Express News:
2025-10-21@01:06:24 GMT

آرتھرپاؤل

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

آرتھر پاؤل امریکن تھا‘ اکاؤنٹس‘ بجٹ اور آفس مینجمنٹ کا ایکسپرٹ تھا‘ وہ امریکی سیکریٹری آف اکنامکس کا اسسٹنٹ بھی رہا اور اکنامک وار فیئر کا چیف بھی‘ وہ 1960میں ایشیا فاؤنڈیشن میں شامل ہوا اور افغانستان کے آخری بادشاہ ظاہر شاہ کا اکنامک ایڈوائزر بن گیا‘ ظاہر شاہ نے افغانستان پر چالیس سال (1933سے1973) حکومت کی ‘ وہ 1973 میں آنکھوں کے آپریشن کے لیے روم گیا اور اس کی غیرموجودگی میں اس کے کزن محمد داؤد خان نے اس کا تختہ الٹ دیا جس کے بعد افغانستان میں وہ خونی کھیل شروع ہوا جو آج 52 سال بعد بھی ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا‘ آرتھر پاؤل نے ظاہر شاہ کو آزاد معیشت کا ماڈل بنا کر دیا۔

 اس کے مشورے پر بادشاہ نے خواتین کو حقوق دیے‘ یونیورسٹیاں اور زنانہ کالج بنائے اور معاشرے کو مزید لبرل کیا‘ آرتھر پاؤل کی وجہ سے افغانستان کا تخت روس سے دور اور امریکا کے قریب ہونے لگا‘ یہ دوستی روس کو پسند نہیں آئی چناںچہ اس نے بادشاہ کے کزن داؤد خان سے ساز باز کر کے بادشاہ کا تخت الٹا دیا‘ داؤد خان نے اقتدار پر قبضہ کیا اور افغانستان کا پہلا صدر بن گیا‘اقتدار کی تبدیلی کے بعد کش مکش شروع ہوئی اور یہ 1978 اس وقت تک جاری رہی جب تک سوویت یونین نے عملی طور پر افغانستان میں داخل ہو کر داؤد خان کو قتل نہیں کر دیا‘ یہ بہرحال بعد کی باتیں ہیں‘ آرتھر پاؤل ان حادثوں سے کہیں پہلے کابل آیا اور بادشاہ ظاہر شاہ کا مشیر بن گیا۔

 بادشاہ کی قربت کی وجہ سے اس کی افغان آرکائیو تک رسائی ہو گئی‘ وہ روز کسی نہ کسی تاریخی دستاویز کی تصویر یا فلم بناتا تھا یا اہم معلومات اپنے پاس لکھ لیتا تھا اور پھر خود یا کسی نہ کسی ذریعے سے اسے پاکستان بھجوا دیتا اور یہ کراچی کے راستے پی آئی اے کے ذریعے امریکا پہنچ جاتی تھی‘ وہ روز ڈائری بھی لکھتا تھا جس میں وہ افغانستان کے اپنے سفر‘ قبائل کی عادتوں‘ محل کی اندرونی صورتحال‘ روسیوں کی مداخلت اور افغان معاشرے میں پلنے والی بے چینی کی روداد لکھتا تھا‘ اس نے افغانستان میں رہ کر محسوس کیا افغان معاشرے میں استاد کی بہت عزت ہے‘ افغان سماجی طور پر کٹڑ مذہبی اور تاجر لوگ ہیں‘ یہ سرمائے اور مذہب دونوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلتے ہیں چناں چہ اس کا خیال تھا اگر کسی نے افغانستان کو قابو کرنا ہو تو اس کے پاس تین کارڈز ہونے چاہییں‘ مذہب کا کارڈ‘ اساتذہ کا کارڈ اور دولت کا کارڈ اور پورا افغانستان پکے ہوئے پھل کی طرح اس کی جھولی میں گر جائے گا‘ آرتھر پاؤل پانچ سال افغانستان میں رہا‘ ان برسوں میں اس نے افغانستان کا چپہ چپہ چھان مارا‘ اس نے پوراافغان آرکائیو بھی کاپی کر لیا‘ وہ 1965 میں کابل سے امریکا واپس آ گیالیکن اس وقت تک اس کے پاس افغانستان کی 20 ہزاردستاویز جمع ہو چکی تھیں۔

