Express News:
2025-10-24@23:57:18 GMT

ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی

اشاعت کی تاریخ: 25th, October 2025 GMT

پاکستان میں ماحولیاتی تبدیلی کا مسئلہ انتہائی سنگین ہوتا جا رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ، زراعت کی مشکلات، قدرتی آفات کی شدت میں اضافہ اور صحت کے مسائل انسانی زندگیوں اور معیشت پر بھی گہرے اثرات ڈال رہے ہیں۔

اس کی وجہ سے کئی قدرتی آفات جیسے سیلاب، خشک سالی، گرمی کی لہریں، شدید بارشیں، اور زراعت کے شعبے میں نقصانات کا سامنا ہو رہا ہے۔ دراصل موسمیاتی تبدیلی فضائی معیار(ائیر کوالٹی) کو متاثر کرتی ہے جب کہ فضائی آلودگی موسمیاتی تبدیلی کی سب سے بڑی وجہ ہے جس کے نتیجے میںگلوبل وارمنگ بڑھ رہی ہے۔

ماحولیاتی آلودگی کی مختلف اقسام ہیں جن میں فضائی آلودگی جو گاڑیوں صنعتوں اور بجلی کے پلانٹس سے خارج ہونے والے دھوئیں اور زہریلی گیسیں جیسے کاربن مونو آکسائیڈ، سلفر ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن آکسائیڈ سے پیدا ہوتی ہے۔ دوسری قسم آبی آلودگی ہے جو فیکٹریوں کا فضلہ اور گندا پانی دریا اور سمندروں میں پھینکنے سے بنتی ہے۔

پلاسٹک اور دیگر غیر حیاتیاتی مواد کی موجودگی سے بھی آبی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے۔ زمینی آلودگی کیمیکل فرٹیلائزرز اور پلاسٹک کا بے دریغ استعمال فضلے کو زمین میں دفن کرنا غیر معیاری ایندھن کے استعمال جنگلات کی کٹائی شہری علاقوں میں بڑھتی ہوئی صنعتی اور ٹریفک کی سرگرمیاں ماحولیاتی قوانین کا نفاذ نہ ہونا فضائی آلودگی کے بڑے اسباب ہیں۔

لاہور شہر متعدد بار دنیا کے آلودہ ترین شہروں کی فہرست میں پہلے نمبر پر رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اسموگ کی صورتحال موسم سرما میں شدت اختیار کر جاتی ہے مگر درحقیقت یہ وہ آلودگی ہے جو سارا سال فضا میں موجود رہتی ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو میں دنیا بھر کے ممالک میں فضائی آلودگی کے بارے میں ہونے والی ایک تحقیق کے اعداد و شمار کے مطابق لاہور میں رہنے والے افراد کی متوقع عمر ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے کے باعث چار سال تک بڑھ سکتی ہے، جب کہ ماحولیاتی آلودگی کے باعث پاکستان کے شہریوں کی زندگی میں اوسط نو ماہ کی کمی ہو رہی ہے۔

نزلہ، کھانسی، گلا خراب، سانس کی تکلیف اور آنکھوں میں جلن وہ ظاہری علامات ہیں جو اسموگ کے باعث ہر عمر کے شخص کو بری طرح متاثر کرتی ہیں جب کہ اسموگ انسانی صحت کو ایسے نقصانات بھی پہنچاتی ہے جو بظاہر فوری طور پر نظر تو نہیں آتے لیکن وہ کسی بھی شخص کو موذی مرض میں مبتلا کر سکتے ہیں جیسا کہ پھیپھڑوں کا خراب ہونا یا کینسر شامل ہیں۔

پاکستان دنیا میں اپنی آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہے۔ 25 کروڑ سے زائد نفوس کی حامل آبادی کی غذائی ضروریات کے لیے وسیع رقبے پر زراعت کی ضرورت ہے مگر یہ رقبہ بھی مسلسل اور بہت زیادہ ہاوسنگ سوسائٹیز کے جال در جال کی وجہ سے کم ہورہا ہے اور موسمیاتی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کا اثر اس کی زراعت پر بھی پڑ رہا ہے۔ پاکستان میں اسموگ اور سیلاب کی تباہ کاریاں اسی ماحولیاتی و موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے آئی ہیں۔

