جرمنی کا یوکرین میں جنگ بندی کیلیے امریکی صدر کی کوششوں پر اعتماد
اشاعت کی تاریخ: 17th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
برلن: جرمنی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے یوکرین میں جنگ بندی کے لیے کی جانے والی نئی سفارتی کوششوں کی حمایت کرتے ہوئے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن کے رویے پر عدم اعتماد ظاہر کیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کےمطابق جرمن حکومت کے نائب ترجمان اسٹفین مائر نے پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ جرمنی یوکرین کی مکمل حمایت جاری رکھے گا تاکہ وہ نہ صرف روسی جارحیت کا مقابلہ کر سکے بلکہ مستقبل میں مذاکرات کے ذریعے ایک منصفانہ امن معاہدے کے لیے مضبوط پوزیشن حاصل کرے۔
انہوں نے کہا کہ ہم فطری طور پر تمام کوششوں کی حمایت کرتے ہیں، خصوصاً امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی، جو امن عمل کو دوبارہ آگے بڑھانے کے لیے کی جا رہی ہیں، ہم یورپی اتحادیوں اور امریکی انتظامیہ کے ساتھ مسلسل رابطے میں ہیں، اب ایک منصفانہ امن کے راستے کی تلاش نہایت ضروری ہوچکی ہے۔
اسٹفین مائر نے اس بات پر شکوک کا اظہار کیا کہ آیا ٹرمپ کی یہ نئی کوششیں کامیاب ہو سکیں گی یا نہیں۔ ان کے مطابق روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے ماضی میں مذاکراتی عمل کو سخت شرائط اور یوکرین پر بڑھتے ہوئے حملوں کے ذریعے نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ گزشتہ ہفتوں اور مہینوں نے واضح طور پر یہ ثابت کیا ہے کہ ایک شخص ایسا ہے جسے امن عمل میں سنجیدگی سے دلچسپی نہیں، اور وہ ولادیمیر پیوٹن ہیں۔
ترجمان نے مزید کہا کہ ہمیں پیوٹن پر دباؤ بڑھانا ہوگا، اسی لیے ہم یوکرین کی حمایت کرتے ہیں اور امریکی صدر کی ان کوششوں کا خیرمقدم کرتے ہیں جن کے ذریعے روس کو منصفانہ امن کے مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو اعلان کیا تھا کہ وہ آئندہ دو ہفتوں کے اندر ہنگری میں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کریں گے تاکہ یوکرین جنگ کے خاتمے کے لیے براہِ راست مذاکرات کیے جا سکیں، اس سے قبل امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو اور روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف کے درمیان ایک ابتدائی ملاقات ہوگی، دونوں اجلاسوں کا اعلان ٹرمپ اور پیوٹن کے درمیان ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کے بعد کیا گیا۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ولادیمیر پیوٹن امریکی صدر کے لیے کہا کہ
پڑھیں:
غلطیوں کا اعتراف اور انہیں نہ بھولنا آج اتنا اہم کیوں ہے؟
غلطیوں کا اعتراف اور انہیں نہ بھولنا آج اتنا اہم کیوں ہے؟ WhatsAppFacebookTwitter 0 1 December, 2025 سب نیوز