 یہ افغانوں سے متعلق دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ تھا‘ آرتھر پاؤل نے اس خزانے کی مدد سے1965 میں سی آئی اے کو بتا دیا تھا روسی ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیں گے جس کے بعد افغانستان میں خون کا کھیل شروع ہو جائے گا اور یہ پورے سینٹرل ایشیا کو اپنے نرغے میں لے لے گا‘ اس کا کہنا تھا روس افغانستان کے بعد ایران اور پاکستان کو قابو کرنے کی کوشش کرے گا‘ ایران کے پاس تیل اور گیس کے ذخائر ہیں جب کہ پاکستان کی آرمی اور لوکیشن دونوں آئیڈیل ہیں اگر یہ دونوں ملک روس کے ہاتھ آ گئے تو پھر یہ عربوں کو بھی نگل جائے گا اور یورپ کو بھی تین سائیڈز سے گھیر لے گا جس کے بعد یہ دنیا کی واحد سپر پاور ہو گا‘ اس کا کہنا تھا ہمیں فوراً افغانستان‘ ایران اور پاکستان پر توجہ دینی ہو گی‘خوش قسمتی سے ان تینوں ملکوں کے درمیان شیعہ اور سنی اختلافات موجود ہیں‘ ہمیں اختلافات کی یہ لکیر گہری کرنی ہو گی تاکہ اگر ان ملکوں میں انقلاب بھی آ جائے تو بھی یہ مخالف فرقوں کی وجہ سے ایک دوسرے کے دست وبازو نہ بن سکیں‘ اس کا یہ بھی کہنا تھا ہمیں افغانستان کے اساتذہ کو ہاتھ میں لینا چاہیے‘ یہ مستقبل میں ہمارا بہت بڑا سرمایہ ثابت ہوں گے۔

آرتھر پاؤل 1976 میں فوت ہو گیا لیکن وہ 1970کے شروع میں 20 ہزار کولیکشنز پر مشتمل اپنا سارا خزانہ یونیورسٹی آف نبراسکا کے حوالے کر گیا اور یونیورسٹی نے سی آئی اے کی مدد سے 1972 میں اپنے کیمپس میں ’’سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈیز‘‘ کے نام سے افغانستان پر دنیا کا سب سے بڑا تحقیقی سینٹر بنا دیا‘ یہ سینٹر آج تک قائم ہے اور اس میں افغانستان کی تمام خفیہ اور ظاہری دستاویز محفوظ ہیں‘ ان میں کابل کے 1842 کے دربار‘ لارڈ لائیٹن (Lytton) کی 1879 کی افغان وار‘ لارڈ کرزن کی 1883 کی افغان جنگ میں برٹش سپاہیوں کی قربانیاں‘ 1895 کا کابل دربار‘ پٹھان بارڈر لینڈ‘ 1921 میں چترال سے لے کر ڈیرہ اسماعیل خان تک کے حالات‘ ہرات سے لے کر خیوا‘ خوارم شاہ کا دربار‘ خیوا پر روس کا قبضہ‘ غزنی سے کابل تک کی سیر‘ دوست محمد کا دربار‘ راجہ رنجیت سنگھ کے افغانستان سے متعلق نوٹس اور روس کی خیوا پر 1840 کی مہم تک شامل ہیں۔

