افغان طالبان یورپ میں جعلی دھمکی آمیز خطوط فروخت کرنے لگے
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کی رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ افغان طالبان کے نام پر جعلی دھمکی آمیز خطوط یورپ میں 40 پاؤنڈ میں فروخت کیے جا رہے ہیں، جنہیں افغان شہری مغربی ممالک میں پناہ (Asylum) حاصل کرنے کے لیے بطور ثبوت استعمال کر رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق کچھ بدعنوان افغان حکام پیسوں کے عوض ایسے جعلی خطوط جاری کرتے ہیں جن پر طالبان حکام کے دستخط اور مہر بھی موجود ہوتی ہے۔ یہ خطوط پناہ گزین اپنی درخواستوں کے ساتھ جمع کرواتے ہیں تاکہ یہ ظاہر کرسکیں کہ افغانستان میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔
دی ٹیلی گراف کے رپورٹر نے اسٹنگ آپریشن کے دوران 40 پاؤنڈ (تقریباً ساڑھے 3 ہزار افغانی) میں ایسے خطوط حاصل کیے، جن میں طالبان کی جانب سے "موت کی دھمکیاں" درج تھیں۔ ان میں لکھا ہوتا تھا کہ متعلقہ شخص نے برطانوی حکومت کے ساتھ تعاون کیا ہے، اس لیے اسے سزا دی جائے گی۔ کچھ خطوط میں یہ بھی دعویٰ کیا گیا کہ طالبان ان کی سوشل میڈیا سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان جعلی خطوط میں اکثر اس ملک کا نام بھی درج ہوتا ہے جس میں پناہ کی درخواست دی گئی ہوتی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 200 پاؤنڈ (تقریباً ساڑھے 17 ہزار افغانی) کے "پریمیئم" خطوط بھی دستیاب ہیں جن میں طالبان کی مہر اور دستخط شامل ہوتے ہیں اور ان کے منظور ہونے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس جعلسازی کی وجہ سے حقیقی افغان پناہ گزینوں کے کیسز متاثر ہو رہے ہیں۔ 2022 میں ایک لاکھ سے زائد افغان شہریوں نے برطانیہ میں پناہ کے لیے درخواست دی تھی، جن میں سے کئی کے دعوے مشکوک قرار دیے گئے۔
طالبان کے ایک اہلکار نے دی ٹیلی گراف کو بتایا کہ کچھ مقامی طالبان ایسے جعلی خطوط خود تیار کر رہے ہیں جو غیر قانونی ہے، اور اگر وہ پکڑے گئے تو انہیں سخت سزا کا سامنا ہوگا۔
دوسری جانب، یورپی یونین نے حال ہی میں افغان شہریوں کو واپس بھیجنے کے لیے طالبان حکومت سے رابطے شروع کیے ہیں۔ بیس یورپی ممالک نے یورپی کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان سے براہ راست بات چیت کی جائے تاکہ ان پناہ گزینوں کو واپس بھیجا جا سکے جن کی اسائلم درخواستیں مسترد ہوچکی ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: رہے ہیں
پڑھیں:
چین کو ٹرمپ کی نئی دھمکی، نومبر سے 155 فیصد ٹیرف عائد کرنے کی تیاری
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک بار پھر چین کو سخت وارننگ دیتے ہوئے کہا ہے کہ اگر چینی صدر شی جن پنگ نے امریکہ کے ساتھ ”منصفانہ تجارتی معاہدے“ پر دستخط نہ کیے تو یکم نومبر سے چینی مصنوعات پر 155 فیصد تک ٹیکس (ٹیرف) عائد کیا جا سکتا ہے۔ اس اعلان کے بعد دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی کشیدگی دوبارہ بڑھنے لگی ہے۔
