data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ماسکو:۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادیمیر پوتن کے درمیان ٹیلی فونک رابطہ ہوا ہے۔ روسی صدر کے معاون برائے امورِ خارجہ یوری اوشاکوف نے تصدیق کی ہے کہ آج دوپہر صدر ولادیمیر پوتن نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ٹیلیفون پر گفتگو کی۔ یہ دونوں رہنماﺅں کے درمیان رواں برس ہونے والی آٹھویں گفتگو تھی، جو تقریباً ڈھائی گھنٹے جاری رہی۔

ولادیمیر پوتن اور ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹیلیفونک گفتگو پر صدرِ روس کے معاون یوری اوشاکوف کے مطابق یہ تبادلہ خیال نہایت بامقصد، خوشگواراور دوستانہ ماحول میں ہوا۔ گفتگو کے آغاز میں صدر پوتن نے صدر ٹرمپ کو غزہ پٹی کی صورتحال کو معمول پر لانے کی ان کی کامیاب کوششوں پر مبارکباد دی۔ انہوں نے کہا کہ امریکی صدر کی امن مساعی کو مشرقِ وسطیٰ، خود امریکا اور دنیا کے بیشتر ممالک میں سراہا جا رہا ہے۔

روسی فریق نے اپنے اصولی موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ مشرقِ وسطیٰ کے تنازعات کا پائیدار حل صرف ان تسلیم شدہ بین الاقوامی قانونی بنیادوں پر ممکن ہے جو خطے کی تمام اقوام کے درمیان دیرپا امن اور استحکام کی ضمانت فراہم کر سکیں۔ ٹیلیفونک رابطے میں یوکرین کا مسئلہ بھی نمایاں طور پر زیرِ بحث آیا۔

صدر ولادیمیر پوتن نے یوکرین کی موجودہ صورتحال کا مفصل جائزہ پیش کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ روس سیاسی اور سفارتی ذرائع سے تنازع کے پرامن حل کا خواہاں ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ خصوصی فوجی کارروائی کے دوران روسی مسلح افواج محاذِ جنگ کے تمام حصوں پر مکمل تزویراتی برتری برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ ایسی صورتحال میں کیف انتظامیہ دہشت گردانہ طریقوں کا سہارا لے رہی ہے، شہری مقامات اور توانائی کے بنیادی ڈھانچے کو نشانہ بنا رہی ہے، جن کے جواب میں روس کو مناسب اور ناگزیر اقدامات کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے۔

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے متعدد مواقع پر اس بات پر زور دیا کہ یوکرین میں جلد از جلد جنگ بندی اور امن کے قیام کی ضرورت ہے۔ یوری اوشاکوف کے مطابق، امریکی صدر نے اعتراف کیا کہ روس۔یوکرین تنازعہ ان کی امن کوششوں میں سب سے پیچیدہ اور مشکل معاملہ ثابت ہوا ہے۔ تاہم، انہوں نے دیگر آٹھ علاقائی تنازعات کے حل میں اپنی کامیابیوں کا بھی حوالہ دیا۔ امریکی صدر کا ایک اہم موقف یہ تھا کہ یوکرین کے تنازع کا حل امریکا اور روس کے درمیان اقتصادی تعاون کے فروغ کے لیے غیر معمولی اور بے حد وسیع امکانات پیدا کرے گا۔

ویب ڈیسک.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر کے درمیان

پڑھیں:

جنگ کی صلیب پر رکھا ہوا یوکرین

دنیا کی آنکھوں کے سامنے ایک اور تاریخ لکھی جا رہی ہے۔ خون ،آنسو اور ماؤں کی ہچکیوں سے بھری ہوئی تاریخ۔ روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ دو ملکوں کا تنازعہ نہیں رہی، یہ سرمایہ دار طاقتوں کے مفادات، اسلحہ ساز کمپنیوں کی بھوک اور عالمی سیاست کے بے رحم کھیل کی بھٹی میں دہکتی وہ آگ ہے جس کی لپٹیں بچوں کے جھلسے ہوئے وجود تک پہنچ چکی ہیں۔

ایسے میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی نئی جارحانہ سفارت کاری جو خود ان کی صدارت کا سب سے بڑا امتحان بنتی جا رہی ہے۔ دنیا کے سامنے ایک بار پھر اس سوال کو کھڑا کرتی ہے کہ آخر امن کس کی ترجیح ہے اور جنگ کس کا کاروبار۔

