Express News:
2025-10-13@17:40:01 GMT

مستحکم معیشت، مضبوط دفاع

اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT

دورکی نظر رکھنے والے فلسفی یوول نوح ہراری اپنا ایک مقام رکھتے ہیں۔ ان کا یہ کہنا کہ قدیم زمانے میں ریاستوں کی مجموعی پیداوارکا آدھا حصہ جنگ و جدل اور دفاع پر خرچ ہوتا تھا جوگزرتے وقت کے ساتھ کم ہوکر پانچ یا چھے فیصد پر آکر ٹھہرا ہے۔

ان کا یہ مشاہدہ درست ہوگا لیکن پرانے وقتوں میں جنگیں گھوڑوں، ہاتھیوں، اونٹوں،پیدل سپاہیوں ، تلوار، ڈھال اور نیزوں کے ساتھ لڑی جاتی تھیں اور آج کی جنگیں دور مار میزائلوں جو ان زمانوں کے نیزوں کا نعم البدل ہیں اور اب ڈرونز اور جدید ٹیکنالوجی سے لڑی جاتی ہیں۔

آج کی جنگیں زمینوں پر نہیں، فضاؤں میں لڑی جا رہی ہیں۔ جنگوں کا ارتقاء بڑی تیزی سے ہوا ہے۔ قدیم زمانوں میں کسی ریاست یا پھر دنیا کی مجموعی پیداوار کیا ہوگی؟ دور اکبری میں دہلی یا آگرہ کے زیر کنٹرول ہندوستان کی مجموعی پیداوار کا کوئی ثانی نہیں تھام، جب دنیا کی عظیم لوٹ مارکا قصہ کھولا جائے گا تو نادر شاہ افشار کا نام سرِفہرست ہے جس نے موجودہ افغانستان، ازبکستان اور دیگر ہمسایہ ریاستوں میں قتل و غارت کی، ہندوستان میں راجدھانی دلی میں لوٹ مارکی اورکوہِ نور بھی چرایا۔

جنگ کرنے کے لیے جنگ کا بیانیہ بھی بڑا ہونا چاہیے۔ ایک منظم بیانیہ بڑی معنی رکھتا ہے، یہ جنگ کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے۔ ہم نے پاکستان کو دراصل ریا ست بننے ہی نہیں دیا۔

پاکستان بننے کے بعد ہم نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پشتو علاقوں کو قبائلی نظام کے رحم وکرم پر چھوڑ دیا۔ بلوچستان کے بلوچ ایریاز کو سرداری قبائلی نظام کے سپرد کیے رکھا۔ سندھ اور جنوبی پنجاب جاگیرداروں، وڈیروں اور گدی نشینوں کے اقتدار میں دیدیا۔

افغانستان کبھی مہذب جمہوری ریاست نہ بن سکا اور نہ سماجی ارتقائی عمل کا حصہ بنا۔ وہ طاقتور اقوام کی باہمی جنگ کا میدان بنا رہا۔ یہ ملک منشیات، ہتھیار، بارود کے کاروبار میں رہا۔

انسانی حقوق کے اعتبار سے آج بھی دنیا کی بدترین ریاست ہے ، آج اس غیرذمے دار ریاست اور اس کے ڈی فیکٹو حکمرانوںکو ہندوستان، پاکستان کے خلاف استعمال کر رہا ہے۔ آج ہماری افواج ان کے سامنے چٹان کی طرح کھڑی ہے مگر ملکی سیاسی قیادت کہیں پیچھے۔

چند ریاستیں ایسی بھی ہیں جن کی مثالیں کچھ مختلف ہیں جیسا کہ چین ، جو دنیا کی عظیم معاشی و دفاعی طاقت ہے، لیکن وہاں ایسے آئین کا وجود نہیں جس میں انسانی حقوق پیوست ہوں۔ ان کی معیشت کا انحصار بین الاقوامی منڈی پر ہے۔

امن اور مارکیٹ اکانومی دو مختلف مظہر ہیں۔ جب ہندوستان اور پاکستان کی حالیہ جنگ میں پاکستان نے چین سے خرید کیے ہوئے جہازوں کے ذریعے ہندوستان کے وہ جہاز مارگرائے جو انھوں نے فرانس سے خرید کیے تھے۔

