لیاری کے ساتھ مذاق کیوں؟
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
کراچی کو اگر روشنیوں کا شہر کہا جاتا ہے تو لیاری کو ان سے محروم رکھا گیا ہے۔ اس دور میں جب دنیا خلاؤں کو تسخیر کر رہی ہے، لیاری کے نوجوان بنیادی تعلیمی ڈھانچے کے منتظر ہیں۔ شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی نئی عمارت کا منصوبہ کئی برس سے تاخیر کا شکار ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی کلاسیں آج بھی اُس عمارت میں چل رہی ہیں جو کبھی لیاری ڈگری کالج ہوا کرتا تھا۔
ایک عمارت جو کالج کے لیے بھی ناکافی تھی، آج ایک پوری یونیورسٹی کا بوجھ اٹھا رہی ہے۔ یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اختر بلوچ، پیپلز پارٹی لیاری کے رہنما حاجی قاسم بلوچ اور رکن سندھ اسمبلی لیاقت علی آسکانی کی مشترکہ کوششوں سے چار سال قبل دیھہ گابوپٹ میں دو سو ایکڑ اراضی حاصل کی گئی۔
یہ ایک بڑا سنگ میل تھا۔ اتنی وسیع زمین کسی بھی جدید یونیورسٹی کے قیام کے لیے ایک نایاب موقع تھی، لیکن افسوس، یہاں کہانی رک گئی۔ سندھ حکومت کو ہاکس بے کے علاقے میں نئے کیمپس کی تعمیر کے لیے فنڈز فراہم کرنے تھے مگر ابھی تک فنڈز فراہم نہیں کیے گئے۔ ہاکس بے کے علاقے سے واقفیت رکھنے والے صحافی کہتے ہیں کہ اگر ہاکس بے کے علاقے میں یہ زمین طویل عرصہ تک خالی رہی تو لینڈ مافیا کسی وقت بھی اس زمین پر قبضہ کر لے گی۔ سندھ حکومت کو چاہیے کہ وہ فنڈز کی منظوری میں تاخیر کو فوری طور پر ختم کرے۔ لیاری کے باسیوں کا صبر اب امتحان کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔
شہید بے نظیر بھٹو کا نام محض ایک تختی پر نہیں بلکہ عمل، خدمت اور ترقی کے نشان کے طور پر زندہ رہنا چاہیے اور اس کا آغاز شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی مستقل عمارت کی تعمیر سے ہو سکتا ہے۔ بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کو قائم ہوئے طویل عرصہ گزر گیا، اس وقت یونیورسٹی میں صرف چار فیکلٹیز قائم ہیں۔ ان فیکلٹیز میں کامرس، پبلک ایڈمنسٹریشن، بزنس ایڈمنسٹریشن اور کمپیوٹر سائنس اور آئی ٹی کے شعبہ، فارمیسی، انگریزی، تعلیمات، بین الاقوامی تعلیمات اور اسپورٹس سائنس کے شعبہ جات قائم ہیں۔ اس وقت یونیورسٹی میں مستقل اساتذہ کی تعداد 32 ہے جب کہ دیگر تمام جز وقتی اساتذہ ہیں۔ یونیورسٹی میں 4500 کے قریب طالب علم زیرِ تعلیم ہیں۔
اس سال کے شروع میں نئے وائس چانسلر کے عہدہ سنبھالنے کے بعد سابقہ ڈگری کالج کی عمارت کی تزئین و آرائش ہوئی ہے اور یو ایس فنڈز کے ذریعے یہ عمارت تعمیر ہوئی ہے مگر یونیورسٹی میں اب بھی سوشل سائنسز کے مضامین کے علاوہ اردو، سندھی اور بنیادی سائنسز کے مضامین قائم نہیں ہوئے، اگر ہاکس بے کی 200 ایکڑ زمین پر جدید عمارتیں تعمیر کی جائیں تو بہت سے نئے شعبہ جات قائم ہوسکتے ہیں۔
خاص طور پر ساحلِ سمندر کے ساتھ ہونے کی بناء پر میرین، بائیولوجی، فشریز، ارضیات اور ماحولیاتی تبدیلی کے خطے پر ہونے والے اثرات کی تحقیق کے لیے جدید تحقیقی مراکز قائم ہوسکتے ہیں۔ خاص طور پر اس کیمپس میں بحیرہ عرب پر تحقیق کے لیے اسٹیٹ آف آرٹ سینٹر قائم ہوسکتے ہیں۔ اس عمارت میں اگر طلبا و طالبات کے لیے نئے ہاسٹل تعمیر ہوجائیں تو بلوچستان سے ہزاروں طالب علم یونیورسٹی میں داخلے لے سکتے ہیں۔ لیاری کو آج کسی امداد، کسی ’’ریلیف چیک‘‘، یا جھوٹے وعدے کی نہیں، بلکہ ایک مکمل ’’ تعلیمی پیکیج‘‘ کی ضرورت ہے۔
