ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو ٹام ہاک میزائل فراہم کرنے سے انکار کردیا
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ نے یوکرین کو ٹام ہاک میزائل فراہم کرنے سے انکار کردیا ہے۔
امریکی نشریاتی ادارے سی این این کے مطابق یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی امریکی صدر ڈونلڈ ترمپ سے ملاقات کے دوران روس پر حملوں کے لیے طویل فاصلے تک مار کرنے والے ٹام ہاک کروز میزائل حاصل کرنے میں ناکام رہے۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادی میر پیوٹن کا ٹیلیفونک رابطہ، ہنگری میں ملاقات پر اتفاق
صدر ٹرمپ نے یوکرین کی جانب سے طویل فاصلے کے میزائلوں کی درخواست مسترد کرتے ہوئے کہا کہ جنگ جلد از جلد ختم ہونی چاہیے۔
زیلنسکی واشنگٹن اس امید کے ساتھ گئے تھے کہ امریکا سے ایسے میزائل حاصل کر سکیں جو روس کی توانائی اور تیل کی تنصیبات کو نشانہ بنا کر کریملن کی جنگی معیشت کو نقصان پہنچا سکیں۔
تاہم وائٹ ہاؤس میں ورکنگ لنچ کے دوران صدر ٹرمپ نے کہا کہ جنگ کا خاتمہ ٹام ہاک میزائلوں کے بغیر ممکن ہے، اور یہ میزائل وہ ہتھیار ہیں جن کی خود امریکا کو ضرورت ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا: یوکرین امن مذاکرات میں کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہو سکی
ملاقات کے بعد زیلنسکی نے گفتگو کو ’کارآمد‘ قرار دیا تاہم انہوں نے میزائلوں کے معاملے پر تبصرہ کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ امریکا تصادم میں مزید اضافہ نہیں چاہتا۔
بعدازاں فلوریڈا پہنچنے پر صدر ٹرمپ نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ممالک فوری طور پر جنگ بند کریں۔
انہوں نے کہا کہ محاذِ جنگ جہاں ہے، وہیں رک جانا چاہیے، ورنہ معاملہ بہت پیچیدہ ہو جائے گا۔ دونوں ممالک کے لوگ اپنے گھروں کو لوٹیں، اپنے خاندانوں کے پاس جائیں اور خون خرابہ ختم کریں۔
یہ بھی پڑھیں: امریکا اور یوکرین کے درمیان معدنیات کے معاہدے پر دستخط
قابل ذکر بات یہ ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولادیمیر زیلنسکی کی ملاقات اس کے ایک دن بعد ہوئی جب امریکی صدر نے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ٹیلیفون پر گفتگو کی تھی اور جلد ہی ہنگری میں ملاقات پر اتفاق کیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا ٹام ہاک میزائل جنگ بندی ڈونلڈ ٹرمپ روس زیلینسکی ولادیمیر زیلنسکی یوکرین.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا ٹام ہاک میزائل ڈونلڈ ٹرمپ زیلینسکی ولادیمیر زیلنسکی یوکرین ڈونلڈ ٹرمپ کہا کہ
پڑھیں:
ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر نے سنگین الزامات پر خود کو حکام کے حوالے کردیا
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سابق مشیر اور بعد ازاں ان کے سخت ناقد بننے والے جان بولٹن نے خفیہ معلومات کے غلط استعمال کے الزامات میں خود کو حکام کے حوالے کردیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق جان بولٹن پر جمعرات کو فردِ جرم عائد کی گئی تھی۔ وہ حالیہ ہفتوں میں ٹرمپ کے تیسرے نمایاں ناقد ہیں جنہیں قانونی کارروائی کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق امریکی صدر کی جانب سے یہ اقدامات وفاقی اداروں کی غیرجانبداری سے جڑی دہائیوں پرانی روایات سے انحراف تصور کیے جا رہے ہیں۔
