دہشت گردوں کی سہولت کاری ناقابل برداشت
اشاعت کی تاریخ: 14th, October 2025 GMT
پاک فوج نے افغان طالبان اور بھارتی حمایت یافتہ دہشت گرد تنظیموں کی جانب سے پاک افغان سرحد پر بلا اشتعال حملے کو ناکام بنا دیا ہے۔ افغانستان کی طرف سے بلا اشتعال فائرنگ پر پاک فوج نے بھرپور جوابی کارروائی کرتے ہوئے 200 سے زیادہ طالبان اور خوارج کو ہلاک اور متعدد کو زخمی کردیا جب کہ مادر وطن کا دفاع کرتے ہوئے 23 بہادر جوانوں نے جام شہادت نوش کیا۔
ترجمان پاک فوج کا کہنا ہے کہ بھارت خطے میں دہشت گردی کا سب سے بڑا سہولت کار ہے، افغان سرزمین کے دہشت گردی کے لیے استعمال کو برداشت نہیں کیا جائے گا، ریاست پاکستان اور عوام افغانستان سے اٹھنے والی دہشت گردی کے خاتمے تک چین سے نہیں بیٹھیں گے۔
افغانستان کی طالبان رجیم کو جارحیت کا صائب جواب مل گیا ہے اور اسے یہ بات بھی معلوم ہوچکی ہے کہ پاکستان کے خلاف معاندانہ کارروائیوں کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔
دہشت گردی کے سہولت کار بننا کوئی معمولی جرم نہیں، یہ انسانی جانوں کا سودا ہے، یہ بھوک، غربت اور خوف کی ایسی حالتیں پیدا کرتا ہے جن کا اثر نسل در نسل تک محسوس ہوتا ہے۔ جب ایک ریاست اور اس کے اقتدار پر قابض حکومت ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہو جہاں دہشت گرد تنظیمیں پنپتی ہیں، جب وہ ان کو مالی اور لاجسٹک سپورٹ مہیا کرتی ہے، اور جب وہ افغانستان کی سرزمین کو بطور تنصیبی میدان استعمال کرتی ہے، تو یہ خطے کے امن کے استحکام کو خطرے میں ڈالنے والی حرکت ہے۔
افغانستان نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کرنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کیا جب افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر ہیں اور وہاں مذاکرات کے بعد دونوں ملکوں کی جانب سے اس دورے کے حوالے سے جو مشترکہ اعلامیہ جاری کیا گیا، اس میں نہایت ڈھٹائی اور دشمنانہ انداز سے افغانستان کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دینا، اقوام متحدہ کی قراردادوں کی نفی بلکہ کشمیریوں کی کمر میں چھرا گھونپنے کے مترادف ہے، جس پر پاکستان کی وزارت خارجہ نے افغان سفیرکو دفتر خارجہ طلب کر کے سخت احتجاج بھی کیا تھا اور اس مشترکہ اعلامیہ کو سختی سے مسترد بھی کیا۔
افغانستان کی طالبان حکومت کے چہرے سے نقاب اتر گیا ہے ، اس نے بھارت کا ایجنٹ بن کر ثابت کردیا ہے کہ طالبان رجیم پاکستان ہی نہیں بلکہ افغانستان کے عوام کے مفادات کے برعکس کام کررہی ہے۔ افغانستان کی طالبان حکومت نے اپنی سرزمین اور وسائل بھارت کے لیے کھول کر اپنے عزائم واضح کردیے ہیں۔
اس کا مقصد صرف ایک نہیں بلکہ کئی ہیں۔ پاکستان کو کمزور کرنا، چین کو گھیرنا اور خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔ یہ اقدام نہ صرف خطے کے ملکوں کے خلاف براہ راست دشمنی ہے بلکہ بین الاقوامی قوانین کی بھی کھلی خلاف ورزی ہے۔ افغان عوام کو تحفظ سے محروم کر دیا گیا ہے اور خطے میں غصے اور انتشار کی فضا قائم کردی ہے۔
اس وقت اصل مسئلہ افغانستان انتظامیہ کے پاکستان مخالف رویے میں پوشیدہ ہے ۔ حال ہی میں بھارت نے افغانستان کے اندر اپنا سفارتخانہ دوبارہ فعال کرنے کا جو اعلان کیا ہے اور افغان وزیر خارجہ نے اچانک دلی کا دورہ کیا، تو ایسا لگتا ہے کہ ماضی میں جس طرح افغانستان میں بھارتی سفارتی مشن اور ضرورت سے زیادہ قونصل خانے وہاں پاکستان کے خلاف دہشت گردوں کی سہولت کاری میں اہم کردار ادا کرتے رہے ہیں، وہ دور دوبارہ لوٹ کر آرہا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کے باہمی تعلقات کشیدہ ہیں جس کی بنیادی وجہ پاکستان کے اندر دہشتگردی کے واقعات میں مسلسل اضافہ اور اس حوالے سے فتنہ الخوارج اور فتنہ الہندوستان کے دہشت گردوں کی سرپرستی، ان کے تربیتی کیمپوں کا تحفظ اور دہشت گردوں اور ان کی قیادت کا افغانستان میں قیام ، ایسے ایشو ہیں ، جن پر پاکستان نے احتجاج بھی کیا لیکن افغانستان کی طالبان رجیم نے پاکستان کے احتجاج پر کان نہ دھرے۔
