ڈراما سیریل جمع تقسیم‘ میں نُدرت آپا کا کردار، آمنہ خان کی نئی پہچان بن گیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, October 2025 GMT
نجی ٹی وی کا ڈراما جمع تقسیم حالیہ دنوں میں خاصا مقبول ہورہا ہے، جس میں سینیئر اداکارہ، ماڈل اور ڈائریکٹر آمنہ خان نے ایک مضبوط مگر منفی کردار ’نُدرت آپا‘ کے طور پر نیا تاثر چھوڑا ہے۔
آمنہ خان کا پس منظرآمنہ خان پاکستان کے 1990 کی دہائی کے مقبول ترین چہروں میں سے ایک رہی ہیں۔ انہوں نے اپنا کیرئیر گلوکار اور ہدایتکار جواد بشیر کے ساتھ شروع کیا، جن کے مزاحیہ پروگرام اور گانے اُس وقت بہت مشہور ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: اداکارہ آمنہ ملک کیوں اپنی بیٹیوں کو شوبز کی دنیا سے دور رکھنا چاہتی ہیں؟
آمنہ خان متعدد ہٹ میوزک ویڈیوز میں نظر آئیں، جن میں جواد بشیر کا مشہور گانا Yes Love بھی شامل ہے۔ بعد ازاں وہ کامیڈی شوز، ڈراموں اور ہدایتکاری میں بھی سرگرم رہیں۔
’جمع تقسیم‘ میں واپسیحال ہی میں آمنہ خان نے جمع تقسیم کے ذریعے دوبارہ ٹی وی پر توجہ حاصل کی، ڈرامے میں وہ ’نُدرَت آپا‘ کے کردار میں نظر آرہی ہیں، جسے ناظرین کی جانب سے بے حد پسند کیا جارہا ہے۔ اداکارہ کے مطابق انہیں توقع نہیں تھی کہ کردار کو اتنی جلدی پذیرائی ملے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کی بڑی تعداد ڈرامے کی کہانی سے خود کو جوڑ رہی ہے، کیونکہ یہ حقیقی زندگی کے مسائل پر مبنی ہے۔
کردار کیسے ملا؟آمنہ خان نے بتایا کہ انہیں یہ کردار ہدایتکار سیف حسن کے ذریعے ملا۔ سیف حسن نے ابتدا میں انہیں اپنے ایک اور منصوبے کے لیے رابطہ کیا تھا، مگر اس وقت وہ پروجیکٹ مکمل نہیں ہو پایا، اس لیے انہوں نے جمع تقسیم کی کہانی آمنہ خان کو تجویز کی۔
آمنہ خان نے پہلے ہی ہاں کر دی، بعد میں جب اسکرپٹ پڑھا تو اندازہ ہوا کہ کردار خاصا مشکل ہے، لیکن چونکہ وعدہ کرچکی تھیں، اس لیے کام جاری رکھا۔ ان کے مطابق یہ تجربہ دلچسپ ثابت ہوا اور ٹیم نے بہترین انداز میں کام کیا۔
ندرَت آپا کون ہے؟آمنہ خان کے مطابق ندرَت آپا ایک ایسی عورت ہے جو اپنی ماں کی عکاسی کرتی ہے، ایک ایسی ماں جس کی دنیا گھر کی چار دیواری سے آگے نہیں بڑھتی۔
یہ بھی پڑھیں: ڈراما ’ڈائن‘ میں مہوش حیات کی اسٹائلنگ ہٹ یا فلاپ؟
ندرَت آپا گھر کی بڑی بہن اور والدین کی لاڈلی ہے، جو ان کی سوچ اور اقدار کو آگے بڑھاتی ہے۔ وہ اپنے گھر میں اختیار رکھنے والی خاتون ہے، جس کے فیصلے باقی سب پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ تاہم جب خاندان کا سب سے چھوٹا بیٹا شادی کرتا ہے تو گھر میں تنازعات جنم لیتے ہیں اور ندرَت آپا کی شخصیت کا منفی پہلو نمایاں ہونا شروع ہوجاتا ہے۔
آمنہ خان کا کہنا ہے کہ ندرَت آپا کا کردار مکمل طور پر منفی ہے، مگر اس کی حقیقت پسندی کی وجہ سے ناظرین اس سے خود کو جوڑ لیتے ہیں، اکثر لوگ کہہ رہے ہیں کہ یہ کہانی ان کے اپنے گھر کی کہانی جیسی ہے۔
ڈرامے کا اہم موضوع، ہراسانی اور خاندانی دباؤجمع تقسیم میں خواتین کے مسائل، خصوصاً ہراسانی جیسے حساس موضوع کو نہایت سنجیدگی سے پیش کیا گیا ہے۔ آمنہ خان کے مطابق ایسے واقعات ہمارے معاشرے میں موجود ہیں لیکن اکثر گھروں میں لوگ سمجھ نہیں پاتے کہ ان سے نمٹا کیسے جائے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا ڈرامہ ’جنت سے آگے‘ کی کہانی ندا یاسر کی ہے؟