 آرتھر پاؤل کی تحقیق اس حد تک سالڈ تھی کہ اس نے 1965 میں لکھ دیا تھا افغان 39 کے ہندسے کو پسند نہیں کرتے‘ ان کے خیال میں یہ ماضی میں طوائفوں کے بیج کا نمبر ہوتا تھا چناں چہ اگربدقسمتی سے آپ کی پراپرٹی یا گاڑی کے نمبر میں 39 آگیا تو پھر یہ افغانستان میں نہیں بکے گی‘ بہرحال قصہ مزید مختصر آرتھر پاؤل کی دستاویز پر مشتمل سینٹر نے آنے والے دنوں میں افغانستان پر امریکی اثرونفوذ میں بڑا ہم کردار ادا کیا‘ آرتھر کی تحقیق کی روشنی میں امریکا کی ہدایت پر ذوالفقار علی بھٹو نے افغانستان کی مختلف یونیورسٹیوں اور تعلیمی اداروں کے 16 اساتذہ کا انتخاب کیا‘ انھیں پاکستان بلایا اورانھیں جہاد کی ٹریننگ دینا شروع کر دی‘آپ کے لیے شاید یہ معلومات انکشاف ہوں افغان جہاد کے بانی جنرل ضیاء الحق کے بجائے ذوالفقار علی بھٹو تھے‘‘ میجر جنرل نصیر اللہ بابر ابتدائی مجاہدین کے ٹرینر تھے۔

 یہ 16 اساتذہ بعدازاں افغانستان میں امریکا کے کمانڈرز ثابت ہوئے اور انھوں نے وہاں ایسی آگ لگائی جو آج تک بجھ نہیں سکی‘ میجر جنرل نصیر اللہ بابر پکے امریکا نواز تھے‘ یہ بھٹو صاحب کے دور میں کے پی میں گورنر اور بے نظیر بھٹو کی پہلی اور دوسری حکومت میں وفاقی وزیر داخلہ رہے‘ بے نظیر بھٹو ان کے بیک گراؤنڈ سے واقف تھیں چناں چہ وہ انتہائی اہم معلومات ان سے خفیہ رکھتی تھیں‘ مجھے جنرل حمید گل مرحوم نے ایک بار بتایا تھا میں وزیراعظم کی گاڑی میں ان کے ساتھ بیٹھا تھا‘ نصیر اللہ بابر اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ تھے‘ میں محترمہ کو افغانستان کے بارے میں کچھ بتانے لگا تو بی بی نے اگلی سیٹ کی طرف اشارہ کر کے مجھے روک دیا‘ میں سمجھ گیا محترمہ اپنے وزیر داخلہ کی وفاداری سے مطمئن نہیں ہیں۔

اس کی تصدیق بعدازاں میجر عامر نے بھی کی‘ یہ ماشاء اللہ حیات ہیں‘ آپ ان سے بھی پوچھ سکتے ہیں‘ بہرحال قصہ مزید مختصر 1978 میں سوویت یونین افغانستان میں داخل ہو گیا‘ امریکی روس سے براہ راست جنگ نہیں چاہتے تھے‘ جنرل ضیاء الحق ذوالفقار علی بھٹو کا تختہ الٹ کر اقتدار پر قابض ہو چکے تھے اور انھیں بھی دوسرے آمروں کی طرح ایک بڑی جنگ چاہیے تھی چناں چہ انھوں نے بھٹو صاحب کے ٹرینڈ شدہ 16 اساتذہ گل بدین حکمت یار‘ برہان الدین ربانی‘ احمد شاہ مسعود‘ عبدالرشید دوستم اور عبدالرسول سیاف کی مدد سے افغان وار شروع کر دی‘ بعدازاں سینیٹر چارلی ولسن کی وجہ سے امریکا اور عرب بھی اس جنگ میں شامل ہو گئے۔

 امریکی آج بھی چارلی ولسن کی وجہ سے افغان جنگ کو چارلی ولسن وار کہتے ہیں‘ وقت نے بہرحال یہ ثابت کر دیا افغان جہاد کوئی اسلامی جہاد نہیں تھا‘ یہ روس اور امریکا کے مفادات کی جنگ تھی جس میں نبراسکا یونیورسٹی کے ’’ سینٹر فار افغانستان اینڈ ریجنل اسٹڈی‘‘ اور آرتھر پاؤل کی دستاویز کے ذریعے اسلام کا بے دریغ استعمال کیا گیا‘ امریکی مفادات کی کاشت کاری میں مصر‘ سعودی عرب اورکینیا کے جذباتی مسلمان نوجوانوں کو بطور کھاد استعمال کیا گیا‘ یہ کھیل سوویت یونین کی واپسی تک جاری رہا‘ روس کی واپسی کے بعد افغانستان کے نام نہاد ’’مجاہدین‘‘ آپس میں لڑ پڑے اور انھوں نے امریکی اسلحہ کی مدد سے اپنے ہی ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دی‘ افغانستان میں اتنا خون بہا کہ اس کے چھینٹے امریکا تک پہنچنے لگے۔