پاکستان نے چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے تک افغان مہاجرین کو پناہ دی لیکن انھوں نے پاکستان کا نمک کھا کر بھی وفا نہیں کی ۔ یہ لوگ پاکستان میں دہشت گردوں کے سہولت کار بنے رہے ، پاکستان میں موجود ان کے سہولت کاروں نے بھی اپنے ملک کے ساتھ کھل کر کھلواڑ کیا، افغان مہاجرین کو جعلی شناختی کارڈز بنوا کر دیے گئے ، انھیں سسٹم میں داخل کیا گیا، پاسپورٹس کے ذریعے یہ لوگ بیرون ملک گئے اور وہاں جاکر پاکستان کی بدنامی کا باعث بنتے رہے اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے ۔
یہ افغان مہاجرین جعل سازی سے پاکستانی بن کر پاکستان کے ہر قسم کی ریسورسز پر قابض ہوتے چلے گئے، یہ لوگ پاکستان کا انفرااسٹرکچر استعمال کرتے رہے، ریاستی سہولیات سے مستفید ہوتے رہے لیکن انھوں نے قومی خزانے کو کوئی ٹیکس نہیں دیا، بلکہ پاکستان میں جرائم کرتے رہے اور پاکستانی سہولت کاروں کے لیے کرائے کے قاتل کا کردار ادا کرتے رہے۔
ایسی صورت میں ان کو مزید قیام کی اجازت دینا پاکستان کے مفاد میں ہرگز نہیں ہو سکتا، پاکستان کی جانب سے افغان انتظامیہ کو ان پاکستان دشمن عناصر کی پشت پناہی کے حوالے سے ایک اچھے ہمسائے کی مانند نمٹنے کے لیے بار بار توجہ دلانے کے باوجود پاکستانی درخواستوں کو افغان انتظامیہ نے نہ صرف خاموش رہ کر مسترد کرنے کی پالیسی اختیار کر رکھی ہے۔ افغانستان شروع دن سے ہی پاکستان مخالف رہا ہے اور یہ وہ ملک ہے جس نے قیام پاکستان کے بعد اقوام عالم کے رکن بننے کی مخالفت کی تھی،اس کے باوجود افغانستان پر جب بھی افتاد پڑی پاکستان نے ہمیشہ ان کی مدد کی ۔
بھارت کا دعویٰ ہمیشہ یہ رہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہے، مگر عمل میں وہ خود اس کی تشکیل و ترویج میں ملوث نظر آتا ہے۔ ان رپورٹس سے انکار ناممکن ہے جو بتاتی ہیں کہ کس طرح بھارت کی خفیہ ایجنسیوں نے دہشت گرد تنظیموں کو سپورٹ فراہم کی ہے، کس طرح غیر ملکی فنڈنگ اور امداد کی فراہمی ہوئی ہے اور کس طرح سرحد پار کارروائیاں انجام دی گئی ہیں۔ اس سب کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ خطے میں دہشت گردی کی لہر بڑھ گئی ہے، سیکیورٹی فورسز کی قربانیاں زیادہ ہوئیں، اور عام شہری خوف و ہراس کی کیفیت میں مبتلا ہیں۔
ہر ریاست کو یہ اختیار ہے کہ وہ اپنی سرزمین کی حفاظت کرے، جب کوئی سرزمین دہشت گردی کا مرجع بن جائے، تو آرگنائزڈ ریاستیں انھیں کسی طرح بھی برداشت نہیںکر سکتیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کوئی یک طرفہ یا وقتی واقعہ نہیں، بلکہ مسلسل عزم اور خلوص کا متقاضی ہے۔
ایک امریکی اخبارکا کہنا ہے کہ پاکستان ایک دہائی کی شدید ترین طالبان بغاوت سے نمٹ رہا ہے۔ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد ٹی ٹی پی ایک منظم گروہ بن گیا۔ عالمی دہشت گردی انڈیکس کے مطابق حملوں نے پاکستان کو دہشت گردی سے متاثر ہونے والا دوسرا سب سے زیادہ متاثرہ ملک بنا دیا ہے۔ پاکستان کو دہشت گردی کے سب سے بڑے خطرے کا سامنا ہے، ٹی ٹی پی ہماری سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیوں میں ملوث ہے ۔ پاک فوج اپنی بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت سے اس خطرے کا مقابلہ کررہی ہے۔آج جب ہم خطے کی پیچیدہ جغرافیائی اور سیاسی حقیقتوں کا جائزہ لیتے ہیں تو ایک واضح حقیقت سامنے آتی ہے۔
