کراچی:

سال 1959ء میں قائد اعظم کے نام سے کراچی میں قائم کیے گئے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر کو محکمہ صحت سندھ سے علیحدہ کرکے خود مختارادارہ بنانے کا فیصلہ کرلیا گیا جب کہ ملازمین کا کہنا ہے کہ اسپتال کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر این جی او کے حوالے کرنے کی تیاری کرلی گئی ہے۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق اسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے تصدیق کی ہے کہ جناح اسپتال کو محکمہ صحت سے علیحدہ کرنے کیلئے قانونی مسودہ تیار کرلیا گیا ہے جسے منظوری کے لیے سندھ اسمبلی کے اجلاس میں پیش کیاجائے گا، جناح اسپتال کے پاس پیسے نہیں ہیں اور وہ مختلف ادائیگیوں کی مد میں 70 کروڑ روپے کا مقروض ہے۔

جناح اسپتال پہلے وفاقی حکومت کے زیر اتنظام تھا لیکن 2011ء میں 18 ویں ترمیم کی منظوری کے بعد اسے devolution کے تحت سندھ حکومت کے حوالے کردیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے خلاف اسپتال کے ملازمین نے سندھ ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی اور 5 سال بعد عدالت نے جناح اسپتال کے ملازمین کے حق میں فیصلہ دیا کہ جناح اسپتال، این آئی سی ایچ اور این آئی سی وی ڈی کو وفاق کے ماتحت کریں گے لیکن سندھ حکومت نے اس فیصلے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر عدالت نے سندھ حکومت کی درخواست مسترد کردی تھی۔

بعد ازاں 8 اگست 2023ء کو وفاقی حکومت نے جناح اسپتال کو سندھ حکومت کے ماتحت کرنے کے سلسلے میں ایک معاہدہ کیا تھا (معاہدے کی کاپی ایکسپریس کے پاس موجود ہے)، اس معاہدے کے تحت جناح اسپتال سندھ حکومت کے زیر انتظام 25 سال تک کام کرتا رہے گا، معاہدے کی شق نمبر 9 کے مطابق اسپتال کے کسی بھی ملازمین کو نکالا نہیں جائے گا لیکن اسپتال کے ملازمین ڈیپوٹیشن کے تحت سندھ حکومت کے ماتحت تصورکیے جائیں گے اور ملازمین کے مفاد کے خلاف کوئی کام نہیں ہوگا۔

اس تحری معاہدے پر اس وقت کے سیکریٹری منسٹری آف نیشنل ہیلتھ سروسز، ریگولیشن اینڈ کوآرڈی نیشن حکومت پاکستان اور سیکریٹری صحت سندھ کے دستخط موجود ہیں۔ اسپتال میں کام کرنے والے ملازمین کا کہنا ہے کہ جناح اسپتال کو کسی این جی او کے ماتحت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ وفاق نے جناح اسپتال کا انتظام 25 سال کے لیے حکومت سندھ کے حوالے کیا ہے اور اس معاہدے میں ایسا کوئی ذکر نہیں ہے کہ اسپتال کو کسی این جی اوکے حوالے کیا جائے۔

جناح اسپتال کو بورڈ آف گورنر کے تحت خودمختار اسپتال بناکر چلایا جائے گا جس کے بعد جے پی ایم سی کا محکمہ صحت سندھ سے کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

ذرائع نے بتایا کہ جناح اسپتال کو آئندہ چند ماہ بعد خودمختار ادارہ بنادیا جائے گا۔ جناح اسپتال  کے ملازمین کادعوی ہے کہ اسپتال کواین جی او کے حوالے کیا جارہا ہے اور اس سلسلے میں منصوبے پر خاموشی سے کام شروع کردیا گیا ہے۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر جناح اسپتال

