سپارکو کا 2028ء تک چاند پر پاکستانی روبوٹ ’روور‘بھیجنے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 20th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان کے قومی خلائی ادارے سپارکو (SUPARCO) نے اعلان کیا ہے کہ وہ چاند پر ایک روبوٹ روور بھیجنے کے مشن پر عملی طور پر کام شروع کر چکا ہے، جس کے 2028 سے قبل مکمل ہونے کی امید ظاہر کی گئی ہے۔
اس منصوبے سے پاکستان کا نام ان ممالک کی فہرست میں شامل ہو جائے گا جو چاند کی سطح پر اپنا مشن اتارنے میں کامیاب رہے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق سپارکو کے جنرل مینجر ڈاکٹر عدنان اسلم نے تصدیق کی کہ پاکستان نہ صرف چاند پر روبوٹ بھیجنے کی تیاری کر رہا ہے بلکہ مستقبل میں پاکستانی خلا باز کو چاند پر اتارنے کے مشن پر بھی کام جاری ہے، تاہم اس حوالے سے تفصیلات فی الحال ظاہر نہیں کی گئیں۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ سپارکو نے خلائی تحقیق میں بڑا اعلان کیا ہو۔ اس سے قبل فروری 2025 میں ادارے نے اعلان کیا تھا کہ پاکستان کا پہلا چاند کے لیے روور چین کے تعاون سے چینگ ای 8 مشن کے ساتھ بھیجا جائے گا۔ اس مشن کے تحت پاکستان کا 35 کلوگرام وزنی روور چاند کے جنوبی قطب پر اترے گا جہاں وہ سطحی تجزیات اور سائنسی تجربات انجام دے گا۔
چینی مشن کو Wenchang اسپیس سینٹر سے روانہ کیا جائے گا اور اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق ہوا تو پاکستان چاند پر مشن بھیجنے والا دنیا کا چھٹا ملک بن جائے گا۔ سپارکو نے اس مشن کے لیے ملک بھر میں روور کے نام کے انتخاب کا مقابلہ بھی منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے، تاکہ عوامی دلچسپی کو بڑھایا جا سکے۔
یہ مشن پاکستان کی قومی خلائی پالیسی اور وژن 2047 کا اہم سنگِ میل قرار دیا جا رہا ہے۔ سپارکو کے ترجمان کے مطابق چاند مشن کے ساتھ ساتھ پاکستان نے حال ہی میں ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ (HS-1) کو بھی چین کے تعاون سے خلا میں بھیجا، جو ماحولیاتی تبدیلی، قدرتی آفات کی پیش گوئی اور شہری منصوبہ بندی میں انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ترجمان کے مطابق یہ سیٹلائٹ سیلاب، لینڈ سلائیڈز اور زرعی نگرانی جیسے اہم شعبوں میں مدد فراہم کرے گا۔ اس سے قبل پاکستان اپنے دو سیٹلائٹس EO-1 اور KS-1 کامیابی سے خلا میں بھیج چکا ہے، جو اب بھی فعال ہیں۔
پاکستان کا چاند مشن نہ صرف ملکی خلائی تحقیق کے ایک نئے دور کا آغاز ہے بلکہ یہ قوم کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی میں خود انحصاری کی سمت ایک مضبوط قدم بھی ہے، جو مستقبل میں نوجوان نسل کو خلا کے میدان میں آگے بڑھنے کی نئی امید فراہم کرے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان کا اعلان کیا کے مطابق چاند پر جائے گا مشن کے
پڑھیں:
تنخواہ دار اور کارپوریٹ طبقے کیلیے ٹیکس ریلیف تجاویز آئی ایم ایف کو بھیجنے کا فیصلہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: حکومت نے مختلف شعبوں کے لیے تیار کیے گئے ٹیکس ریلیف اقدامات کو انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کے سامنے رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف نے متعلقہ حکام کو ہدایت دی ہے کہ تنخواہ دار طبقے اور کارپوریٹ سیکٹر کے لیے مجوزہ ریلیف کے اہم نکات آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والی بات چیت میں شامل کیے جائیں تاکہ ان پر عملدرآمد کی راہ ہموار ہو سکے۔
