سمارٹ پولیسنگ پنجاب میں ممکنہ جرائم کی 24 گھنٹے قبل پیشگوئی
اشاعت کی تاریخ: 13th, October 2025 GMT
لاہور پولیس نے جرائم کی روک تھام میں اہم سنگ میل عبور کرتے ہوئے مصنوعی ذہانت (اے آئی) پر مبنی جدید نظام ’پنجاب ایمرجنسی اے آئی‘ متعارف کروا دیا ہے۔ یہ نظام پنجاب سیف سٹیز اتھارٹی اور پنجاب آئی ٹی بورڈ کی مشترکہ کاوش ہے۔
حکام کا دعویٰ ہے کہ یہ نظام گزشتہ برسوں کے جرائم کے اعداد و شمار، ٹریفک اور کرائم پیٹرنز اور سوشل میڈیا رجحانات کا تجزیہ کرتے ہوئے ممکنہ جرائم کی 24 گھنٹے قبل پیشگوئی کر رہا ہے۔ محکمہ پولیس میں حکام بالا اس کے ذریعے جرائم کے ’ہاٹ سپاٹس‘ کی نشاندہی ممکن بنا کر پیشگی حکمت عملی اپناتے ہوئے جرائم کی روک تھام کر رہے ہیں۔
ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشنز لاہور فیصل کامران نے اردو نیوز کو بتایا کہ لاہور میں 2023 سے 2025 تک جرائم میں 77 فیصد نمایاں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ دو برس میں مجموعی جرائم 80 ہزار سے کم ہو کر 18 ہزار 500 رہ گئے جبکہ ستمبر 2025 میں یہ شرح مزید بہتر ہوئی اور جرائم میں 82 فیصد کمی دیکھی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ پولیس اب ردعمل (ری ایکٹیو) کے بجائے پیشگی (پری وینٹو) پولیسنگ کی طرف بڑھ رہی ہے اور ’مصنوعی ذہانت جرائم کی پیشگی نشاندہی کر کے پولیس کی کارکردگی بڑھا رہی ہے۔
حکام کے مطابق سیف سٹیز اتھارٹی نے پورے پنجاب کے لیے ایک سسٹم ڈیزائن کیا ہے جو تمام افسران بالا کے پاس موجود ہے۔ ڈی آئی جی آپریشنز اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ’جو کام ہم مینوئل کرتے تھے اب وہ ہم خودکار نظام کے تحت مصنوعی ذہانت کے ذریعے کر رہے ہیں جس میں گزشتہ کئی سالوں کا ڈیٹا جمع کیا ہوا ہے۔ یہ سسٹم اس کا تجزیہ کرتا ہے کہ مثال کے طور پر ہفتے کا ایک دن ایسا ہے جہاں ایک مخصوص وقت پر کوئی جرم ہو رہا ہے تو وہ یہ پیٹرن دیکھ کر ہمیں الرٹ دیتا ہے اور اس کی پیشگوئی کرتا ہے۔ یوں یہ خودکار نظام کے تحت ہمیں بتاتا ہے کہ اس دن اس وقت یہاں اس نوعیت کا جرم ہو سکتا ہے ۔اس نظام کے تحت لاہور کے 84 تھانوں کے لیے الگ الگ تجزیہ پیش کر کے جرائم کے پیٹرن کی بنیاد پر الرٹ جاری کیا جاتا ہے۔
فیصل کامران کا کہنا تھا کہ ’جرائم کم کیسے کرنے ہیں، کن علاقوں میں جرائم پیشہ عناصر بار بار آتے ہیں، کہاں زیادہ کرائم ہو رہا ہے یا کیسے روکنا ہے، کن تھانوں کے حدود میں وارداتیں زیادہ ہوتی ہیں؟ اس کے لیے پہلے ہم ہاٹ سپاٹس نکالتے ہیں۔ پہلے ہم یہ مینوئل کرتے تھے۔ اب یہ سب مصنوعی ذہانت کر رہا ہے۔
سکولوں یا دفاتر کے آس پاس ہونے والے حادثات کے پیٹرن کو دیکھتے ہوئے یہ نظام ٹریفک حادثات کی پیشگوئی بھی کرتا ہے۔ اس حوالے سے ڈی آئی جی فیصل کامران بتاتے ہیں کہ ’بہت ساری سڑکوں پر ٹریفک کی صورتحال ایک جیسی ہوتی ہے جیسے کسی سکول کے آس پاس چند گھنٹوں میں بچے سکول جاتے یا آتے ہیں یا لوگ دفتر جاتے یا آتے ہیں تو وہاں سے اکثر ٹریفک حادثات کی کالز آتی ہیں۔ یہ اسی پیٹرن کو فالو کر رہا ہے، یوں ٹریفک والے الرٹ رہتے ہیں اور ٹریفک کی روانی بحال رکھ رہے ہیں۔
گزشتہ تین مہینوں سے اس نظام کے نتائج اس وقت 60 سے 65 فیصد تک درست ثابت ہو رہے ہیں۔ فیصل کامران کے مطابق ’اس کی پیشگوئی کے ساتھ پولیس الرٹ ہو جاتی ہے اور وہ ان پوائنٹس پر توجہ دے کر کام کرتی ہے۔
انہوں نے دو کروڑ آبادی والے شہر لاہور اور ساڑھے سات ہزار پولیس اہلکاروں کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’ہم سمارٹ پولیسنگ کی طرف جا رہے ہیں۔ شاید اتنی بڑی آبادی کے شہر میں ساڑھے سات ہزار پولیس اہلکاروں کے لیے جرائم کی روک تھام ہر جگہ پہنچ کر ممکن نہ ہو اس لیے ٹیکنالوجی سے ہمیں پیشگی مدد مل رہی ہے۔‘
