پاکستان اور افغانستان میں سیز فائر کا خیرمقدم کرتے ہیں؛ ترکیہ
اشاعت کی تاریخ: 19th, October 2025 GMT
ویب ڈیسک : ترک وزارتِ خارجہ نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیز فائر کا خیر مقدم کرتے ہیں، دونوں ممالک کے درمیان امن و استحکام کے لیے میکنزم قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
ترکیہ کی وزارتِ خارجہ کے جاری بیان کے مطابق ترکیہ دونوں ممالک کے درمیان سیز فائر کی قطر کی کوششوں کو سراہتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان امن و استحکام کے لیے میکنزم قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
خلاء میں بھیجا جانے والا سیٹلائیٹ پاکستان کو ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے تحقیق میں مدگار ثابت ہوگا؛ وزیراعظم
ترک وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا ہے کہ دونوں بردار ممالک ہیں، خطے میں پائیدار امن و استحکام کی کوششوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔
.ذریعہ: City 42
کلیدی لفظ: کے درمیان
پڑھیں:
پاکستان اور ایران مخالف گروہوں کا خطرناک اتحاد
اسلام ٹائمز: وصی بابا نے روسی میڈیا کی رپورٹ شیئر کی ہے، جسکے مطابق: شام سے اس سال 2025ء میں ساڑھے 8 ہزار سے نو ہزار جنگجو افغانستان آئے ہیں۔ افغانستان واپس آنیوالے جنگجو روسی، ازبک، تاجک، چینی اور مقامی افغان ہیں۔ یہ ہزاروں جنگجو گوریلا جنگ کے ماہر ہیں، انہیں افغانستان میں فارغ نہیں بٹھایا جائے گا۔ یہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا پوٹنشل رکھتے ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ افغانستان کو موجودہ رجیم کے حوالے اسی لیے کیا گیا، تاکہ روس سے چین اور پاکستان سے ایران تک ہر ملک متاثر رہے اور یہ گروہ اس خطے کی ناک میں دم کیے رکھیں۔ خطے کے ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کی قیادت اس پوری گیم کو سمجھ رہی ہے۔ تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس
پاکستان اور ایران کے بارڈر جن علاقوں میں باہم ملتے ہیں، وہ دونوں طرف بلوچ آبادی کے علاقے ہیں۔ ایران میں اس علاقے کو سیستان و بلوچستان کہا جاتا ہے اور پاکستان میں بلوچستان کہا جاتا ہے۔ جغرافیائی طور پر وہ علاقہ جہاں پاکستان افغانستان اور ایران کا بارڈر ملتا ہے، اس کی بلوچستان سائیڈ پر بھی بلوچ علاقے ہیں۔ یوں یہ صحرائی اور خشک پہاڑوں سے سے گھرا خطہ ایک نسلی گروہ پر مشتمل ہے، جو تین الگ الگ ممالک میں رہ رہے ہیں۔ سیستان و بلوچستان میں جیش العدل کے نام سے ایک گروہ دہشتگردی کی کارروائیاں کرتا ہے، یہ اگرچہ سیستان کی محرومی وغیرہ کو بھی پروپیگنڈے کے لیے استعمال کرتے ہیں، مگر مذہبی پروپیگنڈا زیادہ کرتے ہیں اور یہ گروہ خود کو سیستان و بلوچستان میں سنی بلوچ اور سنی عوام کے حقوق کا محافظ بتاتا ہے اور اپنی جدوجہد کو اہلِ سنت اور بلوچ قوم کی آزادی و خود مختاری سے جوڑتا ہے۔
پاکستان میں موجود بی ایل اے سیکولر گروہ ہے۔ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں ہے اور یہ لوگ کامریڈ کہلانا پسند کرتے ہیں۔ ان کے ہاں قوم پرستی پر فخر ہے اور اسی پر جنگ و جدال کرتے ہیں اور سکیورٹی اداروں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ یہ تحریک خود کو کرد تحریک سے بھی جوڑتی ہے اور ان کے ہیروز کے نام پر اپنے نام رکھتے ہیں اور کارروائیاں کرتے ہیں۔ اس طرح دونوں ممالک میں دہشتگردی کرنے والے یہ گروہ الگ الگ فکری اور نظریاتی بنیادوں کے حامل ہیں۔ قارئین کرام، نظریاتی اور فکری بنیادوں کا الگ الگ ہونا ہی اس باعث بنا کہ یہ دونوں گروہ پاکستان اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے لگے۔ یہ دہشتگردی کرتے ہیں اور ایران پاکستان کے بارڈر کو کراس کر جاتے ہیں۔ اس آنے جانے کو اپنے تحفظ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