میڈرڈ: اسپین کے سرکاری دورے پر موجود جرمن صدر فرینک والٹر اسٹائن مائر نے اسپین کے خود اختیار باسک خطے میں واقع قصبے گرنیکا کا دورہ کیا، جو 1937 میں نازی جرمنی کی بمباری کا نشانہ بنا تھا اور جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد ہلاک اور قصبہ کھنڈر بن کر رہ گیا تھا۔اس دن، شاہ سپین فلپیپے ششم سمیت دیگر افراد کے ہمراہ، اسٹائن مائر نے بمباری میں ہلاک ہونے والوں کی یادگار پر پھول چڑھائے اور متاثرین سے دکھ کا اظہار کیا۔ اپنے سرکاری دورے کے آغاز میں، اسٹائن مائر نے 1937 میں گرنیکا پر بمباری کے لیے جرمنی کی ذمہ داری کو واضح اور مضبوط الفاظ میں تسلیم کیا، اور اس بات پر زور دیا کہ “جرمنوں کو تاریخ میں کیے گئے جرائم کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔” یہ بیان نہ صرف تاریخ کے سیاہ دور کا براہ راست سامنا ہے بلکہ پیچیدہ اور بدلتے ہوئے عالمی سیاسی منظر نامے کے موجودہ تناظر میں تاریخی ذمہ داری اور اخلاقی شعور کا دوبارہ عہد بھی ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد سے، جرمنی نے بتدریج جنگی جرائم پر اپنی تفہیم کو گہرا کیا ہے۔ 1970 میں وارسا میں اس وقت کے مغربی جرمنی کے چانسلر ویلی برانٹ کے ” دونوں گھٹنے زمین پر رکھنے” سے لے کر، 1997 میں جرمنی کے سابق صدررومن ہرزوگ کے عتراف تک کہ “جرمن پائلٹ گرینکا پر فضائی بمباری کے مجرم تھے” اور اس سال، پولینڈ میں اسیویں سالگرہ کی یادگاری تقریب میں اسٹائن مائر کی طرف سے متاثرین سے جھک کر معافی مانگنے تک ، جرمنی نے اپنے مسلسل اعتراف سے “میموری آف کرائمز ” کے تناظر میں تاریخ پر غور و خوض کو اپنی قومی شناخت کے ایک حصے میں تبدیل کیا ہے۔ اسٹائن مائر نے اسپین میں اپنے حالیہ بیان میں ایک قدم اور آگے بڑھاتے ہوئے نہ صرف سانحہ گرنیکا کو جرمنی کا واضح جرم قراردیا، بلکہ یہ مطالبہ بھی کیا کہ جرمن عوام تاریخ میں کیے گئے جرائم کو کبھی فراموش نہ کریں۔ “غلطیوں کو تسلیم کرنے” سے لے کر “تاریخی جرائم کی ذمہ داری قبول کرنے” تک کا یہ ارتقاء جرمنی کے خود اعترافی کے طریقہ کار کی گہرائی کو ظاہر کرتا ہے۔اس کے برعکس، تاریخی جرائم کے بارے میں جاپانی حکومت کا رویہ ہمیشہ مبہم رہا ہے۔
بلخصوص، تائیوان کے بارے میں موجودہ جاپانی رہنما کے حالیہ غلط بیانات نے نہ صرف چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت کی اور بین الاقوامی قانون اور بین الاقوامی تعلقات کے بنیادی اصولوں کو پامال کیا، بلکہ جنگ کے بعد کے بین الاقوامی نظم و نسق کو بھی کھلم کھلا چیلنج کیا۔ سانائے تاکائیچی کے تائیوان کے بارے میں غلط بیانات کو دو ہفتے سے زیادہ عرصہ گزر چکا ہے۔ واضح تصحیح کرنے کے بجائے، جاپان نے نام نہاد “وضاحت” کے ساتھ اس معاملے کی سنگینی کو کم کرنے اوربغیر کسی قیمت کے “سافٹ لینڈنگ” کی کوشش کی ہے ۔ یہ خود فریبی نہ صرف بچگانہ ہے بلکہ انتہائی خطرناک بھی۔تاریخ ایک آئینہ ہے جو کسی قوم کے اخلاقی کردار اور سیاسی ذمہ داری کی عکاسی کرتا ہے۔ جرمنی نے اپنے جرائم کبھی نہ بھولنے کے رویے سے نہ صرف بین الاقوامی برادری کا اعتماد اور احترام حاصل کیا بلکہ اپنے تاریخی جرائم کو امن برقرار رکھنے کی عملی ذمہ داری میں بدلا ہے۔
