غزہ معاہدے کی حمایت کا مطلب امریکی پالیسی کی منظوری نہیں، ایران
اشاعت کی تاریخ: 12th, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 12 اکتوبر 2025ء) ایران کے وزیر خارجہ عباس عراقچی نے اتوار کے روز کہا کہ غزہ میں جنگ بندی کے معاہدے کی ایران کی بنیادی حمایت کوامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی مشرق وسطیٰ پالیسی کی تائید نہ سمجھا جائے۔
عراقچی نے سرکاری ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''مسٹر ٹرمپ مختلف انداز میں اپنی پسندیدہ پوزیشنز کا اظہار کرتے ہیں، لیکن یہ زیادہ تر ہمارے نظریاتی اصولوں سے متصادم ہوتی ہیں۔
‘‘انہوں نے واضح کیا کہ ایران کی جانب سے امن منصوبے کی حمایت صرف تشدد کے خاتمے کے مقصد کے تحت کی گئی ہے، تاہم فلسطینی علاقوں میں امن کے لیے کوئی حقیقت پسندانہ امکان نظر نہیں آتا۔
عراقچی نے کہا، ''موجودہ صورتحال اور مستقبل کے غیر واضح امکانات کے درمیان ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔
(جاری ہے)
‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ خاص طور پر اسرائیل نے بارہا ایسے معاہدوں کی پاسداری میں ناکامی دکھائی ہے۔
ایران کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصولوں میں حماس جیسے مزاحمتی گروہوں کی حمایت اور ایک آزاد فلسطینی ریاست کا قیام شامل ہے۔
1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد سے تہران نے اسرائیلکو بطور ریاست تسلیم نہیں کیا اور اس کا نام لینے سے گریز کرتا ہے۔ اس کی بجائے وہ ہمیشہ ''صہیونی حکومت‘‘ کی اصطلاح استعمال کرتا ہے۔
خیال رہے کہ ایران نے حماس اور اسرائیل کے درمیان جمعہ 10 اکتوبر سے شروع ہونے والے جنگ بندی کے معاہدے کا خیرمقدم کیا۔
ایران حماس کو برسوں سے حمایت فراہم کرتا آیا ہے اور اسرائیل اس کا ''سب سے بڑا دشمن‘‘ سمجھا جاتا ہے۔ایرانی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں کہا، ''ایران ہمیشہ سے کسی بھی ایسے اقدام اور پہل کی حمایت کرتا آیا ہے، جو نسل کشی کی جنگ کو روکنے، قابض افواج کے انخلا، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی ترسیل، فلسطینی قیدیوں کی رہائی اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کے حصول کے لیے ہو۔‘‘
ادارت: کشور مصطفیٰ، عدنان اسحاق
ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کی حمایت
پڑھیں:
امریکی سینیٹر کا ٹرمپ انتظامیہ سے غزہ کے لیے مکمل انسانی امداد کھولنے کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: غزہ میں جاری اسرائیلی محاصرے اور تباہ کن بمباری کے نتیجے میں پیدا ہونے والا انسانی بحران سرد موسم کی شدت کے ساتھ مزید بگڑتا جا رہا ہے، جس پر امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے ایک بار پھر کھل کر فلسطینی عوام کے لیے آواز اٹھائی ہے۔
بین الاقوامی خبر رساں اداروں کے مطابق سینیٹر برنی سینڈرز نے ٹرمپ انتظامیہ پر زور دیا ہے کہ واشنگٹن اپنی سفارتی طاقت استعمال کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت کو مجبور کرے کہ وہ غزہ کے لیے انسانی امداد کا مکمل دروازہ کھولے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت لاکھوں فلسطینی سخت ترین سرد حالات میں بغیر پناہ، بغیر حفاظتی سامان اور بغیر بنیادی ضروریات کے زندہ رہنے کی جدوجہد کر رہے ہیں اور ایسے وقت میں امداد روکے رکھنا کسی بھی اخلاقی یا انسانی اصول کے مطابق نہیں۔
برنی سینڈرز نے اپنے بیان میں بتایا کہ اسرائیلی حملوں نے 92 فیصد گھروں کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے، جس کے باعث ایک ملین سے زائد فلسطینی کھلے آسمان تلے رہنے پر مجبور ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جنگ بندی معاہدے کی کھلی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو نہ صرف امدادی سامان کی راہ میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں بلکہ خیموں، موبائل یونٹس اور ہنگامی امداد جیسے بنیادی مواد تک کے داخلے کو بھی روک رہے ہیں۔
برنی سینڈرز کا کہنا تھا کہ امریکا اگر واقعی انسانی حقوق کو مقدم سمجھتا ہے تو اسے اسرائیل سے صاف اور دو ٹوک الفاظ میں کہنا چاہیے کہ غزہ تک امداد پہنچنے سے روکنے کا یہ سلسلہ فوری طور پر ختم کیا جائے۔
واضح رہے کہ غزہ کی موجودہ صورتحال کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مقامی حکام کے مطابق 15 لاکھ سے زائد فلسطینی مکمل طور پر بے گھر ہو چکے ہیں اور اس وقت سخت ترین سردیوں میں کھلے میدانوں اور تباہ شدہ علاقوں میں رہنے پر مجبور ہیں۔
محصور پٹی میں ادویات، خوراک، پینے کے صاف پانی اور ایندھن جیسی بنیادی ضروریات تقریباً ختم ہو چکی ہیں۔ اسپتالوں کی حالت بدترین ہے، اور محاصرے نے نظامِ زندگی کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا ہے۔ امدادی اداروں کے مطابق کئی علاقوں میں بچے بھوک اور سردی سے بے ہوش ہو رہے ہیں جبکہ بیمار اور زخمی افراد تک ادویات پہنچانا انتہائی مشکل ہو چکا ہے۔
اسی دوران سامنے آنے والے نئے اعداد و شمار صورتحال کی ہولناکی کو اور بھی نمایاں کرتے ہیں، جن کے مطابق اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والی بمباری میں اب تک تقریباً 70 ہزار فلسطینی شہید کیے جا چکے ہیں جب کہ 1 لاکھ 71 ہزار سے زائد زخمی ہوئے ہیں۔ ان میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے، جنہیں کسی محفوظ مقام تک رسائی میسر نہیں۔
غزہ انتظامیہ نے خبردار کیا ہے کہ موجودہ حالات میں کم از کم 3 لاکھ خیموں اور پری فیبریکیٹڈ یونٹس کی فوری ضرورت ہے تاکہ بے گھر خاندانوں کو عارضی طور پر ہی سہی، محفوظ پناہ فراہم کی جا سکے۔