اسکول، کالج، یونیورسٹیز، ووکیشنل سینٹرز، لائبریریاں، یہ سب وہ بنیادیں ہیں جن پر لیاری کے تباہ حال سماج کو دوبارہ کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی مستقل اور جدید عمارت کا قیام، اس تعلیمی پیکیج کا نقطہ آغاز ہونا چاہیے۔ یہ کوئی احسان نہیں، یہ اس قوم کا قرض ہے جس نے ہر سیاسی تحریک میں اپنا خون دیا اور اگر آج بھی لیاری کو نظر انداز کیا جاتا ہے تو یہ محض لاپروائی نہیں بلکہ تاریخی جرم ہوگا۔
آج سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور پیپلز پارٹی وہ جماعت ہے جو ہمیشہ لیاری سے ووٹ لے کر اقتدار میں آئی۔ قومی اسمبلی ہو یا سندھ اسمبلی، لیاری کے باسیوں نے ہمیشہ تیر کے نشان پر مہر لگائی۔ یہ وہی لیاری ہے جہاں بے نظیر بھٹو شہید کو ماں کہا جاتا تھا۔ مگر افسوس! آج اسی بے نظیر بھٹو کے نام پر قائم یونیورسٹی کی مستقل عمارت فنڈز کی منظوری نہ ملنے کے باعث تعطل کا شکار ہے۔
یہ کیسی بے حسی ہے کہ چار سال قبل حاصل کی گئی دو سو ایکڑ زمین اب بھی خالی پڑی ہے اور نوجوان اب بھی پرانی ڈگری کالج کی تنگ عمارت میں تعلیم حاصل کر رہے ہیں؟ لیاری کو نظر انداز کرنا محض ایک سیاسی بھول نہیں، بلکہ تاریخی غلطی ہے۔
یونیورسٹی کے بارے میں تحقیق کرنے والے محققین کا کہنا ہے کہ نئے کیمپس کا محل وقوع یونیورسٹی کو ملک کی دیگر یونیورسٹیوں سے منفرد کرسکتا ہے اور سمندر کے قریب ایسا قدرتی ماحول بہت کم یونیورسٹیوں کو میسر آتا ہے۔ جس علاقے نے جمہوریت کی بقا کے لیے ہر دور میں سب سے زیادہ قربانیاں دیں، اگر آج بھی وہ بنیادی سہولیات سے محروم ہے تو یہ نہ صرف حکومتی نااہلی ہے بلکہ عوام کے اعتماد سے مذاق بھی۔ یونیورسٹی کی عمارت کی تعمیر اب ’’اختیار‘‘ نہیں، ’’ذمے داری‘‘ ہے۔
شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی لیاری کی نئی عمارت کی تعمیر میں تاخیر صرف تعلیمی ترقی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بلکہ لیاری کے نوجوانوں سے ان کے خواب چھیننے کے مترادف ہے، یہ تاخیر علم دشمنی ہے۔ یہ ایک ایسے زخم پر نمک چھڑکنے جیسا ہے جو برسوں کی محرومیوں سے ابھی تک بھرا نہیں۔ لیاری کا سفر قتل و غارت سے کتابوں کی طرف شروع ہو چکا ہے، لیکن یہ سفر تبھی مکمل ہوگا جب ریاست اور حکمران اسے تسلیم کریں گے، جب شہید بے نظیر بھٹو یونیورسٹی کی نئی عمارت بنے گی اور جب لیاری کے نوجوان ہتھیار نہیں بلکہ قلم تھامیں گے۔ یہ وقت ہے عمل کا، ورنہ تاریخ خاموش نہیں رہے گی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: یونیورسٹی میں نہیں بلکہ کی تعمیر لیاری کے لیاری کو عمارت کی ہاکس بے ہے اور کے لیے
پڑھیں:
کراچی سے بے زار کیوں؟
ملک میں صوبوں کی تعداد بڑھانے یا انتظامی یونٹ بنانے کے مطالبات زور پکڑ رہے ہیں تو کراچی کی حالت زار دیکھ کر کراچی کو اسلام آباد کی طرح وفاق کا حصہ بنانے کا مطالبہ بھی شروع ہوگیا ہے۔ لاہور کے سابق سٹی ناظم میاں عامر محمود کے بعد سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے بھی ملک میں صوبے بڑھانے کی حمایت اور مطالبہ کیا ہے جب کہ کراچی کی بعض تنظیمیں بھی کراچی کو الگ صوبہ بنانے کے مطالبات کرتی رہی ہیں اور یہ بھی مطالبہ ہو رہا ہے کہ کراچی کو وفاق کا حصہ بنایا جائے۔
واضح رہے کہ مرحوم پیر صاحب پگاڑا بھی کراچی کو وفاق کا حصہ بنانے کے حامی تھے۔ کراچی کو صوبہ بنانے کی پیپلز پارٹی سخت مخالف جب کہ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کی حامی ہے اور پی ٹی آئی نے بھی 2018 کے الیکشن میں سیاسی مفاد کے لیے جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کا اعلان کیا تھا جو دونوں کا سیاسی نعرہ تھا مگر دونوں پارٹیوں نے اپنی حکومتوں میں عملی طور پر کچھ نہیں کیا کیونکہ دونوں کو پتا تھا کہ نئے صوبے کا قیام آسان نہیں اور آئینی مشکلات اس راہ میں حائل ہیں۔کے پی میں ہزارہ صوبے کا مطالبہ بھی سالوں سے ہو رہا ہے جس کی مسلم لیگ (ن) حامی ہے کیونکہ ہزارہ ڈویژن کبھی (ن) لیگ کا گڑھ تھا جہاں سے ماضی میں میاں نواز شریف کے داماد کامیاب ہوتے رہے مگر 2023 میں خود نواز شریف کو ایبٹ آباد سے شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا جس سے ظاہر ہے کہ اپنے دور میں ہزارہ صوبے کے لیے کچھ نہ کرنے کی وجہ سے (ن) لیگ کی ہزارہ ڈویژن میں مقبولیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
