جدید دنیا میں تعلیم اور آگاہی کے دروازے ہر شخص کے لیے کھول دیے ہیں، چاہے وہ کسی بڑے شہر میں رہتا ہو یا کسی پسماندہ گاؤں میں۔

موبائل فون نے انسانی زندگی کو اتنا بدل دیا ہے کہ اب اس کے بغیر دنیا کا تصور ادھورا لگتا ہے۔ یہ آلہ محض ایک رابطہ نہیں بلکہ ایک دنیا ہے، جہاں معلومات، تفریح، تعلیم، کاروبار اور ٹیکنالوجی سب کچھ موجود ہے۔ اگر غور کیا جائے تو آج کے دور میں علم کا سب سے آسان، تیز اور مؤثر ذریعہ موبائل ہی ہے۔ یہ وہ پلیٹ فارم ہے جہاں ایک کلک پر ہزاروں کتابیں، ویڈیوز، لیکچرز اور تحقیقی مواد دستیاب ہوتا ہے۔ گویا کہ علم کا سمندر اب انگلیوں کے اشارے پر بہہ رہا ہے۔

تعلیم کے میدان میں موبائل نے ایک خاموش انقلاب برپا کیا ہے۔ ماضی میں ایک طالب علم کو استاد تک پہنچنے کے لیے فاصلہ طے کرنا پڑتا تھا، کتابیں خریدنی پڑتی تھیں، اور کبھی کبھی ایک سوال کا جواب تلاش کرنے میں دن لگ جاتے تھے۔ آج موبائل نے یہ سب آسان بنا دیا ہے۔ آن لائن کلاسز، ویڈیو لیکچرز، ورچوئل لائبریریاں، ای لرننگ پلیٹ فارم اور چیٹ جی پی ٹی جیسے مصنوعی ذہانت والے آلات نے تعلیم کو نئی سمت دے دی ہے۔ اب ایک طالب علم چاہے اسکول میں ہو یا گھر میں، موبائل کے ذریعے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے سیکھ سکتا ہے۔ یہ وہ سہولت ہے جس نے تعلیم کو عالمی اور سب کے لیے قابلِ رسائی بنا دیا ہے۔

موبائل فون نے صرف طالب علم کو نہیں بلکہ استاد کو بھی بدل دیا ہے۔ اساتذہ اب جدید تدریسی طریقے استعمال کرتے ہیں، موبائل ایپس کے ذریعے اسباق تیار کرتے ہیں اور طلبہ سے آن لائن رابطہ رکھتے ہیں۔ امتحانات، اسائنمنٹس اور حاضری کا نظام بھی موبائل سے ممکن ہو چکا ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں، پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں بھی آن لائن تعلیم تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ کووِڈ کے دنوں میں یہی موبائل ہی تھا جس نے تعلیم کا سلسلہ ٹوٹنے نہیں دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج تعلیم کا چہرہ ڈیجیٹل اور موبائل فرینڈلی ہو چکا ہے۔

علم کے فروغ میں سوشل میڈیا کا کردار بھی قابلِ ذکر ہے۔ فیس بک، یوٹیوب، ٹک ٹاک، انسٹاگرام اور لنکڈ اِن جیسے پلیٹ فارمز پر روزانہ لاکھوں تعلیمی ویڈیوز، لیکچرز اور تربیتی مواد اپلوڈ ہوتا ہے۔ پہلے یہ پلیٹ فارم صرف تفریح کا ذریعہ سمجھے جاتے تھے، مگر آج یہ تعلیم، آگاہی اور ہنر سکھانے کے مؤثر ذرائع بن گئے ہیں۔ اب ہر شخص اپنی مہارت دوسروں تک پہنچا سکتا ہے۔ کسی دیہاتی استاد کی ویڈیو لاکھوں لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتی ہے، کسی کاریگر کا تجربہ دنیا بھر کے نوجوانوں کے لیے سیکھنے کا موقع بن سکتا ہے۔ یہ وہ علم ہے جو اب کسی حد یا دیوار کا پابند نہیں رہا۔

مصنوعی ذہانت نے موبائل کو مزید ذہین بنا دیا ہے۔ اب موبائل صرف علم پہنچانے کا ذریعہ نہیں رہا بلکہ سیکھنے کا خودکار نظام بھی بن چکا ہے۔ چیٹ جی پی ٹی جیسے ماڈلز نے تحقیق، مضمون نویسی، ترجمہ اور خلاصہ سازی کو آسان کر دیا ہے۔ ایک پی ایچ ڈی اسکالر سے لے کر ایک اسکول کے طالب علم تک، سب کے لیے علم تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ ماضی میں جن سوالات کے جواب صرف ماہرین کے پاس ہوتے تھے، اب ان کے جوابات چند لمحوں میں دستیاب ہیں۔ مصنوعی ذہانت نے علم کے حصول کو جمہوری بنا دیا ہے اب علم صرف چند اداروں کا حق نہیں بلکہ ہر انسان کا حق بن چکا ہے۔

