زیلنسکی کو ٹرمپ کا سرپرائز
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
اسلام ٹائمز: روس کیخلاف مصروف جنگ یوکرینی صدر نے حالیہ دنوں میں "امریکی صدر کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل بھیجنے کے لئے رضا مندی" پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ ان کی آمد کے چند منٹ بعد، ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اعلان کیا کہ انہوں نے پیوٹن سے فون پر بات کی ہے اور جلد ہی بوڈاپاسٹ میں ملاقات کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ایک ایسے ملک کے دارالحکومت میں جو "روس کے علاوہ یورپی یونین میں یوکرین کے لیے سب سے کم دوستانہ ہے۔" خصوصی رپورٹ:
ایکسیوس نیوز سائٹ نے پیوٹن کے ساتھ ٹرمپ کی غیر متوقع ٹیلیفونک گفتگو اور ہنگری میں ہونے والی ملاقات کو یوکرین کے صدر کے لیے بہت بڑا سرپرائز قرار دیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف تجزیہ کاروں کو بلکہ خود ولادیمیر زیلنسکی کو بھی حیران کر دیا، عین اس وقت جب یوکرائنی صدر ابھی واشنگٹن پہنچے تھے۔ زیلنسکی جمعرات کی شام اینڈریوز ایئر فورس بیس پر اترنے کے بعد ٹرمپ سے ملاقات کی امید کر رہے تھے۔
انہوں نے حالیہ دنوں میں "امریکی صدر کی جانب سے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹوماہاک میزائل بھیجنے کے لئے رضا مندی" پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ ان کی آمد کے چند منٹ بعد، ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں اعلان کیا کہ انہوں نے پیوٹن سے فون پر بات کی ہے اور جلد ہی بوڈاپاسٹ میں ملاقات کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ ایک ایسے ملک کے دارالحکومت میں جو "روس کے علاوہ یورپی یونین میں یوکرین کے لیے سب سے کم دوستانہ ہے۔"
یوکرین امریکہ تعلقات میں سرد مہری کا امکان
مبصرین کے مطابق یہ خبر یوکرینی صدر کی ٹیم کے لیے "یخ بستہ پانی کا دھارا" قرار دی جا رہی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی تھی کہ ان کا دورہ امریکہ نئے ہتھیاروں کے حصول کے حوالے سے ٹھوس نتائج کا باعث بنے گا، جس میں ٹوماہاک میزائل بھی شامل ہیں، لیکن اب پیوٹن کے ساتھ ٹرمپ کی آئندہ ملاقات وائٹ ہاؤس کی کیف کی جانب ترجیحات کے پورا ہونے کی آرزووں پر خاک ڈال سکتی ہے۔ زیلنسکی اس سفر کے دوران ہتھیاروں کی سپلائی اور صنعتی شراکت پر تبادلہ خیال کرنے والے ہیں۔
وہ دو امریکی ہتھیاروں کی کمپنیوں - ریتھیون اور لاک ہیڈ مارٹن - کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات کرنے والے ہیں۔ زیلنسکی اور ٹرمپ کی وائٹ ہاؤس میں آج جمعہ کو ہونے والی باضابطہ ملاقات ہوگی۔ ٹرمپ نے پہلے کہا تھا کہ زیلنسکی اس ملاقات کے دوران ٹوما ہاک میزائلوں کی یوکرین کو منتقلی پر رضامندی ظاہر کریں گے۔ لیکن امریکہ اور روس کے تعلقات میں نئی فضاء اس علاقے میں فیصلہ سازی کو مزید پیچیدہ بنا سکتی ہے، خاص طور پر ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان فون کال کے بعد، جو کہ امریکی صدر کے مطابق "تعمیری اور مثبت ماحول میں" ہوئی تھی۔
ٹرمپ پیوٹن ملاقات کا متوقع ایجنڈا
ٹرمپ نے جمعرات کو ایک بیان میں کہاہے کہ پیوٹن کے ساتھ بات چیت میں دونوں فریقین نے مستقبل قریب میں ہنگری کے دارالحکومت میں ملاقات پر اتفاق کیا، انہوں نے مزید کہا کہ یہ ملاقات اگلے دو ہفتوں میں ہو سکتی ہے۔ انہوں نے اس ملاقات کے ایجنڈے کی وضاحت نہیں کی تاہم امریکی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین میں روس کے قریبی اتحادی ہنگری کا انتخاب ماسکو کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کے لیے ٹرمپ کے نئے جھکاؤ کی علامت ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ ٹرمپ-زیلینسکی ملاقات سے قبل یہ پیشرفت کیف کے لیے تشویشناک ہو سکتی ہے۔ ایک تجزیہ کار کے مطابق "اگر ٹرمپ پیوٹن کے ساتھ تعلقات دوبارہ استوار کرنے کے خواہاں ہیں تو اس بات کا امکان نہیں ہے کہ وہ اسی وقت یوکرین کو ٹوماہاک میزائل بھیجنے پر راضی ہو جائیں"۔ جبکہ زیلنسکی نئی فوجی مدد حاصل کرنے کی امید میں واشنگٹن گئے ہیں، ٹرمپ نے پیوٹن کے ساتھ فون کال کے ذریعے فی الحال صورتحال کو بدل دیا ہے۔ اگر امریکی اور روسی صدور کی ملاقات بوڈاپاسٹ میں ہوتی ہے تو یوکرائنی جنگ میں واشنگٹن اور کیف کے تعلقات اور طاقت کے توازن کے امکانات ایک نئے مرحلے میں داخل ہو سکتے ہیں۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: پیوٹن کے ساتھ امریکی صدر کرنے والے انہوں نے نے پیوٹن سکتی ہے کے لیے روس کے
پڑھیں:
وزیراعظم کی امریکی صدر کی چاپلوسی نے قوم کا سر شرم سے جھکا دیا، تنظیم اسلامی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251017-08-24
حیدرآباد (نمائندہ جسارت) غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے کانفرنس میں وزیراعظم پاکستان کا امریکی صدر ٹرمپ کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا نا انتہائی شرم ناک ہے۔ اسرائیلی کنیسٹ میں ٹرمپ کے اِس بیان کہ امریکا نے اسرائیل کی فتح کے لیے بے پناہ اسلحہ دیا ہے نے ثابت کر دیا ہے کہ ٹرمپ امن کا داعی نہیں بلکہ فلسطینیوں کی نسل کشی میں برابر کا شریک ہے۔ان خیالات کا اظہار تنظیم اسلامی کے امیر شجاع الدین شیخ نے ایک بیان میں کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم پاکستان نے امریکی صدر کی جس شرم ناک انداز میں چاپلوسی کی اس سے پوری قوم کا سر شرم سے جھک گیا ہے۔موصوف نے نہ صرف ٹرمپ کو امن کا حقیقی داعی قرار دیا بلکہ اِس بات کو پھر دہرایا کہ صدر ٹرمپ ہی امن کے نوبل انعام کا اصل حقدار تھا۔ ٹرمپ نے وزیراعظم پاکستان کی اِس تقریر کے بعد کہا کہ اب میرے کہنے کے لیے کیا بچ گیا ہے۔ یہ الفاظ پاکستانیوں کے منہ پر کسی طمانچہ سے کم نہیں۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ وزیراعظم پاکستان نے بے حمیتی پر مبنی تقریر کس کے حکم پر کی؟ صدر ٹرمپ نے پاکستان کے فیلڈ مارشل کو بھی اپنی پسندیدہ شخصیت قرار دیا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا یہ وہی ٹرمپ نہیں جس نے اپنے پہلے دورِ حکومت میں یروشلم کو ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیا تھا اور اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کر دیا تھا۔ عرب ممالک کو ابراہم اکارڈز کا جھانسا دے کر کئی ایک سے اسرائیل کو تسلیم کروا لیا تھا۔ناجائز صہیونی ریاست اسرائیل کی پارلیمان میں خطاب کے دوران، جسے انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ تمام پاکستانی ٹی وی چینلز پر براہ راست دکھایا گیا، ٹرمپ نے جنگی مجرم نیتن یاہوکو کامیاب ترین لیڈر قرار دیا، جس نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ ہر امریکی صدر درحقیقت اسرائیل کا بغل بچہ ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آج بھی ٹرمپ کے امن منصوبے میں فلسطینیوں کے لیے اسرائیلی غلامی کے سوا کچھ نہیں، بلکہ بین السطور اسرائیل کو باقاعدہ مشرقِ وسطی کا تھانیدار بنانے اور گریٹر اسرائیل کے منصوبے کو تیزی سے آگے بڑھانے کی توثیق کی گئی ہے۔ پھر یہ کہ فلسطین و غزہ میں تحاریکِ مزاحمت سے ہتھیار ڈالنے کا کھلا مطالبہ ہے۔انہوں نے کہا کہ ٹرمپ اور نیتن یاہو کی شدید خواہش ہے کہ تمام عرب اور غیر عرب مسلم ممالک جلد از جلد اسرائیل کو تسلیم کر کے اس سے سفارتی، سیاسی اور تجارتی تعلقات قائم کر لیں تاکہ (نعوذ باللہ ) قضیہ فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی حرمت کا معاملہ ہی ختم ہو جائے، اور یہی ابراہم اکارڈز کی نئی صورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم ممالک جان لیں کہ اسرائیل اس بچھو کی طرح ہے جس کی فطرت میں مسلمان ممالک کو ڈسنا ہے۔ لہٰذا مسلم ممالک اسرائیل اور اس کے معاونین کے ساتھ تعلقات قائم کرنے کی بجائے اس ناجائز صہیونی ریاست کے خاتمہ کے لیے متحد ہوں۔