جرائم پیشہ عناصر ہمیشہ وہاں جانے کی کوشش کرتے ہیں جہاں ان کو جرم میں آسانی ہو اور لوگ زیادہ ہوں۔ جس طرح مہینے کے پہلے دنوں میں لوگ گروسری خریدنے جاتے ہیں یا بینک سے تنخواہیں اور پینشن لینے جاتے ہیں، اس طرح وہاں اضافی نفری تعینات کی جاتی تھی تاہم اب ان علاقوں کی نشاندہی مصنوعی ذہانت کے ذریعے ہو رہی ہے۔
فیصل کامران کا کہنا تھا کہ ’اس کو آپ 100 فیصد درست تو نہیں کہہ سکتے ہیں لیکن یہ ہمارا کام آسان کر رہا ہے۔ ستمبر میں مکمل استعمال کے بعد جرائم کی شرح میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ ستمبر میں سب سے کم جرائم کی شرح ریکارڈ ہوئی ہے۔ اگر صبح ایک ایس ایچ او کو یہ معلوم ہے کہ کہاں کہاں جرم ہوگا اور وہ اس کے لیے احتیاطی تدابیر اختیار کرتے ہوئے حکمت عملی بنا رہا ہے تو اسی وجہ سے یہ شرح کم ہو رہی ہے۔ ہم 100 فیصد اس پر انحصار نہیں کر رہے لیکن اس سے رہنمائی ضرور لے رہے ہیں۔‘
انہوں نے حفیظ سینٹر اور ہال روڈ پر جرائم کی شرح کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’جرم کا چانس رہتا ہے لیکن ہم اس کو مشکل بنا رہے ہیں۔ پہلے اگر حفیظ سینٹر کے باہر موبائل چوری ہوتے تھے تو اب چور کو معلوم ہے کہ چوری کے بعد اس کو جن گلیوں سے نکلنا ہے وہاں پولیس تعینات ہے۔ اسی طرح ہال روڈ پر بھی جرائم کی شرح کم ہوئی ہے۔‘
ماہرین کے مطابق پاکستان میں مصنوعی ذہانت کے استعمال کا رجحان سب سے بڑی کامیابی ہے۔ مصنوعی ذہانت پر عرصہ دراز سے کام کرنے والے عرفان ملک بتاتے ہیں کہ ’پاکستان میں پولیس کی جانب سے جرائم کے روک تھام کے لیے جس طرح مصنوعی ذہانت کا استعمال کیا جا رہا ہے یہ انتہائی مثبت قدم ہے۔ اس سے بلاشبہ بہت سارے فائدے ہوں گے لیکن جو سب سے بڑا فائدہ ہے وہ یہ ہے کہ لوگوں کی بھلائی کے لیے مصنوعی ذہانت کو استعمال کرنے کا ایک مائنڈ سامنے آیا ہے۔‘ تاہم انہوں نے خبردار کیا کہ اس حوالے سے انسانی ویلیڈیشن ضروری ہے۔ ’اگر آپ مصنوعی ذہانت کو ٹھیک طریقے سے انسانی ویلیڈیشن کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں تو اس کے نقصانات نہیں ہو سکتے۔‘
عرفان ملک کا کہنا تھا کہ غلط پیشگوئی سے وسائل ضائع ہو سکتے ہیں۔ ’اگر اس کی پیشگوئی درست نہیں یا کوئی ایشو ہے تو آپ کے وسائل ضائع ہوں گے۔ میرا مشورہ ہے کہ اس کا سٹرکچر باضابطہ ہونا چاہیے۔ اس کے ذریعے آپ 70 سے 80 فیصد کام روایتی طریقوں سے حاصل کر رہے ہیں اور 30 سے 20 فیصد آپ مصنوعی ذہانت بھی استعمال کر رہے ہیں جو کہ بہت مثبت ہے۔ اس کے نقصانات سے زیادہ فائدے ہیں۔ اگر آپ اس پر مکمل انحصار کریں گے تو تب نقصانات ہو سکتے ہیں۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: کا کہنا تھا کہ مصنوعی ذہانت جرائم کی شرح فیصل کامران کی پیشگوئی کر رہے ہیں کر رہا ہے جرائم کے انہوں نے کے ذریعے روک تھام نظام کے کے لیے ہیں کہ رہی ہے
پڑھیں:
پنجاب؛ تمام ڈی ایس پی انویسٹی گیشن کے دفاتر کی اپگریڈیشن کا فیصلہ
سٹی 42 : پنجاب کےتمام ڈی ایس پی انویسٹی گیشن کےدفاترکی اپگریڈیشن کافیصلہ کیا گیا ہے،تمام اضلاع میں ڈی ایس پی انویسٹی گیشن کے دفاتر کا سروے شروع کردیا گیا۔
پولیس حکام کے مطابق لاہور کے 22 ڈی ایس پیز کے دفاتر کو اپ گریڈ کیا جائے گا۔ آئی جی آفس نے ڈی ایس پی انویسٹی گیشن کےدفاترکا سروےجلدمکمل رپورٹ بھجوانے کی ہدایات کردی ہے۔ دفاتر کی اپ گریڈیشن کے لیے فنڈز آئندہ سماہی میں پولیس کو فراہم کیے جائیں گے۔
شہر میں آوارہ کتوں کے خلاف دائر درخواست پر پنجاب حکومت سمیت دیگر فریقین کو نوٹس جاری
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈی ایس پیزکےدفاترکوسٹیٹ آف دی آرٹ بنایا جائےگا۔