جنگی سازوسامان کی خرید و فروخت کی بڑی منڈی ہے۔ جدید ٹیکنالوجی آج کل آسمانوں کو چھو رہی ہے اور اس جنگی ساز و سامان کی جدت میں مصنوعی ذہانت کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔

ان جنگی ہتھیاروں اور سازو سامان کو بیچنے کی بھی حکمتِ عملی ہے۔ جنگی ہتھیار ہر ملک کو نہیں بیچے جاتے، اگرکوئی ریاست بڑی معیشت ہے مگر دفاعی طاقت نہیں تو وہ ریاست دوسروں کی محتاج ہے۔

روس کوئی بڑی معیشت نہیں ہے سوائے اس کے کہ اس کی معدنیات اور خصوصاً تیل و گیس میں خود کفیل ہے۔ نہ ہی دنیا کی سو بڑی کمپنیوں کی فہرست میں روس کی کسی کمپنی کا نام ہے، نہ ہی آئی ٹی کی کمپنیوں میں اور نہ ہی ایروناٹیکل انجینیئرنگ میں یعنی کسی ہوائی جہاز سازی یا فضائیہ کمپنی میں۔

بیس سال قبل تک چین نہ ہی معاشی طاقت تھا اور نہ دفاعی طاقت۔ چین نے اپنی معیشت کو بھی دنیا کی مستحکم معیشت بنایا اور دفاعی طاقت کو بھی۔ یورپین یونین دنیا کی تیسری بڑی معاشی طاقت ہے مگر دفاعی اعتبار سے وہ روس کے برابر نہیں۔ روس کی دفاعی طاقت کو یوکرین نے چیلنج کردیا۔

اس جنگ کے آغاز کو دو سال ہوچکے ہیں لیکن اب تک روس یوکرین پر قبضہ نہیں کر سکا اور نہ ہی یہ جنگ جیت سکا۔ روس آج سے چالیس سال قبل دنیا کی سپر طاقت تھا۔ سوویت یونین کے لبادے میں روسی روح رکھتا تھا، مگر آج بھی وہ اس بات کو تسلیم نہیں کر رہا ہے کہ اس سوویت یونین کی معیشت مارکیٹ اکانومی نہیں تھی۔

روس دفاعی اعتبار سے امریکا کے برابر ضرور تھا مگر معاشی اعتبار سے نہیں۔ معاشی اعتبار سے روس ایسا پسپا ہوا کہ جغرافیائی اعتبار سے بکھرگیا۔ اس کے بکھرنے سے درجنوں ریاستیں ابھریں۔ پورا ایسٹ یورپ جو سوشلسٹ بلاک تھا گرگیا۔

کیوبا سے لے کر ویت نام تک انھوں نے اپنے اتحادیوں کی معاشی اور دفاعی مدد کی اور اسی طرح سینٹرل ایشیاء کے ملک جو ان کا حصہ تھے ان کو بھی نوازا۔ بس وہ معاشی اعتبار سے مضبوط نہ بن سکے۔ ان کی مجموعی پیداوار بڑھی ضرور مگر اخراجات کم نہ ہوئے۔

اس وقت کیپٹل ازم ایک نئی شکل اختیارکرچکا ہے۔کیپٹل ازم، مارکیٹ اکانومی کے اس پوائنٹ پکھڑا ہے جہاں جارحیت بڑھتی جا رہی ہے۔

چین اور امریکا، دنیا میں دو بڑے ملک ہیں جو دنیا میں تیزی سے ماحولیاتی تبدیلی لا رہے ہیں،کیونکہ وہ ہی دو ملک ہیں جو فضا میں کثیر مقدار میں کاربن چھوڑ رہے ہیں، جس سے فضا میں آلودگی پیدا ہو رہی ہے۔ یہ دونوں ممالک جتنے بڑے ممالک ہیں، اتنے ہی فضا میں آلودگی کے ذمے دار ہیں۔ اس آلودگی کے اثرات ہوتے ہیں، ہم جیسے ممالک پر جہاں سیلاب آتے ہیں۔