جناح اسپتال کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد رسول نے ایکسپریس کو بتایا کہ اسپتال کو صوبائی محکمہ سے علیحدہ کرکے  خودمختار بنا کر بورڈ آف ڈائریکٹران کے ماتحت چلایا جائے گا، اسپتال کے تمام معاملات اور اخراجات کا فیصلہ اسپتال کی گورننگ باڈی کرے گی، گورننگ باڈی میں اسپتال میں کام کرنے والی این جی او کے نمائندے بھی شامل ہوں گے جبکہ گورننگ باڈی کے چیئرمیں وزیراعلی سندھ ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ جناح اسپتال کو اب قومی ادارہ امراض قلب کی طرز پر خود مختار بنایا جارہا ہے جس کے بعد محکمہ صحت کی بجائے حکومت سندھ جناح اسپتال کو ون لائن بجٹ براہ راست فراہم کرے گی۔

انھوں نے بتایا کہ اس حوالے سے وزیراعلی سندھ نے ایک کمیٹی بھی تشکیل دی ہے لیکن ابھی تک کمیٹی کا ایک اجلاس بھی منعقد نہیں کیا گیا، جناح اسپتال 60 کروڑ روپے سے زائد کا مقروض ہے اور اس حوالے سے حکومت سندھ کو اسپتال پر واجبات کی فہرست فراہم کردی ہے تاکہ اسپتال کی خودمختاری سے پہلے اسپتال کے تمام واجبات ادا کیے جاسکیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اسپتال کو خود مختار کیے جانے کے سلسلے میں  قانونی مسودہ بھی تیار کرلیا گیا ہے جس کی منظوری سندھ اسمبلی سے لی جائے گی، اسمبلی سے بل پاس ہونے کے بعد اسپتال کا انتظامی ڈھانچہ بھی تبدیل کردیا جائے گا اور اسپتال کو 12رکنی بورڈ آف گورنر کے تحت چلایا  جائے گا۔

ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا کہنا تھا کہ اس وقت جناح اسپتال مختلف وینڈروں کا مقروض ہے، حکومت سندھ سے اسپتال کو مختلف وینڈروں کی جانب سے مہیا کی جانے والی سروسز کے بقایاجات کی ادائیگی کے لیے مزید فنڈز کی ضرورت ہے اس لیے اسپتال نے حکومت سندھ کو فنڈ جاری کرنے کی درخواست کی ہے جس میں واجبات کی تفصیلات بھی شامل ہیں۔

ڈاکٹر شاہد رسول کے مطابق اس وقت اسپتال کے ذمہ اسپتال کی سیکیورٹی کے مد میں 79 لاکھ 35 ہزار کی ادائیگی کرنی ہے جبکہ اسٹیشنری کی مد میں 66 لاکھ 7 ہزار 796 روپے، پرنٹنگ کی مد میں 3 لاکھ  85 ہزار 600 روپے اور اسپتال کے دیگر اخراجات کی مد میں 1 کروڑ 27 لاکھ 52 ہزار 164 روپے کی ادائیگی کرنی ہے۔

جناح اسپتال کی انتظامیہ کا کہنا ہے کہ اسپتال کے ملازمین اور دیگر معاملات پر ہائی کورٹ اور دیگر عدالتوں میں 83 کیسز زیر سماعت ہیں، ان میں زیادہ تر کیسز ملازمین کی پروموشن اور حقوق سے متعلق ہیں۔
 
جناح اسپتال کے ملازمین کے خدشات اور بات چیت

اسپتال کے  ملازمین اور بعض انتظامی افسران نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت سندھ اسپتال کواین جی او کے حوالے کررہی ہے  یہی وجہ حکومت سندھ اور اسپتال انتظامیہ اسپتال کی 1200 سے زائد خالی اسامیوں پر ملازمین کی بھرتیاں نہیں کررہی جبکہ ملازمین گزشتہ دس دس سال سے اپنی ترقی کے منتظر بیٹھے ہیں۔

ان ملازمین کا کہنا تھا 2011ء سے پہلے ہم وفاقی حکومت کے ملازم تھے پھریہ اسپتال صوبائی حکومت کے ماتحت کردیا گیا وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے درمیان متعدد تنازعات کی وجہ سے سیکڑوں ملازمین اپنی ترقی کے بغیرریٹائرڈ ہوگئے جبکہ سیکڑوں ملازمین اج بھی اپنی پروموشن سے محروم ہیں۔

