معروف عالمِ دین اور سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل مولانا محمد خان شیرانی نے 92 سال کی عمر میں دوسری شادی کرلی۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق مولانا محمد خان شیرانی کا نکاح گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی خاتون سے انجام پایا، جس کی سادہ تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔

????????????????????
مولانا محمد خان شیرانی نے 92 سال کی عمر میں نکاح کر لیا۔مولانا محمد خان شیرانی سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل بھی تھے،مولانا نے نکاح گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی خاتون کے ساتھ کیا،شادی کی سادہ تقریب اسلام آباد میں منعقد ہوئی۔علماء و معزز شخصیات کی جانب سے مولانا… pic.

twitter.com/8gsIirwng3

— Sheraz Ahmad Sherazi (@Sherazi_Silmian) October 21, 2025

اس موقع پر علما کرام اور مختلف شخصیات نے مولانا شیرانی کو شادی کی دلی مبارکباد پیش کی ہے۔

مولانا شیرانی نے اپنے نکاح کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان کی دوسری شادی ہے کیونکہ پہلی اہلیہ کا انتقال ہوچکا ہے۔

یاد رہے کہ مولانا محمد خان شیرانی اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کے طور پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسلام اباد دوسری شادی گلگت بلتستان مولانا محمد خان شیرانی نکاح وی نیوز

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: اسلام اباد گلگت بلتستان مولانا محمد خان شیرانی نکاح وی نیوز مولانا محمد خان شیرانی

پڑھیں:

مزاحمت کی تھیوری سوچ سے میدان تک

اسلام ٹائمز: یکم نومبر 2018ء کو رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء کے ایک گروپ سے ملاقات میں فرمایا: "طاقتور دشمن کے خلاف مزاحمت کے نظریہ کو فروغ دینا اور فروغ دینا۔۔۔۔ نظریہ مزاحمت ایک اصل اور درست نظریہ ہے "نظریہ اور عملی طور پر" نظریاتی اور عملی طور پر۔۔۔ دونوں طرف سے۔۔۔ اسے [ترقی یافتہ] ہونا چاہیئے۔" بہت سے اتار چڑھاؤ کے باوجود میدان میں حاضر جوان اپنے فرائض اور ذمہ داریاں بخوبی نبھاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے فکر، رائے اور علم کی جہت کو ابھی تک اس کے صحیح اور درست آدمی نہیں ملے! اس کی اہمیت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا، جیسا کہ فکر و نظر کے مالکوں کے لیے ہونا چاہیئے۔ نہ تو مدارس میں اور نہ ہی ملک کی جامعات میں نظریہ مزاحمت کی مختلف جہتوں کو سمجھانے اور درک کرنے کی کوئی سنجیدہ اور قابل ذکر کوشش کی گئی ہے۔ تحریر: احمد حسین شریفی

خدا تعالیٰ کے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے لیے جو اہم ترین احکام ہیں، ان میں سے ایک مزاحمت اور ثابت قدمی کا حکم ہے۔ "فَاسْتَقِمْ‏ كَما أُمِرْتَ"، ’’لہٰذا جس طرح آپ کو حکم دیا ہے، اس پر قائم رہو۔‘‘ مزید برآں، خداوند عالم تمام انبیاء و تابعین کو یہی حکم دیتا ہے۔"وَ مَنْ تابَ مَعَك‏" مزاحمت کا قرآنی دستور محض ایک مذہبی حکم اور اصول کا اظہار نہیں ہے، بلکہ یہ مزاحمت کے معروضی اور بیرونی افعال اور فوائد کا بھی اظہار کرتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں مزاحمت کا قرآنی اسلوب  امید اور خوشخبری کا اسلوب ہے۔ یہ عزت اور وقار کا دستور ہے۔ یہ خوشی اور زندگی کا انداز ہے۔ یہ خوف اور خوف کو ختم کرنے کا سلیقہ ہے۔ اگر کسی قوم پر خوف اور اندیشہ غالب آئے تو وہ یقیناً برباد ہو جائے گی۔ یہ مزاحمت کا پھل ہے، جو ان دو بیماریوں کا علاج کرتا ہے: "بے شک جو لوگ کہتے ہیں کہ ہمارا رب اللہ ہے اور پھر استقامت دکھائی تو ان پر فرشتے نازل ہوں گے۔ نہ ڈرو اور نہ غمگین ہو اور اس جنت کی بشارت دو جس کا تم سے وعدہ کیا گیا ہے۔" (فصلت 30)

