بھارت سے رہائی پانے والے 54 پاکستانی ماہی گیر کراچی روانہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
سٹی 42 : بھارت سے رہائی پانے والے 54 پاکستانی ماہی گیر کراچی روانہ کر دیئے گئے ۔
ماہی گیروں کو ایدھی فاؤنڈیشن کی خصوصی گاڑیوں کے ذریعے لاہور سے کراچی روانہ کیا گیا ۔ ایدھی ترجمان کے مطابق چیئرمین ایدھی فاؤنڈیشن فیصل ایدھی کی ہدایت پر ماہی گیروں کو ان کے گھروں تک پہنچایا جائے گا، رہائی پانے والے ماہی گیروں کا تعلق سندھ کے مختلف اضلاع سے ہے۔
ایدھی ترجمان نے بتایا کہ بھارت کی جانب سے 54 پاکستانی ماہی گیروں کو 9 ستمبر کو پاکستانی حکام کے حوالے کیا گیا تھا، سکیورٹی اداروں کی جانچ پڑتال کے بعد ماہی گیروں کو ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کیا گیا، ماہی گیروں کو سمندری حدود کی خلاف ورزی پر بھارتی حکام نے گرفتار کر رکھا تھا۔
قبائلی عوام نےافغانستان کے حمایت یافتہ دہشتگردوں کیخلاف ہتھیار اٹھانے کا اعلان کردیا
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: ماہی گیروں کو
پڑھیں:
ساحلی علاقوں میں سمندر کی سبز رنگت، رات کے وقت روشنی کے باعث ماہی گیر تشویش میں مبتلا
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے سمندر کی قدرتی چمک اور پانی کی سبز رنگت کی وضاحت کردی۔
کراچی اور بلوچستان کے ساحلی علاقوں میں سمندر کی سبز رنگت اور رات کے وقت چمکتی ہوئی روشنی نے ماہی گیروں اور مقامی آبادی میں تشویش پیدا کی ہے، کئی لوگ اس مشاہدے کو زہریلی کائی یا ساحلی آلودگی سے جوڑ رہے تھے۔
ڈبلیو ڈبلیو ایف پاکستان نے واضح کرتا ہےکہ یہ مظاہر قدرتی، غیر زہریلے اور موسمیاتی عوامل کے باعث پیدا ہونے والے سی اسپارکل (Noctiluca scintillans) کی موجودگی کا نتیجہ ہیں۔
اس عمل کا سمندری آلودگی یا نقصان دہ کائی سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ چھوٹا سا تیرتا ہوا جاندار بعض اوقات سبز، سرخ، نارنجی یا بے رنگ دکھائی دیتا ہے،پاکستان کے ساحل پر اس کی سبز اور نارنجی رنگت عام ہے۔
اس کا سبز رنگ اصل میں اس کے اندر موجود سمبیونٹ Protoeuglena noctilucae سے آتا ہے جو فوٹو سنتھیسز کرسکتا ہے، یہی جاندار رات کے وقت سمندر میں دکھائی دینے والی چمک/سی اسپارک کا سبب بنتا ہے۔
تیکنیکی مشیرڈبلیو ڈبلیو ایف(پاکستان) محمد معظم خان نے کہا کہ موجودہ بلوم کسی قسم کا زہریلا خطرہ نہیں رکھتا،نہ ہی اس کے سبب مچھلیوں کی اموات کی کوئی اطلاع ہے، سن 2012 سے ساحلی علاقوں میں تقریباً تمام نیکٹولوکا بلومز غیر زہریلے ریکارڈ کیے گئے ہیں، البتہ بلوم کے خاتمے پر وقتی طور پر بدبو پیدا ہونا قدرتی عمل کا حصہ ہے۔
محمد معظم خان نے کہا کہ یہ ایک قدرتی سمندری مظہر ہے جس کا آلودگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس قدرتی مظہر سے قطع نظر، کراچی کی بے قابو ساحلی آلودگی ایک شدید اور الگ مسئلہ ہے۔
شہر سے روزانہ ہزاروں ٹن صنعتی و گھریلو فضلہ، سیوریج، ٹھوس کچرا اور تیل آلودگی لیاری اور ملیر ندیوں کے ذریعے سمندر میں جاتا ہے، جو سمندری حیات اور ساحلی معاشرت کیلئے بڑا خطرہ بنتا جارہا ہے۔
حکومت سےمطالبہ ہے کہ سیوریج اور صنعتی فضلے کے مؤثر انتظام، ٹریٹمنٹ پلانٹس کی بہتری، اور ساحلی پانی کے معیار کی نگرانی کو فوری بنیادوں پر یقینی بنایا جائے تاکہ پاکستان کے سمندری ماحولیاتی نظام اور ماہی گیر برادریوں کا مستقبل محفوظ بنایا جاسکے۔