امن صرف کاغذی و تقاریری عہد ناموں سے قائم نہیں ہوتا، بلکہ اس کے لیے ہر ریاست کو اپنی نیت اور عمل دونوں میں شفافیت دکھانی پڑتی ہے۔ جب کوئی ملک جارحانہ پالیسیوں، خفیہ مداخلت یا دہشت گردانہ عناصرکی پشت پناہی کے ذریعے دوسروں کی سلامتی کو نشانہ بناتا ہے تو وہ محض سیاسی حریف نہیں بنتا بلکہ انسانی بقا اور روزمرہ زندگی کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے۔سوال یہ ہے کہ ہماری قومی اور علاقائی حکمت عملی کیا ہونی چاہیے؟
سب سے پہلے تو ہمیں اپنی سرحدی سیکیورٹی کو مضبوط کرنا ہوگا، موثر انٹیلی جنس شیئرنگ کو فروغ دینا ہوگا اور اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ دہشت گرد تنظیمیں کسی بھی سرزمین کو اڈہ نہیں بنا سکیں۔ ساتھ ہی، ہمیں سفارتی میدان میں بھی مؤثر حکمتِ عملی اپنانا ہوگی۔ عالمی سطح پر حقائق پیش کرنا، متحدہ طور پر موقف اختیار کرنا اور بین الاقوامی قوانین کے تحت کارروائی کے راستے کھولنا۔
بین الاقوامی برادری کا کردار اس موڑ پر انتہائی حساس ہے۔ ہمیں عالمی سطح پر اس بات کا مطالبہ کرنا چاہیے کہ کسی بھی طر ح کی دہشت گردی کی سہولت کاری کو روکا جائے۔ اس راہ میں صبر، حکمت اور قانونی مضبوطی ہی ہماری رہنمائی کرے گی، تاکہ امن کا پورا دائرہ کار قائم ہو اور آنے والی نسلیں اس خطے میں بلا خوف و خطر اپنے مستقبل کی تعمیر کر سکیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان کی طالبان افغانستان کے دہشت گردی کے پاکستان کے نے پاکستان کی جانب سے سہولت کار کرتے رہے کے خلاف پاک فوج اور اس کے لیے ہے اور
پڑھیں:
پاکستان میں دہشت گردوں کو واپس عمران خان لے کر آیا، مریم اورنگزیب
لاہور:پنجاب کی سینئر وزیر مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو واپس عمران خان لے کر آیا، دہشت گردی کے خاتمے کا آغاز دہشت گردی کے سہولت کاروں سے ہونا چاہیے۔
اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ پاکستان میں دہشت گردی اور دہشت گردوں کو واپس عمران خان لایا، وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی ختم کی تھی، عمران خان نے دہشت گردوں کی سہولت کاری کی، وزیراعظم نواز شریف نے پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف یکجا کیا، وزیراعظم نواز شریف نے متفقہ نیشنل ایکشن پلان بنایا پوری قوم کو دہشت گردی کے خلاف ایک بیانیے پر جمع کیا جب کہ عمران خان نے نیشنل ایکشن پلان کی خلاف ورزی کی۔
انہوں نے کہا کہ 2018ء کے بعد سے دوبارہ خیبر پختونخوا میں دہشت گردوں کی پشت پناہی ہوئی، اس قومی پالیسی کی خلاف ورزی اور دہشت گردوں کو واپس لانے کا مجرم عمران خان ہے اسے یہ حساب دینا ہوگا، آج دہشت گردی سے شہید ہونے والے ہر پاکستانی کا لہو عمران خان کے ہاتھوں پر ہے، وزیراعظم نواز شریف نے اپنے پختہ عزم و ہمت سے دہشت گردوں کے خلاف جامع اور مؤثر آپریشن شروع کیا، دہشت گردوں کا صفایا کیا۔
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے دہشت گردی سے پاکستان کو محفوظ بنا دیا تھا، عمران خان نے دہشت گردوں کو پناہ دی، رہائش دی، پیسہ دیا، خیبرپختونخوا میں لاکر آباد کیا، عمران خان نے نہ صرف دہشت گردی کو پنپنے دیا بلکہ اس کی نشوونما میں ہر طرح سے سہولت کاری کی، دہشت گردی کے خاتمہ کا آغاز دہشت گردی کے سہولت کاروں سے ہونا چاہئے۔
ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کی افواج، پولیس، رینجرز اور بچوں سمیت عوام کے ہر طبقے نے عظیم قربانیاں دی ہیں، عمران خان نے دہشت گردوں کا ساتھ دے کر پاکستان کے عوام اور شہیدوں کے لہو سے بے وفائی اور ان کی قربانیوں کی توہین کی۔