ٹرمپ نے یہ بات آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البانیز کے ساتھ وائٹ ہاؤس میں ملاقات کے دوران کہی، جہاں دونوں ممالک نے معدنیات کے شعبے میں ایک اہم معاہدے پر دستخط کیے تاکہ امریکا اپنی سپلائی لائن کو مضبوط بنائے اور چین پر انحصار کم کیا جا سکے۔
ٹرمپ نے کہا کہ ”چین ہمارے ساتھ کافی احترام سے پیش آرہا ہے۔ وہ پہلے ہی ہمیں ٹیرف کی مد میں 55 فیصد کی شرح سے بھاری رقم ادا کر رہا ہے، اور اگر ہم معاہدہ نہ کر سکے تو یہ شرح یکم نومبر سے 155 فیصد تک بڑھ سکتی ہے۔“
انہوں نے کہا کہ امریکا نے اب کئی ایسے ممالک کے ساتھ نئے معاہدے کیے ہیں جو ماضی میں واشنگٹن کا فائدہ اٹھاتے تھے، مگر اب ایسا ممکن نہیں۔ ٹرمپ کے مطابق، ”ہم جلد ہی صدر شی کے ساتھ ایک منصفانہ تجارتی معاہدہ طے کر لیں گے، جو دونوں ممالک کے لیے شاندار ہوگا۔“
ٹرمپ نے ایک بار پھر واضح کیا کہ ان کی حکومت کسی بھی ملک کو امریکا کے ساتھ غیرمنصفانہ تجارتی رویہ اپنانے کی اجازت نہیں دے گی۔ انہوں نے کہا کہ ”بہت سے ممالک نے ماضی میں امریکہ کا استحصال کیا، مگر اب وہ ایسا نہیں کر سکتے“۔
یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب چین نے ستمبر میں امریکا سے سویا بین کی ایک بھی کھیپ درآمد نہیں کی ہے، نومبر 2018 کے بعد پہلی بار ایسا ہوا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چینی خریدار اب جنوبی امریکا کی طرف رخ کر رہے ہیں، جس سے دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تناؤ مزید بڑھ گیا ہے۔
ٹرمپ پہلے ہی اعلان کر چکے ہیں کہ وہ یکم نومبر سے چینی مصنوعات پر 100 فیصد نئے ٹیرف لگائیں گے اور تمام ”اہم سافٹ ویئر“ کی برآمدات پر بھی نئی پابندیاں عائد کریں گے۔ یہ نئے ٹیرف پہلے سے موجود 55 فیصد ٹیکس کے علاوہ ہوں گے۔
اتوار کے روز ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کے اور صدر شی کے تعلقات اچھے ہیں۔ ”ہمارے درمیان کچھ اختلافات ضرور ہیں، مگر چین ہمیں ٹیرف کی مد میں بہت زیادہ رقم دے رہا ہے۔ وہ شاید اسے کم کرنا چاہیں گے، اور ہم اس پر بات کریں گے، لیکن انہیں بھی ہمیں کچھ دینا ہوگا۔ اب یکطرفہ فائدے کا زمانہ ختم ہو گیا ہے“َ
انہوں نے تصدیق کی کہ وہ جلد جنوبی کوریا میں صدر شی جن پنگ سے ملاقات کریں گے۔ ٹرمپ نے کہا کہ ”مجھے یقین ہے ہماری ملاقات کے بعد چین اور امریکا کے درمیان ایک منصفانہ اور شاندار تجارتی معاہدہ طے پائے گا، جو دونوں ممالک اور پوری دنیا کے لیے فائدہ مند ہوگا“۔
ادھر امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے تصدیق کی ہے کہ امریکی اور چینی حکام اس ہفتے ملائیشیا میں مذاکرات کریں گے۔ رپورٹس کے مطابق ٹرمپ نے عارضی طور پر شی جن پنگ سے اپنی ملاقات منسوخ کرنے پر غور کیا تھا، مگر بعد میں فیصلہ بدلا۔
سیاسی مبصرین کے مطابق، ٹرمپ کا تازہ بیان ایک طرف چین پر دباؤ بڑھانے کی حکمتِ عملی ہے، تو دوسری جانب یہ ان کی انتخابی مہم کا حصہ بھی ہو سکتا ہے، جس میں وہ امریکا کو ”مضبوط اقتصادی قوت“ کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