نوٹیفکیشن کے بعد ٹی ایل پی پر پابندی مؤثر ہوجائے گی، سپریم کورٹ جانے کی ضرورت نہیں ہوگی : رانا ثنا
اشاعت کی تاریخ: 23rd, October 2025 GMT
وزیراعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی امور و سینیٹر رانا ثنااللہ نے کہا ہے کہ وفاقی کابینہ نے ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دے دی ہے۔ باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا تو پابندی نافذ ہوجائے گی، سپریم کورٹ سے منظوری کی ضرورت نہیں ہے۔
نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعظم کے مشیر رانا ثنااللہ نے کہا کہ پنجاب حکومت کی جانب سے ٹی ایل پی پر پابندی کے لیے ریفرنس بھیجا گیا تھا، جس پر چیف سیکریٹری پنجاب اور آئی جی پنجاب نے وفاقی کابینہ کو بریفنگ دی، جس کے بعد ٹی ایل پی پر پابندی کی منظوری دی گئی ہے۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ٹی ایل پی پر پابندی کا فیصلہ سیاسی نہیں ہے، یہ امن و امان کے معاملات کو دیکھ کر کیا گیا ہے۔ ٹی ایل پی کے خلاف ثبوت موجود ہیں، یہ فیصلہ صرف خدشات کی بنیاد پر نہیں بلکہ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ 2018 میں بھی ٹی ایل پی کا فیض آباد میں دھرنا پرتشدد تھا، جس پر پہلے ہائیکورٹ اور پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا۔ اس کے بعد 2021 میں اس وقت کی حکومت نے ٹی ایل پی پر پابندی عائد کی تھی، تاہم تحریری یقین دہانی کے بعد پابندی ہٹائی گئی کہ آئندہ پرتشدد احتجاج نہیں ہوگا، لیکن ٹی ایل پی نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ٹی ایل پی نے دوبارہ وہی پرتشدد راستہ اپنایا جو 2018 اور 2021 میں اپنایا گیا تھا۔ ٹی ایل پی کے خلاف ثبوت موجود ہیں کہ وہ دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو زخمی یا قتل کیا، لوٹ مار کی، اور لاہور سے مریدکے تک مختلف جرائم میں ملوث رہی۔
رانا ثنااللہ نے کہا کہ ٹی ایل پی کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف لانچ کیا گیا تھا۔ حلقہ این اے 120، جہاں سے نواز شریف الیکشن لڑتے رہے ہیں، وہاں بریلوی ووٹ مسلم لیگ (ن) کا تھا، اسے تقسیم کرنے کے لیے اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ نے ٹی ایل پی کو کھڑا کیا تھا۔
انہوں نے واضح کیا کہ بریلوی مسلک، بریلوی مساجد یا مدارس پر کوئی پابندی نہیں لگائی جارہی۔ تمام مذہبی مسالک بشمول بریلوی مسلک لائقِ احترام ہیں۔ کسی مسجد یا مدرسے پر قطعاً کوئی پابندی نہیں ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ مذہبی جماعتوں کا عقیدے سے متعلق معاملہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ سے عشق و عقیدت کا اظہار ہے، جو لائقِ احترام جذبہ ہے۔ تاہم جب کسی جماعت میں تشدد شامل ہوجائے تو اس کے خلاف کارروائی ضروری ہوتی ہے، اور ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی اسی حد تک محدود رہے گی۔ مذہبی معاملات پر کوئی پابندی نہیں لگائی جارہی۔
انہوں نے مزید کہا کہ سعد رضوی اور ان کے بھائی پولیس کی حراست میں نہیں ہیں، تاہم انہیں گرفتار کیا جائے گا اور ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہوگی۔
رانا ثنااللہ نے بتایا کہ ٹی ایل پی پر پابندی کا معاملہ سپریم کورٹ میں نہیں جائے گا۔ انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت پابندی عائد کی گئی ہے، اور اس حوالے سے وزارتِ داخلہ کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے گا۔ اگر ٹی ایل پی کا کوئی رکن قومی یا صوبائی اسمبلی میں موجود ہے تو اسے ڈی نوٹیفائی کیا جائے گا۔ البتہ ٹی ایل پی اس فیصلے کو ہائیکورٹ میں چیلنج کرسکتی ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news پابندی ٹی ایل پی رانا ثنا وفاقی کابینہ.ذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: پابندی ٹی ایل پی وفاقی کابینہ رانا ثنااللہ نے کہا ٹی ایل پی پر پابندی کہ ٹی ایل پی کیا جائے گا سپریم کورٹ نے کہا کہ انہوں نے کے خلاف کے بعد
پڑھیں:
سپریم کورٹ: عمر ایوب اور شبلی فراز کی نااہلی کے خلاف اپیلیں 27 اکتوبر کو سماعت کے لیے مقرر
سپریم کورٹ نے تحریک انصاف کے رہنماؤں عمر ایوب خان اور شبلی فراز کی نااہلی کے خلاف دائر اپیلوں کو سماعت کے لیے مقرر کر لیا ہے۔
یہ اپیلیں 27 اکتوبر کو سپریم کورٹ کے 5 رکنی آئینی بینچ کے روبرو سماعت کے لیے پیش ہوں گی۔
عدالتی فہرست کے مطابق، جسٹس امین الدین خان بینچ کی سربراہی کریں گے، جبکہ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس شکیل احمد بھی بینچ کا حصہ ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں:
واضح رہے کہ عمر ایوب اور شبلی فراز نے 9 مئی کے واقعات سے متعلق مقدمات میں سزا کے بعد اپنی نااہلی کو چیلنج کر رکھا ہے۔
قبل ازیں پشاور ہائیکورٹ نے دونوں رہنماؤں کی اپیلیں اس بنیاد پر ناقابلِ سماعت قرار دی تھیں کہ انہوں نے سرینڈر نہیں کیا تھا۔
اب سپریم کورٹ ان اپیلوں کی سماعت کرے گی اور اس دوران یہ طے کیا جائے گا کہ کیا دونوں رہنما اپنی نااہلی کے خلاف اپیل کے حق دار ہیں یا نہیں۔
مزید پڑھیں:
قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر عمر ایوب خان اور سینیٹرشبلی فراز کی نااہلی کا تعلق 9 مئی 2023 کے واقعات سے ہے، جب چیئرمین تحریک انصاف عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔
ان مظاہروں کے دوران مختلف سرکاری و عسکری تنصیبات پر حملے کیے گئے، جن میں ملوث ہونے کے الزامات پر دونوں رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
مزید پڑھیں:
بعد ازاں انسداد دہشتگردی عدالتوں نے انہیں مختلف مقدمات میں سزا سنائی، جس کے نتیجے میں وہ عوامی عہدوں کے لیے نااہل قرار پائے۔
دونوں رہنماؤں نے اپنی نااہلی کو پشاور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، تاہم عدالت نے ان کی اپیلیں اس بنیاد پر ناقابلِ سماعت قرار دی تھیں کہ انہوں نے سرینڈر نہیں کیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
آئینی بینچ تحریک انصاف جسٹس امین الدین خان سپریم کورٹ شبلی فراز عمر ایوب