Jasarat News:
2025-12-03@09:01:33 GMT

حالات کا ملبہ انوار الحق پر ڈالنے کی حکمت عملی

اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

آزادکشمیر میں جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کا احتجاج ایک بھونچال پیدا کرکے ختم ہوگیا ہے۔ اس صورتحال پر بھونچال کی اصطلاح اس لیے صادق آتی ہے کہ سات دن تک آزادکشمیر موبائل فون اور انٹرنیٹ کی سہولت سے کلی طور پر محروم رہا۔ آزاد کشمیر کے طول وعرض سے لوگ دارالحکومت مظفرآباد کی طرف مارچ کرتے رہے جو مظفر آباد اور دھیرکوٹ میں خونیں رنگ بھی اختیار کرگئے اور کئی افراد اپنی جانوں سے گزر گئے۔ یہ حالات فریقین کے درمیان ایک معاہدے کے نتیجے میں بدل گئے۔ اس معاہدے میں آزادکشمیر حکومت کہیں نظر نہیں آتی بلکہ یہ عوامی ایکشن کمیٹی اور وفاقی حکومت کے درمیان ہونے والا معاہدہ ہے۔ بہت سے حلقوں کی خواہش تھی کہ آزادکشمیر انتظامیہ کو عوام کے خلاف بے رحمی سے استعمال کیا جائے۔ ایسا ہونے کی صورت میں آزادکشمیر مستقل خانہ جنگی کا شکار ہو سکتا تھا۔ آزادکشمیر انتظامیہ اس فرمائش سے کنی کترا گئی۔ جس کے بعد پرائیویٹ حلقوں کو مظفرآباد واقعات کے لیے استعمال کرنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ وفاقی حکومت اب ایکشن کمیٹی کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر کس حد تک عمل درآمد کرتی ہے سب کی نظریں اسی پر لگی ہیں۔ ایکشن کمیٹی کے راہنماؤں کے خلاف دہشت گردی کی ایف آئی آر کا جس رفتار سے اندراج ہونے لگا ہے وہ یہ بتارہا ہے کہ آزادکشمیر کے سیاسی امن اور حالات کو کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ دہشت گردی کی ایف آئی آر اور الزامات آزادکشمیر میں حالات کی ایسی دلدل بنانے کا باعث بن سکتے ہیں جس میں دونوں فریق دھنستے اور پھنستے چلے جائیں گے۔ یوں اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت ایکشن کمیٹی بڑے مطالبات پر عمل درآمد سے پہلو تہی کر لے۔ ایسی صورت میں ایکشن کمیٹی کے راہنما شوکت نواز میر دوٹوک انداز میں کہہ چکے ہیں کہ معاہدہ پر عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں دوبارہ احتجاج کی کال دی جا سکتی ہے۔

ایکشن کمیٹی کی احتجاج کی دھمکی میں اس لیے وزن ہوتا ہے کہ آزادکشمیر کے منظر پر اْبھرنے والی ایسی قوت ہے جو شٹر کی طاقت بھی رکھتی ہے اور اسٹریٹ پاور کی حامل بھی ہے۔ گوکہ اس کا نیوکلئس تاجر کمیونٹی ہے مگر سول سوسائٹی بھی ان کے ساتھ ایکا کیے ہوئے ہے۔ آزادکشمیر میں گورننس کا ناکام ماڈل، حکومت اور اپوزیشن کی تقسیم اور تفریق کا خاتمہ، احتساب کے عمل کو ختم کرنا ایسے بنیادی عوامل ہیں جو آزادکشمیر کے عوام کو ایکشن کمیٹی کے ساتھ جوڑے ہوئے ہیں۔ اسی طاقت نے آزادکشمیر حکومت کو مفلوج بنانے کے ساتھ وفاقی حکومت کے نمائندوں کو قطار اندر قطارمظفر آباد پہنچ کر ایکشن کمیٹی کے نمائندوں سے مذاکرات پر مجبور کیا۔ اس عوامی لہر کے مقابلے میں مہاجرین سے تعلق رکھنے والے جن وزراء کو میدان میں اْتارا گیا ان کو پڑنے والوں کی تعداد چند سو سے زیادہ نہیں۔ یہ ایک ہاری ہوئی جنگ تھی جس کا یہی انجام ہونا تھا جو آخر کار ہوا۔ ایکشن کمیٹی کو عوام سے کاٹنے کے لیے جتنے بیانیے تخلیق کیے گئے غیر موثر ثابت ہوئے۔ جتنے انسانی اثاثوں کو بیانیہ ساز مشینوں کے طور پر آگے بڑھایا وہ بھی اپنا تاثر اور اعتبار قائم نہ کر سکے۔ جو کچھ ہوا یہ نوشتۂ دیوار تھا مگر کسی نے دیوار پر لکھے ہوئے پڑھنے کی کوشش نہیں کی اگر کسی نے پڑھ بھی لیا تو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔

یہ آزادکشمیر کے سیاسی نظام کی ناکامی ہے۔ وفاق سے آزادکشمیر کی سیاست کو کنٹرول کرنے اور اس کے نین نقش سنوارنے والوں کی ناکامی ہے۔ سیاسی جماعتوں نے اس ناکامی کا تنہا بوجھ وزیر اعظم انوار الحق پر ڈال کر انہیں قربانی کا بکر ا بنانے کی کوشش کی۔ حالات معمول پر آتے ہی چودھری انوارالحق کو ساری ناکامیوں کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تیاریاں کی جانے لگیں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نے چودھری انوار الحق کوخود انوارالحق کے فاروڈ بلاک کے ساتھ مل کر منظر سے ہٹانے کی تیاریاں شروع کیں۔ مسلم لیگ ن کی قیادت کی طرف سے چودھری انوار الحق کو ہٹانے کی منظوری حاصل کرنے کے دعوے کیے تو پیپلزپارٹی کے ارکان اسمبلی نے اگلے لائحہ عمل کے لیے کراچی کا سفر اختیار کیا اور پارٹی کے امور کی نگران بیگم فریال تالپور کے ساتھ ملاقات کی۔ طول مشاورت کے بعد ان ملاقاتوں سے کچھ برآمد نہ ہوا اور ارکان اسمبلی اور لیڈروں کو فریال تالپور کے ساتھ ایک عدد تصویر بنوا کر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے پر ہی اکتفا کرنا پڑا۔ یوں بھی آزادکشمیر کے انتخابات اگر پروگرام کے مطابق ہوتے ہیں تو اگلے سال جولائی میں ان کا انعقا د لازمی ہے۔ اس عمل میں صرف آٹھ نوماہ کا عرصہ باقی ہے۔ آٹھ ماہ کے لیے وزیر اعظم بننا گناہ بے لذت کے سوا کچھ نہیں۔ کراچی سے پارٹی لیڈروں کو چند ماہ کے لیے صبر کا کڑوا گھونٹ پینے کا ہی مشورہ دیا گیا اور یوں چودھری انوارالحق کو قربانی کا بکرا بنانے کی حکمت عملی کامیاب نہ ہوسکی۔ اب ایکشن کمیٹی کے ساتھ معاملات پْرامن انداز میں حل کرنے میں ناکامی صرف وزیر اعظم انوارالحق کی تنہا کامیابی نہیں بلکہ یہ حکومت میں شامل پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کی ناکامی بھی ہے۔ اگلے برس ہونے والے انتخابات میں دونوں جماعتوں کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ایکشن کمیٹی کی سرگرمیوں نے آزادکشمیر کی سیاسی حقیقتوں اور حرکیات کو بری طرح متاثر کیا ہے مگر سیاسی جماعتیں اب بھی زمینی صورت حال کا ادراک کرتی ہوئی نظر نہیں آتیں۔

عارف بہار.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: ایکشن کمیٹی کے ا زادکشمیر کے چودھری انوار انوار الحق الحق کو کے ساتھ کے لیے

پڑھیں:

ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی پاور شیئرنگ کمیٹی کا 8 ماہ سے اجلاس نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟

 حکمران جماعت مسلم لیگ ن اور اس کی اتحادی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی  کے درمیان پنجاب میں پاور شئیرنگ کے فارمولے پر سیاسی کشمکش شدت اختیار کرگئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ن لیگ اور پیپلز پارٹی آمنے سامنے، صہیب بھرتھ کا ندیم افضل چن کیخلاف قانونی چارہ جوئی کا فیصلہ

دونوں جماعتوں کی جانب سے قائم کی گئی پاور شئیرنگ کمیٹی کی میٹنگز پچھلے 8 ماہ سے معطل ہیں حالانکہ ابتدائی معاہدے کے تحت ہر ماہ باقاعدہ اجلاس کا انعقاد طے ہوا تھا۔

پچھلے سال 10 دسمبر کو دونوں جماعتوں کی پہلی باضابطہ ملاقات ہوئی تھی جو بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئی۔

اس کے بعد کمیٹی کے 5 اجلاس ہو چکے ہیں جن میں نئی نہروں کی تعمیر، پولیس کی ضلعی سطح پر کوآرڈینیشن، افسران کی تقرریوں اور ترقیاتی فنڈز کی تقسیم جیسے اہم ایشوز زیر بحث آئے۔

آخری میٹنگ اپریل2025 میں ہوئی تھی جس میں آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور اور ایڈیشنل چیف سیکریٹری احمد رضا سرور بھی شریک تھے۔

مزید پڑھیے: وفاقی وزرا کی صدر زرداری سے اہم ملاقات، پیپلز پارٹی اور ن لیگ بیان بازی روکنے پر متفق

پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکریٹری حسن مرتضیٰ نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ن لیگ کے کمیٹی ممبران ہمارے مطالبات تسلیم کرتے ہیں لیکن عملدرآمد نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ مریم نواز پنجاب میں پاور شئیرنگ فارمولے پر چلنے کو تیار نہیں دکھائی دیتیں۔

حسن مرتضیٰ کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8 ماہ سے کوئی اجلاس نہیں ہوا حالانکہ طے تھا کہ ماہانہ میٹنگز ہوں گی۔