یہ گروہ الگ الگ رہے، مگر حال ہی میں سامنے آنے والی بعض میڈیا رپورٹس نے خطے میں ایک نئی اور نہایت تشویشناک صورتِ حال کی نشاندہی کی ہے۔ اطلاعات کے مطابق، پاکستان اور ایران کے سرحدی علاقوں میں سرگرم تین مختلف مسلح گروہوں بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بی ایل اے، جیش العدل اور انصار الفرقان کے درمیان مبینہ طور پر ایک نئے تعاون یا اشتراکِ عمل کی باتیں گردش کر رہی ہیں۔ بعض رپورٹس یہ بھی دعویٰ کرتی ہیں کہ یہ گروہ ایک مشترکہ پرچم اور باہمی تعاون کے فریم ورک پر متفق ہو رہے ہیں۔ اگرچہ ان دعووں کی آزاد ذرائع سے تصدیق ممکن نہیں، لیکن خطے کی پیچیدہ سیاست میں اس طرح کی خبریں خود ہی بے چینی پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ رپورٹس کا کہنا ہے کہ جیش العدل مبینہ طور پر پاکستان میں سکیورٹی فورسز کے خلاف کارروائیوں میں بی ایل اے کے کچھ دھڑوں کی مدد کرسکتا ہے، جبکہ اس تعاون کے بدلے بی ایل اے ایران کے خلاف سرگرمیوں کے لیے جیش العدل کو جدید آلات یا لوجسٹک سپورٹ فراہم کرے گا۔
اگر یہ اطلاعات درست ہیں تو یقیناً ایران و پاکستان کے لیے یہ ایک سنگین سکیورٹی چیلنج ہوگا۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہوگی، اس کی وجہ یہ ہے کہ افغانستان سے جاتے ہوئے امریکہ نے جان بوجھ کر بڑی مقدار میں جدید ترین ہتھیار دہشتگرد گروہوں کے لیے چھوڑ دیئے۔ یہ ہتھیار افغانستان کی اوپن مارکیٹ میں دستیاب ہیں اور انڈین و دیگر ممالک جن کی یہ گروپ پراکسی ہیں، ان کی مالی مدد سے یہ ہتھیار بی ایل اے کو فراہم کیے گئے ہیں، تاکہ سی پیک کو نقصان پہنچایا جائے اور چائینہ کی ناک میں دم کیا جائے۔ اگر یہ معاہدہ ہوچکا ہے تو اب یہ ہتھیار جیش العدل کو بھی فراہم کر دیئے جائیں گے۔ ان میں رات کو دیکھنے والے آلات سمیت دور تک مار کرنے والے ہتھیار شامل ہیں۔ اسی طرح بی ایل اے کو مذہبی بیانیے کی مدد مل جائے گی اور وہ تمام سپورٹنگ ذرائع بھی دستیاب ہوں گے، جو جیش العدل کو فنڈ کرتے ہیں۔
بین الاقوامی قوتوں کو لگتا ہے کہ جس طرح انہوں نے شام میں دہشتگرد گروہوں کو منظم کیا اور وہاں اپنی من پسند حکومت قائم کر لی ہے، اب یہاں بھی ایسی ہی حکمت عملی اختیار کریں گے اور کامیابی حاصل کر لیں گے۔ وصی بابا نے روسی میڈیا کی رپورٹ شیئر کی ہے، جس کے مطابق: شام سے اس سال 2025ء میں ساڑھے 8 ہزار سے نو ہزار جنگجو افغانستان آئے ہیں۔ افغانستان واپس آنے والے جنگجو روسی، ازبک، تاجک، چینی اور مقامی افغان ہیں۔ یہ ہزاروں جنگجو گوریلا جنگ کے ماہر ہیں، انہیں افغانستان میں فارغ نہیں بٹھایا جائے گا۔ یہ پورے خطے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کا پوٹنشل رکھتے ہیں۔ لگ یہ رہا ہے کہ افغانستان کو موجودہ رجیم کے حوالے اسی لیے کیا گیا، تاکہ روس سے چین اور پاکستان سے ایران تک ہر ملک متاثر رہے اور یہ گروہ اس خطے کی ناک میں دم کیے رکھیں۔
خطے کے ممالک بالخصوص اسلامی جمہوریہ ایران اور پاکستان کی قیادت اس پوری گیم کو سمجھ رہی ہے۔ آپ پچھلے چند ہفتوں کی سفارتی سرگرمیوں کا جائزہ لیں۔اسلامی جمہوریہ ایران کے دو اعلیٰ عہدیداران جن میں مجلس شوریٰ اسلامی ایران کے سپیکر جناب محمد باقر قالیباف اور ایرانی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر علی لاریجانی پاکستان تشریف لائے۔ یہ وقت کا تقاضا اور ضرورت تھی۔پاکستان اور ایران کی سکیورٹی باہم جڑی ہوئی ہے، اس لیے ضروری ہے کہ جب اسلام اور ملک دشمن باہم متحد ہو کر حملہ آور ہوں تو ان کے خلاف متحد ہو کر کارروائی کرنا اور حکمت عملی اختیار کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