ان ملازمین نے بتایا کہ حکومت سندھ اور اسپتال کی انتظامیہ اسپتال کے معاملات میں کوئی دلچسپی نہیں لیتی، اسپتال کے طبی فضلے کو تلف کرنے کی 2 مشینیں کئی سال سے خراب پڑی ہیں جبکہ سیکڑوں بائیو میڈیکل آلات بھی ناکارہ پڑے ہیں۔

ہیوی سولر سسٹم کے باوجود بجلی کا ماہانہ بل 8 کروڑ روپے

ملازمین کا کہنا تھا کہ اسپتال میں ہیوی سولر سسٹم لگائے جانے کے باوجود اسپتال کا بجلی کا بل ماہانہ 6 سے 8 کروڑ روپے جبکہ سوئی گیس کا بل 2 سے 3 کروڑ روپے کا آتا ہے، ان ملازمین نے الزام عائد کیا کہ جناح اسپتال شدید بدنظمی کا شکار ہے، مریضوں کو ادویات فراہم نہیں کی جاتی جبکہ آپریشن کے لیے مریضوں کو چھ چھ ماہ بعد کا وقت دیا جاتا ہے، اسپتال کے پلاسٹک سرجری سمیت کئی شعبے بند پڑے ہیں۔

اسی ضمن میں ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ سندھ حکومت بتدریج عوام کے سرکاری اسپتالوں کو مختلف این جی او کے حوالے کررہی ہے لیکن عوام کو صحت کے حوالے سے خاطر خواہ طبی سہولتیں فراہم نہیں کی جارہی اور عوام کی بڑی تعداد حصول علاج کے لیے نجی اسپتالوں کا رخ کر رہی ہے۔

ڈھائی سال قبل اسپتال کی 571 مستقل اسامیاں بجٹ بک سے ختم، کوئی بھرتی نہ ہوا

اسپتال کے انتظامی ذرائع کا کہا ہے کہ ڈھائی سال قبل جناح اسپتال کی 571 مستقل اسامیوں کو بجٹ بک سے ختم کردیا گیا، یہ اسامیاں ٹیچینگ کیڈر، فیکلٹی، نرسنگ اور دیگر شعبے سے متعلق ہیں، ان اسامیوں کو ختم کرنے کے بعد موجودہ ملازمین کی پروموشن کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں اور سیکڑوں ملازمین ترقی کے منتظر بیٹھے ہیں، نہ ہی ان اسامیوں پر کوئی بھرتی ہوئی ہے۔

اسپتال کو منصوبہ بندی کے تحت پرائیویٹ کرنے کی سازش ہورہی ہے، ملازمین

جناح اسپتال کے ذرائع نے بتایا کہ اس وقت جناح اسپتال میں بستروں کی تعداد 2 ہزار سے زائد ہے جہاں صرف 800 ملازمین کام کررہے ہیں۔ ذرائع نے دعوی کیا کہ اسپتال کو ایک منصوبہ بندی کے تحت پرائیویٹ کرنے کی سازش خاموشی سے کئی سال سے کی جارہی ہے، یہی وجہ ہے کہ جناح اسپتال کی مختلف ٹیچنگ فیکلٹی میں اسامیاں خالی پڑی ہیں، کئی شعبوں کے ایچ او ڈیز نہیں ہیں جبکہ مختلف شعبوں میں طبی عملے کی قلت ہے اور اسپتال انتظامیہ جان بوجھ پر خالی اسامیوں پر بھرتیاں کرنے سے گریزاں ہے۔

اسپتال کی 75 ایکڑ اراضی میں سے 21 ایکڑ پر قبضہ

جناح اسپتال  کی 75 ایکڑ اراضی ہے جس میں سے جناح اسپتال کی رہائشی کالونی کی تقریباً 21 ایکٹر اراضی پر قبضہ ہے اور قابضین اسپتال کی پانی، بجلی اور گیس بلامعاوضہ اسپتال کررہے ہیں۔ اسپتال انتظامیہ نے رہائشی کالونی میں قابضین کو ہٹانے کے لیے متعدد بار آپریشن کیے لیکن اسے ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