حسن مرتضیٰ نے مزید بتایا کہ کمیٹی کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ بھی واضح نہیں کی جا رہی۔ پنجاب اسمبلی میں پارلیمانی پارٹی کو دیا گیا ایڈیشنل سیکریٹری احمد رضا سرور کو ہٹا دیا گیا جبکہ یوسف رضا گیلانی کے بیٹوں سے سیکیورٹی واپس لے لی گئی۔

انہوں نے کہا کہ ایسی کارروائیاں اختلافات بڑھاتی ہیں، کم نہیں کرتیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دنوں سیلاب آیا تو پنجاب حکومت کی جانب سے پیپلزپارٹی کو نشانہ بنایا جاتا رہا۔

کچھ عرصہ قبل پی پی پی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی  کا اجلاس ہوا جس میں چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو بریف کیا گیا کہ پاور شئیرنگ کمیٹی کے فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔

بلاول بھٹو نے شدید ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ کی اعلیٰ قیادت سے دوبارہ بات ہوگی۔

حسن مرتضیٰ نے بتایا کہ بلاول بھٹو، وزیر اعلیٰ مریم نواز کے رویے سے شدید نالاں ہیں۔

مزید پڑھیں: ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے

پیپلزپارٹی کے پارلیمانی لیڈر علی حیدر گیلانی، کچھ عرصہ پہلے وی نیوز کو بتایا تھا کہ تحریری معاہدے کے باوجود ن لیگ خصوصاً ملتان اور رحیم یار خان جیسے اضلاع میں منتقلیوں اور پوسٹنگز پر پیچھے ہٹ رہی ہے۔

پاور شئیرنگ فارمولا پر عمل ہونے پر ن لیگ کا موقف کیا ہے؟

مسلم لیگ ن کی قیادت نے پی پی پی کے مطالبات کو ‘غیر معقول اور غیر عملی’ قرار دیا ہے۔ ن لیگ کے ایک سینیئر رہنما نے کہا کہ ہم اتحاد کی پاسداری کر رہے ہیں لیکن پنجاب کی انتظامیہ کو کمزور کرنے والے مطالبات قبول نہیں۔

یہ بھی پڑھیے: ن لیگ اور پیپلزپارٹی میں کشیدگی کم نہ ہوسکی، پنجاب اور سندھ حکومت کے ترجمان آمنے سامنے

پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے  کچھ روز قبل میڈیا  سے  بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ پی پی پی ہماری اتحادی ہے لیکن ان کی بعض مطالبات صوبے کی مجموعی ترقی کے منافی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے سنہ 2024 میں ایک معاہدہ کیا تھا جس میں ترقیاتی فنڈز کی 30 فیصد شیئرنگ، یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز کی سرچ کمیٹی میں نمائندگی اور ضلعی ڈویلپمنٹ کمیٹیوں میں شمولیت شامل تھی۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ اس پر عمل جاری ہے پیپلزپارٹی کے ساتھ جو معاملات طے گئے تھے ان پر عمل ہورہا ہے۔

عظمیٰ بخاری نے مزید کہا تھا کہ مریم نواز کی حکومت پنجاب کی عوام کی خدمت پر فوکس کر رہی ہے نہ کہ سیاسی دباؤ پر۔

مزید پڑھیں: سیاسی کشیدگی: مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کا افہام و تفہیم کے ذریعے مسائل حل کرنے پر اتفاق

سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق ن لیگ کی طرف سے اس طرح پاور شئیرنگ  فارمولے کے معاملات میں فقدان رہا تو آنے والے دنوں میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے سیاسی اتحاد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پنجاب میں پاور شیئرنگ پی پی اور پنجاب پیپلز پارٹی ن لیگ ن لیگ اور پی پی اختلافات ن لیگ اور پی پی پاور شیئرنگ

متعلقہ مضامین

  • ظفر الحق حجازی وفاقی ٹیکس محتسب تعینات
  • محمد ظفر الحق حجازی 4 سال کے لیے وفاقی ٹیکس محتسب تعینات
  • ن لیگ اور پیپلزپارٹی کی پاور شیئرنگ کمیٹی کا 8 ماہ سے اجلاس نہ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
  • گورنر راج لگا تو حالات سنبھالے نہیں جائیں گے، اسد قیصر
  • پیپلز پارٹی شہیدوں کی جماعت ہے، ہمیشہ مشکل حالات میں ڈیلیور کیا، فیصل راٹھور
  • چیریٹی فنڈز جیب میں کیوں ڈالے؟ ابرار الحق کی ویڈیو منظر عام پر آگئی
  • پیپلز پارٹی قبضہ مافیا ‘ سندھ حکومت کرپشن ‘ نا اہلی و لوٹ مار کا بدترین شاہکار بن چکی ‘حافظ نعیم الرحمن
  • بنگلادیش پریمئیر لیگ، پاکستان کے کتنے کرکٹرز ایکشن میں ہوں گے؟
  • پاکستان کے 11 کرکٹرز بنگلا دیش پریمیئر لیگ میں ایکشن میں
  • انڈسٹریل زون کے قیام کیلیے کاوشوں جاری ہیں، ہمایوں اختر