ڈرامے میں دکھایا گیا ہے کہ ایک لڑکی کے ساتھ کچھ غلط ہورہا ہے مگر گھر کی عورتیں باوجود احساس کے کچھ کر نہیں پاتیں۔
ڈرامہ معاشرتی سوچ، عورت کی خودمختاری، اور خاندانی رشتوں کے تضادات پر گہری روشنی ڈالتا ہے اور ندرَت آپا کا کردار اس پورے نظام کی نمائندگی کرتا ہے جو برسوں سے عورت کو خاموشی، خوف اور روایت کے بوجھ تلے دبا رہا ہے۔
مختصر یہ کہ ندرَت آپا صرف ایک کردار نہیں بلکہ ہمارے معاشرے کے اُن رویّوں کی علامت ہے جو محبت کے نام پر قابو پانے اور روایت کے نام پر ظلم کرنے کو جائز سمجھتے ہیں اور یہی جمع تقسیم کی اصل طاقت ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news yes love آمنہ خان جمع تقسیم جواد بشیر ڈراما سیریل سیف حسن منفی کردار ندرت آپا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: جواد بشیر ڈراما سیریل سیف حسن منفی کردار ندرت ا پا ندر ت آپا کے مطابق کی کہانی گھر کی
پڑھیں:
امیر خان متقی کا دورہ بھارت، کیا افغان حکومت دہشتگردی کے لیے اب بھارت کی پراکسی کا کردار ادا کرےگی؟
امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر اور اقوام متحدہ میں سابق مستقل مندوب مسعود خان نے کہا ہے کہ افغان قائم مقام وزیرخارجہ امیر خان متقی کی جانب سے یہ کہا جانا کہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ او آئی سی کی بیسیوں قراردادوں کے خلاف مؤقف ہے اور افغانستان اِس مؤقف کو اپنانے والا پہلا اِسلامی ملک ہے۔
سابق سفارتکار و آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار مسعود نے ’وی نیوز‘ سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ کشمیر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق متنازعہ علاقہ ہے، جس کا حل رائے شماری کے ذریعے ہونا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان کو بین الاقوامی قبولیت کی تلاش، عالمی سفارتی محاذ پر ہزیمت اٹھاتا بھارت کتنا مددگار ہو سکتا ہے؟
امیر خان متقی کا دہشتگردی پر متنازعہ بیانافغان طالبان کی جانب سے پاکستان کے خلاف جارحیت اور پاکستان کی جانب سے زبردست جوابی کارروائی ایک ایسے وقت میں ہوئی جب افغان قائم مقام وزیرِ خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر تھے اور وہاں بھارتی حکومت اور میڈیا کی جانب سے انہیں بہت زیادہ توجہ مِل رہی تھی۔
ایک پریس کانفرنس کے دوران جب ان سے دونوں ملکوں کے مابین فوجی کشیدگی اور ٹی ٹی پی کے بارے میں سوالات ہوئے تو ان کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں آپریشن سے وجود میں آئی اور وہ لوگ افغانستان میں مہاجر ہیں، دہشتگردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے، ڈیورنڈ لائن کے آر پار علاقے مفاہمتی پالیسی سے کنٹرول کیے جا سکتے ہیں، اور ہم پاکستان کے ساتھ لڑائی نہیں امن چاہتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستان نے افغان نگران وزیرِ خارجہ کے اس مؤقف کو سختی سے مسترد کیا ہے جس میں کہا گیا کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے۔
دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ پاکستان بارہا اس امر کی تفصیلات فراہم کر چکا ہے کہ ’فِتنہ الخوارج‘ اور ’فِتنہ الہندستان‘ جیسے دہشتگرد عناصر جو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف سرگرم ہیں، افغانستان کے اندر موجود بعض عناصر کی حمایت سے کام کر رہے ہیں۔
بیان میں اس بات پر زور دیا گیا کہ دہشتگردی پر قابو پانے کی ذمہ داری پاکستان پر ڈال کر افغان عبوری حکومت خود کو خطے اور اس سے باہر امن و استحکام کے قیام کی اپنی ذمہ داریوں سے بری نہیں کر سکتی۔
پاکستانی دفترِ خارجہ نے مزید کہاکہ پاکستان اچھی ہمسائیگی اور اسلامی اخوت کے جذبے کے تحت چار دہائیوں سے قریباً 40 لاکھ افغانوں کی میزبانی کر رہا ہے۔ اب جب کہ افغانستان میں بتدریج امن واپس آ رہا ہے، وقت آ گیا ہے کہ پاکستان میں مقیم غیر مجاز افغان شہری اپنے وطن واپس جائیں۔
بیان میں کہا گیا کہ دیگر تمام ممالک کی طرح اور بین الاقوامی اصولوں و روایات کے مطابق پاکستان کو اپنے ملک میں مقیم غیر ملکیوں کی موجودگی کو منظم کرنے کا حق حاصل ہے۔ اسی کے ساتھ افغان شہریوں کی وطن واپسی کے عمل کے دوران پاکستان نے اُن کی طبی اور تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے فراخدلی سے علاج اور تعلیم کے ویزے بھی جاری کیے ہیں۔
دفتر خارجہ نے مزید کہاکہ اسلامی بھائی چارے اور حسنِ ہمسائیگی کے جذبے کے تحت پاکستان افغان عوام کو انسانی بنیادوں پر مدد فراہم کرتا رہے گا۔
ترجمان نے کہاکہ پاکستان افغانستان کو ایک پُرامن، مستحکم، علاقائی طور پر منسلک اور خوشحال ملک کے طور پر دیکھنے کا خواہاں ہے۔ اسی مقصد کے لیے پاکستان نے افغانستان کو تجارت، معیشت اور روابط میں ہر ممکن سہولت فراہم کی ہے۔ یہ تمام اقدامات دونوں ممالک کے درمیان تعاون اور سماجی و اقتصادی ترقی کے فروغ کے لیے کیے جا رہے ہیں۔
دورے کی ابتدا9 اکتوبر 2025 کو افغان قائم مقام وزیرِخارجہ امیر خان متقی اقوام متحدہ سلامتی کونسل کی ذیلی کمیٹی سے سفری پابندیوں پر استثنیٰ ملنے کے بعد بھارت پہنچے تو نہ صرف ان کا پُرتپاک خیرمقدم کیا گیا بلکہ بھارتی وزیرِخارجہ ایس جے شنکر نے کابل میں بھارتی سفارتخانے کو دوبارہ فعال کرنے کا اعلان کیا۔
بھارتی وزارت خارجہ نے ایکس پر ’گرمجوش خوش آمدید‘ کا اعلان کیا۔بھارت جو اس سال مئی میں پاکستان میں جنگ سے شکست کے بعد دنیا بھر میں سفارتی تنہائی کا شکار ہے وہ افغانستان کے ساتھ تعلقات قائم کرنے میں بڑی گرمجوشی دکھا رہا ہے، جس کا واحد محرک یہی نظر آتا ہے کہ ممکنہ طور پاکستان میں دہشتگردی کے فروغ کے لیے ایسا کیا جا رہا ہے کیونکہ پاکستانی دفتر خارجہ اور آئی ایس پی آر بارہا پاکستان میں سرگرم دہشتگرد تنظیموں کو بھارت کی مالی معاونت کے بارے میں دنیا بھر کو آگاہ کر چکے ہیں۔
15 اگست 2021 کو افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی کا یہ پہلا دورہ بھارت ہے۔ یہ دورہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی کمیٹی کی جانب سے عارضی سفری پابندیوں میں نرمی کے بعد ممکن ہوا، جو سفارتی روابط بڑھانے کی کوششوں کا حصہ ہے۔