جس نے لوگوں کو کافی حد تک متاثر کیا ہے۔اس موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے املاک، جانوروں اور فصلوں کو بھی نقصان ہورہا ہے اور اس کے سبب بھوک و افلاس اور بیماریاں بھی بڑھ رہی ہیں۔پاکستان کی آبادی کا تیز رفتاری سے بڑھنا بھی ماحولیاتی تبدیلی کے ایک اہم اسباب میں شامل ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ وسائل کی مانگ بڑھ رہی ہے جس سے ماحولیاتی دباؤ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ زیادہ آبادی کا مطلب ہے زیادہ توانائی کی ضرورت، زیادہ پانی کا استعمال، زیادہ زمین کا استعمال اور زیادہ فضلہ پیدا کرنا، جس سے ماحولیاتی توازن بگڑ رہا ہے۔پاکستان میں صنعتی آلودگی اور فضائی آلودگی کا مسئلہ بھی ماحولیاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بڑی صنعتوں سے نکلنے والے دھوئیں اور فضائی آلودگی کی وجہ سے فضا میں زہریلے مادے شامل ہو رہے ہیں، جو نہ صرف ماحولیاتی توازن کو خراب کر رہے ہیں بلکہ صحت کے مسائل بھی پیدا کر رہے ہیں ۔

ہمارے ملک میں ابھی تک ماحولیاتی تبدیلی کو سنجیدہ نہیں لیا جا رہا اور ترقی کے نام پر زرخیز زمینوں، پہاڑوں اور چراگاہوں کو بلڈرز مافیا کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ دریاؤں کی قدرتی گزرگاہوں پہ بند باندھ کر ڈیم بنائے جا رہے ہیں جس سے زراعت اور آبی حیات تباہی کے دہانے پر ہے۔

اس کے علاوہ سندھ کے شہر کراچی میں کیرتھر نیشنل پارک کی کٹائی کر کے زرعی زمین کو کمرشل مقاصد کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے جس سے انسان، جنگلی حیات سمیت ماحولیات کو شدید خطرات لاحق ہو چکے ہیں۔ اس کے علاوہ تھر پارکر میں پاک انڈیا بارڈر سے منسلک کارونجھر پہاڑ جس کے لیے بھی کوششیں جاری ہیں کہ اس فطرتی حسن کے شاہکار اور جنگلی جیوت کی آماجگاہ کو بھی ترقی کے نام پر نیلام کیا جائے۔

 پاکستان میں بارشوں کے پیٹرن میں غیر متوقع تبدیلی آ رہی ہے۔ کبھی شدید بارشیں سیلاب کا سبب بنتی ہیں اور کبھی خشک سالی کی وجہ سے پانی کی کمی ہوتی ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں طوفانوں کی شدت بھی بڑھ رہی ہے۔ ان طوفانوں کی شدت سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوتے ہیں، جیسے کہ انفرا اسٹرکچر کی تباہی، زراعت کو نقصان اور جانی نقصان۔ایک نئی ریسرچ سے ظاہر ہوا ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلیوں کے باعث سر درد، ڈیمنشیا، پٹھوں کی متعدد بیماریوں اور پار کسنز جیسے اعصابی امراض کی علامات بد تر شکل اختیار کر سکتی ہیں جب کہ فالج کے کیسز میں اضافہ ہو سکتا ہے۔طبی جریدے نیورولوجی کے آن لائن شمارے میں امریکن اکیڈمی آف نیورولوجی کی حال ہی میں شایع ہونے والی ایک تفصیلی تحقیق سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے فالج کے مرض میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

وزارت ماحولیات 2017میں قائم کی گئی جس کی بنیادی ذمے داری یہ تھی کہ وہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں ٹھوس اور جامع پالیسی بنائے تاکہ پاکستان کے مختلف علاقوں کو اسموگ اور ماحولیاتی آلودگی جیسی آفتوں سے محفوظ بنایا جا سکے۔ پاکستان میں چونکہ احتساب کا شفاف نظام ہی موجود نہیں ہے اس لیے یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ وزارت ماحولیات نے گزشتہ سات ، آٹھ برسوں کے دوران کیا فیصلے کیے اور ٹھوس اقدامات اٹھائے۔ انتہائی افسوس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان کے مالی وسائل کرپشن کی نذر ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج پاکستان کے عوام کو مختلف نوعیت کے سنگین چیلنجوں کا سامنا ہے۔

