Jasarat News:
2025-12-08@11:59:10 GMT

بہار اسمبلی انتخابات۔ مودی کا وقار دائو پر

اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

2
سیاسی مبصرین کے مطابق بی جے پی گو کہ نیتیش کے سہارے ووٹ حاصل کرنا چاہتی ہے، مگر نتائج کے بعد ان کو کنارے کرنے کے امکانات بھی ڈھونڈ رہی ہے، جس طرح اس نے مہاراشٹرہ میں شیو سینا کے سہارے ووٹ تو لیے مگر پھر ان کو دودھ میں مکھی کی طرح قیادت سے باہر نکال دیا۔ بی جے پی، چونکہ تاریخی طور پر اونچی ذات کی پارٹی رہی ہے، اس لیے وہ ذات پات کی سیاست سے پرہیز کرتی رہی ہے۔ مگر اب حالات بدل چکے ہیں۔ ہندو اتحاد کے نعرے کے ساتھ ساتھ بی جے پی نے ذاتوں کو اپنے بیانیے میں سمو لیا ہے۔ وہ اب ذات پات کو مٹانے کی نہیں، بلکہ اس کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پارٹی نے بہار کے ایک سابق وزیر اعلیٰ آنجہانی کرپوری ٹھاکر کو اعلیٰ ترین سویلین ایوارڈ بھارت رتن دے کرای بی سی طبقے میں رسائی حاصل کرنے کی کوشش کی ہے۔ اس طبقہ کے لیے قرض معافی، اور دیہی روزگار پروگراموں میں ترجیحی حصہ دیکر وہ اس طبقہ میں ایک طرح کی سرمایہ کاری کر رہی ہے۔ دوسری طرف راشٹریہ جنتا دل، کانگریس اور بائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اتحاد جس کو عظیم اتحاد یا مہا گٹھ بندھن کہتے ہیں ظاہری طور پر ذات پات کی بیداری کا سب سے فطری وارث تھا۔ مگر اندر سے اس اتحاد کی بنیادیں کمزور ہو چکی ہیں۔ حکومت کے خلاف ناراضی کا فائدہ اٹھانے کی اس کی کوششیں نشستوں کی تقسیم کی لڑائی میں دب گئی ہے۔ لگتا ہے کہ اس کے پاس ووٹر ہے مگر وژن نہیں۔ اس اتحاد کی کلیدی پارٹی راشٹریہ جنتا دل کا ووٹ بینک مسلم اور یادو یعنی ایم وائی رہا ہے۔ اس کے لیڈر تیجسوی یادو اگرچہ پرعزم دکھائی دیتے ہیں، مگر پرانے یادو لیڈران کی نوجوان قیادت پر کھلے عام اعتماد نہیں کرتے ہیں۔ چونکہ ان کے ووٹ بینک میں مودی نے بھی سیندھ لگائی ہے، اس لیے وہ بھی اب دلتوں اور ای بی سی طبقات کے امیدوار کھڑے کرکے ووٹ بینک کی بھر پائی کرنا چاہتے ہیں۔ کانگریس جو پچھلے تین انتخابات میں مہاگٹھ بندھن کا کمزور کڑی سمجھی جاتی تھی، اس بار قدرے جارح دکھائی دے رہی ہے۔ مگر اس کی زیادہ سے زیادہ سیٹوں پر لڑنے کی چاہت ہی اس کو ڈبونے کا سامان کرسکتی ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق کانگریس نظریاتی طور پر بیدار ضرور ہوئی ہے، مگر تنظیمی سطح پر اب بھی سست ہے۔ بہار کی زمین پر لڑائی بیانیہ سے زیادہ نیٹ ورک سے لڑی جاتی ہے۔ اس میدان میں بی جے پی سب سے مضبوط ہے۔ بہار میں مسلمان آبادی کا 17.