امیر خان متقی چار ملکی ماسکو فارمیٹ ڈائیلاگ میں شرکت کے بعد روس سے براہ راست نئی دہلی پہنچے، جہاں ان کا بھارتی وزارت خارجہ کے جوائنٹ سیکریٹری آنند پراکاش نے استقبال کیا۔ یہ دورہ بھارت افغانستان تعلقات میں احتیاط سے بڑھتی قربت کی نشاندہی کرتا ہے، جبکہ پاکستان کے لیے اس کے علاقائی اور سفارتی اثرات اہم ہیں۔
دورے کی اہم تفصیلات10 اکتوبر کو امیر خان متقی کی بھارتی وزیر خارجہ ایس جے شنکر سے تفصیلی بات چیت ہوئی جس میں دوطرفہ تعلقات، علاقائی سلامتی، تجارت اور انسانی امداد شامل تھی۔ جے شنکر نے اعلان کیا کہ بھارت جلد کابل میں اپنا سفارت خانہ دوبارہ کھولے گا، جو 2021 سے بند ہے۔
ملاقات میں ایرانی بندرگاہ چاہ بہار پر امریکی پابندیوں میں 28 اکتوبر تک دی گئی چھوٹ کے حوالے سے افغانستان کی بھارت سے تجارت کے لیے بھی بات چیت کی گئی۔
امیر خان متقی نے 11 اکتوبر کو دارالعلوم دیوبند (اترپردیش) کا دورہ کیا جہاں طلبہ اور اساتذہ نے پروٹوکول کے ساتھ استقبال کیا اور انہیں اعزازی دستار اور جبہ پہنایا، اس کے علاوہ تاج محل (آگرہ) کا دورہ بھی شیڈول تھا۔
اس دورے کے دوران امیر خان متقی کی افغان تاجروں سے ملاقاتیں، اور ممکنہ طور پر نیشنل سیکیورٹی ایڈوائزر اجیت ڈوول سے بات چیت بھی طے ہے۔ متقی نے بھارت کو یقین دلایا کہ افغان سرزمین بھارت مخالف دہشتگردی کے لیے استعمال نہیں ہوگی۔
دورے کا پس منظریہ دورہ جنوری 2025 میں دبئی میں امیر خان متقی اور بھارتی سیکریٹری خارجہ وکرم مصری کی ملاقات کا تسلسل ہے۔ بھارت نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا، لیکن انسانی امداد (گندم، ادویات، ویکسینز) جاری رکھی ہے۔
ماسکو میں 8 اکتوبر کو علاقائی اجلاس (بشمول پاکستان، ایران، چین) میں مشترکہ بیان جاری ہوا، جو امریکی فوجی انفراسٹرکچر (بگرام ایئربیس کی امریکا کو واپسی) کی مخالفت کرتا ہے۔
افغان وزیرِخارجہ کے دورے سے جُڑے تنازعاتافغان وزیرِ خارجہ کا دورہ اس وقت تنازعات میں گِھر گیا، جب افغان ایمبیسی میں ہونے والی پریس کانفرنس میں خواتین صحافیوں کو مدعو نہیں کیا گیا۔ اس معاملے پر گو کہ بھارتی وزارتِ خارجہ نے اپنے سرکاری مؤقف میں کہا ہے کہ افغان ایمبیسی سفارتی رولز کے مطابق افغان سرزمین ہے اور ایمبیسی اہلکار وہاں کسی کو مدعو کرنے یا نہ کرنے کا اختیار رکھتے ہیں۔
تاہم بھارت میں خواتین صحافیوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے اس بات کو اٹھایا جا رہا ہے کہ بھارت کو ایک ایسے ملک کے ساتھ تعلقات استوار نہیں کرنے چاہییں جو خواتین کے ساتھ امتیازی سلوک کرتا ہو۔
دوسرا تنازع امیر خان متقی کے دورہ دیوبند سے پیدا ہوا ہے، بھارت کئی سال جس مذہبی فِکر کو دہشتگردی کی بنیاد قرار دیتا رہا، اب وہاں افغان وزیرِ خارجہ کا جانا اور اُن کے پرتپاک استقبال کو خارجہ تعلقات کے ضِمن میں مثبت قرار دے رہا ہے تو بھارت ہی میں تنقید ہو رہی ہے کہ اب بھارت کس طرح سے اِس دینی مدرسے اور اِس سے جُڑی فِکر کو دہشتگردی قرار دے گا۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہاکہ افغان ہمیشہ سے بھارت کے وفادار تھے کل، آج، اور کل بھی۔ بس بہت ہو گیا، ہمارا صبر ختم ہو چکا۔ افغان سرزمین سے دہشتگردی مزید برداشت نہیں ہوگی۔