اگر پاکستان کی قومی دولت عوام کی فلاح و بہبود پر لگائی گئی ہوتی تو آج عوام اس طرح لاوارث اور بے بس نہ ہوتے۔ پاکستان کی ایک سیاسی جماعت نے ایک ارب درخت لگانے کا وعدہ کیا مگر افسوس یہ وعدہ پورا نہ کیا گیا۔ آج سے 40 سال قبل ٹاؤن پلاننگ کے ماہرین پاکستان آئے اور انھوں نے حکومت پر زور دیا کہ پاکستان کے بڑے شہروں کے ارد گرد کم از کم 10 کلومیٹر کی گرین بیلٹ چھوڑی جائے تاکہ پاکستان کے بڑے شہروں کے ماحول صاف ستھرے اور پرسکون رہیں مگر افسوس کسی نے ان ماہرین کی صائب رائے پر توجہ ہی نہ دی۔ لینڈ مافیاز نے پاکستان کے بڑے شہروں کے ماحول کو برباد کرکے رکھ دیا ہے۔

پاکستان کی معیشت کا زیادہ تر انحصار زراعت پر ہے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات زراعت پر بھی بہت زیادہ ہورہے ہیں۔ فصلوں کی پیداوار، غذائیت اور مویشیوں کی پیداواری صلاحیت میں بھی واضح کمی آرہی ہے۔ ہم قدرتی وسائل پانی، خوراک لکڑی کا بے تحاشا اور بلا ضرورت استعمال کرتے ہیں اور ان کا بہت زیادہ ضیاع کرتے ہیں۔ ہم اپنی زمین کو پیداواری مقاصد کے بجائے غیر پیداواری مقاصدمیں استعمال کررہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں جنگلات کا کل رقبہ 4 فیصد رہ گیا ہے جب کہ صحت مند ماحول کے لیے کم سے کم 20 فیصد جنگلات کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ نجی ہاؤسنگ اسکیموں کے لیے جنگلات کا صفایا کیا جا رہا ہے۔

آج کل زمین کا 30 فیصد حصہ جنگلات سے ڈھکا ہوا ہے، جن کا ایک اہم کام کاربن گیسیں جذب کرنا بھی ہے لیکن ہر سال 18 ملین ایکڑ رقبے پر پھیلے جنگلات کاٹ دیے جاتے ہیں۔فطرت کے حسن کو فیکٹریوں سے اٹھنے اور گاڑیوں سے نکلنے والے دھوئیں نے دھندلا دیا ہے اور ساری فضا زہریلی بن گئی ہے۔ سمندروں اور دریاؤں میں فیکٹریوں اور کارخانوں سے نکلنے والے کیمیائی فضلے کی موجودگی نے پانی کو زہر آلود کر دیا ہے۔ فضائی آلودگی نے کرہ فضائی یعنی زمین کے حفاظتی غلاف اوزون کی تہہ کو کافی حد تک نقصان پہنچایا ہے جس سے سورج کی تیز شعاعوں کے ساتھ بالائے بنفشی لہریں بھی سطح زمین تک زیادہ مقدار میں پہنچنے لگی ہیں۔

 ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی کے مسائل پر قابو پانے کے لیے جو متعدد محکمے شہری انتظامیہ اور صوبائی حکومتوں کے زیرانتظام موجود ہیں ،جن میں ہزاروں ملازمین وافسران لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہیں لیتے ہیں ،لیکن ان کی کارکردگی نہ ہونے کے برابر ہیں ، صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ ہر بات کا الزام وفاق پرلگانے کے بجائے اپنے زیرانتظام سرکاری محکموں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم ماحولیاتی تبدیلی اور فضائی آلودگی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے مسائل پر بآسانی قابو پاسکیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: ماحولیاتی ا لودگی ماحولیاتی تبدیلی موسمیاتی تبدیلی کہ پاکستان کے فضائی ا لودگی میں اضافہ ہو پاکستان میں پاکستان کی ا لودگی کے جنگلات کا اور فضائی کی وجہ سے تبدیلی ا کے باعث بڑھ رہی رہے ہیں کے لیے رہی ہے کے بڑے جا رہا رہا ہے

پڑھیں:

قلعہ سیف اللہ کے اسپن غر پہاڑ میں جنگلات کی آگ، صوبے میں ماحولیاتی خطرات بڑھنے لگے

بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے اسپن غر پہاڑ کے جنگلات میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے بڑے علاقے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ لگنے کی اطلاع شام 5 بجے موصول ہوتے ہی ضلعی انتظامیہ، لیویز فورس اور محکمہ جنگلات کی ٹیمیں موقع پر پہنچ گئیں۔

ابتدائی اطلاعات کے مطابق، آگ پہلے جنگلی گھاس اور جھاڑیوں میں لگی جو بعد میں شدت اختیار کرتے ہوئے شنگھڑ کے وسیع علاقے تک پھیل گئی اور اب ژوب کی حدود کی جانب بڑھ رہی ہے۔ انتظامیہ کے مطابق تیز ہواؤں اور خشک موسم کے باعث آگ پر قابو پانے میں مشکلات درپیش ہیں۔

مزید پڑھیں: وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کے کیمپ آفس اسلام آباد میں آگ بھڑک اٹھی

ڈی سی قلعہ سیف اللہ.نے فوری طور پر پی ڈی ایم اے سے امداد کی درخواست کی جس پر پی ڈی ایم اے نے دو ریسکیو ٹیمیں رات گئے روانہ کر دیں۔ ان ٹیموں میں 12 اہلکار، 2 ایمبولینسز، فائر فائٹنگ آلات، 100 فائر بالز، فائر بیٹرز اور حفاظتی ماسک شامل ہیں۔ ٹیمیں قریبی آبادیوں کی حفاظت اور آگ بجھانے کے لیے سرگرم عمل ہیں۔

جنگل میں آگ بھجانے کا کام جاری ہے محکمہ جنگلات کے حکام کا بتانا ہے کہ آگ بھجانے کے بعد نقصانات کا اندازاہ لگایا جائے گا۔

بلوچستان میں گزشتہ چند برس کے دوران جنگلات میں آگ لگنے کے واقعات میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ زرغون، شاہرگ، زرندہ، شیرانی اور زرمت کے پہاڑی جنگلات میں بھی ماضی میں ایسی آگ لگی جس سے ہزاروں ایکڑ پر پھیلا قدرتی جنگلی نظام تباہ ہو گیا۔

محکمہ جنگلات کے مطابق ان آتشزدگیوں سے نہ صرف قیمتی درخت ناپید ہو رہے ہیں بلکہ جنگلی حیات، آبی نظام اور مقامی آب و ہوا بھی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ جنگلات کے خاتمے سے بارشوں میں کمی، زمینی کٹاؤ، اور درجہ حرارت میں اضافہ جیسے اثرات نمایاں ہو رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: فوجی افسر کی منگیتر پر پولیس کا جنسی تشدد، بھارت میں احتجاج کی آگ بھڑک اٹھی

ماحولیاتی ماہرین کے مطابق بلوچستان میں جنگلات کی آگ پر قابو پانے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جن میں فائر الرٹ مانیٹرنگ سسٹم کی تنصیب،مقامی کمیونٹی کی تربیت برائے ابتدائی آگ بجھانے کی کارروائیاں، محکمہ جنگلات کو جدید آلات اور افرادی قوت سے لیس کرنا، اور متاثرہ علاقوں میں شجرکاری مہمات کا آغاز شامل ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر فوری اور مربوط حکمتِ عملی نہ اپنائی گئی تو بلوچستان کے پہاڑی جنگلات جو مقامی ماحولیاتی توازن کے ضامن ہیں آئندہ برسوں میں مکمل طور پر ختم ہونے کے خطرے سے دوچار ہو سکتے ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آگ بھڑک اٹھی اسپن غر پہاڑ بلوچستان قلعہ سیف اللہ

متعلقہ مضامین

  • کراچی کا فضائی معیار انتہائی مضرِ صحت درجے پر پہنچ گیا
  • لاہور کا دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلا نمبر
  • قلعہ سیف اللہ کے اسپن غر پہاڑ میں جنگلات کی آگ، صوبے میں ماحولیاتی خطرات بڑھنے لگے
  • لاہور کادنیا کے آلودہ ترین شہروں میں پہلا نمبر،اے کیو آئی 485 ریکارڈ
  • پاکستان چین اور امریکہ کے درمیان تعمیری کردار ادا کرنے کو تیار ہے: رضوان سعید شیخ
  • پاکستان کی چین اور امریکا کے درمیان تعمیری کردار ادا کرنے کی پیشکش
  • کراچی کے ماحولیاتی و شہری ڈھانچے میں انقلابی تبدیلی لائیں گے‘ ناصر حسین شاہ
  • لاہور دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں تیسرے نمبر پر، کولکتہ سرفہرست
  • سرسبز و شاداب مدینہ، مزید21 لاکھ درخت لگانے کا نیا منصوبہ شروع