 بے نظیر بھٹو اور جنرل نصیر اللہ بابر کو دوسری بار اقتدار میں لایاگیا اور ان کے ذریعے آرتھر پاؤل کا دوسرا کارڈ کھیلا گیا اور وہ ’’مذہب کا کارڈ‘‘ تھا‘ پاکستانی مدارس میں پڑھنے والے طلباء کو اکٹھا کیا گیا اور انھیں افغانستان میں دھکیل دیا گیا‘ انھیں یہ بتایاگیا تھا امام مہدی کا ظہور قریب ہے‘ یہ خراسان میں تشریف لائیں گے‘ آپ نے ان کی آمد کے لیے فضا ہموار کرنی ہے۔

یہ اسے حکم ربی سمجھ کر چل پڑے‘ افغان وار لارڈز اس وقت تک لڑ لڑ کر تھک چکے تھے‘ طالبان آئے تو یہ چپ چاپ پیچھے ہٹنے لگے اور یوں 1996 تک پورے افغانستان پر طالبان کا قبضہ ہو گیا جس کے بعد امریکا اور پاکستان نے سکھ کا سانس لیا لیکن یہ سکھ بعدازاں عارضی ثابت ہوا‘ طالبان اپنے انقلاب کو واقعی حقیقت سمجھ بیٹھے تھے‘ یہ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے تھے ہمیں قدرت نے پوری دنیا کی قیادت کے لیے منتخب کیا ہے اور یہاں سے نیا تنازع شروع ہو گیا‘ وہ کیا تھا یہ میں اگلے کالم میں عرض کروں گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نصیر اللہ بابر افغانستان میں آرتھر پاؤل کی افغانستان پر نے افغانستان افغانستان کے جس کے بعد کی مدد سے کی وجہ سے ظاہر شاہ سے افغان کا کارڈ گیا اور چناں چہ شروع ہو اور ان اور یہ ہو گیا کے لیے شاہ کا

پڑھیں:

پاک افغان سرحدی تنازعہ اور ڈیورنڈ لائن

پاکستان افغانستان کے سرحدی تنازعے کی کڑیاں قیام پاکستان سے پہلے برطانوی راج تک جاتی ہے۔ صدیوں سے طالع آزما وسطی ایشیا سے افغانستان کے راستے ہندوستان پر حملہ کرتے رہے ہیں اور ہندوستانیوں کی مانگ میں سیندور بھرتے رہے ہیں۔

جب ہندوستان پر برطانوی راج نے قبضہ کر لیا تو برطانیہ کو کمیونزم سے خطرہ لاحق ہوا کہ کہیں یہ پھیلتے پھیلتے ہندوستان تک نہ پہنچ جائے اور ہندوستان کی آزادی کا باعث نہ بن جائے۔ چونکہ یہ خطرہ براستہ افغانستان آسکتا تھا، اس لیے برطانیہ نے افغانستان پر حملہ 1839میں روس کی بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے کیا تھا تاکہ افغانستان میں روسی اثر و رسوخ کو محدود کیا جاسکے۔

یہ حملہ برطانوی سلطنت اور روسی سلطنت کے درمیان وسطی ایشیا پر کنٹرول کے لیے جاری رہنے والی کشمکش کا حصہ تھا، جسے ’’دی گریٹ گیم‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔

اس کے بعد دوسری انگریز افغان جنگ سلطنت برطانیہ اور افغانستان کے مابین 1878 تا 1880 تک لڑی گئی جب مملکت بارکزئی کے حکمران شیر علی خان کی افغانستان میں حکمرانی تھی۔ برطانیہ اور افغانستان میں تیسری جنگ 1919 میں لڑی گئی تھی، جو افغانستان کی مکمل آزادی پر منتج ہوئی۔

اس کالم میں ہم دوسری جنگ کے بعد نومبر 1893 میں دونوں حکومتوں کے مابین ہونے والے معاہدے کو زیر بحث لائیں گے کہ جس کو دنیا ڈیورنڈ لائن یا خط ڈیورنڈ کے نام سے یاد کرتی ہے۔

ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ اس وقت ہوا جب افغانستان کے امیر عبدالرحمن کے بیٹے حبیب اللہ خان نے اسمارکے طہماش خان کی بیٹی کے ساتھ منگنی کر لی اور اس دوران رخصتی کے نام پر امیر عبد الرحمن کے وفاداروں نے جون 1892 میں اسمار کے علاقے پر قبضہ کر لیا۔

تاریخی شواہد کے مطابق اسمار اس وقت باجوڑ ضلع کا علاقہ تھا۔ بعد میں مورٹمیر ڈیورنڈ نے یہ علاقہ افغانستان کے حوالے کر دیا۔

اس طرح افغانستان اور برطانوی ہند کے درمیان معاہدہ ڈیورنڈ پر دستخط کرنے کے لیے راستہ ہموار ہو گیا۔ یوں نومبر 1893میں دونوں حکومتوں کے مابین مستقل معاہدہ ہوا اور سرحد کا تعین کر دیا گیا جو ڈیورنڈ لائن یا خط ڈیورنڈ کے نام سے موسوم ہے۔

اس کے مطابق واخان کافرستان کا کچھ حصہ نورستان، اسمار، موہ مند لال پورہ اور وزیرستان کا کچھ حصہ افغانستان قرار پایا اور استانیہ، چمن، نوچغائی، بقیہ وزیرستان، بلند خیل، کرم، باجوڑ، سوات، بنیر، دیر، چلاس اور چترال پر افغانستان اپنے دعوے سے معاہدے کے مطابق دستبردار ہوگیا۔

14 اگست 1947کو پاکستان ایک طویل آزادی کی جنگ کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا، چونکہ پاکستان کو آزادی برطانیہ سے ملی اس لیے حکومت پاکستان نے خود کو اس معاہدے کا جائز وارث سمجھتے ہوئے اس کو برقرار رکھا جب کہ افغانستان نے 1947میں ہی اس معاہدے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا اور یوں 30 ستمبر 1947کو افغانستان دنیا کا واحد ملک بنا کہ جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔

1947 میں ہی افغان ایلچی نجیب اللہ نے نوزائیدہ مسلمان ریاست پاکستان کو فاٹا سے دستبردار ہونے اور سمندر تک جانے کے لیے ایک ایسی راہداری دینے کا مطالبہ کیا کہ جس پر افغان حکومت کا کنٹرول ہوں بصورت دیگر جنگ کی دھمکی دی۔ قائداعظم نے اس احمقانہ مطالبے کا جواب تک دینا پسند نہیں کیا۔

اس دوران کئی بار دونوں ممالک کے مابین جھڑپیں بھی ہوئی لیکن کوئی حتمی نتیجہ نہیں نکلا کیونکہ افغانستان کا دعویٰ غیر حقیقی اور بین الاقوامی قوانین کے خلاف ہیں۔

اس دوران ایک موقعہ ایسا آیا تھا کہ جب سردار داؤد خان افغانستان کے حکمران تھے اور وہ مذہبی شدت پسندوں کی عسکری کارروائیوں سے تنگ آکر 1976 میں پاکستان کے دورے پر آئے تھے اور بھٹو کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھایا اور ڈیورنڈ لائن کو تسلیم کرنے پر بھی آمادگی ظاہر کر دی تھی لیکن اس معاہدے میں بھٹوکو اپنا کچھ معمولی سیاسی نقصان نظر آیا اور یوں یہ معاہدہ نہ ہو سکا۔