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب انکم ٹیکس ریفارمز پینل نے اپنی جامع سفارشات وزیراعظم کے سامنے پیش کیں، جن میں مجموعی طور پر 975 ارب روپے کے ریلیف پیکیج کی تجاویز شامل تھیں۔ پینل نے اس ریلیف کے ذریعے ٹیکس دہندگان خصوصاً تنخواہ دار طبقے کو قابلِ ذکر سہولت دینے پر زور دیا ہے اور ان پر ٹیکس بوجھ میں 25 فیصد کمی کی تجویز دی ہے۔
اجلاس کے دوران سامنے آنے والی سفارشات میں انکم ٹیکس سرچارج کا خاتمہ، غیر ملکی اثاثوں پر عائد کیپٹل ویلیو ٹیکس کی واپسی اور کئی ایسے ٹیکسوں کو ختم کرنے کی تجاویز شامل ہیں جنہیں نجی شعبہ ایک عرصے سے غیر منصفانہ قرار دیتا آیا ہے۔
ذرائع کے حوالے سے رپورٹ میں مزید بتایا گیاہ ے کہ ان تجاویز پر فوری عملدرآمد کی صورت میں 600 ارب روپے سے زائد ریلیف ممکن ہے، تاہم آئی ایم ایف پروگرام کی پابندیوں کے باعث حکومت صرف انہی اقدامات پر آگے بڑھے گی جنہیں فنڈ کی جانب سے منظوری مل سکے۔
حکومتی پالیسی سازوں کا کہنا ہے کہ موجودہ معاشی حالات میں وہی فیصلے قابلِ عمل ہیں جو بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی شرائط سے مطابقت رکھتے ہوں، اس لیے ریلیف کے کسی بھی بڑے پیکیج کو آئی ایم ایف کی منظوری کے بغیر آگے بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔
اس حوالے سے ورکنگ گروپ کے چیئرمین شہزاد سلیم نے اجلاس میں بتایا کہ انکم ٹیکس کے متعدد موجودہ قوانین کاروباری طبقے پر غیرضروری بوجھ ڈالتے ہیں اور ان کا خاتمہ ملکی معیشت کو سانس لینے کا موقع دے سکتا ہے۔
اجلاس میں نجی شعبے کی رائے یہ سامنے آئی کہ سب سے پہلے سپر ٹیکس، منیمم انکم ٹیکس، کارپوریٹ ڈیویڈنڈ ٹیکس، سندھ انفراسٹرکچر سیس، پنجاب سیس، ایکسپورٹرز پر ایڈوانس انکم ٹیکس اور ورکرز ویلفیئر ٹیکس جیسے سنگین مالیاتی بوجھ کو ختم کیا جانا چاہیے۔
تجاویز کے مطابق صرف سپر ٹیکس کے خاتمے سے 190 ارب روپے کا ریلیف ممکن ہے جب کہ کارپوریٹ ٹیکس ریٹ کو 25 فیصد تک لانے سے 170 ارب روپے کی اضافی سہولت مل سکتی ہے۔ اسی طرح تنخواہ دار طبقے کے لیے 120 ارب روپے کے ریلیف کی سفارش بھی کی گئی ہے، جسے کاروباری برادری نے ایک ناگزیر قدم قرار دیا ہے۔
وزیراعظم آفس کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی سربراہی میں ایک اعلیٰ سطحی کمیٹی قائم کردی ہے جو سفارشات کا تفصیلی جائزہ لے کر انہیں قابلِ عمل شکل دینے کے لیے روڈ میپ تیار کرے گی۔ کمیٹی میں شہزاد سلیم اور وزیر مملکت برائے خزانہ بلال کیانی بھی شامل ہوں گے۔
اجلاس میں اس بات پر زور دیا گیا کہ کاروباری طبقہ ایک طویل عرصے سے ٹیکس سسٹم کی پیچیدگیوں کا ہدف بنا ہوا ہے اور ملکی معیشت کی بہتری کے لیے ایسے ٹیکس ختم کرنا ضروری ہیں جو ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ حکومت برآمدات کی بنیاد پر معاشی ترقی کے لیے عملی اقدامات کررہی ہے اور ٹیکس دہندگان کے کاروبار ہی ملک کی ٹیکس آمدن کو بہتر بنانے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