7 فی صد ہیں، مگر ان کی نمائندگی اسمبلی میں 8 فی صد سے بھی کم رہی ہے۔ ان انتخابات میں بی جے پی نے کسی مسلمان امیدوار کو نامزد نہیں کیا۔ جبکہ اس کے پاس سابق مرکزی وزیر شاہ نواز حسین کی صورت میں ایک مضبوط امیدوار موجود تھا۔ کانگریس اور جنتا دل یونائٹڈ نے صرف چار چار مسلمانوں کو ٹکٹ دیے۔ کٹیہار، ارریہ، پورنیہ اور کشن گنج کے اضلاع میں 40 فی صد سے زیادہ مسلمان ووٹر ہیں۔ یہ احساس اب مسلمانوں کو گھر کرتا جا رہا ہے کہ وہ صرف گنتی میں ہیں، قیادت میں نہیں۔ اسی خلا کو حیدر آباد کے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی کی پارٹی آل انڈیا مجلس اتحاد المسلین اور ایک نئی جماعت پرشانت کشور کی جن سوراج پارٹی پور ا کرنے کے لیے پر تول رہی ہے۔ اویسی نے اس بار 100 نشستوں پر امیدوار کھڑے کیے ہیں، جن میں زیادہ تر مسلم اکثریتی حلقے شامل ہیں۔ اسی طرح بی جے پی کے اتحادی چراغ پاسوان 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں 29 نشستیں جیت کر بہار کی سیاست میں مرکزی کردار بن چکے ہیں۔ ان کا نعرہ ’’بہار فرسٹ، بہاری فرسٹ‘‘ ریاستی وقار کا نیا استعارہ ہے۔ چراغ خود کو ’’دلت نوجوان قیادت‘‘ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ بی جے پی انہیں نیتیش کے خلاف توازن کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ ان انتخابات کی ایک نئی انٹری پرشانت کشور کی ہے، جو ماضی میں کئی پارٹیوں کے لیے انتخابی حکمت عملی کار کے بطور کام کر چکے ہیں۔ اب وہ خود ہی سیاست میں اتر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے: ’’ہم اقتدار کے لیے نہیں، نظام بدلنے کے لیے سیاست میں آئے ہیں‘‘۔ اگر وہ تین سے پانچ فی صد ووٹ بھی حاصل کرلیں، تو یہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کو ہی نقصان کریگا۔ کورونا وبا کے دوران بہار کے لاکھوں مزدور بغیر روزگار اور بغیر مدد کے واپس لوٹے۔ یہ تجربہ ان کی اجتماعی یادداشت کا حصہ بن چکا ہے۔ پرشانت کشور نے انہیں اپنی سیاست کا مرکز بنادیا ہے۔ ان کے جلسوں میں سب سے زیادہ نعرہ گونجتا ہے: ’’ہمیں فرقہ واریت نہیں، کام چاہیے۔ ہمیں وعدے نہیں، روٹی چاہیے‘‘۔ یہ وہ زبان ہے جس نے نوجوانوں اور مزدوروں کو ایک پلیٹ فارم پر جوڑ دیا ہے۔ روزی، عزت، حصہ داری کے نعرے دیہاتوں میں سنائی دینے لگے ہیں۔ تجزیہ کارو ں کا کہنا ہے کہ یہ ایک نیا بہار ہے، جو خالی وعدوں سے اب شاید نہیں چلے گا۔ بی جے پی کے لیے یہ الیکشن اس کے ہندتوا نظریے کی بقا کا سوال ہے۔ پارٹی کے اندر خود کئی سطحوں پر بے چینی ہے۔ ایک طرف اتر پردیش ماڈل کا دبائو ہے۔ جہاں وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی ہندو قوم پرستی اور مسلمانوں کے تئیں نفرت نے ان کو انتخابی کامیابی دلا دی۔ دوسری طرف بہار میں وہی فارمولا ذات پات کے پیچیدہ نظام کی وجہ سے ناکام ہو رہا ہے۔ فرنٹ لائن جریدہ کے مطابق بی جے پی ہر ذات کو اپنی الگ پالیسی سے جوڑ رہی ہے، تاکہ انہیں اجتماعی شناخت کے بجائے انفرادی مفادات میں الجھایا جا سکے۔ پارٹی کے تھنک ٹینک کا ماننا ہے کہ اگر 112 ذیلی ذاتیں اپنے اپنے مفاد میں مصروف رہیں، تو کوئی ایک متحد سیاسی بیانیہ اونچی ذاتوں کے خلاف نہیں بن سکے گا۔ اسی حکمت کے تحت بی جے پی ہر ذات کے لیے الگ ’’وعدوں کی فہرست‘‘ جاری کر رہی ہے۔ مثلاً کشواہا برادری کے لیے کرپوری ٹھاکر یوجنا، ملاحوں کے لیے گنگا متسیا سکھ شکتی اسکیم، اور بھومیہار طبقے کے لیے کسان کرج راحت پیکیج۔ ان کی وجہ سے ہر برادری انفرادی طور پر فیصلہ کریں گے۔ مگر سوال یہ ہے کیا بہار کے باشعور ووٹر اس حکمت عملی کے آگے جھکیں گے؟ (بشکریہ: 92 نیوز)

افتخار گیلانی سیف اللہ

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سے زیادہ بی جے پی چکے ہیں ذات پات کے لیے رہی ہے

پڑھیں:

پی ٹی آئی کی قیادت اپنے بانی کے بیانیے سے لاتعلق ہو چکی ہے، رکن قومی اسمبلی

راولپنڈی:

رکن قومی اسمبلی چیئرمین قائمہ کمیٹی کابینہ ڈویژن ملک ابرار احمد کا کہنا ہے کہ ریاست نے برداشت کی پالیسی ترک کر کے قانون کے نفاذ کا فیصلہ کر لیا، قومی سلامتی اور اداروں کی تضحیک اب آزادی رائے نہیں بلکہ ’جرم‘ تصور ہوگی جبکہ پی ٹی آئی کی قیادت اپنے بانی کے بیانیے سے لاتعلق ہو چکی ہے۔

