Express News:
2025-11-27@21:32:39 GMT

افغانستان کے عوام پر احسان

اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT

طالبان حکومت ہر لمحہ افغانستان کو ہزاروں سال پیچھے لے جانے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ طالبان کی شوریٰ نے گزشتہ ہفتے اس بات کا ادراک کر لیا کہ جدید ترین انفارمیشن ٹیکنالوجی شیطان کی ایجاد ہے، اس بناء پر شوریٰ نے فوری فیصلہ کرتے ہوئے پورے افغانستان میں انٹرنیٹ اور کمیونیکیشن کی تمام سہولتوں کو معطل کردیا۔ افغان حکومت کے فیصلے پر فوری عمل درآمد ہوا اور پورے افغانستان میں انٹرنیٹ سروس بند ہوگئی۔

انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے موبائل فون اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم تو بند ہوئے ہی اس کے ساتھ ہی لینڈ لائن ٹیلی فون کی سروس بھی معطل ہوگئی۔ یوں بینکنگ سروس سے لے کر ہوائی سفر بھی معطل ہوا۔ اس سے پہلے 16 ستمبر کو بلخ صوبہ کے ترجمان عطاء اللہ زید نے یہ اعلان کیا تھا کہ شمالی صوبہ میں انٹرنیٹ سروس اب معطل رہے گی۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی اے ایف پی کے رپورٹر نے یہ خبر دی تھی کہ پہلے مرحلے میں بدخشاں، تاخر Takhar ، قندھار اور ہلمند صوبوں میں انٹرنیٹ معطل کرنے کا فیصلہ ہوا تھا پھر شوریٰ نے یہ محسوس کیا کہ اس شیطانی چرغہ کو پورے ملک میں بند کردیا جائے۔ انٹرنیٹ کی بندش سے کابل سمیت افغانستان بھرکا فلائیٹ آپریشن معطل ہوا۔

کراچی میں مقیم ایک پاکستانی صحافی کی رپورٹ کے مطابق کابل ایئرپورٹ سے دبئی، استنبول، ماسکو، دہلی اور جدہ جانے والی پروازیں معطل ہوئیں۔ اس کے ساتھ ہی افغانستان کے مختلف شہروں میں قندھار، مزار شریف اور ہرات کے ایئرپورٹ عملی طور پر بند ہوگئے۔ انٹرنیٹ بند ہونے سے پورے افغانستان میں بینکنگ سروس، Online Education سروس بھی معطل ہوئی، پھر 48گھنٹوں بعد انٹرنیٹ سروس کی بحالی کا فیصلہ ہوا۔ امریکی فوج نے کروڑوں ڈالر کے سرمائے سے پورے افغانستان میں انٹرنیٹ سروس کے کیبلز بچھائے تھے۔

 طالبان حکومت نے فحاشی اور عریانی روکنے کے نام پر گزشتہ مہینے خواتین کی تحریر کردہ کتابوں کی یونیورسٹیوں میں تدریس کے لیے استعمال کرنے پر پابندی عائد کردی تھی۔ طالبان حکومت کے اس فیصلہ کے تحت خواتین کی تحریر کردہ 140 کتابوں پر پابندی عائد کی گئی۔ ان کتابوں میں Safety in the Chemical Laboratoryکے عنوان سے شایع ہونے والی کتاب بھی شامل ہے۔

افغانستان سے آنے والی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ طالبان شوریٰ کے مفکرین نے 680 کتابوں کی نشاندہی کی ہے جن میں شریعت کے خلاف مواد ہونے کے امکانات ہیں۔ ان میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ ان میں طالبان حکومت کی پالیسیوں کے خلاف مواد ہے۔ حکومت نے یونیورسٹیوں کے حکام کو یہ بھی ہدایت کی ہے کہ یونیورسٹیوں کے نصاب میں شامل 18 مضامین شریعت کے احکامات کے خلاف ہیں، اس بناء پر ان مضامین کی اب تدریس نہیں ہوگی، ان مضامین میں سائنس اور سماجی علوم کے موضوعات شامل ہیں۔

طالبان کو بینک سائنس کے مضامین میں نظریہ ارتقاء اور انسانی حقوق، جینڈر ڈیولپمنٹ اور Role of Women in Communication and Women in Societyشامل ہیں۔ طالبان حکومت کے اعلیٰ تعلیم کی وزارت کے ڈپٹی اکیڈمک ڈائریکٹر ضیاء الرحمن عروبی نے یونیورسٹیوں کے حکام کو ایک خط میں بتایا ہے کہ یہ مذہبی اسکالرز اور ماہرین کے ایک پینل نے کہا ہے کہ جن کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں ایرانی اسکالرز کی کتابیں بھی شامل ہیں۔ فرانسیسی خبررساں ایجنسی کے اس پینل میں شامل ایک ماہر نے برطانوی خبررساں ایجنسی کے نامہ نگارکو افغانستان میں ایرانی کلچر کو روکنے کے لیے ایرانی مصنفین کی کتابوں پر پابندی عائد کی گئی ہے۔

کابل یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے حکومت کے اس فیصلے کا جائزہ لیتے ہوئے کہا کہ اب یونیورسٹیوں کے اساتذہ کو ان کتابوں کی جگہ مواد تیار کرنا ہوگا، مگر سوال یہ ہے کہ یہ مواد کس معیارکا ہوگا۔ جب سے طالبان حکومت برسر اقتدار آئی ہے، اس کا نشانہ خواتین اور اقلیتیں ہیں۔ خواتین کے لیے اسکول،کالج اور یونیورسٹیوں میں تعلیم حاصل کرنے کا حق چھین لیا گیا ہے۔ اب انٹرنیٹ سروس بند ہونے سے جو طالبات Online تعلیم حاصل کرنے کی کوشش کررہی تھیں، اب ان کے لیے یہ دروازہ بھی بند کردیا گیا ہے۔

افغانستان کی آدھی آبادی خواتین پر مشتمل ہے۔ افغانستان کی کل آبادی کے بارے میں حقیقی اعداد و شمار نہیں ہیں مگر آبادی کے بارے میں تحقیق کرنے والے ماہرین کے اندازہ کے مطابق افغانستان کی آبادی 36.

4 ملین سے لے کر 49 ملین کے درمیان ہے۔ امریکا کے شماریات بیوروکا کہنا ہے کہ افغانستان کی آبادی اس سال بڑھ کر 49.5 ملین تک پہنچ گئی ہے۔ افغانستان میں غربت انتہا تک پھیلتی ہوئی نظر آتی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ آبادی کا دو تہائی حصہ غربت کی لکیر کے نیچے زندگی گزار رہا ہے، یوں آبادی کا 64.9 فیصد حصہ غربت کے نیچے ہے۔

بین الاقوامی ماہرین کا اندازہ ہے کہ افغانستان میں 15 سے 24 سال کی عمر کے لوگوں میں خواندگی کا تناسب 47 فیصد کے قریب ہے مگر مجموعی طور پر خواندگی کا تناسب 37.3 فیصد ہے اور خواتین میں یہ تناسب 22.6 فیصد کے قریب ہے۔ اس صورتحال میں افغانستان خوراک کی کمی کے شدید بحران میں مبتلا ہے۔ اقوام متحدہ کے امدادی اداروں کے ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان کی آدھی آبادی کو روزانہ کھانا نہیں مل پاتا۔ UN World Food Program کے امدادی پروگرام کی بناء پر بھوک سے اموات نہیں ہورہی ہیں۔ افغانستان میں گزشتہ مہینہ خوفناک زلزلہ آیا۔ اس زلزلے میں 2 ہزار 200 کے قریب اموات ہوئیں اور تقریباً 3 ہزار 600 افراد زخمی ہوئے۔ سڑکوں کے ٹوٹنے اور مواصلات کے ذرایع مخدوش ہونے کی بناء پر امدادی جماعتیں بہت دیر سے متاثرہ علاقوں تک پہنچیں اور بہت سے زخمی فوری طور پر اسپتالوں تک نہ پہنچنے کی بناء پر موت کے منہ میں چلے گئے۔

 ایک طرف افغانستان میں تباہی ہے تو دوسری طرف افغان حکومت تحریک طالبان پاکستان اور داعش کے جنگجوؤں کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ان جنگجوؤں نے خیبر پختون خوا کے مختلف شہروں میں دہشت گردی کے نئے ریکارڈ قائم کیے ہیں اور یہ پورا علاقہ شدید مشکلات کا شکار ہے۔ بعض مبصرین کہتے ہیں کہ تحریک طالبان پاکستان کے جنگجو افغان حکومت کے نظریاتی اتحادی ہیں۔