ٹرمپ نے یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی کو 27 نومبر کی ایک سخت ڈیڈ لائن دی ہے کہ وہ 28 نکاتی امن فارمولا قبول کریں۔ یہ فارمولا میامی کے ایک پرتعیش کمرے میں اسٹیو وٹکوف اور کریملن کے قریبی کیریل دمترییف نے تیارکیا۔

ایک ایسا مسودہ جسے دیکھ کر محسوس ہوتا ہے جیسے جنگ زدہ یوکرین کے مستقبل پر قلم امریکی ہاتھ نہیں بلکہ ماسکو کی انگلیاں چلا رہی ہوں۔ اس تجویز میں یوکرین سے نہ صرف متنازع علاقوں بلکہ اضافی زمین روس کو دینے کا مطالبہ شامل ہے۔

اس کے ساتھ یوکرین کی فوجی طاقت پر قدغن لگانے، نیٹو سے فاصلہ رکھنے اور روسی جنگی جرائم پر کارروائی روکنے جیسی سفارتی ناکہ بندی بھی مسلط کی گئی ہے۔ بدلے میں کیا ہے؟ صرف مبہم دھند میں لپٹی امریکی سیکیورٹی ضمانتیں جن کا کوئی ٹھوس ڈھانچہ نہیں کوئی واضح لائحہ عمل نہیں۔

یوکرینی صدر اس تجویز کو مکمل طور پر رد کرنے کے بجائے اسے تاریخ کے مشکل ترین لمحات میں سے ایک قرار دے رہے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جنگ میں تھکے ہوئے لوگ امن کا لفظ سن کر چونکتے ضرور ہیں مگر جب امن کی قیمت ان کی زمین، ان کی خود مختاری اور ان کی نسلوں کا مستقبل ہو تو فیصلہ کرنا آسان نہیں رہتا۔ یوکرین کی عوام کسی بھی اضافی زمین کے چھوڑنے پر تیار نہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ محض آغاز ہوگا انجام نہیں۔

زیلنسکی نہ صرف سیاسی طور پر بلکہ اخلاقی اور قومی سطح پر بھی ایک خوفناک موڑ پر کھڑے ہیں، اگر وہ یہ فارمولا قبول کرتے ہیں تو تاریخ انھیں شاید کبھی معاف نہ کرے اور اگر نہیں کرتے تو جنگ مزید بھڑک سکتی ہے۔ یہ وہی لمحہ ہے جسے اقوام کا اجتماعی ضمیر آزمائش کہتا ہے۔


یورپی رہنما اس منصوبے میں سنگین خامیوں کی نشان دہی کر رہے ہیں، وہ دیکھ رہے ہیں کہ یہ فارمولا مستقبل کے روسی حملوں کا دروازہ کھلا چھوڑ دیتا ہے۔ نیٹو اتحاد کے لیے بھی یہ آزمائش ہے کیونکہ اگر ٹرمپ کی یہ کوشش ناکام ہوئی تو یورپی اعتماد مزید ڈگمگائے گا اور وہ بین الاقوامی اتحاد جس نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد دنیا کو ایک حد تک استحکام دیا مزید بکھرنے لگے گا۔

ٹرمپ کا ماننا ہے کہ ان کی ذاتی کیمسٹری پوتن کو منوا لے گی مگر تاریخ کی کتابیں ہمیں بتاتی ہیں کہ کسی بھی آمر سے دوستی کر کے کمزور ملکوں کو امن نہیں ملا، صرف وقتی خاموشی ملی ہے جو ایک اور دھماکے کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ پوتن بار بار یہ واضح کرچکے ہیں کہ وہ یوکرین کی مکمل کمزوری کو ہی روس کا تزویراتی مقصد سمجھتے ہیں۔

جنگ کے نقشے سفارتی مسودے عالمی طاقتوں کی شرائط یہ سب سیاسی لغت کا حصہ ہیں، مگر ان نقشوں میں وہ چہرے نہیں دکھائے جاتے جنھوں نے ہمیشہ سب سے زیادہ قیمت ادا کی ہے یعنی بچے۔ یوکرین کی گلیاں کئی برسوں سے ملبہ بارود اور ٹوٹے کھلونوں سے بھری ہیں۔

سیکڑوں نہیں، ہزاروں بچے اس جنگ کا ایندھن بن چکے ہیں۔ کچھ بہرے ہوگئے، کچھ بینائی کھو بیٹھے، کچھ اپنے والدین اور کچھ اپنی ایک چھوٹی سی اناٹومی جس میں زندگی کبھی پھر پوری طرح لوٹ کر نہیں آئے گی۔