راولپنڈی پریس کلب میں ممبران پنجاب اسمبلی ملک افتخار احمد ملک منصور افسر کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ملک ابرار احمد کا کہنا تھا کہ جب معاملہ ریاست کی بقا اور سرحدوں کے محافظ اداروں کا ہو تو سیاسی وابستگیاں ثانوی ہو جاتی ہیں۔

 آج کا مقدمہ سیاست نہیں بلکہ ریاست اور ہماری آنے والی نسلوں کے مستقبل کا ہے، ریاست نے اب واضح کر دیا ہے کہ ملکی سلامتی اور اداروں کی تضحیک کو آزادی رائے کے زمرے میں نہیں بلکہ جرم کے طور پر دیکھا جائے گا۔

 ملک ابرار احمد نے پی ٹی آئی پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جو جماعت ’تبدیلی‘ کے نام پر آئی تھی وہ آج ’تباہی‘ کے دہانے پر کھڑی ہے۔ انہوں نے انکشاف کیا کہ پی ٹی آئی کے اندرونی ذرائع اور میڈیا رپورٹس گواہ ہیں کہ معاملہ اب ہاتھ سے نکل چکا ہے۔

جب ایک جماعت کی اعلیٰ قیادت نجی محفلوں میں تسلیم کرے کہ ان کا لیڈر ’غلط سمت‘ میں جا رہا ہے لیکن عوام کے سامنے سچ نہ بول سکے، تو اسے سیاست نہیں بلکہ ’منافقت‘ کہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ بات اب ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ پی ٹی آئی کی لیڈرشپ اپنے بانی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور ٹویٹس سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے اور سنجیدہ لوگ اسے شیئر کرنے سے بھی کتراتے ہیں، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ راستہ سیاست کا نہیں ’خودکشی‘ کا ہے۔

 رکن قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کارکنان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں سوچنا چاہیے کہ جن لیڈروں کے بچے لندن اور امریکا میں محفوظ ہیں، وہ خود ڈرائنگ رومز میں چھپ کر آپ کو ریاست سے کیوں لڑوا رہے ہیں؟ حب الوطن کارکنان کو اس شخص کے سحر سے نکلنا ہوگا جو انہیں ریاست کے مدمقابل لا رہا ہے۔

ملک ابرار احمد نے قومی سلامتی کے اداروں کے حالیہ موقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ریاستی اداروں نے جو حقائق پیش کیے ہیں وہ صرف بیان نہیں بلکہ ایک ’حتمی فیصلہ‘ ہے۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ ریاست نے ’برداشت‘ کی پالیسی ترک کر کے اب آئین اور قانون کے سختی سے نفاذ کا فیصلہ کر لیا ہے۔ 

جس ذہنی کیفیت اور انا پرستی کی نشاندہی کی گئی ہے اس کا علاج اب مذاکرات نہیں بلکہ قانون کی عملداری ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ جب کوئی شخص خود کو ریاست سے بڑا سمجھنے لگے تو ریاست کا فرض ہے کہ وہ اسے اپنی حدود یاد دلائے، اب باتوں کا وقت گزر چکا ہے اور فیصلوں کا وقت ہے۔

 انہوں نے اپیل کی کہ ریاست ماں ہے جو موقع دیتی ہے لیکن اپنی بقا پر سمجھوتہ نہیں کرتی، لہٰذا انتشار کے باب کو بند کر کے تعمیر و ترقی کے راستے پر پاکستان کا ساتھ دیا جائے۔

متعلقہ مضامین

  • چیف آف ڈیفنس فورسز کے اعزاز میں جی ایچ کیو میں پر وقار تقریب
  • مقبوضہ کشمیر: اقوامِ متحدہ کی ہوشربا رپورٹ
  • اسلام آبادمیں بلدیاتی انتخابات نہ کرانے کیخلاف جماعت اسلامی سراپا احتجاج‘ تحریک کا آغاز
  • مودی حکومت کی ناکامی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے، کانگریس
  • وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری نے پاک فوج کی قیادت کی حمایت کی
  • وزیراعظم کے دورے عالمی سطح پر پاکستان کے وقار کو بڑھا رہے ہیں، مریم اورنگزیب
  • وادی کشمیر میں وزیراعلیٰ کی کرسی کا وقار بھی داؤ پر لگا ہوا ہے، سجاد لون
  • پی ٹی آئی کی قیادت اپنے بانی کے بیانیے سے لاتعلق ہو چکی ہے، رکن قومی اسمبلی
  • بنگلہ دیش میں عام انتخابات کا شیڈول تاحال طے نہیں ہوا، الیکشن کمیشن نے واضح کردیا
  • مودی حکومت میں اپوزیشن رہنما کو غیر ملکی مہمان شخصیات سے ملنے کی اجازت نہیں، راہول گاندھی