اسپتال کے ساتھ جناح سندھ میڈیکل کالج بھی قائم، ہزاروں طلبا زیر تعلیم

جناح اسپتال 1959ء میں جناح سینٹرل اسپتال کے نام سے قائم کیا گیا تھا، بعدازاں اسے اپ گریڈ کر کے پوسٹ گریجویٹ تربیت کا مرکز بنادیا گیا اور اس کے نام میں ترمیم کرکے جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (JPMC) رکھا گیا۔ 1960ء اور 1970ء کے درمیان اسپتال میں مختلف تحقیقی شعبے اور شعبہ طب میں پوسٹ گریجویشن کے کورسز بھی شروع کیے گئے جس میں سرجری میڈیسن، پیڈیاٹرک، گائنی سمیت دیگر تحقیقی شعبے بھی قائم ہیں، جناح اسپتال کے ساتھ اب جناح سندھ میڈیکل کالج ہے جہاں ہزاروں طلباء تعلیم اور تربیت کے ساتھ ساتھ کلینکل ٹریننگ بھی حاصل کرتے ہیں، گریجویشن کے بعد زیادہ تر میڈیکل گریجویٹ جناح اسپتال میں ہی ہاؤس جاب  کرتے ہیں۔

اوپی ڈیز میں یومیہ 5 ہزار مریضوں کی آمد، متعدد شعبے غیر فعال

 جناح اسپتال کی مختلف اوپی ڈیز میں یومیہ 5 ہزار سے زائد مریض معائنے کے لیے رپورٹ ہوتے ہیں جبکہ شعبہ حادثات میں یومیہ 1800 سے 2 ہزار افراد کو علاج کی غرض سے لایا جاتا ہے۔ اس وقت جناح اسپتال کے مختلف شعبے ایچ او ڈیز نہ ہونے کی وجہ سے غیرفعال ہیں، اسپتال میں پلاسٹک سرجری، تھروسسک سرجری سمیت دیگر شعبے عملا بند ہیں۔ جناح اسپتال کے 6 داخلی و خارجی رستے ہیں، اسپتال کی سیکیورٹی کے لیے 79 لاکھ 35 ہزار رقم ادا کرنے کے باوجود اسپتال میں غیر متعلقہ افراد کی رات بھر امدورفت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

اسپتال میں چوری کے واقعات جاری

اسپتال میں مریضوں کے تیمارداروں کے ساتھ موبائل سمیت دیگر سامان کی چوری کے واقعات مسلسل رپورٹ ہوتے ہیں، اس وقت اسپتال میں طبی فضلے کے تلف کرنے والی دو انسیلیٹر مشینے بھی خراب ہیں، اس وقت جناح اسپتال میں بجلی کے بلوں کی مد میں 8 سے 10 کروڑ روپے ماہانہ جبکہ سوئی گیس کی مد میں دھائی سے 3 کروڑ روپے ماہانہ ادا کیے جاتے ہیں۔
 

کون کون سے اسپتالوں کو محکمہ صحت سے علیحدہ کیا گیا؟

صوبائی محکمہ کے ماتحت سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال (ناگن چورنگی) کو 2015ء میں محکمہ صحت سے علیحدہ کرکے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر ایک این جی او کو 10 سال کے لیے دیا تھا جس کی مدت ستمبر 2026ء میں مکمل ہوجائے گی۔ اس اسپتال کا افتتاح 2004ء میں سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو نے کیا تھا۔

2016ء میں اس اسپتال کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت ایک این جی او کو دے دیا گیا، یہ اسپتال بھی 16 ایکڑ اراضی پر واقع ہے، اسپتال میں بچوں کے علاج کے لیے آج بھی بستروں کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا اور آج تک اسپتال میں صرف 50 بستر موجود ہیں۔

اس اسپتال کی عمارت 2013ء میں جاپان کی این جی او JICA نے تعمیر کی تھی، اس وقت اس اسپتال کی کراچی میں بچوں کے علاج کے حوالے سے منفرد حثیت تھی، این جی او کے حوالے کرنے کے باوجود بھی اسپتال میں ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے ملازمین کی جانب سے احتجاج اور 10 ہڑتالیں کی جاچکی ہیں۔