قرآن کریم کہتا ہے، مزاحمت مومنین کی جماعت کے خلاف دشمنوں کے منصوبوں کو ناکام بنا دے گی۔ صبر و استقامت کے سائے میں دشمنوں کی چالیں اور سازشیں بے اثر ہو جاتی ہیں: "إِنَّ الَّذينَ قالوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ استَقاموا تَتَنَزَّلُ عَلَيهِمُ المَلائِكَةُ أَلّا تَخافوا وَلا تَحزَنوا وَأَبشِروا بِالجَنَّةِ الَّتي كُنتُم توعَدونَ"، "اور اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تو ان (خیانت) کی تدبیریں تمہیں کچھ نقصان نہیں پہنچائیں گی۔ بے شک اللہ ان کے کاموں کو گھیرے ہوئے ہے۔" "وَإِن تَصبِروا وَتَتَّقوا لا يَضُرُّكُم كَيدُهُم شَيئًا إِنَّ اللَّهَ بِما يَعمَلونَ مُحيطٌ۔" (آل عمران، 120) انقلاب اسلامی کے دوران ایرانیوں کا 47 سالہ تجربہ بتاتا ہے کہ مختلف سائنسی، صنعتی، تکنیکی، اقتصادی، سیاسی، دفاعی، عسکری اور اسی طرح کے دیگر شعبوں میں تمام فتوحات اور پیشرفتیں صرف اور صرف مزاحمت کے سائے میں اور دشمنوں کے مطالبات کے خلاف ثابت قدم رہنے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہیں۔

ایک ہی وقت میں مزاحمت اور استحکام دونوں ایک عملی، میدانی اور ہارڈ ویئر کی جہت کے ساتھ ساتھ سائنسی، نظریاتی اور سافٹ ویئر کی جہت بھی رکھتی ہیں۔ یکم نومبر 2018ء کو رہبر معظم انقلاب اسلامی نے طلباء کے ایک گروپ سے ملاقات میں فرمایا: "طاقتور دشمن کے خلاف مزاحمت کے نظریہ کو فروغ دینا اور فروغ دینا۔۔۔۔ نظریہ مزاحمت ایک اصل اور درست نظریہ ہے "نظریہ اور عملی طور پر" نظریاتی اور عملی طور پر۔۔۔ دونوں طرف سے۔۔۔ اسے [ترقی یافتہ] ہونا چاہیئے۔" بہت سے اتار چڑھاؤ کے باوجود میدان میں حاضر جوان اپنے فرائض اور ذمہ داریاں بخوبی نبھاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے فکر، رائے اور علم کی جہت کو ابھی تک اس کے صحیح اور درست آدمی نہیں ملے! اس کی اہمیت کو ابھی تک تسلیم نہیں کیا گیا، جیسا کہ فکر و نظر کے مالکوں کے لیے ہونا چاہیئے!

نہ تو مدارس میں اور نہ ہی ملک کی جامعات میں نظریہ مزاحمت کی مختلف جہتوں کو سمجھانے اور درک کرنے کی کوئی سنجیدہ اور قابل ذکر کوشش کی گئی ہے۔ "مزاحمت کا فقہ"، "مزاحمت کا فلسفہ"، "مزاحمت کی اخلاقیات"، "مزاحمت کی سماجیات"، "مزاحمت کی نفسیات"، "مزاحمت کا ادب اور ثقافت" جیسے موضوعات اب بھی نئے موضوعات ہیں اور یہ سب مزاحمت کے عالمی محاذ کی سنجیدہ ضرورتیں ہیں۔ کاش ملک کے بڑے بڑے فقہاء اور مدارس کے علماء اور فلاسفر اور ہیومینٹیز کے اسکالرز اس میدان میں اپنی علمی اور نظریاتی ذمہ داری کو بخوبی سمجھیں اور عمل کریں۔ فقہ، طہارت و نجاست، روزے اور نماز کی فقہ اور اس طرح کے بعض تکراری اسباق کے بجائے مزاحمت سے متعلقہ شعبوں میں چند اسباق پیش کئے جائیں اور ان پر اجتھاد اور درس خارج کی سطح پر بحث کی جائے۔

متعلقہ مضامین