’وی نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے سابق سفارتکار مسعود خان نے کہاکہ امیر خان متقی کا دورہ بھارت پاکستان کے لیے ہر لحاظ سے ایک منفی دورہ ثابت ہوا، یہ دورہ جو خیر سگالی کے لیے استعمال ہو سکتا تھا اسے پاکستان دشمنی کے لیے استعمال کیا گیا۔
انہوں نے کہاکہ امیر خان متقی کا یہ کہنا کہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے صریحاً غلط ہے کیونکہ سب جانتے ہیں دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانے اور اُن کی تربیت گاہیں افغانستان میں ہیں، وہیں دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی کی جاتی ہے جبکہ اِن دہشتگرد حملوں کو بھارتی معاونت حاصل ہوتی ہے۔
مسعود خان نے کہاکہ دہشتگردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ نہیں بلکہ افغان اور بھارتی سرپرستی میں کیا جانے والا عمل ہے۔ دوسری طرف افغان وزیرِ خارجہ کا یہ کہنا کہ کشمیر بھارت کا حصّہ ہے نہ صرف اقوام متحدہ بلکہ او آئی سی کی بیسیوں قراردادوں کے منافی ہے۔ امیر خان متقی کا اگر یہ مؤقف تھا بھی تو اسے خاموش رہنا چاہیے تھا۔ ان کے اس بیان نے کشمیریوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے۔
انہوں نے کہاکہ بھارت جو ایک عرصے سے مسلمانوں کو دہشتگردی سے جوڑتا چلا آیا ہے اور وہاں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جاتے ہیں وہاں امیر خان متقی کا دیوبند کا دورہ بھارتی منافقت کو آشکار کرتا ہے۔
ڈان اخبار کے لیے خارجہ امور کور کرنے والے سینیئر صحافی باقر سجاد نے اپنے ’ایکس‘ اکاؤنٹ پر لکھا کہ رات گئے پاکستان اور افغانستان کے درمیان شروع ہونے والی جھڑپیں جن میں پاکستان کے 23 بہادر سپاہیوں نے جامِ شہادت نوش کیا جبکہ 200 سے زیادہ طالبان ہلاک ہوئے، افغانستان کے لیے سنجیدہ سبق ہے۔
انہوں نے کہاکہ افغانستان کو اپنی حدود میں دہشتگردوں کے لیے موجود محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کرنا ہوگا، جب تک کابل دہشتگردوں کولگام نہیں ڈالتا دونوں ممالک بداعتمادی کی فضا سے بھی نیچے مستقل دشمنی میں مبتلا ہو سکتے ہیں۔
واشنگٹن میں ولسن سینٹر میں جنوبی ایشیائی امور کے ماہر مائیکل کوگلمین نے بھارتی ٹی وی کے ساتھ انٹرویو میں کہاکہ اس وقت پاکستان کے طالبان کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ ہیں، طالبان اور پاکستان کی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ میں ٹی ٹی پی کی وجہ سے تعلقات ختم ہو چکے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان اور بھارت کی قربت، طالبان نے دہلی کو اہم علاقائی اور معاشی شراکت دار قرار دیدیا
اُنہوں نے کہاکہ پاکستان اور طالبان کے تعلقات اگر بہتر بھی ہوتے تو پھر بھی بھارت اور طالبان کو تعلقات کے فروغ کے لیے تیار رہنا چاہیے تھا، کیونکہ طالبان کو قبولیت چاہیے، اپنے ہمسائے میں دوست چاہییں، اور بھارت ماضی میں افغانستان کو انسانی اور ترقیاتی امداد دیتا رہا ہے، اور بھارت کو بھی افغان سرزمین سے دہشتگردی کے خطرات لاحق ہیں جن کو وہ طالبان تک پہنچا سکتا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارتی پراکسی پاک افغان کشیدگی پاکستان بھارت جنگ دہشتگردی دورہ بھارت وی نیوز