2016ء سے قبل جب یہ اسپتال محکمہ صحت کے ماتحت تھا اس وقت اس کا بجٹ 10 کروڑ روپے سالانہ جاری کیا جاتا تھا اور اسپتال میں رات گئے تک علاج کی سہولت فراہم کی جاتی تھی تاہم اکتوبر 2016ء میں اسپتال کو محکمہ صحت نے این جی او کے حوالے کیا اور ساتھ ہی اسپتال کا بجٹ 10 کروڑ سے اضافہ کرکے 44 کروڑ روپے کردیا ہے، اس کے باوجود اسپتال میں بچوں کے علاج کے لیے بستروں کی تعداد میں کوئی اضافہ کیا گیا اور نہ ہی طبی سہولتوں میں کوئی نئی پیش رفت کی گئی ہے۔

اسی طرح صوبائی محکمہ صحت نے ایک پرائیویٹ کمپنی کو ٹھٹھہ سے کشمور تک کے 1125 بنیادی صحت کے مراکز کو محکمہ صحت سے علیحدہ کرکے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے نام پر دے دیا جس کو حکومت سندھ کی جانب سے 14 ارب سے زائد ون لائن بجٹ براہ راست فراہم کیا جاتا ہے۔

اسی طرح سجاول اور بدین کے سول اسپتال کو بھی محکمہ صحت سے نکال کر پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت دے دیا گیا ہے جبکہ کراچی میں سندھ گورنمنٹ ابراھیم حیدری اسپتال کو بھی محکمہ سے علیحدہ کرکے پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ماتحت کردیا گیا ہے۔ 

این آئی سی وی ڈی کو خودمختار کیے جانے کے بعد اسپتال کی گورننگ باڈی نے سرکاری اسپتال کو صبح 9 بجے سے 2 بجے تک سرکاری اسپتال ظاہر کیا جبکہ اسی اسپتال کی عمارت میں اسی عملے کے ساتھ پرائیویٹ کلینک اور پروسیجر شروع کررکھے ہیں جس کی مد میں مریضوں سے پرائیویٹ اسپتالوں کے مساوی اپریشن چارجز وصول کررہے ہیں جبکہ اسپتال انتظامیہ مریض کے نام سے عطیات بھی وصول کرتی ہے۔ طبی ماہرین نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ جناح اسپتال کو خود مختار کرنے کے بعد گورننگ باڈی بھی اسی طرز پر علاج کرے گی اور مریضوں سے شام کے اوقات میں پیسے وصول کرے گی۔ 

اسی طرح کے ایم سی کے ماتحت چلنے والے کراچی انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ ڈیزیز کو بھی خودمختار بنایا گیا جس کے بعد یہاں کیے جانے والے پروسیجر کے پیسے مریضوں سے وصول کیے جاتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے محکمہ صحت سے علیحدہ ایگزیکٹو ڈائریکٹر اس وقت جناح اسپتال اسپتال کے ملازمین جی او کے حوالے کہ جناح اسپتال کو اسپتال انتظامیہ ملازمین کا کہنا جناح اسپتال کی جناح اسپتال کے سے علیحدہ کرکے سندھ حکومت کے کا کہنا ہے کہ کے حوالے کیا کو محکمہ صحت کہ اسپتال کو گورننگ باڈی نے بتایا کہ کا کہنا تھا ملازمین کی حکومت سندھ اسپتال میں اور اسپتال اسپتال کا کردیا گیا کے باوجود اس اسپتال کروڑ روپے ہے اور اس کی مد میں میں کوئی حوالے سے کے ماتحت ہیں جبکہ نہیں کی کیا گیا کرنے کے دیا گیا جائے گا کرنے کی کے ساتھ علاج کے گیا ہے کے تحت کو خود کرے گی کے لیے کے بعد کے نام

پڑھیں:

تحریک لبیک، زخمی کارکنوں کو اسپتال سے چھٹی پر پکڑنے کا فیصلہ

مظاہرے پر 2716 کارکنان گرفتار،مدارس کیخلاف بھی ایکشن کی تیاری
جیوفینسنگ مکمل، واٹس ایپ گروپس میں شامل افراد کے گرد گھیرا تنگ کردیا

لاہور میں ٹی ایل پی کے مظاہرے میں پُرتشدد کاررائیوں کے الزام میں پولیس نے پنجاب بھر سے اب تک 2716 ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔تفصیلات کے مطابق پنجاب پولیس نے پولیس نے توڑ پھوڑ کرنے والے 2716 پرتشدد مظاہرین کو گرفتار کیا، جس میں سے لاہور سے 251 ، شیخوپورہ سے 178، منڈی بہاؤالدین سے 190 پرتشدد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔اس کے علاوہ راولپنڈی میں 155، فیصل آباد میں 143 ، گوجرانوالہ میں 135، سیالکوٹ میں 128، اٹک میں 121 پرتشدد مظاہرین کو گرفتار کیا گیا۔پولیس کے مطابق ملزمان کے خلاف پنجاب بھر کے تھانوں میں 76 مقدمات درج کئے ہیں، سب سے زیادہ 39 مقدمات لاہور میں درج ہوئے جبکہ شیخوپورہ میں 8 مقدمات درج ہوئے۔پنجاب بھر میں پرتشدد مظاہرین کے حملوں سے 250 پولیس افسران اور اہلکار زخمی جبکہ ایک پولیس انسپکٹر شہید ہوا۔پولیس کے مطابق لاہور میں سب سے زیادہ 142 افسران اور اہلکار زخمی ہوئے جبکہ شیخوپورہ میں 48 پولیس آفسران اور اہلکار زخمی ہوئے۔دوسری جانب مرید کے میں پولیس کریک ڈاؤن کے دوران احتجاج کرنے پر 253 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا ہے جبکہ مزید گرفتاریوں کے لیے جیوفینسنگ مکمل ، کلوزسرکٹ فوٹیجز کا تجزیہ جاری ہے۔پولیس نے اسپتالوں میں زیر علاج زخمی کارکنوں کو ڈسچارج ہونے پر گرفتار کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ املاک کی توڑ پھوڑ اور بلوے میں ملوث افراد کی نشاندہی کے لیے موبائل فرانزک بھی جاری ہے۔رپورٹ کے مطابق پرتشدد احتجاج ، بلوے اور توڑ پھوڑ کرنے والے کارکنوں کے مدارس کی تفصیل بھی اکٹھی کرلی گئی جبکہ اعلی حکام کی ہدایات کے بعد مدارس کے خلاف بھی ایکشن متوقع ہے۔گرفتار ملزمان کے واٹس ایپ گروپس میں شامل افراد کی شناخت کا عمل شروع کردیا گیا ہے جبکہ پرتشدد کارروائیوں پر درج مقدمات میں دہشت گردی ، اقدام قتل ، ڈکیتی ، پولیس مقابلے کی دفعات شامل ہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سندھ حکومت کا دیوالی پر دوروزہ عام تعطیل
  • سندھ حکومت کا کیٹی اور شاہ بندر میں منی فِش ہاربرز قائم کرنے کا فیصلہ
  • سندھ سروس ٹریبونل میں3 ماہ بعد بھی چیئرمین تعینات نہ ہوسکا
  • 5 ماہ سے تنخواہیں بند، سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال نارتھ ناظم آباد کے ملازمین کا احتجاج
  • کراچی: بچوں کا دوسرا بڑا سندھ گورنمنٹ چلڈرن اسپتال ملازمین کو تنخواہیں نہ ملنے پر بند کر دیا گیا
  • ٹنڈوجام،سندھ زرعی یونیورسٹی کے ملازمین تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کررہے ہیں
  •  سندھ حکومت نے 2روزہ تعطیل کا اعلان کر دیا
  • جنوبی وزیرستان: ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر اسپتال وانا کے ملازمین 10 ماہ سے تنخواہوں سے محروم
  • تحریک لبیک، زخمی کارکنوں کو اسپتال سے چھٹی پر پکڑنے کا فیصلہ