جنگ کسی ملک کے خلاف نہیں بچوں کے خلاف ہوتی ہے۔ اسپتالوں کے بستروں پر پڑے وہ ننھے جسم دنیا کی بڑی طاقتوں سے سوال کرتے ہیں کہ آخر یہ جنگ کس کی ہے؟ وہ اپنی ماؤں کی گودوں میں یتیمی کا خوف لے کر سو جاتے ہیں جب کہ دنیا کے دارالحکومتوں میں طاقتور میزوں پر بیٹھے لوگ نقشوں کی لکیروں میں امن تلاش کرتے ہیں، زندگی نہیں۔

جینیوا میں جاری مذاکرات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جنگ ختم کرنے کے لیے دنیا بے چین ہے مگر ہر ملک امن اپنی شرائط کے ساتھ چاہتا ہے۔

کوئی بھی فریق بچوں کے نام پر معصوم زندگیوں کے نام پر اپنے مفادات کی قربانی دینے کو تیار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ 27 نومبر کی ڈیڈلائن قریب آ رہی ہے مگر امن ابھی بھی ایک دور کی صدا لگتا ہے۔

ہم کسی کے ساتھ بھی نہیں، نہ روس کے، نہ یوکرین کے، نہ امریکا کے۔ ہم صرف اور صرف انسانیت کے ساتھ ہیں۔ دنیا کا ہر ترقی پسند ہر بایاں ذہن رکھنے والا شخص جانتا ہے کہ جنگیں کبھی عوام کے فائدے میں نہیں ہوتیں۔

یہ حکمرانوں کے کھیل ہیں، سرمایہ دار طاقتوں کی کمائی ہے اور غریبوں کی موت کے پروانے۔امن کا مطلب کسی طاقتور کے ہاتھوں کمزور کی شکست نہیں۔ امن کا مطلب یہ ہے کہ کوئی ماں بچے کا کفن نہ خریدے، کوئی باپ سرحد پر اپنے لختِ جگر کا ٹکڑا نہ ڈھونڈتا پھرے، کوئی بچہ خوف کے سائے میں جوان نہ ہو۔

ٹرمپ کی سفارت کاری ہو، پوتن کی طاقت ہو یا زیلنسکی کی مزاحمت یہ سب اپنی جگہ۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ دنیا یہ تسلیم کرے کہ جنگیں جیتنے کے لیے نہیں، ختم کرنے کے لیے ہوتی ہیں۔

اور کسی بھی فارمولا میں اگر بچوں کی زندگیوں کا ذکر نہ ہو، تو وہ فارمولا جنگ کا نیا باب ہے امن کا نہیں۔دنیا کو اس جنگ میں کسی ایک فریق کا ساتھ نہیں دینا چاہیے بلکہ اس جنگ کو ختم کرنے میں ساتھ دینا چاہیے، کیونکہ آخر میں نہ زمین جیتتی ہے نہ سرحدیں۔

جیتتے یا ہارتے صرف انسان ہیں۔ وقت گزر رہا ہے۔ فیصلہ باقی ہے لیکن انسانیت کا سوال وہیں کھڑا ہے، کیا ہم ایک اور نسل کو جنگ کے حوالے کریں گے۔

متعلقہ مضامین

  • امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اسرائیل کو شام میں عدم استحکام سے گریز کی سخت تنبیہ
  • ٹرمپ نے وینزویلا کی فضائی حدود مکمل بند کرنے کا اعلان کردیا‘ جنگی کارروائی کا خدشہ
  • غزہ میں عالمی امن فورس کی تعیناتی اور حماس کو غیر مسلح کرنیکے ٹرمپ منصوبے کو سنگین مسائل کا سامنا
  • PTAکاTAP لائسنس ہولڈرز کیلئےنئی اصلاحات متعارف کرانے کا فیصلہ
  • ٹرمپ نے وینیزویلا کی فضائی حدود مکمل بند کرنے کا اعلان کر دیا
  • ٹرمپ نے وینیزویلا کی فضائی حدود مکمل بند کرنے کا اعلان کردیا، جنگی کارروائی کا امکان
  • ٹرمپ نے وینیزویلا کی فضائی حدود مکمل بند کرنیکا اعلان کر دیا، جنگی کارروائی کا امکان
  • ٹیرف سے جنگیں روکیں، کئی ممالک سے تعلقات مضبوط ہوئے: ڈونلڈ ٹرمپ
  • جنگ کی صلیب پر رکھا ہوا یوکرین
  • ٹرمپ نے وینزویلا کی فضائی حدود کو ’نو فلائی زون‘ قرار دے دیا