ٹی ٹی پی کے جنگجو پختون خوا میں ویسی ہی شریعت نافذ کرنا چاہتے ہیں جیسی شریعت افغانستان میں طالبان نے نافذ کی ہے اگرچہ افغانستان کے پڑوسی ممالک روس، چین، ایران اور پاکستان کے وزراء خارجہ کے ایک اعلامیہ میں افغانستان کی حکومت پر زور دیا گیا کہ وہ اپنے علاقے میں ان دہشت گردوں کو کنٹرول کرے اور اس امرکو یقینی بنایا جائے کہ سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی نہ ہو مگر محسوس ہوتا ہے کہ افغانستان کی حکومت ان پڑوسیوں کی بات سننے کو تیار نہیں ہے، یوں حالات خراب ہوتے جا رہے ہیں۔ افغانستان کی حکومت کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ نے افغانستان پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، ان پابندیوں سے افغانستان میں مسائل پیدا ہو رہے ہیں اس بناء پر یہ پابندیاں ختم ہونی چاہئیں اور افغانستان کے منجمد اثاثے بحال ہونے چاہئیں۔

اقوام متحدہ نے یہ پابندیاں خواتین کو تعلیم کے حق سے محروم کرنے، اقلیتوں کے ساتھ ناروا سلوک کرنے اور دہشت گردوں کی سرپرستی کی بناء پر عائد کی ہیں مگر افغانستان کی حکومت خواتین کو برابر کے حقوق دینے اور اقلیتی فرقوں کے افراد کے ساتھ یکساں سلوک کرنے کے بجائے مزید ایسے اقدامات کر رہی ہے جن سے محسوس ہوتا ہے کہ طالبان افغانستان کو 2ہزار سال پیچھے لے جانے کے لیے پالیسیاں بنا رہے ہیں، جو لوگ اب بھی طالبان حکومت سے اچھی امیدیں لگائے بیٹھے ہیں، انھیں ہوش کے ناخن لینے چاہئیں، اگر دائیں بازو کی جماعتیں طالبان کو اپنی پالیسیاں تبدیل کرنے کے لیے قائل کرسکیں تو یہ افغانستان کے عوام پر بڑا احسان ہوگا اور پورے خطے میں سکون و امن آجائے گا۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: افغانستان کی حکومت پورے افغانستان میں ہے کہ افغانستان یونیورسٹیوں کے پر پابندی عائد انٹرنیٹ سروس طالبان حکومت افغانستان کے میں انٹرنیٹ کی بناء پر شامل ہیں حکومت کے عائد کی کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

پاکستان کے افغانستان میں فضائی حملوں میں ہلاکتیں؛ طالبان کا بے بنیاد الزام

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بغیر شواہد پیش کیے الزام عائد کیا کہ پاکستان سے افغانستان کے صوبوں خوست، کنڑ اور پکتیکا میں فضائی حملے کیے گئے۔

ذبیح اللہ مجاہد نے یہ بے بنیاد الزام سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لگائے۔

ترجمان طالبان نے کہا کہ خوست صوبے میں ایک گھر پر فضائی حملہ کیا گیا جس میں 9 بچے اور ایک خاتون ہلاک ہوگئیں۔

ذبیح اللہ مجاہد نے ان حملوں کو ملکی سالمیت اور قومی سلامتی کے خلاف قرار دیتے ہوئے مزید بتایا کہ صوبوں کنڑ اور پتیکا میں ہونے والے فضائی حملوں میں بھی 4 افراد مارے گئے۔ 

یاد رہے کہ طالبان حکومت کی جانب سے پاکستان پر فضائی حملے کا الزام ایسے وقت میں سامنے آیا جب گزشتہ روز ہی پشاور میں وفاقی کانسٹیبلری ہیڈکوارٹرز پر ہونے والے خودکش حملے میں 3 اہلکار شہید اور 12 زخمی ہوگئے تھے۔

اس حملے کی ذمہ داری جماعت التحریر نے قبول کی ہے جو کہ افغانستان میں موجود تحریک طالبان پاکستان کا ذیلی گروپ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔

تفتیش میں یہ بات ثابت بھی ہوگئی کہ حملہ آور افغانی تھے جو سرحد پار کرکے حملہ کرنے آئے تھے اور افغانستان کی کمین گاہوں میں پناہ اور تربیت لیتے ہیں۔

رواں ماہ کے آغاز میں اسلام میں ہونے والے ایک حملے میں 12 افراد شہید ہوگئے تھے اور اس حملے میں کالعدم ٹی ٹی پی ملوث تھی۔

یاد رہے کہ اکتوبر میں پاک افغان سرحدی جھڑپوں کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوا تھا اور 25 اکتوبر کو استنبول میں دوسرا دور ہوا تھا۔

بعدازاں ترکی اور قطر کی ثالثی سے مذاکراتی عمل کو عارضی طور پر بچایا گیا اور 31 اکتوبر کے مشترکہ بیان میں مزید بات چیت پر اتفاق ہوا۔

تاہم 7 نومبر کو تیسرے دور کے بعد وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے اعلان کیا کہ مذاکرات غیر معینہ مدت کے لیے ختم ہو گئے کیونکہ بڑے اختلافات تاحال برقرار ہیں۔

مذاکرات کی ناکامی کے بعد طالبان حکومت نے پاکستان سے تجارت معطل کر دی جبکہ پاکستان پہلے ہی اکتوبر کی جھڑپوں کے بعد سرحدیں بند کر چکا تھا۔

ترکیہ نے اعلان کیا تھا کہ اس کے اعلیٰ حکام اسلام آباد کا دورہ کر کے کشیدگی کم کرنے کی کوشش کریں گے مگر وفد کی آمد میں تاخیر دیکھنے میں آ رہی ہے۔

گزشتہ ہفتے پاکستان کے دفتر خارجہ نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ تجارت کی بحالی کابل حکومت کی جانب سے سرحد پار دہشت گردی کے خاتمے سے مشروط ہے اور علاقائی توانائی منصوبوں کا مستقبل بھی اسی شرط سے منسلک ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا دوٹوک مؤقف 

ادھر آج پریس کانفرنس کے دوران افغانستان پر حملے سے متعلق سوال پر ڈی جی آئی ایس پی آر نے جواب دیا کہ ہم جب حملہ کرتے ہیں تو اس کا کھلم کھلا اعلان کرتے ہیں۔ جب اکتوبر میں حملہ کیا تھا تو سب کو بتایا تھا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان کبھی سویلین پر حملہ نہیں کرتا، ہم ریاست ہیں، ریاست کے طور پر ہی ردعمل دیتے ہیں، خون اورتجارت ایک ساتھ نہیں چل سکتے، یہ نہیں ہوسکتا کہ ہم پرحملے بھی ہوں اور ہم تجارت بھی کریں، ہم افغان عوام کے نہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف ہیں۔

 

متعلقہ مضامین

  • طالبان خطے اور دنیا کیلئے مسئلہ بن رہے ہیں
  • افغانستان تباہی کے دہانے پر! UNDP کی ہولناک رپورٹ نے طالبان کی ناکامی بے نقاب کر دی
  • افغانستان میں کارروائی سے متعلق خواجہ آصف کا مؤقف سامنے آ گیا
  • طالبان دور میں بدترین انسانی بحران — سرد موسم نے افغان عوام کی تکلیفیں مزید بڑھا دیں
  • طالبان دور میں بدترین انسانی بحران، سرد موسم نے افغان عوام کی مشکلات بڑھا دیں
  • بھارت افغانستان میں سرمایہ کاری کرے،طالبان کی پیشکش
  • افغانستان میں فضائی حملوں سے ہلاکتیں،طالبان نے پاکستان پر الزام عائد کردیا
  • افغانستان، فضائی حملوں میں ہلاکتیں؛ پاکستان پر الزام عائد کردیا
  • پاکستان کے افغانستان میں فضائی حملوں میں ہلاکتیں؛ طالبان کا بے بنیاد الزام
  • میری حکومت معاشرے کے تمام مکاتب فکر کیلئے پھولوں کا گلدستہ اور نئی اُمید سحر ہے، راجہ فیصل ممتاز