پاکستان دشمن قوتیں افغانستان کو بھڑکانے کی بھرپور کوششیں کر رہی ہیں تاکہ ایک دفعہ پھر ڈیورنڈ لائن کو متنازعہ کیا جاسکے اور ایک متحدہ پختونستان کے لیے کوشش کی جاسکے۔ اسی وجہ سے ایک دفعہ پھر افغانستان اور پاکستان کے درمیان شدید قسم کی جھڑپیں ہو رہی ہیں لیکن اس دفعہ پاکستان نے یہ سخت موقف اختیارکیا ہے کہ افغان سر زمین سے پاکستان کے اندرکسی بھی قسم کی تخریبی کارروائی کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔

ہم نے اس کالم میں اختصار کے ساتھ پاک افغان سرحدی معاملات پر روشنی ڈالی ہے۔ موجودہ حالات میں پاکستان ہندوستان کے کشیدہ تعلقات کی روشنی میں ہندوستان یقیناً اس تنازعے کو ہوا دینا چاہے گا اور وقت ضرورت ہماری مغربی سرحد میں جنگ کی چنگاری بھڑکا کر اس کو اپنے فائدے میں استعمال کرنا چاہے گا۔

ابھی کچھ دن پہلے ماسکو میں ہونے والی کانفرنس میں اس بات کا اعادہ کیا گیا تھا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کی جائے گی کہ جس سے خطے کے امن و امان کا خطرہ لاحق ہوں۔ کانفرنس میں نام تو نہیں لیا گیا تھا مگر اشارہ امریکا کی جانب تھا۔

اس کے بعد افغان عبوری وزیر خارجہ ہندوستان کے دورے پرگئے اور وہاں سے جو اطلاعات آرہی ہے، ان کو صرف اور صرف شرانگیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ہندوستان چاہتا ہے کہ جب بھی وہ کسی جنگی کارروائی کا آغاز کرے تو پاکستان کی فوج کو ایک سے زائد محاذ پر لڑنے پر مجبور کیا جائے تاکہ مطلوبہ نتائج حاصل کیے جاسکے اور اس کے لیے افغانوں سے بہتر احسان فراموش قوم کوئی اور ہو نہیں سکتی۔

کہتے ہیں کہ وقت پڑنے پرگدھے کو بھی باپ بنایا جا سکتا ہے۔ ہندو ویسے بھی گائے کو ماتا مانتے ہیں اور افغانوں کے ذریعے گدھے کو باپ بنا کر انھوں نے جوڑی مکمل کر دی ہے۔

پاکستانی فوج اچھا کر رہی ہے کہ ایک دفعہ ہی افغانوں کو سبق سکھا دے تاکہ مستقبل میں ان کو کسی کارروائی کی ہمت نہ ہوں۔ ہندوستان بہت کائیاں ہے اور ہمیں بہت چوکنا رہنے کی ضرورت ہے تاکہ ان کی کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا منہ توڑ جواب دیا جاسکے۔

اس وقت افغانستان بار بار جنگ بندی کی درخواست کر رہا ہے، اگر ہو سکے تو اس موقع سے فائدہ اٹھا کر ہمیں ڈیورنڈ لائن کا مسئلہ بھی مستقل طور پر حل کر لینا چاہیے۔

متعلقہ مضامین

  • افغانستان میں دہشت گردوں کا خاتمہ ضروری
  • پاکستان اور افغانستان جنگ بندی پر متفق
  • پاک افغان جنگ: غار ت گر کاشانہ دین نبوی
  • جسارت کا 17؍ اکتوبر 2025 کا اداریہ
  • افغانستان کا پاکستان مخالف کردار
  • پاک، افغان تنازع
  • پاک افغان سرحدی تنازعہ اور ڈیورنڈ لائن
  • پاکستان اور افغانستان کے وفود مذاکرات کے لیے دوحہ میں
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان امن مذاکرات آج دوحہ میں ہوں گے