جبکہ جاپان کے قول و فعل سے نہ صرف چین-جاپان تعلقات شدید متاثر ہوئے ہیں بلکہ خود جاپان کی بین الاقوامی ساکھ اور علاقائی استحکام کو بھی نقصان پہنچایا جا رہا ہے ۔ جاپانی وزیر اعظم کے تائیوان کے امور پر بیانات کے بعد ،جاپان کی سیاحت کی صنعت، سٹاک مارکیٹ، اور حکومتی بانڈز سبھی نمایاں طور پر متاثر ہوئے ہیں، اور اس کی قیمت بالآخر عام جاپانی شہری اور کاروبارادارے ہی ادا کریں گے ۔غلطیوں کو بروقت درست کرنا ہی قومی مفادات کے لئے درست اور ذمہ دارانہ طریقہ ہے۔ چینی عوام امن کی قدرکرتے ہیں اور چین-جاپان دوستی کی توقع بھی رکھتے ہیں، لیکن یہ کسی بھی طرح اصولوں کی پاسداری اور بنیادی مفادات کے احترام کے بغیر ممکن نہیں ۔ اس وقت، صورتحال کو بگڑنے سے روکنے کا سب سے بہتر اور موثر طریقہ یہی ہے کہ جاپانی رہنما اپنی غلطیوں کوجلد از جلد تسلیم کریں اور انہیں درست کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائیں۔
تائیوان کے امور چین کے مرکزی مفادات کا مرکز ہیں ۔ یہ کوئی سیاسی آلہ نہیں ہے جسے کوئی بھی ملک اپنی مرضی سے استعمال کرے ،نہ ہی جاپان کے لیے کسی سفارتی مظاہرے کا میدان۔ چین نے واضح کیا ہے کہ اگر جاپان اپنی غلطی پربضد رہا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔دوسری جنگ عظیم کے خاتمے کی اسی سال مکمل ہونے کے موقع پر جرمنی کا ” میمور ی آف کرائمز ” کو اپنی خارجہ پالیسی کے اخلاقی سنگ بنیاد کے طور پرلینے پر اصرار خاص طور پر قابل قدر ہے۔ “کبھی نہ بھولنے” کی پالیسی اپنانے کی یہ ہمت بین الاقوامی برادری کی کم یاب قیمتی اخلاقی دولت ہے ۔ حقیقی اعتراف معاملے کی سنگینی کو کم کرنے کا کوئی مبہم بیان نہیں ہے، بلکہ یہ ایک اجتماعی شعور ہے جو نسل در نسل جاری رہتا ہے۔ جرائم کا تعلق ماضی سے ہو سکتا ہے لیکن ان جرائم پر موجودہ رویہ ہی اصل کلید ہوتی ہے۔ تاریخ کو یاد کرکے ہی مستقبل کا سامنا کیا جا سکتا ہے۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرباجوڑ میں سالارزئی قوم کا گرینڈ جرگہ، حکومت کے سامنے آٹھ مطالبات رکھ دئیے اگلی خبرفیلڈ مارشل عاصم منیر سے مصری وزیر خارجہ کی ملاقات، دفاعی تعاون بڑھانے کا عزم صدر مملکت نے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس کل طلب کرلیا یو اے ای بُلز پہلی بار ابوظہبی ٹی10 لیگ کی چیمپئن بن گئی کراچی؛ مین ہول میں گرنے والا بچہ تاحال نہیں مل سکا، تلاش جاری، شہریوں کا احتجاج عدالت کا شوکت خانم اسپتال اور نمل یونیورسٹی کے اکاؤنٹس ڈی سیز کرنے کا حکم پیٹرول سستا ہونے کے بعد عوام کے لیے ایک اور خوشخبری فیلڈ مارشل عاصم منیر سے مصری وزیر خارجہ کی ملاقات، دفاعی تعاون بڑھانے کا عزمCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم