حکومت نے تحریک لبیک پاکستان کو کالعدم قرار دے دیا، پابندی کا نوٹیفکیشن جاری
اشاعت کی تاریخ: 24th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: وزارتِ داخلہ نے تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کو باقاعدہ طور پر کالعدم جماعت قرار دیتے ہوئے اسے فرسٹ شیڈول کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
اس فیصلے کے ساتھ ہی وزارتِ داخلہ نے باضابطہ نوٹیفکیشن بھی جاری کردیا، جس کے تحت اب ٹی ایل پی کسی بھی قسم کی سیاسی، مذہبی یا تنظیمی سرگرمی انجام نہیں دے سکے گی۔ حکومت نے واضح کیا ہے کہ تنظیم کی تمام سرگرمیوں پر انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت مکمل پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
وزارتِ داخلہ کے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کے تحت عمل میں لائی گئی ہے، جس کے بعد وزارتِ قانون کو رپورٹ بھجوائی جائے گی۔ وزارتِ قانون ریفرنس تیار کرکے سپریم کورٹ میں جمع کرائے گی تاکہ عدالتی طور پر بھی اس فیصلے کی توثیق حاصل کی جا سکے۔
واضح رہے کہ وفاقی کابینہ نے گزشتہ روز پنجاب حکومت کی سفارش پر تحریک لبیک پاکستان پر پابندی عائد کرنے کی منظوری دی تھی۔
.ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
تحریک انصاف کی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی جاری، انجام کیا ہوگا؟
تحریک تحفظ آئینِ پاکستان کے بینر تلے پاکستان تحریک انصاف کی صوبائی حکومت نے گزشتہ روز پشاور میں ایک بڑا جلسہ منعقد کیا، جس میں وفاقی حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
جلسے سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سہیل آفریدی نے کہاکہ پی ٹی آئی پر ناقص حکمرانی کے الزامات بے بنیاد ہیں، اگر ایسا ہوتا تو جماعت کو خیبرپختونخوا میں تیسری بار عوام کا مینڈیٹ نہ ملتا۔
مزید پڑھیں: پی ٹی آئی کا پشاور میں جلسہ: بہت جلد ڈی چوک جانے کی کال دوں گا، وزیر اعلیٰ سہیل آفریدی کا اعلان
پی ٹی آئی رہنما شاہد خٹک نے مزید سخت لہجہ اختیار کرتے ہوئے کہاکہ اگر منتخب حکومت کو ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ’اینٹ سے اینٹ بجا دی جائے گی‘۔
جلسے کے دوران ایک قرارداد بھی منظور کی گئی، جس میں بانی پاکستان تحریکِ انصاف عمران خان کی رہائی اور دیگر سیاسی مطالبات شامل تھے، جبکہ چند روز قبل ڈی جی آئی ایس پی آر کے بیانات کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔
سیاسی محاذ آرائی یا نئی اسٹریٹجی؟سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان تحریکِ انصاف اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان محاذ آرائی اسی شدت کے ساتھ جاری رہے گی؟ اور اگر ایسا ہوا تو اس کے سیاسی و ریاستی نتائج کیا ہوں گے؟ حکومتی حلقوں کا مؤقف ہے کہ پی ٹی آئی جان بوجھ کر اداروں سے ٹکراؤ کی سیاست کررہی ہے، تاکہ اپنی سیاسی مشکلات اور داخلی کمزوریوں سے توجہ ہٹائی جا سکے۔
پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ایکس پر اپنے بیان میں پی ٹی آئی کی قیادت پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہاکہ آج کی تقاریر اور دھمکیوں نے ثابت کر دیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک دن قبل جو کچھ کہا، وہ درست تھا۔ ان کے مطابق پی ٹی آئی کی زبان سیاسی اختلاف کے دائرے سے نکل چکی ہے۔
اسی تناظر میں مسلم لیگ (ن) کے سینیئر رہنما انجینیئر خرم دستگیر نے اپنے بیان میں کہاکہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس نے بہت سی غلط فہمیوں کو دور کردیا ہے۔
اُن کے مطابق قومی سلامتی کو سیاسی داؤ پیچ کا ہدف بنانا ایک خطرناک روش ہے، اور بیرونِ ملک پاکستان کے خلاف بیانیہ مضبوط کرنا یا ایسے اقدامات کی ترغیب دینا کسی بھی صورت سیاسی جدوجہد کے زمرے میں نہیں آتا۔
ماہرین کیا کہتے ہیں؟سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار حماد حسن نے وی نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ اس وقت اسٹیبلشمنٹ پی ٹی آئی سے کچھ خوفزدہ تو نظر آ رہی ہے اور اِسی وجہ سے ردعمل بھی دیا گیا، لیکن اس وقت مسئلہ یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کی باقی سیاسی جماعتوں جن کی وہاں طاقت بھی موجود ہے اور جنہوں نے وہاں حکومت بھی کی ہے اُن کے ساتھ معاملات درست اور تعلقات نہیں بڑھائے جا رہے۔
انہوں نے کہاکہ اسٹیبلشمنٹ ابھی تک اپنا تعلق جمیعت علمائے اِسلام یا اے این پی کے ساتھ نہیں بڑھا پائی اور یہ جماعتیں سیاسی سرگرمیوں کے حوالے سے دہشتگردوں کے خوف میں بھی مبتلا رہتی ہیں۔
حماد حسن نے کہاکہ خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی مقبولیت ختم ہو رہی ہے اور آج کا جلسہ بھی اتنا ہی تھا جتنا کوئی اور سیاسی جماعت بھی کر سکتی ہے، لیکن پی ٹی آئی کے علاوہ صوبے کی دیگر جماعتوں کے ساتھ رابطے نہیں بڑھائے جا رہے جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو رہا ہے۔
’پی ٹی آئی کی بدترین کرپشن اور بدترین طرزِ حکومت سے مقامی لوگ نالاں ہیں، اور اِسی لیے صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت ختم کی جائے گی نہ گورنر راج لگے گا۔ پی ٹی آئی کو کوئی ایسا جواز فراہم نہیں کیا جائے گا جو اِس کی مقبولیت میں پھر سے اِضافے کا سبب بن سکے۔‘
سہیل وڑائچ کے پی ٹی آئی اور ریاستی اداروں کو مشورےسیاسی امور کے ماہر سینیئر صحافی سہیل وڑائچ اپنی مختلف تحریروں میں پاکستان تحریکِ انصاف کو گورننس کے مسائل دور کرنے کا مشورہ دیتے ہیں اور ساتھ میں یہ بھی کہتےہیں کہ سخت زبان وقتی طور پر کارکنوں کو متحرک کر سکتی ہے، لیکن طویل المدتی سیاست صرف احتجاجی بیانیے سے نہیں چلتی۔
ان کے مطابق عوام اب کارکردگی اور مسائل کے حل کا تقاضا کر رہے ہیں۔ دوسری طرف سہیل وڑائچ ریاست کو تحمل سے کام لینے کا مشورہ بھی دیتے ہیں۔
اپنے گزشتہ روز شائع ہونے والے کالم میں لکھتے ہیں ’مگر تاریخ کا سبق یہی ہے کہ آگ کو ہوا نہ دی جائے بلکہ آگ پر پانی ڈالا جائے ۔ گزشتہ 3 سال سے مصالحت اور مذاکرات کی بات کرتے کرتے مایوسی تک پہنچنے کے باوجود اب بھی لڑائی، جھگڑا، سزائیں اور جماعت پر پابندی مسئلے کا مستقل حل نہیں، عارضی طور پر اس سے تحریک انصاف دب جائے گی لیکن غصے، تشدد اور دباؤ سے سیاسی تحریکیں ختم نہیں ہوتیں ان سیاسی جذبات اور سیاسی تحریکوں کو سیاست سے ہی ختم کرناپڑتا ہے۔
’سیاست کا مقابلہ ایلو پیتھک نہیں ہومیو پیتھک علاج سے ہوتا ہے‘’سیاست کا مقابلہ ایلو پیتھک طریقہ علاج سے نہیں بلکہ ہومیو پیتھک علاج سے ہوتا ہے۔ سیاست کے اندر جوش، غصے اور انتہا پسندی کا علاج دانش مندی ہے، عقل اور ٹھنڈے مزاج سے ہی جذبات سے نمٹا جاسکتا ہے۔‘
سہیل وڑائچ لکھتے ہیں کہ تحریک انصاف کے انتہا پسندوں اور یوٹیوبرز کی بڑی غلطی یہ ہے کہ وہ اپنے علاوہ ہرایک کو ملزم، لفافی اور ٹاؤٹ سمجھتے ہیں۔ ریاست کو سیاست میں غصہ اور انتقام نہیں ڈالنا چاہیے۔ سیاست کا تعلق دانش سے ہے، اس کے مسائل غصے سے نہیں ٹھنڈے مزاج کے ساتھ دیکھیں۔
مزید پڑھیں: وزیر اطلاعات عطااللہ تارڑ نے عمران خان کو ملکی سلامتی کے لیے خطرہ قرار دے دیا
’تحریک انصاف کی غلطیوں، گستاخیوں، گالیوں اور ناانصافیوں کا جواب اسی کی زبان میں دینے کے بجائے اسے سیاست سے حل کرنے کا سلسلہ شروع کریں۔ سیاست کڑوے زہر سے بندے نہیں مارتی سیاست میٹھے زہر سے انسانوں کا شکار کرتی ہے۔‘
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
wenews اسٹیبلشمنٹ پاکستان تحریک انصاف پی ٹی آئی سیاسی لڑائی فوجی ترجمان وی نیوز