امریکا میںری پبلیکن ہمیشہ جنگی جنون کو ہوا دیتے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ کی عرب ریاستیں معاشی طور پر انتہائی مضبوط طاقتیں ہیں لیکن دفاعی اعتبار سے امریکا نے ہمیشہ ان کو کمزور بنا کر رکھا تاکہ وہ امریکا کے محتاج رہیں۔ پھر امریکا کا حمایتی، اسرائیل جس کو کھلی چھوٹ ہے کہ وہ مشرقِ وسطیٰ پر اپنی جارحیت جاری رکھے جس سے تاثر یہ رہے کہ امریکا بہت طاقتور ہے اور عرب ریاستیں، امریکا کے رعب میں رہیں۔

موجودہ جنگیں اپنے عہد کی آخری جنگیں ہیں۔ آنیوالے پچاس سالوں میں بہت کچھ یکساں اور ایک جیسا ہو جائے گا۔ جیسا کہ انگریزی زبان پوری دنیا میں یکساں ہو جائے گی۔ مصنوعی ذہانت انسان کو چست بنا دے گی۔ انسان سے اس کے تمام ہنر چھین کے اپنے تابع کر دے گی۔ اس انقلاب میں بہت سی زبانیں اور ثقافتیں تحلیل ہو جائیں گی۔

آج کی جنگیں معاشی اور تجارتی جنگیں ہیں۔ معدنیات اور معدنی ذخائر پر قبضہ کرنے کی جنگیں ہیں۔ زمینیں اور سرحدیں بے معنی ہو چکی ہیں اور مزید ہونگی۔ آنیوالے پچاس سالوں میں کرنسی اپنی ماہیت تبدیل کردی گی۔

قدیم ادوار میں سونا کرنسی تھا، اشرفیاں اور سکے تھے، پھرکرنسی کاغذ میں جاری کی گئی، پھر پلاسٹک کارڈز اور اب بٹ کوائن اور اب مزید تبدیل ہوگی۔ پہلے دنیا کا سیاسی نظام کالونیوں میں تھا، پھر نو آبادیاتی نظام آیا، سرد جنگ، پھر ایک اور سرد جنگ۔

اب انسان خلاء میں کالونیاں بنائے گا۔ چاند اور مریخ پر آباد ہوگا، کالونی بنائے گا۔اس بدلتی دنیا میں ایک مضبوط ریاست بننے کی ضرورت ہے، مستحکم معیشت اور مضبوط ادارے بنانے کی ضرورت ہے۔ ریاست اور مذہب کو جدا رکھنے کی ضرورت ہے اور ایسا ہی قائدِ اعظم نے اپنی گیارہ اگست کی تقریر میں فرمایا تھا۔

پاکستان یقینا آگے جا سکتا ہے۔ ان بحرانوں میں ہمارا ایٹمی طاقت ہونا ہمیں ہندوستان پر فوقیت دیتا ہے، لیکن کیا ایٹمی طاقت ہونے پر ہماری معیشت مستحکم ہو سکتی ہے۔ ہماری معیشت کو سنبھلنے کی ضرورت ہے۔ مشرقِ وسطیٰ آخرِکار ہم سے جڑے گا۔ ایک انقلابی تبدیلی پاکستان میں ضرور آئی ہے وہ ہے افغان پالیسی جو کل تک کمپرو مائزڈ تھی مگر آج نہیں ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کی ضرورت ہے دفاعی طاقت کی مجموعی کی جنگیں دنیا میں دنیا کی اور نہ

پڑھیں:

دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ

میں نے چار اکتوبر کو اوساکا سے فوکوشیما جانا تھا وہاں میرے دوست ملک سلیم رہتے ہیں‘ یہ شان کے نام سے گاڑیوں کا اپنا برینڈ چلا رہے ہیں‘ ان کی گاڑیاں چلی‘ پیرو اور کینیا میں بہت مشہور ہیں‘ وزیر آباد کے رہنے والے ہیں‘ 1988 میں جاپان آئے اور دن رات محنت کر کے اپنا مقام بنا لیا‘ میں ان کے ساتھ ایک دن گزارنا چاہتا تھا۔

اتوار کی رات ٹوکیو میں میرا پاکستانی سفیر عبدالحمید کے ساتھ ڈنر تھا لیکن اس سے پہلے ایکسپو کے ریکارڈ ہولڈر ووڈن اسٹرکچر پر واک بھی اہم تھی لہٰذا میں دوسرے دن عرفان صدیقی کے ساتھ دوبارہ ایکسپو آیا‘ ہم برقی سیڑھیوں کے ذریعے اوپر آ گئے۔

