Express News:
2025-10-21@09:51:02 GMT

خیبرپختونخواہ سے ایک اور پولیو کیس کی تصدیق

اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT

خیبرپختونخواہ کے ضلع تور غر سے پولیو کا نیا کیس رپورٹ ہوا ہے۔

تفصیلات کے مطابق نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں قائم ریجنل ریفرنس لیبارٹری برائے انسداد پولیو نے خیبر پختونخوا میں پولیو کے ایک نئے کیس کی تصدیق کی ھے جسکے بعد صوبے میں اس سال پولیو کیسز کی تعداد 19 ھو گئی ہے۔

ضلع تورغر  کی یونین کونسل گھڑی میں 12 ماہ کی عمر کے ایک بچے میں پولیو وائرس کی تصدیق ھوئی ھے۔ مزی کیسز ضلع لکی مروت، ٹانک اور شمالی وزیرستان سے چار چار، ضلع بنوں سے تین، تورغر سے دو جبکہ ضلع ڈیرہ اسماعیل خان اور کوہستان لوئر سے ایک ،ایک رپورٹ ہوا ہے۔

اس سال ملک بھر میں پولیو کیسز کی مجموعی تعداد اب 30 ھو گئی جن میں خیبر پختونخوا سے 19, سندھ سے 9 جبکہ پنجاب اور گلگت بلتستان سے ایک، ایک پولیو کیس رپورٹ ھوا.

 نیشل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ نے ضلع تور غر کے کی یونین کونسل گڑی سے حالیہ متاثرہ بچے میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی۔

پشاور: ضلع تور غر سے اس سال کا پولیو کا یہ پہلا کیس رپورٹ ہوا ہے ،ایمرجنسی آپریشن سینٹر 

خیبرپختونخوا میں پولیو کے  ایک نئے کیس کی تصدیق٫ صوبے میں اس سال پولیو کیسز کی تعداد 19 ھو گئی 
 
اس کیس کی تصدیق نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد میں قائم ریجنل ریفرنس لیبارٹری برائے انسداد پولیو نے خیبر پختونخوا میں کی۔ یونین کونسل گھڑی میں متاثر ہونے والی بچی 12 ماہ کی عمر کی ہے۔

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کیس کی تصدیق میں پولیو پولیو کیس پولیو کی اس سال

پڑھیں:

پولیو کے شکار مسعود خان کی بیماریوں کے خلاف ویکسین سے جنگ

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 21 اکتوبر 2025ء) 'میں پولیو کی وجہ سے چل پھر نہیں سکتا تھا۔ سکول میں جب دوسرے بچے کھیلتے تو میں انہیں دیکھ کر اداس اور مایوس ہو جاتا تھا۔ اسی لیے میں نے ویکسینیٹر کا کورس کیا تاکہ دوسرے بچوں کو پولیو جیسی مفلوج کر دینے والی بیماری سے بچا سکوں۔'

مسعود صوبہ خیبرپختونخوا میں پشاور کے علاقے گڑھی عطا محمد کی سول ڈسپنسری میں گزشتہ دس برس سے ویکسینیٹر کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں جہاں وہ بچوں کو معمول کے حفاظتی ٹیکے لگانے کے ساتھ پولیو کے قطرے بھی پلاتے ہیں۔

اوائل عمری میں پولیو کا شکار ہونے کے باعث ان کا بچپن معذوری میں گزارا۔ اس بیماری کے نتیجے میں تکلیف دہ تجربات نے انہیں دوسرے بچوں کو پولیو سے بچانے کا عہد کرنے کی تحریک دی۔

(جاری ہے)

وہ حفاظتی ٹیکے لگانے والے ان 14 ہزار سے زیادہ طبی کارکنوں میں سے ایک ہیں جنہیں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) پاکستان میں حفاظتی ٹیکہ جات کے توسیعی پروگرام (ای پی آئی) کے تحت معاونت فراہم کر رہا ہے۔

© WHO عزیز اور دوست

ویکسینیٹر کے طور پر مسعود کا کام پشاور میں پولیو کے خاتمے کی قومی مہم کا اہم جزو ہے۔

