2040 تک شمالی کوریا کے جوہری ہتھیار 400 سے تجاوز کر سکتے ہیں، ماہر کی پیشگوئی
اشاعت کی تاریخ: 26th, November 2025 GMT
جنوبی کوریا کے ایک دفاعی تجزیہ کار نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ شمالی کوریا آئندہ برسوں میں جوہری صلاحیت میں تیزی سے اضافہ کرتے ہوئے 2040 تک اپنے ایٹمی ہتھیاروں کی تعداد 400 سے زیادہ کر سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:روس، چین اور شمالی کوریا کی مذمت پر مشتمل جی 7 اجلاس کا اعلامیہ جاری
کوریئن انسٹی ٹیوٹ فار ڈیفینس اینالسز (KIDA) کے نیوکلیئر سیکیورٹی ریسرچ ڈویژن کے سربراہ لی سانگ کیو کے مطابق فی الحال شمالی کوریا کے پاس 150 تک جوہری ہتھیار موجود ہیں، جن میں 115 سے 131 یورینیم پر مبنی وارہیڈز اور 15 سے 19 پلوٹونیم بم شامل ہیں۔
یہ تعداد غیر ملکی اداروں کے اندازوں سے دو سے تین گنا زیادہ ہے، جو شمالی کوریا کے جوہری ذخائر کو تقریباً 50 کے قریب بتاتے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق لی سانگ کیو نے کہا کہ یورینیم افزودگی کی بہتر ہوتی ہوئی صلاحیت کے باعث 2030 تک یہ تعداد بڑھ کر 243 اور 2040 تک 429 سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی کوریا کی خواتین فٹبال ٹیم نے چوتھی بار ورلڈ کپ جیت کر تاریخ رقم کردی
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ شمالی کوریا نے 2022 کے آخر میں ایک اعلیٰ سطحی پارٹی اجلاس میں جوہری ہتھیاروں کی تعداد میں ’اضافی‘ اضافے کا اعلان کیا تھا۔ بعد ازاں کم جونگ اُن نے اس عزم کو دہراتے ہوئے کہا کہ دشمن کی ممکنہ دھمکیوں کو روکنے کے لیے جوہری صلاحیت میں اضافہ ناگزیر ہے۔
دوسری جانب KIDA کے تجزیہ کار نے دعویٰ کیا کہ روس کی جانب سے شمالی کوریا کو 5 ہزار سے 6 ہزار ٹن وزنی آبدوز کی تیاری میں تکنیکی مدد یا پرزے فراہم کیے جانے کا امکان موجود ہے۔ تاہم ان کے مطابق چھوٹے ری ایکٹر کی تیاری میں ابھی کم سے کم دس سال درکار ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:شمالی کوریا کا نیا میزائل تجربہ، خطے میں کشیدگی میں اضافہ
مارچ میں کم جونگ اُن نے ایک شپ یارڈ کا دورہ کرتے ہوئے جوہری آبدوز کی تیاری کے منصوبے کا معائنہ کیا تھا اور اعلان کیا تھا کہ شمالی کوریا سمندری دفاعی صلاحیت کو کسی بھی مطلوبہ پانیوں میں پوری قوت سے استعمال کرے گا۔
یہ پہلا موقع تھا کہ پیونگ یانگ نے ایسی آبدوز کی تعمیر کا باقاعدہ انکشاف کیا۔
جوہری آبدوز کے علاوہ کم جونگ اُن جاسوسی سیٹلائٹس اور سالڈ فیول آئی سی بی ایمز کو بھی اپنی جدید عسکری ترجیحات میں شامل کر چکے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
امریکا ایٹمی ہتھیار شمالی کوریا.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ایٹمی ہتھیار شمالی کوریا شمالی کوریا کوریا کے
پڑھیں:
ترکی سے اسٹریٹجک شراکت داری مزید مضبوط ہوگی، صدرجنوبی کوریا
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
انقرہ:جنوبی کوریا کے صدر لی جے میونگ نے کہا ہے کہ جنوبی کوریا اور ترکی خون کے رشتے سے بندھے بھائی ملک ہیں، جنہوں نے آزادی اور جمہوریت کے دفاع کے لیے ایک ساتھ جنگ بھی لڑی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدرجنوبی کوریانے کہا کہ ترکی یورپ، مشرقِ وسطیٰ، یوریشیا اور افریقہ کے سنگم پر واقع ایک منفرد اسٹریٹجک ملک ہے اور جنوبی کوریا اسے محض پیداواری مرکز نہیں بلکہ عالمی سطح پر مقابلہ اور سرمایہ کاری کا شراکت دار سمجھتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کی دفاعی صنعت میں طاقتیں ایک دوسرے کی تکمیل کرتی ہیں، ترکی ڈرون ٹیکنالوجی میں عالمی لیڈر ہے جبکہ جنوبی کوریا جدید ٹینکس، توپ خانے اور بحری پلیٹ فارمز میں مہارت رکھتا ہے، یہ باہمی تعاون کو اگلی نسل کی
صدرجنوبی کوریا نے خاص طور پر التائے مین بیٹل ٹینک پروگرام کا ذکر کیا، جسے دونوں ملکوں کی مضبوط دفاعی شراکت داری کی نمایاں علامت قرار دیا۔
جنوبی کوریا کے صدر کاکہنا تھا کہ دونوں ممالک نیوکلیئر پاور، بائیو ہیلتھ، قابلِ تجدید توانائی، ڈیجیٹل تبدیلی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس جیسے مستقبل کے شعبوں میں تعاون بڑھا رہے ہیں،ترک حکومت اور جنوبی کورین کمپنیاں سیناپ نیوکلیئر پاور پلانٹ میں ممکنہ شمولیت پر بات کر رہی ہیں اور ان کا ملک عالمی معیار کی جوہری ٹیکنالوجی کے ذریعے ترکی کی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
لی جے میونگ نے کہا کہ ترکی کورین کمپنیوں کے لیے عالمی سپلائی چین کا لازمی مرکز بن چکا ہے، ہنڈائی، سام سنگ، پوسکو اور ہائی اوسنگ جیسی کمپنیوں کی سرمایہ کاری سے ترک معیشت میں 4.6 ارب ڈالر سے زائد کی براہِ راست سرمایہ کاری ہو چکی ہے، جس نے روزگار اور برآمدات کو بڑھایا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ 2013 میں فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد دونوں ممالک کی تجارت میں ڈیڑھ گنا سے زائد اضافہ ہوا ہے، تجارت میں عدم توازن موجود ہے لیکن یہ اس لیے ہے کہ ترکی کی صنعتی صلاحیت اور برآمدی استعداد میں اضافہ ہوا ہے جس کے لیے کورین انٹرمیڈیٹ پراڈکٹس کی طلب بھی بڑھی ہے۔