وہاں بلاشبہ لاکھ کے قریب لوگ ہوں گے‘ یہ دو اسٹیجز پر واک کر رہے تھے‘ اسٹیج ون سے صرف ایکسپو نظر آ رہی تھی جب کہ اسٹیج ٹو سے سمندر اور نمائش دونوں دکھائی دے رہے تھے۔

اسٹیج ٹو پر زیادہ رش تھا لہٰذا ہم اسٹیج ون پر رہے‘ ہمارے ساتھ ساتھ جنگلہ چل رہا تھا جس کے نیچے مختلف ملکوں کے پویلین تھے‘ ہم نے رومانیہ کے پویلین سے شروع کیا‘ یہ خوب صورت تھا لیکن اسپین‘ فرانس‘ سعودی عرب‘ اٹلی اور امریکا کے پویلین زیادہ خوب صورت تھے‘ فن لینڈ‘ تھائی لینڈ اور ترکی کے پویلین بھی اچھے تھے۔

لیکن سب قطاریں سعوی عرب کے سامنے تھیں‘ سعودی عرب کا پویلین سادہ لیکن انتہائی خوب صورت تھا‘ یہ بلند عمارتوں کا محلہ تھا جس کے درمیان سیڑھیاں اور راہ داریاں تھیں‘ چھتوں پر درخت اور پودے تھے اور عمارتوں کے درمیان بالکونیاں اورپل تھے‘ یہ دوراور نزدیک دونوں سائیڈز سے خوب صورت تھا۔

اٹلی کے پویلین کی چھت پر اطالوی گارڈن تھے‘ اسپین کا پویلین شیشے کی طویل سیڑھیوں پر مشتمل تھا جس کے اوپر خوب صورت اسکرین لگی تھی اور اس پر نکلتا ہوا سورج نظر آتا تھا‘ فرانس اور امریکا ائیرپورٹ جیسی عمارتوں پر مشتمل تھے جن کے اندر بڑے بڑے ہالز تھے۔

ترکی اور آذربائیجان کی عمارتیں باہر سے وسیع اور خوب صورت تھیں لیکن اندر سے زیادہ خوب صورت نہیں تھیں‘ انڈونیشیا کے پویلین کے اندر گارڈن تھا‘ یہ آئیڈیا منفرد اور دل فریب تھا جب کہ ازبکستان کا پویلین ازبک ستونوں پر مشتمل تھا۔

یہ دور سے توجہ کھینچ لیتا تھا‘ جاپان کا اپنا پویلین ووڈن رِنگ سے باہر تھا‘ اس کا تھیم 2030کی سوسائٹی تھا‘ میں اس طرف آنے سے قبل آپ کو یہ بتاتا چلوں‘ ہم انسانی معاشرے کے چوتھے فیز میں ہیں‘ پہلا شکار کا دور تھا‘ دوسرا زرعی دور تھا‘ تیسرا صنعتی زمانہ تھا۔

چوتھا آج کا ڈیجیٹل دور ہے جب کہ پانچواں دور 2030میں شروع ہو گا‘ وہ سوسائٹی 5 کہلائے گا‘ جاپان کا پویلین سوسائٹی 5 پر مشتمل تھا‘ اس کے چار ہالز تھے جن کے سامنے فلائنگ کار کھڑی تھی‘ یہ 2030کی سواری ہو گی‘ یہ ڈرون اور ہیلی کاپٹر کا مجموعہ ہے اور یہ اڑ کر منزل پر پہنچ جائے گی۔

دن میں دو بار اس کی ٹیسٹ ڈرائیو ہوتی تھی‘ ہال کے اندر معاشرے کے چار ادوار بڑی بڑی اسکرینوں پر دکھائے جا رہے تھے جب کہ پانچواں ہال سوسائٹی 5 تھا‘ اس کے اندر ماڈرن اسکول تھا جس میں بڑی بڑی اسکرینوں کے ذریعے پڑھایا جا رہا تھا‘ ہالو گرامز کے ذریعے مختلف شہروں میں آباد رشتے دار بچوں کے سامنے کھڑے ہو کر برتھ ڈے منا رہے تھے۔

