صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر پوتن کے درمیان ٹیلی فونک گفتگو
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
ماسکو:۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ روسی صدر کے معاون برائے امورِ خارجہ یوری اوشاکوف نے تصدیق کی ہے کہ آج دوپہر صدر ولادیمیر پوتن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ یہ دونوں رہنماﺅں کے درمیان رواں برس ہونے والی آٹھویں گفتگو تھی، جو تقریباً ڈھائی گھنٹے جاری رہی۔
ولادیمیر پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلیفونک گفتگو پر صدرِ روس کے معاون یوری اوشاکوف کے مطابق یہ تبادلہ خیال نہایت بامقصد، خوشگواراور دوستانہ ماحول میں ہوا۔ گفتگو کے آغاز میں صدر پوتن نے صدر ٹرمپ کو غزہ پٹی کی صورتحال کو معمول پر لانے کی ان کی کامیاب کوششوں پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی امن مساعی کو مشرقِ وسطیٰ، خود امریکا اور دنیا کے بیشتر ممالک میں سراہا جا رہا ہے۔
روسی فریق نے اپنے اصولی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات کا پائیدار حل صرف ان تسلیم شدہ بین الاقوامی قانونی بنیادوں پر ممکن ہے جو خطے کی تمام اقوام کے درمیان دیرپا امن اور استحکام کی ضمانت فراہم کر سکیں۔ ٹیلیفونک رابطے میں یوکرین کا مسئلہ بھی نمایاں طور پر زیرِ بحث آیا۔
صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کی موجودہ صورتحال کا مفصل جائزہ پیش کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ روس سیاسی اور سفارتی ذرائع سے تنازع کے پرامن حل کا خواہاں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ خصوصی فوجی کارروائی کے دوران روسی مسلح افواج محاذِ جنگ کے تمام حصوں پر مکمل تزویراتی برتری برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیف انتظامیہ دہشت گردانہ طریقوں کا سہارا لے رہی ہے، شہری مقامات اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنا رہی ہے، جن کے جواب میں روس کو مناسب اور ناگزیر اقدامات کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد مواقع پر اس بات پر زور دیا کہ یوکرین میں جلد از جلد جنگ بندی اور امن کے قیام کی ضرورت ہے۔ یوری اوشاکوف کے مطابق، امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ روس۔یوکرین تنازعہ ان کی امن کوششوں میں سب سے پیچیدہ اور مشکل معاملہ ثابت ہوا ہے۔ تاہم، انہوں نے دیگر آٹھ علاقائی تنازعات کے حل میں اپنی کامیابیوں کا بھی حوالہ دیا۔ امریکی صدر کا ایک اہم موقف یہ تھا کہ یوکرین کے تنازع کا حل امریکا اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون کے فروغ کے لیے غیر معمولی اور بے حد وسیع امکانات پیدا کرے گا۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کے درمیان
پڑھیں:
پیوٹن کو جنگ ختم کرنے پر قائل کر سکتا ہوں، پاک افغان جنگ بندی کرانا میرے لیے بہت آسان ہے، ٹرمپ-زیلنسکی ملاقات
واشنگٹن: یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی اپنے وفد کے ہمراہ وائٹ ہاؤس پہنچے جہاں انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ وفود کی سطح پر اہم ملاقات کی۔ یہ ملاقات روس-یوکرین تنازعے کے خاتمے، ٹوماہاک میزائلوں کی فراہمی اور علاقائی امن کے لیے امریکی کردار پر مرکوز رہی۔
ملاقات کے دوران صدر زیلنسکی نے کہا، “ہم امن چاہتے ہیں مگر روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نہیں چاہتے۔” انہوں نے امریکی حمایت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ روس پر دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب، صدر ٹرمپ نے پرامید انداز میں کہا، “ہم روسی صدر پیوٹن کو جنگ ختم کرنے پر قائل کر سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ روسی صدر بھی جنگ ختم کرنا چاہتے ہیں۔”
صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں امن کی کامیابی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا، “مشرق وسطیٰ میں ہم نے 59 ممالک کو متفق کیا، جو یوکرین سے کہیں زیادہ پیچیدہ معاملہ تھا۔ سب سے پہلے یوکرین اور روسی صدر کو دلوں سے نفرت نکالنا ہوگی۔ دونوں صدور نے نرمی دکھائی تو یہ جنگ ختم ہو سکتی ہے۔” انہوں نے امید ظاہر کی کہ “جنگ یوکرین کو ٹوماہاک میزائل کی ضرورت کے بغیر ختم ہو جائے گی، ہم ٹوماہاک میزائل کے بغیر جنگ ختم کرنے کے کافی قریب ہیں۔”
صدر ٹرمپ نے اقتصادی دباؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا، “بھارت اب روس سے تیل نہیں خریدے گا۔” ملاقات میں جنوبی ایشیا کے تنازعات کا بھی تذکرہ ہوا۔ صدر ٹرمپ نے ایک بار پھر پاک-بھارت جنگ کا حوالہ دیا، “میں نے پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ رکوائی۔ پاکستانی وزیراعظم نے کہا میں نے لاکھوں زندگیوں کو بچایا۔ پاکستان اور افغانستان میں بھی جنگ بندی کرانا پڑی تو یہ میرے لیے بہت آسان ہے۔” انہوں نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان جاری جھڑپوں کا ذکر کرتے ہوئے امن کی امید ظاہر کی۔
یہ ملاقات صدر ٹرمپ کی حالیہ روسی صدر پیوٹن سے فون کال اور ہنگری میں مجوزہ سربراہی اجلاس کے تناظر میں اہم ہے، جہاں یوکرین تنازعے کا حل تلاش کیا جائے گا۔ زیلنسکی نے ٹوماہاک میزائلوں کی فراہمی پر زور دیا، جبکہ ٹرمپ سفارتی حل کی طرف مائل نظر آئے۔