سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت: ٹیکس پیئرز کے وکیل کے دلائل مکمل
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، ٹیکس پیئرز کے وکیل عدنان حیدر نے دلائل مکمل کے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ 31 دسمبر 2021 کے اختتامی سال پر 2022 ٹیکس کا قانون لاگو ہوگا، آپ کا منافع فنانشل اسٹیٹمنٹ سے نکالا جائے گا۔
عدالت نے ایف بی آر حکام کو روسٹرم پر بلا لیا، عدالت نے ایف بی آر حکام سے استفسار
کیا کہ ٹیکس 18 ماہ کی اسٹیٹمنٹ پر لگے گا یا 12 ماہ پر؟ ایف بی آر حکام نے جواب دیا کہ اسپیشل ہو یا ریگولر ٹیکس 12 ماہ پر ہی لگتا ہے۔
وکیل عدنان حیدر نے مؤقف اپنایا کہ مجھ پر دسمبر 2021 کی اختتامی اسٹیٹمنٹ پر 2022 کا قانون لاگو ہوگا، ایف بی آر مجھ سے 2023 کے قانون کے مطابق ٹیکس لے رہا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آپ خود اپنے موقف کو تبدیل کر رہے ہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آپ واضح نہیں کر پا رہے کہ کیسے ٹیکس لگ رہا ہے، وکیل عدنان حیدر نے استدلال کیا کہ ایف بی آر استثنیٰ کی بات آئے تو نہیں دیتا، ٹیکس لینے کی بات آئے تو فوراً لے لیتا ہے، ہمارا موقف ہے کہ اگر چارج لگانا ہو تو اسی سال کا لگایا جائے اور استثنیٰ بھی دیا جائے، سب کیسز کا فیصلہ اس بینچ نے ہی کرنا ہے تو ٹربیونل کے کیسز بھی یہ سن لے۔
جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ آئینی بینچ نے ٹیکس سے متعلق تشریح کے کیسز سننے ہیں، یہ بینچ 191 اے کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا۔
عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: جسٹس محمد علی مظہر نے ایف بی آر
پڑھیں:
سینیٹ نے 4 فیصد کہا، قومی اسمبلی نے 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا،وکیل
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد(آن لائن)عدالت عظمیٰ آئینی بنچ نے سپر ٹیکس کیس کی سماعت آج منگل تک کے لیے ملتوی کردی۔ کمپنیوں کے وکیل نے اپنے دلائل دیے جب کہ سینیٹ کی تجاویز اور قومی اسمبلی کے اختیارات پر بحث بھی ہوئی۔پیرکوجسٹس امین الدین خان کی سربراہی میںعدالت عظمیٰ کے 5 رکنی آئینی بینچ نے سپر ٹیکس سے متعلق مختلف درخواستوں پر سماعت کی، جس میں مختلف ٹیکس دہندہ کمپنیوں کے وکیل عابد شعبان نے اپنے دلائل مکمل کیے۔ وکیل عابد شعبان نے مو¿قف اپنایا کہ سینیٹ ترمیم کے لیے تجاویز دیتا ہے، ترامیم کرنا پارلیمنٹ کا کام ہے۔ سینیٹ نے 4 فیصد ٹیکس کی تجویز دی تھی جب کہ قومی اسمبلی نے 10 فیصد ٹیکس عائد کر دیا۔ اس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ قومی اسمبلی کو اختیار حاصل ہے کہ وہ تجاویز شامل کرے یا نہ کرے۔عابد شعبان کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نعمان حیدر نے اپنے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ان کے موکل انٹرنیٹ سروس مہیا کرتے ہیں اور وہ کوشش کریں گے کہ وہ دلائل دہرانے سے گریز کریں۔نعمان حیدر نے عدالت کو بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے فوجی فرٹیلائزر کیس میں کہا تھا کہ پاکستانی انڈسٹریز تباہ ہو رہی ہیں۔ وکیلوں کی فیس سے ایڈوانس ٹیکس کٹتا ہے اور پھر سپر ٹیکس بھی دینا پڑتا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے پوچھا کہ کیا سپر ٹیکس اپنی انکم سے دینا ہوتا ہے؟ جس پر عدالت کو آگاہ کیا گیا کہ انکم ٹیکس سمیت تمام کٹوتیاں ہو چکی ہوتی ہیں، اس کے بعد سپر ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے۔جسٹس مظہر نے استفسار کیا کہ آیا ان کے موکل نے فیس پوری ادا کی ہے؟ اگر ٹیکس والے فیس میں سے ٹیکس مانگ رہے ہیں تو کیا وہ غلط کر رہے ہیں؟ جس پر وکیل نے جواب دیا کہ نہیں، ٹیکس والے غلط نہیں کر رہے۔نعمان حیدر نے مزید دلائل میں بتایا کہ بھارت میں 1961 کا ٹیکس قانون اپنایا جا رہا تھا لیکن اب انہوں نے پاکستان کا موجودہ ماڈل اپنا لیا ہے۔ بھارت میں ٹیکس ایئر یکم اپریل سے شروع ہوتا ہے۔ عدالت نے کیس کی مزید سماعت آج منگل صبح ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کر دی، جس میں ٹیلی کام کمپنیز کے وکیل نعمان حیدر اپنے دلائل جاری رکھیں گے۔