مستقبل کی ٹرانسپورٹیشن میں چار نشستوں کا ایک کیبن تھا جس میں چار لوگ آمنے سامنے بیٹھ جائیں گے اور یہ کیبن چل کر بس میں بھی سوار ہو جائے گا‘ ٹرین میں بھی‘ بحری جہاز میں بھی اور ہوائی جہاز میں بھی یوں یہ لوگ اپنے آپ کو گھر میں رکھ کر پوری دنیا کا سفر کرسکیں گے۔

مستقبل کی زراعت مکمل آٹومیٹک ہو گی جس میں ٹریکٹر سے لے کر فصل کی کٹائی اور پسائی میں کوئی انسانی ہاتھ شامل نہیں ہو گا‘ مستقبل کی توانائی ہواکی ہائیڈروجن ہو گی‘ بڑی بڑی چمنیاں ہائیڈروجن جمع کریں گی اور ان سے بجلی بنائیں گی۔

اور مستقبل میں لوگ روبوٹک ہارسز پر سوار ہو کر پہاڑ اور ندیاں نالے عبور کریں گے‘ یہ روبوٹک گھوڑا بھی وہاں کھڑا تھا اورگھوڑے کی طرح حرکت کرتا تھا‘ مستقبل کی خوراک سادی لیکن مکمل ہو گی‘ جاپانی پویلین بھی دیکھنے لائق تھا۔

میں اور عرفان صدیقی پویلین سے نکل کر ریلوے اسٹیشن پہنچے اور فاسٹ ٹرین سے فوکو شیما روانہ ہو گئے‘ ہم نے ٹوکیو سے ٹرین تبدیل کرنی تھی‘ مجھے متعدد مرتبہ جاپانی ٹرینوں میں سفر کرنے کا اتفاق ہوا اور ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ نیا سیکھنے کو ملا۔

جاپانی لوگ ٹرین میں گفتگو نہیں کرتے‘ آپ جب ڈبے میں داخل ہوتے ہیں تووہاں مکمل سناٹا ہوتا ہے‘ میں پچھلی مرتبہ گروپ کے ساتھ جاپان آیاتھا‘ ہم ہیروشیما جا رہے تھے‘ پاکستانی عادت ہے ہم بلند آواز میں فون پر بات کرتے ہیں‘ ہمارے ایک ساتھی سارا راستہ بیگم کو کال کرتے رہے جس سے جاپانی مسافر ڈسٹرب ہو رہے تھے۔

لیکن یہ لوگ کیوں کہ احتجاج یا اعتراض نہیں کرتے لہٰذا یہ کان لپیٹ کر بیٹھے رہے لیکن جب ٹرین رکی تو ہر مسافر ہمارے دوست کے سامنے کھڑے ہوتا تھا‘ کان پر ہاتھ رکھتا تھا‘ جھک کر اسے سلام کرتا تھا اور نیچے اتر جاتا تھا‘ وہ صاحب فون نیچے کر کے انھیں حیرت سے دیکھنے لگے‘جب تمام لوگ اتر گئے تو وہ مجھ سے مخاطب ہوئے۔

چوہدری صاحب یہ پھینے کیا کر رہے تھے‘ میں نے ہنس کر جواب دیا‘ یہ آپ کو بتا رہے تھے آہستہ آواز میں بات کریں‘ یہ سن کر انھوں نے انتہائی بلند آواز میں قہقہہ لگایا اور بیگم کو فون پر یہ واردات بھی سنانی شروع کر دی۔

میں نے اس مرتبہ دیکھا‘ ہمارے ٹکٹوں پر بوگی نمبر لکھا ہے‘ پلیٹ فارمز پر بھی بوگیوں کے نمبر لگے ہوئے تھے‘ یورپ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے لیکن جاپان میں پلیٹ فارمز پر بوگیوں کے نمبروں کے سامنے لوگ قطار میں کھڑے تھے اور ان کے درمیان فاصلہ تھا۔

ہم بھی لائین کے آخر میں کھڑے ہو گئے‘ ٹرین آئی تو پہلے اترنے والے مسافر اترے اور اس کے بعد چڑھنے والے اپنی اپنی باری پر ٹرین میں سوار ہو گئے‘ کوئی ہڑبونگ اور افراتفری نہیں مچی‘ ہم نے جب ٹکٹ خریدے تھے تو ٹکٹ کلرک نے باقاعدہ کھڑے ہو کر اور پھر جھک کر ہمیں ٹکٹ دیے تھے‘ یہ خالص جاپانی اسٹائل تھا۔

