طالبان کی شرط پر بھارت نے خواتین صحافیوں کو روکا، مودی حکومت تنقید کی زد میں
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
افغانستان کے عبوری وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی کے حالیہ دورہ بھارت کے دوران اس وقت تنازع کھڑا ہوگیا جب پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کی شرکت پر پابندی عائد کی گئی۔ نجی نیوز چینل کی رپورٹ کے مطابق، افغان وزیر خارجہ کی شرط تھی کہ پریس کانفرنس میں کوئی خاتون شریک نہ ہو۔ بھارتی حکومت نے یہ شرط قبول کرتے ہوئے کسی بھی خاتون رپورٹر یا صحافی کو شرکت کی اجازت نہیں دی۔
اس فیصلے پر بھارت میں سخت سیاسی اور صحافتی ردعمل سامنے آیا۔ اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے کہا کہ عوامی فورم سے خواتین کو روکنا مودی حکومت کی کمزوری کی نشانی ہے۔ پرینکا گاندھی نے سوال اٹھایا کہ مودی بتائیں کہ خواتین کی توہین کی اجازت بھارت میں کس نے دی۔ اپوزیشن کا مؤقف ہے کہ یہ فیصلہ نہ صرف خواتین کی تضحیک ہے بلکہ بھارت کے آئینی اصولوں کے بھی منافی ہے۔
اس دوران مولوی امیر خان متقی نے بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے ملاقات بھی کی، جس میں دو طرفہ تعلقات، امداد اور سفارتی امور پر بات چیت کی گئی۔ بھارت نے افغانستان کو 20 ایمبولینسز بطور تحفہ دینے کا اعلان کیا، جن میں سے 5 فوری طور پر افغان وفد کے حوالے کر دی گئیں۔ ملاقات میں بھارت نے کابل میں اپنے تکنیکی مشن کو باضابطہ سفارتخانے کا درجہ دینے کا بھی اعلان کیا، جسے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
امیر خان متقی نے اس موقع پر کہا کہ افغانستان بھارت کو ایک قریبی دوست سمجھتا ہے اور دونوں ملکوں کو اپنے باہمی تعلقات کو مزید فروغ دینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان کسی بھی ملک کے خلاف اپنی سرزمین استعمال ہونے کی اجازت نہیں دے گا۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے دوران افغانستان کی پاکستان پر جارحیت قابل غور ہے: عطا تارڑ
—فائل فوٹووفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللّٰہ تارڑ کا کہنا ہے کہ افغان وزیر خارجہ کے دورہ بھارت کے دوران افغانستان کی پاکستان پر جارحیت قابل غور ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ بھارت میں پاکستان مخالف بیانات کو مشترکہ اعلامیوں کی شکل دی جا رہی ہے۔
عطا اللّٰہ تارڑ نے کہا کہ دفتر خارجہ کا واضح اور دو ٹوک مؤقف ہے کہ یہ عمل افسوسناک اور قابل مذمت ہے۔