جان بولٹن جب گرین بیلٹ، میری لینڈ کی عدالت میں پیش ہونے کے لیے پہنچے تو انہوں نے صحافیوں سے کوئی گفتگو نہیں کی۔ عینی شاہدین کے مطابق انہیں امریکی مارشل سروس کے دفتر میں داخل ہوتے دیکھا گیا، جہاں انہوں نے باضابطہ طور پر خود کو حکام کے حوالے کیا۔
استغاثہ کے مطابق بولٹن پر الزام ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب کی تیاری کے دوران دو قریبی رشتہ داروں کے ساتھ حساس معلومات شیئر کیں۔ ان معلومات میں انٹیلی جنس بریفنگ کے نوٹس اور اعلیٰ سرکاری و غیر ملکی رہنماؤں سے ملاقاتوں کی تفصیلات شامل تھیں۔
بولٹن نے اپنے بیان میں کہا ’’میں اپنے قانونی طرزِ عمل کا دفاع کرنے اور ٹرمپ کے اختیارات کے ناجائز استعمال کو بے نقاب کرنے کے لیے پرعزم ہوں۔‘‘
بولٹن کے وکیل ایبی لوول نے مؤقف اختیار کیا کہ بولٹن نے کوئی بھی معلومات غیر قانونی طور پر شیئر یا محفوظ نہیں کیں۔
رپورٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے اپنی صدارتی مہم کے دوران بارہا کہا تھا کہ وہ اپنے پہلے دورِ حکومت کے دوران ہونے والی قانونی تحقیقات کا بدلہ لیں گے۔
انہوں نے اپنی اٹارنی جنرل پام بونڈی پر دباؤ ڈالا کہ وہ سیاسی مخالفین کے خلاف کارروائیاں کریں، جن میں سابق ایف بی آئی ڈائریکٹر جیمز کومی اور نیو یارک اٹارنی جنرل لیٹیشیا جیمز شامل تھے۔ حتیٰ کہ انہوں نے ایک پراسیکیوٹر کو بھی برطرف کر دیا جس پر وہ ’’سست روی‘‘ کا الزام لگاتے تھے۔
جان بولٹن، جنہوں نے ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں قومی سلامتی کے مشیر کے طور پر خدمات انجام دیں، بعد میں ان کے سخت مخالف بن گئے۔ اپنی یادداشتوں میں بولٹن نے ٹرمپ کو ’’صدر بننے کے ناقابل شخص‘‘ قرار دیا تھا۔
یاد رہے کہ جان بولٹن کے خلاف 2022 میں تحقیقات شروع ہوئیں، جو ٹرمپ انتظامیہ سے پہلے کی بات ہے۔ ذرائع کے مطابق محکمہ انصاف کے اندر یہ کیس کافی مضبوط سمجھا جا رہا ہے۔
فردِ جرم میں بولٹن پر آٹھ الزامات قومی دفاعی معلومات کے غلط استعمال اور دس الزامات ان کے غیر قانونی تحفظ سے متعلق لگائے گئے ہیں، جو سب جاسوسی ایکٹ کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتے ہیں۔ ہر الزام پر زیادہ سے زیادہ 10 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔ عدالت یہ فیصلہ مختلف قانونی عوامل کی بنیاد پر کرے گی۔
استغاثہ کے مطابق بولٹن اور ان کے دو رشتہ داروں، جن کے نام ظاہر نہیں کیے گئے، کے درمیان چیٹس میں اس بات پر گفتگو ہوئی کہ کتاب میں کس معلومات کا استعمال کیا جائے۔ بولٹن نے انہیں اپنے ’’ایڈیٹرز‘‘ قرار دیا تھا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ مذکورہ رشتہ دار بولٹن کی بیوی اور بیٹی ہیں۔
جب وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ سے اس مقدمے پر تبصرہ کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے مختصر جواب دیا کہ ’’وہ ایک برا شخص ہے۔‘‘