پشاور وہ علاقہ ہے جہاں پولیو وائرس اب بھی موجود ہے اور یہاں سے یہ دوسرے علاقوں تک بھی پھیل سکتا ہے۔ مسعود کا کردار ان چار لاکھ سے زیادہ رضاکار طبی کارکنوں کے کام کو تقویت دیتا ہے جو سال میں کئی مرتبہ گھر گھر جا کر تقریباً ساڑھے چار کروڑ بچوں کو فالج کا باعث بننے والے پولیو وائرس سے بچاؤ کے قطرے پلاتے ہیں۔

مسعود کے اہلخانہ اور دوست ہمیشہ ان کا مضبوط سہارا رہے ہیں۔

ان کی مدد سے وہ پشاور کی تنگ گلیوں سے گزرتے ہوئے اپنی روزمرہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔ چونکہ وہ طویل فاصلہ پیدل طے نہیں کر سکتے اس لیے وہ ایک مقررہ 'ای پی آئی' مرکز پر کام کرتے ہیں۔ ان کا ایک دوست روزانہ موٹر سائیکل پر انہیں ڈسپنسری لے جاتا ہے اور شام کو واپس گھر چھوڑ دیتا ہے۔

مسعود ان لوگوں کے شکرگزار ہیں جو اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے کے لیے لاتے ہیں اور ان کے ساتھ تعاون کرتے ہیں۔

وہ اپنے اہل خانہ کے بھی ممنون ہوں جنہوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا اور ان کا حوصلہ بڑھایا۔ Photo Courtesy: Pakistan Polio Eradication programme ویکسین کی اہمیت مسلمہ

مسعود سول ڈسپنسری میں ہر سال تقریباً تین ہزار بچوں کو ویکسین دیتے ہیں۔

مگر ان کا کردار صرف ٹیکہ لگانے تک محدود نہیں۔ وہ بچوں کو حفاظتی ٹیکے لگانے کے ایک مؤثر حمایتی کا کردار بھی ادا کرتے ہیں۔ جب والدین اپنے بچوں کو ویکسین لگوانے میں ہچکچاہٹ یا انکار کا اظہار کرتے ہیں تو مسعود ایک طبی کارکن کے طور پر نہیں بلکہ ایک ایسے شخص کے طور پر سامنے آتے ہیں جو خود ایک قابل تدارک مگر عمر بھر کی بیماری جھیل رہا ہے۔

وہ والدین کو تلقین کرتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں کو لازمی طور پر اور بروقت ویکسین لگوانی چاہئیں تاکہ وہ پولیو سمیت دیگر بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ بہت سی بیماریاں ایسی ہیں جنہیں ویکسین کے ذریعے تو روکا جا سکتا ہے مگر ان کا کوئی اور علاج نہیں ہے اور یہ عمر بھر کی معذوری یا موت کا باعث بن سکتی ہیں۔

مسعود والدین کو اپنی مثال دیتا ہوئے کہتے ہیں کہ وہ انہیں دیکھیں اور ان کا درد محسوس کریں۔ اگر وہ اپنے بچوں کو ویکسین نہیں لگوائیں گے تو ان کے ساتھ بھی یہی مسئلہ ہو سکتا ہے جو ان کی زندگی کو ادھورا کر دے گا۔

مسعود کی کہانی پہلے یہاں انگلش میں شائع ہوئی۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں پولیو کا ایک اور کیس رپورٹ، رواں سال تعداد 30 ہوگئی
  • پولیو کے شکار مسعود خان کی بیماریوں کے خلاف ویکسین سے جنگ
  • میرپور خاص میں ایچ آئی وی میں مبتلا مریضوں کی تعداد میں اضافہ
  • نوابشاہ میں ایچ آئی وی کے 100 سے زائد کیسز رپورٹ
  • پاکستان اور افغانستان کے درمیان جنگ بندی پر اتفاق، خواجہ آصف کی تصدیق
  • افغان کرکٹرز کی ہلاکتوں کا دعویٰ مسترد‘ آئی سی سی نے بغیر تصدیق بیان دیا: پاکستان
  • پنجاب حکومت نے گندم کی سپلائی بند کردی جس سے خیبرپختونخواہ میں آٹا 300 روپے تک مہنگا ہوگیا
  • راولپنڈی میں ڈینگی کے حملے جاری؛ 24 گھنٹوں میں 23 نئے کیسز رپورٹ
  • 24 گھنٹوں میں راولپنڈی میں ڈینگی کے تابڑتوڑ حملے، 23 نئے کیسز رپورٹ