ہم نے ایک رات فوکوشیما میں ملک سلیم کے ساتھ گزاری‘ یہ بہت مخلص اور دل چسپ انسان ہیں‘ ہم نے جی بھر کر ان کی کمپنی انجوائے کی‘ اگلے دن بائی روڈ ٹوکیو آ گئے‘ پاکستانی سفیر عبدالحمید نے ہمیں ڈنر دے رکھا تھا‘ پاکستانی سفارت خانے کی عمارت سادی لیکن قابل تعریف ہے۔

سارا عملہ سفارت خانے کے اندر رہتا ہے جس سے وقت بھی بچتا ہے‘ پٹرول بھی اور غیر ضروری کرائے بھی‘ یہ آئیڈیا اچھا ہے‘ میرا مشورہ ہے پاکستان کے تمام سفارت خانے جاپان کی طرز پر بنا لینے چاہییں‘ اس سے زرمبادلہ کی بہت بچت ہو گی‘ سفیر عبدالحمید کو جاپان آئے زیادہ دن نہیں گزرے۔

یہ اس سے قبل ماسکو‘ بھارت اور یو این میں کام کر چکے ہیں‘ پڑھے لکھے انسان ہیں‘ اظہار الحق صاحب کے فین ہیں‘ میں اڑھائی گھنٹے ان کے ساتھ بیٹھا اور وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا‘ سفیر کی رہائش گاہ کا ٹیرس بہت خوب صورت اور وسیع ہے۔

اس سے ٹوکیو ٹاور سمیت تمام اہم اور بلند عمارتیں دکھائی دیتی ہیں‘ ہم نے اس ٹیرس پر دوسری بار گرین ٹی پی اور سفیر صاحب کی کمپنی کو انجوائے کیا‘ میری ان سے پہلی ملاقات تھی لیکن ان کی گرم جوشی اور محبت نے اجنبیت کی تمام دیواریں گرا دیں‘ ان کی یادداشت اور کمیونی کیشن دونوں حیران کن ہیں۔

مجھے اللہ کی زمین دیکھنے کا بہت اتفاق ہوا‘ میں نے تقریباً تمام مذاہب کے معاشرے دیکھے لیکن آپ یقین کریں پوری دنیا میں صرف ایک اسلامی ملک ہے اور اس کا نام جاپان ہے‘ آپ کو اگر یقین نہ آئے تو آپ کسی دن حیات طیبہ اور ریاست مدینہ کا مطالعہ کریں اور اس کے بعد جاپان کا وزٹ کریں۔

آپ کو اس معاشرے میں وہ تمام خوبیاں ملیں گی جن کا ذکر یا خواہش پرانی اسلامی کتابوں میں ہے‘ اسلام میں صفائی نصف ایمان ہے‘ آپ کو یہ نصف ایمان صرف جاپان میں ملے گا‘ آپ ایک ڈبہ یا ریپر اٹھا کر پورے شہر میں پھرتے رہیں گے لیکن آپ کو وہ پھینکنے کی جگہ نہیں ملے گی۔

مائیں صبح اسکول بھجواتے وقت بچوں کو جوس کا ڈبہ دیتی ہیں‘ بچے جوس پی کر خالی ڈبہ گھر واپس لے کر آتے ہیں اور گھر کے کچرے کے تھیلے میں پیک کرتے ہیں‘ آپ کو پورے ملک میں کوئی واش روم گندا یا بدبودار نہیں ملے گا۔

فرش تک خشک اور صاف ہوں گے‘ کموڈ بھی سوکھا ہو گا‘ شہروں میں لاکھوں لوگ ہیں لیکن ہارن کی آواز آئے گی اور نہ اوئے اوئے کی صدا‘ لوگ قطاروں میں اپنی سائیڈ پر چلتے ہیں اور کسی سے نہیں ٹکراتے‘ آپ کے اگر ملین ڈالر بھی گر جائیں تو یہ وہیں پڑے رہیں گے یا پھر کسی قریبی ’’لاسٹ اینڈ فائونڈ‘‘ کائونٹر سے مل جائیں گے۔