موبائل نے پیشہ ورانہ تربیت کے میدان میں بھی اپنی جگہ بنائی ہے۔ آج نوجوان آن لائن کورسز کے ذریعے ہنر سیکھ رہے ہیں — گرافک ڈیزائننگ، ڈیجیٹل مارکیٹنگ، پروگرامنگ، ویڈیو ایڈیٹنگ، اور مواد نویسی جیسے شعبے اب موبائل کی اسکرین پر دستیاب ہیں۔ فری لانسنگ پلیٹ فارم جیسے Fiverr، Upwork اور Freelancer نے لاکھوں پاکستانی نوجوانوں کو روزگار دیا ہے، اور ان سب کی بنیاد موبائل اور انٹرنیٹ پر قائم ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آج کا موبائل صرف ایک آلہ نہیں بلکہ ایک دفتر، ایک کلاس روم اور ایک لائبریری ہے۔

جہاں موبائل نے علم کو عام کیا ہے، وہیں اس نے تحقیق کو بھی تیز تر کر دیا ہے۔ پہلے کسی تحقیق کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنے، کتابوں کی ورق گردانی کرنے اور حوالہ جات تلاش کرنے میں مہینے لگ جاتے تھے۔ اب موبائل ایپس اور اے آئی ٹولز کی مدد سے چند گھنٹوں میں ہزاروں صفحات کا تجزیہ ممکن ہے۔ محقق اب اپنے موبائل سے ڈیٹا جمع کرتا ہے، تجزیہ کرتا ہے اور نتائج اخذ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سائنسی، طبی اور سماجی تحقیق میں تیزی آ گئی ہے۔

تاہم، اس روشن تصویر کے ساتھ کچھ دھندلے پہلو بھی ہیں۔ موبائل جہاں علم کا ذریعہ بنا، وہیں ذہنی انتشار، وقت کا ضیاع اور توجہ کی کمی کا باعث بھی بنا ہے۔ طلبہ اکثر تعلیمی مواد کے بجائے تفریح میں زیادہ وقت گزارتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی لت نے مطالعے کے رجحان کو کم کیا ہے۔ پہلے لوگ کتابیں پڑھ کر علم حاصل کرتے تھے، اب ویڈیوز دیکھ کر رائے قائم کرتے ہیں۔ یہ تبدیلی علم کی گہرائی کو متاثر کر رہی ہے۔ موبائل کا درست استعمال نہ کیا جائے تو یہ علم کا دوست نہیں بلکہ دشمن بھی بن سکتا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ موبائل کے ذریعے حاصل کیا گیا علم اکثر سطحی ہوتا ہے۔ گہرائی اور تحقیق کی جگہ اب جلد بازی اور معلومات کی بھرمار نے لے لی ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم موبائل کو صرف سہولت سمجھ کر استعمال کریں، اسے عقل و شعور کا متبادل نہ بنائیں۔ علم ہمیشہ سوال کرنے، سوچنے اور تجزیہ کرنے کا نام ہے۔ اگر ہم صرف موبائل پر انحصار کر لیں تو اپنی تخلیقی صلاحیت کھو بیٹھیں گے۔

دوسری طرف موبائل نے معاشرتی برابری کے خواب کو بھی حقیقت کے قریب کیا ہے۔ وہ لوگ جو پہلے تعلیمی اداروں سے محروم تھے، آج موبائل کی بدولت علم حاصل کر سکتے ہیں۔ خواتین، معذور افراد اور دیہاتی طلبہ کے لیے یہ ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ پاکستان کے دور دراز علاقوں میں آن لائن کلاسز اور موبائل لرننگ پروگرامز نے تعلیمی انقلاب کی بنیاد رکھی ہے۔ یہی وہ تبدیلی ہے جو قوموں کی تقدیر بدل سکتی ہے۔

آج کی جدید دنیا میں موبائل کا کردار صرف علم کی فراہمی تک محدود نہیں رہا بلکہ یہ تربیت، شعور اور آگاہی کا ذریعہ بھی ہے۔ اب لوگ سماجی مسائل، سیاسی حالات، ماحولیاتی تبدیلی اور انسانی حقوق کے بارے میں موبائل کے ذریعے باخبر رہتے ہیں۔ معلومات تک رسائی نے عوام کو شعور دیا ہے اور شعور نے سوال کرنے کی ہمت۔ یہی وہ بنیاد ہے جس پر جدید معاشرہ قائم ہوتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ موبائل نے انسان کو علم کی نئی دنیا میں داخل کر دیا ہے۔ اب دنیا کی ہر زبان، ہر کتاب، ہر یونیورسٹی اور ہر استاد ایک اسکرین کے فاصلے پر ہے۔ یہ وہ انقلاب ہے جو پرنٹنگ پریس کے بعد سب سے بڑا علمی انقلاب سمجھا جا رہا ہے۔ مگر ہر انقلاب کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے۔ اگر موبائل کے استعمال میں توازن نہ رکھا گیا تو یہی سہولت ایک نئے قسم کی غلامی بن سکتی ہے — ذہنی، فکری اور معلوماتی غلامی۔

ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ موبائل ایک ذریعہ ہے، مقصد نہیں۔ علم کا مقصد انسان کو بہتر بنانا ہے، محض معلومات سے بھر دینا نہیں۔ ہمیں اپنے نوجوانوں کو یہ سکھانا ہوگا کہ موبائل کا استعمال کس طرح اپنی شخصیت، علم اور ملک کی ترقی کے لیے کیا جائے۔ اگر موبائل کے ذریعے نوجوان علم، ہنر اور آگاہی حاصل کریں تو پاکستان جیسے ممالک کے لیے یہ سب سے بڑی طاقت بن سکتا ہے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ موبائل واقعی “علم کا دوست” ہے اگر اسے درست سمت میں استعمال کیا جائے۔ اس نے جدید دنیا میں انسان کو علم سے جوڑ دیا ہے، وقت کی قید ختم کر دی ہے، اور فاصلے مٹا دیے ہیں۔ لیکن یہ بھی سچ ہے کہ علم کی اصل قدر تب ہی برقرار رہتی ہے جب اس کا مقصد شعور، تحقیق اور کردار کی تعمیر ہو۔ اگر ہم اس حقیقت کو سمجھ جائیں تو موبائل نہ صرف جدید دنیا کا آلہ رہے گا بلکہ آنے والے زمانے کا سب سے بڑا استاد بھی بن جائے گا۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرملک میں مہنگائی کا رجحان مسلسل جاری، 21 اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ یومِ یکجہتی و قربانی: 8 اکتوبر 2005 – ایک عظیم آزمائش اور عظیم اتحاد کی داستان اب ہم عزت کے قابل ٹھہرے نبی کریم ﷺ کی وصیت اور آج کا چین مئی 2025: وہ زخم جو اب بھی بھارت کو پریشان کرتے ہیں انقلاب – مشن نور ایکو ٹورازم اپنے بہترین مقام پر: ایتھوپیا کی وانچی, افریقہ کے گرین ٹریول کی بحالی میں آگے TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم.

ذریعہ: Daily Sub News

کلیدی لفظ: موبائل کے ذریعے علم کا دوست بنا دیا ہے پلیٹ فارم جدید دنیا کہ موبائل نہیں بلکہ کا ذریعہ دنیا میں کرتے ہیں نے تعلیم کیا جائے طالب علم سکتا ہے آن لائن ہوتا ہے کے لیے چکا ہے علم کی کیا ہے

پڑھیں:

نیتن یاہو کو دوست کہنے پر پرکاش راج نے مودی کلاس لےلی

بالی ووڈ کے معروف اداکار پرکاش راج نے نیتن یاہو کو دوست کہنے پر وزیراعظم نریندر مودی کو کھری کھری سنادیں۔
اداکار پرکاش راج نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے اس ٹوئٹ پر شدید ردعمل دیا جس میں انہوں نے اسرائیلی ہم منصب نیتن یاہو کو دوست قرار دیا تھا۔
نریندر مودی نے ایکس پر لکھا کہ ’’میرے دوست، وزیراعظم نیتن یاہو کو صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کے تحت ہونے والی پیش رفت پر مبارکباد دینے کے لیے فون کیا اور کہا کہ ہم یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ کے لوگوں کے لیے انسانی امداد میں اضافے کے معاہدے کا خیرمقدم کرتے ہیں۔‘‘
مودی نے مزید لکھا کہ ’’دہشت گردی کسی بھی شکل یا ظاہری شکل میں دنیا میں کہیں بھی ناقابل قبول ہے۔‘‘
اداکار پرکاش راج نے انہیں کرارا جواب دیتے ہوئے لکھا کہ ’’مجھے بتائیں آپ کا دوست کون ہے پھر میں آپ کو بتاؤں گا کہ آپ کون ہیں‘‘۔ انہوں نے ہیش ٹیگ ’’جسٹ آسکنگ‘‘ بھی بنایا۔
پرکاش راج کی پوسٹ کے فوری بعد شائقین کی جانب سے ان کے پیغام کو سراہا اور غزہ میں جاری مظالم پر بھی بات کی۔

 

متعلقہ مضامین

  • پاکستان تیسری عالمی جنگ لڑ رہا ہے
  • افغان حکومت سمجھ لے بھارت کبھی بھی آپ کا دوست نہیں ہوسکتا؛ حافظ نعیم الرحمان
  • ایک دوست عرب ملک کے ذریعے افغانستان سے بات چیت جاری ہے ، امید ہے کہ اچھا نتیجہ نکلے گا: وزیراعظم پاکستان شہبازشریف
  • دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ
  • مستحکم معیشت، مضبوط دفاع
  • کس سے کہاں غلطی ہو رہی ہے؟
  • نیتن یاہو کو دوست کہنے پر پرکاش راج نے مودی کلاس لےلی
  • دنیا کا مہنگا ترین برگر: جسے خریدنے کے لیے پیسے نہیں، قسمت چاہیے!
  • چین پر 100 فیصد نئے ٹیرف اور سافٹ ویئر برآمدات پر پابندی، ’امریکا دنیا کو چین کو غلام نہیں بننے دے گا‘، صدر ٹرمپ