مسلم لیگ (ن) کی پنجاب حکومتوں پر الزام لگتا رہا ہے کہ اس نے جنوبی پنجاب کو ترقیاتی منصوبوں میں نظرانداز کیا جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں (ن) لیگ کی مقبولیت کم اور پیپلز پارٹی کی مقبولیت کہیں زیادہ ہے جس کا ثبوت 2023 کے انتخابات ہیں جس میں جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی کو نمایاں کامیابی ملی اور وہاں پیپلز پارٹی سب سے مقبول پارٹی ہے۔ جنوبی پنجاب کو نظرانداز کرکے لاہور و دیگر علاقوں کو اہمیت دینے کے الزامات کے بعد مسلم لیگ مجبور ہوئی کہ جنوبی پنجاب کو بھی ترجیح دے جس کے بعد پنجاب کی موجودہ حکومت جنوبی پنجاب میں ترقیاتی کام کرا رہی ہے اور جنوبی پنجاب میں بھی الیکٹرک بسیں چلا چکی ہے اور اس کا کریڈٹ بھی خود لے رہی ہے جس پر پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت سے شکایات بھی ہیں کہ حکومت پنجاب اس کے کہنے پر جنوبی پنجاب کو ترقیاتی منصوبے نہیں دے رہی اور اپنے طور پر من مانی کر رہی ہے۔
سندھ میں 17 سالوں سے پیپلز پارٹی کی حکومت ہے اور اس پر ایم کیو ایم، جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی سمیت ساری پارٹیاں الزام لگاتی آ رہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کراچی کو ترجیح نہیں دیتی بلکہ کراچی سے دشمنوں جیسا سلوک کر رہی ہے پی پی حکومت نے 17 سالوں میں کراچی کو کوئی میگا پروجیکٹ تک نہیں دیا۔ کراچی کے لوگ اذیت میں زندگی گزار رہے ہیں اور کراچی بے شمار مسائل کا شکار ہے مگر سندھ حکومت کی کراچی پر کوئی توجہ نہیں۔ پیپلز پارٹی بھی وفاقی حکومت کی طرح کراچی کو سونے کی چڑیا سمجھتی ہے جب کہ کراچی سے حاصل ہونے والی آمدنی سے ملک اور سندھ چل رہا ہے جب کہ کراچی کے ٹیکسوں سے وفاق اور سندھ حکومت کو دلچسپی ہے کیونکہ کراچی سندھ اور وفاق کو کما کردیتا ہے۔ سندھ حکومت کراچی پر اپنے مالی وسائل خرچ کرنے کے بجائے چاہتی ہے کہ وفاق کراچی کے لیے مالی وسائل فراہم کرکے اور کراچی کے مسائل حل کرائے۔
کراچی میں کے فور کا منصوبہ اور یونیورسٹی روڈ اور گرومندر سے ٹاور تک جو بسوں کے منصوبے زیر تعمیر ہیں ان کے لیے فنڈز وفاق اور سندھ حکومت نے فراہم کرنے ہیں مگر دونوں حکومتیں سنجیدہ نہیں، جس کی وجہ سے کئی سال سے یونیورسٹی روڈ پر سفر عذاب بنا ہوا ہے جہاں فنڈز ہو تو کام چلتا ہے کبھی رک جاتا ہے جب کہ یہ ایک اہم شاہراہ ہے جہاں سے روزانہ لاکھوں افراد سفر کرتے ہیں اور منٹوں کا سفر گھنٹوں میں طے ہوتا ہے اور زیر تعمیر منصوبے سے لوگ سخت پریشان ہیں اور ٹریفک جام رہنا معمول بنا ہوا ہے۔
کراچی کے مسائل سے عدم دلچسپی سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ پیپلز پارٹی اور اس کی سندھ حکومت کراچی سے خود بے زار ہے اور کراچی کو سندھ حکومت فنڈز دینا ہی نہیں چاہتی اور وفاق سے کراچی کے مسائل حل کرانا چاہتی ہے اور اپنے فنڈز کراچی پر خرچ نہیں کر رہی۔ وفاق کا فنڈ محدود اور سندھ حکومت کے مالی وسائل زیادہ ہیں جو کراچی پر خرچ نہیں کیے جا رہے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ سندھ حکومت کراچی سے بے زار ہے اور اسے کراچی سے نہیں کراچی سے ہونے والی آمدنی سے دلچسپی ہے۔