مجھے ایک صاحب نے بتایا مریم نواز کے کیپٹن کا پاسپورٹ گم ہو گیا تھا‘ اسے رات بارہ بجے پتا چلا اور صبح اس نے وزیراعلیٰ اور وفد کو لے کر پاکستان واپس جانا تھا‘ رات بارہ بجے ان لوگوں نے پولیس سے رابطہ کیا‘ پولیس نے ڈھونڈنا شروع کیا تو پاسپورٹ تیسرے تھانے سے مل گیا‘ کسی راہ گیر نے وہ پاسپورٹ تھانے میں جمع کرا دیا تھا۔

یہ لوگ عین اسلامی معاشرے کی طرح مغرب کے وقت کھانا کھاتے ہیں اور وہ بھی سادا اور بھوک رکھ کر اور پھر جلدی سو جاتے ہیں‘ صبح جلدی جاگتے ہیں اور سیکنڈ کے حساب سے وقت پر پہنچتے ہیں‘ اکیلے بھی ہوں گے تو لائین میں کھڑے ہو جائیں گے‘ دوسرے کی عیب جوئی اور مذاق نہیں اڑاتے‘ آپ کسی سے راستہ پوچھیں وہ کام چھوڑ کر آپ کی مدد کرے گا۔

کسی کا احسان نہیں لیتے‘ آپ ان کی مدد کریں وہ شکریہ ادا کر کر کے آپ کی مت مار دے گا‘ مکمل تیاری کے ساتھ گھر سے نکلتے ہیں‘ ذرا سی بارش ہوتی ہے اور پورا شہر چھتریاں نکال لیتا ہے اور جوں ہی بارش ختم ہوتی ہے۔

یہ چھتریاں سمیٹ کر بیگوں میں چھپا لیتے ہیں‘ کام کو عبادت سمجھتے ہیں‘ آپ دس مرتبہ پوچھیں یہ ماتھے پر شکن لائے بغیر دس مرتبہ بتائیں گے‘ دکان دار کائونٹر سے باہر آ کر گاہک کو تھیلا پکڑائے گا اور پھر جھک کر شکریہ ادا کرے گا۔

آپ کی کہنی کسی کو لگ جائے تو وہ دس مرتبہ آپ سے معافی مانگے گا‘ پورا ملک خواتین اور بچوں کے لیے محفوظ ہے‘ آپ کو کسی جگہ فحاشی یا عریانی دکھائی نہیں دیتی‘ آپ کو سڑکوں پر شرابی اور موالی نہیں ملتے اور ملاوٹ‘ جعل سازی اور جھوٹ کا تصور تک نہیں چناں چہ آپ کو اگر واقعی دنیا میں کسی جگہ اسلامی معاشرہ دیکھنا ہے تو آپ جاپان جائیں۔

آپ کو وہاں اذان‘ داڑھی اور نمازی نہیں ملیں گے لیکن معاشرہ پورا اسلامی ملے گا‘ کاش ہم یہ معاشرہ اپنے کسی دارالعلوم ہی میں قائم کر لیں‘ ہم کسی اسلامی ملک کو ایک فیصد جاپانی بنا لیں تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں سنور جائیں گی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان کی معیشت کو افغان مافیا سے آزاد کرانا ناگزیر ہے، وزیرِ دفاع خواجہ آصف
  • پاکستان تیسری عالمی جنگ لڑ رہا ہے
  • جنگ بندی؛ حماس کی فتح: ایمان کی طاقت کا اثبات
  • حکومت پنجاب ٹی ایل پی سے مذاکرات کرے، طاقت مسئلے کا حل نہیں، لیاقت بلوچ
  • دنیا کا واحد اسلامی معاشرہ
  • کس سے کہاں غلطی ہو رہی ہے؟
  • عوام کی بدحالی اور معاشی ترقی کے دعوے
  • بھارت کوئی ایڈونچر کرےگا لیکن اس بار جواب پہلے سے زیادہ طاقت سے ملے گا، وزیر دفاع نے واضح کردیا
  • قطر کو امریکا میں فضائی اڈہ قائم کرنے کی اجازت مل گئی، دو طرفہ دفاعی تعلقات مزید مضبوط